عظمتِ انسانی کا تحفظ

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا

محب اللہ قاسمی، دلی

 

تمام انسان، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں رہتےا ہوں، کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں، اپنی تخلیق، شکل وصورت اور اللہ کے بندے ہونے اور آدمؑ کی اولاد ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں جس طرح ایک درخت کی کئی شاخیں ہوتی ہیں لیکن ان کی جڑ ایک ہوتی ہے۔ اس لیے ان کا باہمی تعاون اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک صالح معاشرے اور انسانیت کی بقا کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اسلام نے انسانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے اور باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے پر زور دیا ہے۔ اسلام نے واضح کیا ہے کہ تمام انسانوں کو اللہ نے ہی پیدا کیا ہے۔ اس لیے ان سب کو اللہ سے ہی ڈرنا چاہیے:
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔‘‘ (النساء۔۱)
اللہ تعالی نے انسان کو اپنی دیگر مخلوقات پر فضیلت بخشتے ہوئے فرمایا:
’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ بنی آدم کو بزرگی (عزت) دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطاکیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت (فضیلت) بخشی۔‘‘(بنی اسرائیل ۷۰)
اس لحاظ سے تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور اسی نسبت سے ان کے درمیان تعلقات قائم ہیں۔ اس لیے کسی کو کسی پر کوئی فخرکی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے تمام انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! بلاشبہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہی ہے۔ جان لو کہ کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیں ہے سوائے تقوی کے‘‘ (مسند احمد)
انسان بہ حیثیت مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ جس طرح ایک کنبہ میں مل جل کر خوش اسلوبی سے رہنے والا انسان اچھا مانا جاتا ہے، اسی طرح دنیا میں امن و سکون اور محبت سے رہنے والا انسان اللہ کی نگاہ میں بہترین ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: الْخَلْقُ عِيَالُ اللَّهِ، فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَى اللَّهِ مَنْ أَحْسَنَ إِلَى عِيَالِهِ۔’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے پس بہترین مخلوق وہ ہے جو اللہ کے بندوں کے ساتھ احسان اور بھلائی کا رویہ اختیار کرے۔‘‘(بیہقی)
اس لیے انسان دین اور مذہب کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان فتنہ و فساد مناسب نہیں ہے۔ رنگ ونسل کی وجہ سے اختلاف و انتشار درست رویہ نہیں ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ مال ودولت کی وجہ سے کسی کو باعزت و باوقار سمجھا جائے اور غربت و مفلسی کے سبب ذلیل وخوار کیا جائے۔ بلکہ اچھے و برے اور عزت و شرافت کا پیمانہ یہ ہے کہ کون اللہ سے کتنا ڈرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ (یعنی سب کی اصل ایک ہی ہے) اور تمہیں خاندانوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ کے یہاں تم سب میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہے۔‘‘(الحجرات:۱۳) اس آیت کریمہ میں اللہ نے صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ تمام انسانوں کو مخاطب کیا ہے اور ان کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ تمام انسانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ سب کی تخلیق ایک ہی انداز سے ہوئی ہے۔ ان کا قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹا جانا اس لیے نہیں ہے کہ وہ اختلاف و انتشار کا شکار ہوں یا آپس میں لڑیں بھڑیں اور خونریزی کریں یا خاندانی حسب و نسب کے غرور میں چور ہو کر دوسروں کو نیچا دکھائیں بلکہ اس وجہ سے ہے تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی شناخت کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ نے شرافت و سربلندی کا صرف ایک ہی معیار رکھا ہے اور وہ ہے تقویٰ، یعنی اپنے خالق و مالک کا ڈر، مرنے کے بعد اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس۔ یہ معیار انسانوں کے دلوں کو باہم جوڑنے اور الفت ومحبت کے ساتھ رہنے کا پیغام دیتا ہے۔ نیک انسان اپنے کسی ذاتی مفاد کی خاطر کوئی ایسا اقدام نہیں کرتاجو اللہ کو ناپسند ہو بلکہ ہر حال میں وہ اپنے رب کی رضا کا خیال رکھتا ہے۔ یہ قابل رشک خصوصیت کسی کے اندر ہے تو وہ باوقار، قابل اعتبار اور لائق احترام ہے، خواہ وہ کسی معمولی گھرانے میں پیدا ہوا ہو۔ پھر ایسے لوگوں کا اللہ تعالیٰ نگہبان ہوتا ہے ان کو پریشانیوں میں نہیں ڈالتا ان کی اس طرح مدد کرتا ہے کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا
جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا ۔ اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔ (الطلاق۲)
اگر ہم سیرت کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ نبی ﷺ نے کفار و مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ انسانیت کے تحفظ اور قیام امن کے لیے بہت سے معاہدے کیے تاکہ ظلم وستم کا سد باب ہو، خونریزی کو روکا جاسکے، کوئی مذہب کسی کے لیے وبال جان نہ بنے، کسی کو محض اس لیے نہ قتل کرے کہ وہ دوسرے مذہب کا ہے یا دوسرے قبیلے اور خاندان سے ہے۔ بلکہ لوگ بہ حیثیت انسان آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرے۔ اس کے ساتھ ہی نبی ﷺ انسانیت کے دشمنوں پر بھی کڑی نظر رکھتے، تاکہ کہیں کوئی فساد سر نہ اٹھا سکے اور انسانیت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
انسان جب اپنی اس حیثیت کو بھول جاتا ہے یا احساس برتری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو فتنہ وفساد پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ پھر حسد، کبر، غیبت، چوری، چغلی، قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں اس کی اصلاح و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مولانا حالیؒ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
آج انسان اپنی عظمت کھو بیٹھا ہے، غلط جگہ پر اپنا معیار وقار تلاش کر رہا ہے، دنیا کے عارضی عیش وآرام کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ پوری طرح خواہش نفس کا غلام بن کر بے غیرتی اور بے عزتی کے حدود پار کر رہا ہے۔ انسانی جان کا کوئی احترام باقی نہیں رہ گیا ہے۔ کوئی بااختیار ہے تو وہ اپنے ماتحتوں پر ظلم ڈھاتا ہے۔ کوئی صاحب اقتدار ہے تو کبر و غرور میں چور ہو کر رعایا کے ساتھ ظلم و نا انصافی کا رویہ اپنا رہا ہے اور نت نئے قوانین کے ذریعہ عام انسانوں کو مشکلات میں ڈال کر اس کا جینا محال کر رہا ہے۔ وہ سارے اخلاقی اقدار جو انسان اور شیطان میں امتیاز پیدا کرتے ہیں، گم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان اقدار سے پہلو تہی کا ہی نتیجہ ہے کہ پوری دنیا تباہی کے دہانے پر آگئی ہے۔ ایسے میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ بہ حیثیت انسان لوگوں کا باہمی میل جول اور آپس کے تعلقات خو ش گوار ہوں اور بھولے بھٹکوں کو سیدھی سچی راہ دکھائی جائے، مذہب اور گروہ بندی کی بنیاد پر کسی قسم کی کوئی لڑائی نہ ہو۔ انہیں اس نظام سے آگاہ کرایا جائے جو انسانیت کا خیرخواہ اور فلاح دارین کا ضامن ہے۔
آمین

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021