خوف خدا! برائیوں سے بچانے کا واحد ذریعہ

حُسنِ تربیت سے والدین بچوں کے دلوں کی دنیا آباد کریں

عابد حسین راتھر

 

اکثر نوجوان ایسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں جہاں خوفِ خدا کا تصّور کم ہی پایا جاتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اسلام کی بنیادی تعلیم کے بطور قرآن پڑھنا سکھاتے ہیں اگر چہ یہ اپنے میں بہت بڑا کام ہے لیکن دراصل قرآن کی حقیقی تعلیمات سے اولاد کو روشناس کرانا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ چونکہ قرآن انسان کو وہ بینادی اخلاقی اصول بھی سکھاتا ہے جن سے انسان کو زندگی کے ہر موڑ پر سابقہ پڑتا ہے لہٰذا والدین پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان اخلاقی اصولوں کی بھی تعلیم دیں۔ ساتھ ہی اُن پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دل میں خدا کی محبت کے ساتھ ساتھ خدا کا خوف بھی پیدا کریں اور اُنہیں ہر وقت اپنے ضمیر کو زندہ رکھنے کی تلقین کرتے رہیں تاکہ وہ ہر قسم کی برائی سے محفوظ رہ سکیں۔ ایک بندے کے اخلاق و اقدار تب ہی اچھے ہو سکتے ہے جب اس کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہو جہاں قرآن کی تعلیم اپنے بنیادی تقاضوں کے ساتھ دی گئی ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو اُس کی زندگی پر سماجی اثرات جلد مرتب ہوں گے اور وہ قرآن کا مطلوبہ انسان نہیں بن سکے گا۔ نتیجے کے طور پر اسے دنیوی اور اخروی زندگی میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔
بچے کی تربیت میں والدین کو سب سے پہلے اس کی دلی حالت کی فکر کرنی چاہیے۔ سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اس کا دل درد مندی سے معمور ہوجائے کیونکہ یہی درد مندی زندہ ضمیری کی بنیاد بن جاتی ہے۔ محبت اور اخلاص کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایسا انسان جس کے دل میں محبت نہیں ہوگی کبھی مخلص نہیں ہو سکتا۔ محبتِ الٰہی اور خوفِ خدا کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ کسی انسان کے اندر چیزیں پائی جاتی ہیں تو اس کے دل میں ایسے اخلاق و اقدار نشو ونما پاتے ہیں جو اسے جنت کے راستے کی طرف لے جاتے ہیں۔ اُس کے قول و فعل دونوں قرآنی تعلیمات کی روشنی سے منور ہوتے ہیں اور اس کا وجود دوسروں کے لیے مشعل راہ بن جاتا ہے۔
ایسا انسان جس کے اندر خوفِ خدا ہو ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کے کسی قول یا فعل سے خدا ناراض نہ ہو اور ہمیشہ اُن چیزوں سے دور رہتا ہے جو خدا کی ناراضگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ایسے معاملوں میں بہت ہی حساس رہتا ہے اور ایسی راہ میں کوئی بھی قدم نہیں اٹھاتا کیونکہ اس کے دل میں دنیا و مافیہا کی سبھی چیزوں سے بڑھ کر خدا کی محبت بسی ہوئی ہوتی ہے اور اُس کا ضمیر اسے ہمیشہ نیک راہ پر چلنے کی تلقین کرتا رہتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق آخرت کے دن جنت کی طرف لے جانے والی سب سے اہم چیز بندے کا تقویٰ ہے اور انسان کے اندر تقویٰ برائیوں سے بچ کر زندگی گزارنے سے پیدا ہوتا ہے۔ کسی کا دل اگر تقویٰ اور ان جیسی خصوصیتوں سے محروم ہوجاتا ہے تو وہ انسان مغرور، لالچی اور حریص بن جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ ذاتی مفاد کا سوچتا ہے اور اس کے اندر اچھے عادات و اطوار ختم ہو جاتے ہیں۔ خوفِ خدا ختم ہونے کے ساتھ ہی انسان کے اندر عاجزی ختم ہو جاتی ہے اور حیوانیت جنم لیتی ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کی اُنہیں خدا سے محبت ہے۔ لیکن صرف کہنے سے انسان کے اندر خدا کی محبت پیدا نہیں ہوتی۔ جب تک انسان کے اندر خوف خدا نہ ہو تب تک اس کے اندر خدا کی محبت نہیں ہو سکتی۔ جب انسان کے اندر خدا کی محبت ختم ہوتی ہے تو اس کے اندر اُس کا ضمیر بھی مر جاتا ہے اور اس کی نیک صفات بھی ختم ہوتی ہیں۔ ایسا انسان ایمانِ کامل کی حلاوتوں کو نہیں پا سکتا۔ خدا کا خوف ہی ایسی کنجی ہے جو انسان کے دل میں خدا کی محبت جوت جگاتی ہے اور انسان کو ایمان کے ازلی و ابدی نور سے سرفراز کرتی ہے۔ خدا کا خوف انتہائی درجہ کی عاجزی اور اخلاص کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
خوفِ خدا کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ بندہ ہر حال میں اللہ سے ڈرے اور اس کی مرضیات کو اختیار کرے اور اس کے منھیات سے بچ کر زندگی گزارے اور ہمیشہ یہ بات پیش نظر رہے کہ کہ مر کر اللہ کو جواب دینا ہے۔ یہی اک چیز ہے جس سے انسان کو تقویٰ کی زندگی گزارنا آسان ہو جاتا ہے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡن۔
(الحشر:۵۹) اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اللہ نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہے۔
‏ ‏(مضمون نگار کولگام ڈگری کالج میں لیکچرار ہیں۔ )
ای میل: [email protected]

ایک ایسا انسان جس کے اندر خوف خدا ہو ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کے کسی قول یا فعل سے خدا ناراض نہ ہو اور ہمیشہ اُن چیزوں سے دور رہتا ہے جو خدا کی ناراضگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ایسے معاملوں میں بہت ہی حساس رہتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021