میانمار:اشتراکی آمریت اور بودھ جمہوریت

روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر مہر بہ لب آن سانگ سوچی سے قدرت کا انتقام!

ڈاکٹر سلیم خان

 

میانمار ( برما) کی فوجی بغاوت پر ساری دنیا کے جمہوریت نواز سوگوار ہیں۔ جمہوری نظام کے قتل عام پر ذرائع ابلاغ میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے لیکن روہنگیا مسلمان اس کی خوشی منا رہے ہیں۔ایسا کیوں؟ اس سوال کا جواب اشتراکی آمریت اور بودھی جمہوریت کی چکی میں پستے میانمار کے زمینی حقائق میں چھپا ہوا ہے۔ اس ملک میں فوجی حکومت نئی نہیں ہے۔ اس پچاس سالہ تناور درخت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ 1948میں برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد وہاں 1962تک جمہوریت باقی رہی مگر پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کرکے برما سوشلسٹ پارٹی کے تحت حکومت کی۔ اس دوران ملک میں نسلی خونریزی کا دور دورہ رہا اور اقوام متحدہ کے اندر انسانی حقوق کی پامالی پر مذمت ہوتی رہی۔2011میں فوجی حکومت کا باقاعدہ خاتمہ ہوا کیونکہ 2010 کے انتخاب میں کامیاب ہونے والی یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈیولیمنٹ پارٹی نے انتخاب جیت کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ یہ دراصل فوجیوں کی حمایت یافتہ جماعت ہے۔ سوچی کی نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی نے چونکہ انتخابی دھاندلی کے پیش نظر بایئکاٹ کر دیا تھا اس لیے فوجی آمریت نے بہ آسانی جمہوریت کا چولا اوڑھ لیا۔ میانمار کی اس جمہوری تبدیلی پر علامہ اقبال کا یہ شعر عملاً صادق آگیا تھا؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
آنگ سان سوچی چونکہ بابائے میانمار آنجہانی آنگ سان کی بیٹی ہیں اس لیے وہاں فوجی آمر ان سے بہت خوفزدہ تھے۔ آنگ سان کی تاریخ بھی ان کی بیٹی کی مانند بڑی دلچسپ ہے یعنی وہاں بھی بڑی قلابازیاں دکھائی دیتی ہیں۔ آنگ سان نے اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا رنگون یونیورسٹی کے اندر طلباء یونین سے کی تھی۔ برطانوی سامراج کے مخالف آنگ سان نے اشتراکیت سے متاثر ہو کر برما سوشلسٹ پارٹی قائم کی تھی۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل وہ چین کی سوشلسٹ پارٹی کا تعاون حاصل کرنے کے لیے گئے مگر سوزوکی کیجی کی ترغیب پر جاپانی فوج میں شامل ہو گئے۔ جاپانیوں نے جب برما کو انگریزوں کے تسلط سے چھڑا لیا تو وہ ڈاکٹر باماو کی قیادت والی سرکار میں وزیر جنگ بن گئے۔ جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کے بعد آنگ سان برطانیہ کے باج گزار بن کر برطانوی حکومت کے تحت برما نو آبادیات میں دوسال کے لیے سربراہ بن گئے۔ اینٹی فاشسٹ پیوپلس فریڈم لیگ بنا کر انہوں نے 1947 کے پہلے انتخاب میں زبردست کامیابی درج کرائی مگر آزادی کے حصول سے قبل ان کی کابینہ کے زیادہ تر ارکان سمیت انہیں قتل کر دیا گیا۔
بابائے برما آنگ سان کی زندگی میں رونما ہونے والے ان واقعات کی روشنی میں اگر ان کی بیٹی آنگ سان سوچی کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو بلا کی مشابہت دکھائی دیتی ہے۔ 1988 میں سوچی اپنے والد کی مانند سبکدوش فوجیوں کو ساتھ لے کر این ایل ڈی نامی پارٹی قائم کر کے اس کی جنرل سکریٹری بن گئیں اور فوجی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ باپ کی طرح بیٹی کے اس اقدام نے میانمار کی سیاست میں زلزلہ برپا کر دیا۔ 