اقلیتی بجٹ پر تعصب کی مار یا مالی خسارہ کا وار؟ مسلمانوں کے لیے بجٹ میں کیا ہے خاص؟

سال گزشتہ کے مقابلہ میں بڑی کٹوتی

افروز عالم ساحل

حکومتوں کے کام کرنے اور ستم ڈھانے کا انداز بہت ہی نرالا ہوتا ہے۔ کلیم عاجز کی زبان میں کہیں تو ’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ‘۔

گزشتہ دنوں عام بجٹ پیش کیا گیا۔ کورونا کی تباہی کے درمیان مالی طور پر کمزور طبقوں کے تئیں ہمدردانہ بجٹ کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن بجٹ میں کمی کا سارا بخار اقلیتوں اور پسماندہ طبقات سے متعلق پروگراموں اور اسکیموں پر اتارا گیا۔ بڑی چالاکی سے گزشتہ سال کے مقابلے میں وزارت اقلیتی امور کے بجٹ کی رقم کو کم کر دیا گیا۔ یہ الگ بات کہ مختص کردہ رقم کا پورا حصہ کبھی خرچ نہیں کیا جاتا لیکن اس بار جب مختص رقم میں ہی کٹوتی کر دی گئی ہے تو پھر بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ اس بار اقلیتوں کو کتنا فائدہ ملتا ہوگا۔

اس بجٹ میں حکومت نے وزارت اقلیتی امور کے لئے کل 4810.77 کروڑ روپے کا بجٹ تجویز کیا ہے، جبکہ گزشتہ مالی سال 2020-21میں اس وزارت کا بجٹ 5029کروڑ روپے رکھا گیا تھا۔ یعنی اس بار کے بجٹ میں 218.23 کروڑ روپوں کی کٹوتی کی گئی ہے۔ اور اس کٹوتی میں زیادہ تر اقلیتوں سے متعلق ان اسکیموں کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کے بہانے حکومت نے کبھی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ اور پھر ’سب کا وشواس‘ کے نعرے کو بلند کیا تھا۔ پہلے سے جاری کچھ اسکیموں کا نام بدل کر حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ بجٹ کے ذریعے وہ اقلیتی طبقات کی تمام ضرورتوں کو پورا کرکے انہیں بھی ’مین اسٹریم‘ میں لاکر کھڑا کر دے گی۔

غور طلب ہے کہ مرکز میں حکومت چاہے جس کی بھی ہو، مگر کچھ اسکیمیں ’فلیگ شپ‘ اسکیموں کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ ایک بڑے طبقے کے مستقبل سے جڑی ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک اسکیم ‘ملٹی سیکٹورل ڈیولپمنٹ پروگرام (ایم ایس ڈی پی) بھی تھی۔ لیکن مودی حکومت نے یہ اسکیم سال 2019-20میں ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا اور اس کی جگہ ’پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم‘ (پی ایم جے وی کے) کی شروعات کی گئی۔ اس اسکیم کے تحت ملک بھر کے اقلیتوں کے علاقوں میں اسکول، کالج، آئی ٹی آئی، پالیٹیکنک، گرلز ہاسٹل، اسپتال، کثیر مقصدی کمیونٹی ہال، ہنر ہب، مشترکہ خدمت مراکز، روزگار پر مبنی مہارت ترقیاتی مراکز اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کی جانی تھی۔ اس اہم پروگرام کے لئے مالی سال 2020-21کے لئے 1600کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا، لیکن اس بار کے بجٹ میں اسے گھٹا کر 1390کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔

اسکولوں میں ترک تعلیم کرنے والے یا مذہبی اداروں میں پڑھنے والے اقلیتی طبقہ کے نوجوانوں کو جامع تعلیم روزگار حاصل کرنے کی تربیت دینے کے مقصد سے شروع کی گئی قومی اسکیم ’نئی منزل‘ کا بجٹ بھی اس بار کم کر دیا گیا ہے۔ سال 2020-21میں اس کا بجٹ 120کروڑ روپے رکھا گیا تھا لیکن اس بار اس اہم اسکیم کا بجٹ 87 کروڑ روپے تک محدود کر دیا گیا ہے۔

پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کا مجوزہ بجٹ اس بار کم کیا گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال یعنی 2020-21میں اس اسکیم کے لئے 535کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا، لیکن اس سال گھٹا کر 468کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔

انڈر گریجویٹ و پوسٹ گریجویٹ سطح کے ٹیکنیکل اور پروفیشنل کورسیز کے طلبہ کو ملنے والی میرٹ کم مینس اسکالرشپ میں بھی کٹوتی کی گئی ہے۔ گزشتہ مالی سال 2020-21میں اس اسکیم کے لئے 400کروڑ روپے کا بجٹ تھا، لیکن اس سال اس اسکیم کے لئے 325کروڑ روپے طے کیا گیا ہے۔ یہی معاملہ ریسرچ کرنے والے اقلیتی طلبہ کو دی جانے والی مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کے ساتھ بھی روا رکھا گیا ہے۔ اس فیلوشپ کے لئے گزشتہ مالی سال 2020-21میں 175 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، لیکن اب اسے گھٹا کر 99 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔

بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے Interest Subsidy on Educational Loans for Overseas Studies اسکیم کے تحت مالی سال 2020-21میں 30 کروڑ کا بجٹ منظور کیا گیا تھا، لیکن اس بار یہ بجٹ صرف 24 کروڑ روپے ہے۔

خیال رہے کہ یہ فیلوشپ اور اسکالرشپ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے سب سے اہم اسکیم ہے۔ اس اسکیم کو نافذ کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ اقلیتی سماج سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنی قوم کو ایک نئی راہ دکھا سکیں۔ لیکن موجودہ حالات میں جس طرح سے ان اسکیموں کے بجٹ کو کم کیا گیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی ہے کہ یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور حکومت سے روزگار کا مطالبہ کریں۔

یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن (پی ایس سی) اور اسٹاف سلیکشن کمیشن (ایس ایس سی) وغیرہ کے ذریعہ منعقد کروائے جانے والے پریلمس کی تیاری میں اقلیتی برادری کے طلبہ کی مدد کے لئے مرکزی حکومت کی نئی اڑان اسکیم کے تحت مالی سال 2020-21میں 10کروڑ روپوں بجٹ رکھا گیا تھا، لیکن اس بار اسے کم کرکے 8کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔

اقلیتوں میں کچھ خواتین کو قوم کی رہنمائی کی اہم ذمہ داری سنبھالنے کے لائق بنانے کے مقصد سے شروع کی گئی Scheme for Leadership Development of Minority Women کے بجٹ کو بھی اس بار کم کر دیا گیا ہے۔ مالی سال 2020-21 میں اس اہم اسکیم کے لئے 10 کروڑ روپوں کا بجٹ رکھا گیا تھا، لیکن اس بار 8 کروڑ روپے کیا گیا۔

اقلیتوں کے ہنر کو پروان چڑھانے کے مقصد سے شروع کیا گیا ’دی اپ گریڈنگ اسکلس اینڈ ٹریننگ ان ٹریڈیشنل آرٹس، کرافٹس ڈیولپمنٹ (USTTAD) اسکیم کا بجٹ گزشتہ مالی سال 2020-21میں 60 کروڑ روپے تھا، لیکن اس بار کم کرکے47 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔

وقف املاک کے ریکارڈ کو کمپیوٹر سے منسلک کرنے یا ڈیجیٹل بنانے اور وقف بورڈوں کو یقینی طور پر مؤثر بنانےکی خاطر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام وقف بورڈ کو مزید فنڈ کی دستیابی کے لئے شروع کی گئی ’قومی وقف بورڈ ترقیاتی اسکیم ‘ اور وقف املاک کو تجارتی مقاصد کے لئے فروغ دینے کی خاطر وقف اداروں/وقف بورڈوں کو سود کے بغیر قرض کی فراہمی کے لئے شروع کی گئی ’شہری وقف سمپتی وکاس یوجنا‘ کے مجوزہ بجٹ میں بھی بھاری کٹوتی کی گئی ہے۔ گزشتہ مالی سال 2020-21میں ان دونوں اہم اسکیموں کے لئے ایک ساتھ 21 کروڑ روپوں کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن اس بار ان دونوں اسکیموں کا بجٹ محض 16 کروڑ روپے ہے۔
چھوٹی اقلیتوں کی آبادی میں گراوٹ روکنے کی نیت سے شروع کی گئی Scheme for containing population decline of small minority community کا بھی یہی حال ہے۔ مالی سال 21-2020 میں مرکزی حکومت کی اسکیم میں 4 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا، اس بار اس چھوٹی سی رقم کو بھی کم کر کے محض 3 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔

قومی اقلیتی ترقی اور مالی کارپوریشن (این ایم ڈی ایف سی) کے تحت چلنے والی اسکیم کے بجٹ میں بھی کٹوتی نظر آرہی ہے۔ گزشتہ مالی سال 2020-21میں اس کے لئے 160کروڑ روپے کا بجٹ تھا لیکن اس سال 153کروڑ روپے طے کیا گیا ہے۔

اقلیتوں کے لئے ترقیاتی منصوبوں کی تحقیق، مطالعات، تشہیر، نگرانی اور تشخیص کے لئے گزشتہ مالی سال 2020-21میں 50کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن اس سال اسے گھٹا کر 41 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ ہندستانی تہذیب و ثقافت کے مجموعی نظریے کے تحت ہندستان میں اقلیتی برادریوں کی مالا مال وراثت کے تحفظ کے لئے شروع کی گئی ’ہماری دھروہر‘ اسکیم کے لئے مالی سال 2020-21میں 3 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن اس بار اس چھوٹی سی رقم کو بھی کم کرکے محض 2 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔

کم خرچ، دکھاوا زیادہ

افسوسناک بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت اپنے بجٹ میں اقلیتوں کے لئے بجٹ بڑھانے کا دکھاوا تو کرتی رہی ہے لیکن جو رقم بجٹ میں تجویز کی جاتی ہے اتنی بھی مرکزی حکومت اقلیتی امور کی وزارت کو مختص نہیں کرتی ہے اور پھر جو رقم مختص کی جاتی ہے اسے پورا خرچ بھی نہیں کیا جاتا ہے۔

گزشتہ سال کے دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مالی سال2020-21میں مرکزی حکومت نے اقلیتی امور کی وزارت کے لئے 5029کروڑ روپے کا بجٹ تجویز کیا تھا۔ لیکن اس میں سے صرف 4005کروڑ روپے مختص کیےگئے۔ یعنی مالی سال2020-21میں وزارت اقلیتی امور کے لئے تخمینہ بجٹ 5029 کروڑ روپے تھا جو بعد میں 4005 کروڑ روپے کر دیا گیا۔

یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ وزارت اس نظرثانی شدہ مختص رقم میں سے کتنی رقم خرچ کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ ہفت روزہ دعوت کو حق اطلاعات ایکٹ (آرٹی آئی) کے تحت ملے دستاویزوں کے مطابق اس مختص شدہ رقم میں سے 31 دسمبر 2020تک صرف 1544.21کروڑ روپوں سے بھی کم خرچ کیا گیا ہے۔
***

افسوسناک بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت اپنے بجٹ میں اقلیتوں کے لئے بجٹ بڑھانے کا دکھاوا تو کرتی ہے لیکن جو رقم بجٹ میں تجویز کی جاتی رہی ہے اتنی رقم بھی مرکزی حکومت اقلیتی امور کی وزارت کو مختص نہیں کرتی ہے اور پھر جو رقم مختص کی جاتی ہے، اسے بھی پورا خرچ نہیں کیا جاتا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021