1990کے اندر منعقد ہونے والے قومی انتخاب میں ان کی پارٹی نے اپنے والد کی مانند 81% نشستوں پر کامیابی درج کرائی مگر فوج نے اسے کالعدم قرار دے کر اقتدار سونپنے سے انکار کر دیا۔ اس بار فرق یہ ہوا کہ سوچی کو فوج نے والد کی طرح تہہ تیغ کرنے کے بجائے گھر میں نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد 2010تک کے عرصے میں وہ 15سالوں تک گھر کی نظر بندی کے سبب طویل ترین سیاسی قیدی قرار پائیں۔ 1991میں ان کو امن کا نوبل انعام دیا گیا اور ٹائم میگزین نے انہیں 1999میں گاندھی کی بیٹی اور عدم تشدد کی روحانی وارث کے خطاب سے نوازا۔ اس طرح سوچی کے حوالے سے میانمار کی فوجی حکومت پر عالمی دباو میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔
جمہوریت کی اس عظیم علامت پر 2003میں جان لیوا حملہ ہوا جس میں ان کی جماعت کے 70لوگ جان بحق ہوئے مگر وہ بچ گئیں۔ 2012کے ضمنی انتخاب میں آنگ سان سوچی نے اچانک اپنے والد کی مانند انتخابی بائیکاٹ کا فیصلہ بدل دیا۔ دونوں باپ بیٹی نے اقتدار کی خاطر پے در پے ابن الوقتی کا مظاہرہ کیا۔ سوچی نے ایوان پارلیمان کی خالی ہونے والی 45شستوں پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور ان کی پارٹی کو 453پر زبردست کامیابی ملی۔ سوچی خود بھی کامیاب ہو کر ایوان کی رکن بن گئیں۔ اس طرح میانمار کی عوام نے یہ بتا دیا کہ ان کے نزدیک جمہوریت کی اصل نیلم پری تو آنگ سان سوچی ہے۔ وہ تو ان کی مجبوری تھی جس میں انہیں فوج کی حامی جماعت کو ووٹ دے کر کامیاب کرنا پڑا تھا۔ اس سے آنگ سان سوچی کا حوصلہ بڑھا انہوں نے 2015میں منعقد ہونے والے انتخاب میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور 86% نشستیں جیت کر جعلی جمہوریت کو حقیقی جمہوریت میں بدل دیا۔ دنیا بھر کے جمہوریت نواز اس کامیابی سے خوش ہوگئے۔ میانمار میں اپنی پسند کا صدر اور نائب صدر بنانے کے لیے 67% نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوچی کی این ایل ڈی کے پاس اس سے کہیں زیادہ نشستیں تھیں اس لیے انہوں نے اپنا کٹھ پتلی صدر اور نائب صدر بھی نامزد کر دیا۔
آنگ سان سوچی کو ملک کے اندر مقبولیت اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی۔ ان کو عالمی حمایت اس لیے ملتی رہی کہ وہ چین نواز فوجی حکومت کے خلاف جمہوریت کی شمع روشن کیے ہوئے تھیں۔ چین کے بغض اور جمہوریت کی محبت نے انہیں عالمی سطح پر مشہور کر دیا تھا۔ ملک میں برسرِ اقتدار فوجی حکمرانوں نے اس خطرے کو بھانپ کر آئین میں ایک ترمیم کر کے آنگ سان سوچی کے لیے سربراہِ مملکت بننے کے راستے بند کر دیے۔ اس دستوری ترمیم کے مطابق کوئی ایسا فرد صدر بننے کا اہل نہیں ہوسکتا جس کا شوہر یا بچے غیر ملکی شہری ہوں۔ سوچی نے چونکہ دوران تعلیم برطانوی مورخ مائیکل ایرس سے آکسفورڈ میں شادی کرلی تھی۔ ان کے دونوں بچے والد کے انتقال کے بعد بھی برطانیہ کے شہری ہیں اس لیے آئینی مجبوریوں کے سبب وہ صدر کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکیں۔ اقتدار پر اپنی پکڑ مضبوط رکھنے کے لیے انہوں نے ’اسٹیٹ کونسلر‘ کا ایک نیا عہدہ ایجاد کیا۔ یہ وزیر اعظم کے عہدے سے مشابہ شئے تھی۔ اس کے ساتھ وزارت خارجہ کو بھی انہوں نے اپنے پاس رکھا اور پچھلے ۶ سالوں تک سارے سیاہ و سفید کی مالک بنی رہیں۔ یہی وہ دور تھا جب سوچی کی جمہوریت بے نقاب ہوگئی اور علامہ اقبال کے یہ شعر (مع ترمیم) میانمار پر صادق آگیا ؎
جلال آمریت ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
آنگ سان سوچی کا اصل امتحان تو ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد شروع ہوا۔ بد قسمتی سے یہ نیلم پری اپنی پہلی ہی آزمائش میں پر جلا بیٹھی۔ سن 2017میں میانمار کی فوج نے اپنی مقبولیت بڑھانے کی خاطر ملک میں بسنے والے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو ہلاک کر دیا۔ اس کریک ڈاون میں 87000سے زائد مسلمان ہمسایہ ملک بنگلہ دیش ہجرت کے لیے مجبور کر دیے گئے۔ یہ اس قدر عظیم انسانی سانحہ تھا کہ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی نمائندہ خصوصی برائے میانمار یانگ ہی لی نے بھی روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی مذمت کی اور آنگ سان سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کی مدد نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا تھا کہ رخائن میں ’حالات نہایت خراب‘ ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ آنگ سان سوچی اس معاملے کے حل کی خاطر ’قدم اٹھائیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’میانمار کی حقیقی سربراہ کو اس موقع پر ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ تمام شہریوں کا تحفظ ہو اور یہ توقع ہر حکومت سے کی جاتی ہے‘۔ ساری دنیا کی نگاہیں سوچی کی جانب تھیں مگر ان کی زبان پر تالے پڑے ہوئے تھے۔ یہ طلسم کے ٹوٹنے کا آغاز تھا۔
ایک پر اسرار خاموشی کے بعد جب میانمار کی سوچی حکومت نے ظالم فوج پر لگام لگانے کے بجائے کہہ دیا کہ وہ ان روہنگیا شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے جو شہریوں پر حملے کرنے میں ملوث ہیں۔ اس طرح نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کا میانمار کی اقلیت روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کا دفاع کرنا جمہوریت کے طلسم میں گرفتار لوگوں کے لیے حیران کُن ستم ظریفی بن گیا۔ اس کے باوجود سوچی کے بین الاقوامی مداحوں نے استدلال کیا کہ وہ ایک عملی سیاستدان ہیں۔ انہیں ایک پیچیدہ تاریخ والے کثیر النسل ملک پر حکومت کرنی ہے لیکن آگے چل کر انہیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی عصمت دری، قتل اور نسل کشی کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس ابتدائی شکست کے بعد سن 2019میں اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں جا کر سوچی نے سماعت کے دوران فوج کے اقدامات کا دفاع کر کے اپنے ساتھ جمہوری نظام سیاست کی بھی مٹی پلید کر دی۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا ایک جواب تو علامہ اقبال نے ابلیس کی زبانی یہ دیا ہے؎
جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
میانمار میں بدھ مت کے پیروکار 88فیصد اور مسلمانوں کی تعداد صرف 4.3فیصد ہے۔ مسلمانوں سے نفرت کرنے والی بودھ اکثریت میں سوچی بہت زیادہ مقبول ہیں۔ انہیں ایک سال بعد انتخاب لڑ کر دوبارہ انتخاب میں کامیابی حاصل کرنی تھی اس لیے انہوں نے عدل و انصاف کا خون کر کے اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ جمہوریت میں یہ طرز عمل نہ صرف مباح بلکہ پسندیدہ ہے۔ دنیا کی عظیم ترین جمہوریت امریکہ سے لے کر وسیع ترین جمہوریت ہندوستان میں کھلے عام یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ حسبِ ضرورت حکمراں نہ صرف ظالموں سے آنکھیں موند لیتے ہیں بلکہ بسا اوقات ان کے حامی و سرپرست بن جاتے ہیں۔ سوچی نے بھی اس تقاضے کو پورا کیا۔ ان کو اگر فوج کے مقابلے 2020 میں انتخاب نہ لڑنا ہوتا تو بعید نہیں کہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتیں لیکن انتخابی مجبوری نے ان کا گلا گھونٹ کر خود کو بے نقاب کر دیا۔ میانمار میں جمہوریت کے طفیل اشتراکی آمریت اور اس کی مخالف بودھی جمہوریت مظلوم کے خلاف ایک دوسرے کی ہمنوابن گئی۔
بودھ ظالموں کی خوشنودی حاصل کر کے اقتدار میں آنے والی سوچی بھی زیادہ دن حکومت نہیں کرسکیں۔ نو منتخب ایوان زیریں کے اولین اجلاس کا پہلا سورج طلوع ہوتے ہی میانمار کی فوج نے ان کو گرفتار کر کے ملک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے چند گھنٹے بعد میانمار کی فوج نے ٹی وی پر اس بات کی تصدیق کر دی کہ وہ ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کا اعلان کر رہی ہے اور سارے اختیارات کمانڈر ان چیف من آنگ ہلاینگ کو سونپ دیے گئے ہیں۔ فوج کے ذریعہ سوچی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد حراست میں لیے جانے کی خبر جب بنگلہ دیش میں روہنگیائی پناہ گزینوں کے خیموں میں پہنچی تو خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اے ایف پی کے مطابق بالو کھالی کیمپ کے محمد یوسف کا کہنا تھا ’’گو کہ وہ ہماری آخری امید تھیں لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ ہونے والے استحصال پر آنکھیں موند لیں اور روہنگیاوں کی نسل کشی کی حمایت کی۔‘‘
دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزین بستی کٹوپالونگ میں روہنگیائی مسلمانوں کے رہنما فرید اللہ نے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’آخر ہم خوشی کیوں نہ منائیں، وہ ہماری مصیبتوں کی جڑ رہی ہیں۔‘‘ نیا پاڑہ کیمپ کے پناہ گزین مرزا غالب بولے ’’اگر کیمپ کے حکام ہمیں اجازت دیتے تو ہزاروں روہنگیائی جشن منانے کے لیے باہر نکل پڑتے۔‘‘ سوچی کے ساتھ اس قدرتی ’انصاف‘ پر شکرانہ ادا کرنے کے لیے بعض روہنگیائی مسلمانوں نے دعائیہ تقریب کا بھی اہتمام کیا۔ اس موقع پر روہنگیا اسٹوڈنٹ یونین کے ترجمان ماونگ کیاومن نے کہا کہ اب ہمارے میانمار میں لوٹنے کی امیدیں بڑھ گئی ہیں کیونکہ ایک منتخب حکومت کے مقابلے اس فوجی حکومت کو عالمی حمایت کی زیادہ ضرورت ہوگی اس لیے ممکن ہے وہ بین الاقوامی دباو کو کم کرنے کے لیے روہنگیا مسئلے پر توجہ دے۔ اس کے برعکس اقوام متحدہ کو خدشہ ہے کہ فوجی بغاوت کے سبب میانمار کے اندر موجود تقریباً ۶ لاکھ روہنگیائی مسلمانوں کی حالت ابتر ہو سکتی ہے۔ اقو ام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن جارک نے میانمار کے رخائن ریاست میں موجود ان ایک لاکھ بیس ہزار لوگوں پر تشویش ظاہر کی ہے جنہیں کیمپوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ وہ آزادانہ طور پر کہیں نہیں جا سکتے جبکہ صحت اور تعلیمی خدمات تک ان کی رسائی بھی انتہائی محدود کر دی گئی ہے۔ یہ ساری پابندیاں فوجی حکومت کے دوران نہیں بلکہ سوچی کی جمہوری سرکار نے لگائی تھیں اسی لیے علامہ اقبال کہتے ہیں؎
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر
اقتدار چھن جانے کے بعد آنگ سان سوچی نے فوج کے خلاف ایک بیان جاری کر کے کہا کہ ’’میری گزارش ہے کہ لوگ اسے قبول نہ کریں، اس کا جواب دیں اور فوجی مداخلت کے خلاف احتجاج کریں۔‘‘۔ اس اعلان پر لبیک کہتے ہوئے میانمار کی عوام سڑکوں پر نکل پڑے اور زبردست احتجاج کیا۔ سن 2007ء میں اسی طرح بدھ مذہبی رہنماؤں کی قیادت میں برپا ہونے والا احتجاج ملک میں جمہوری اصلاحات کی بنیاد بنا تھا۔ اس بار پھر ینگون(رنگون) میں 60ہزار سے زائد افراد سرخ قمیصیں پہن کر اور سرخ پرچم و غباروں کے ساتھ یہ کہتے ہوئے میدان میں آگئے کہ ’’ہم فوجی آمریت نہیں چاہتے! ہمیں جمہوریت چاہیے!‘‘ اس غم و غصے کی ایک وجہ انٹرنیٹ پر لگی پابندی بھی ہے۔ یہ جلوس شہر کے مرکزی حصے میں واقع ’سُولے پگوڈا‘ تک گیا جو نہ صرف 2007کے زعفرانی انقلاب بلکہ اس سے قبل 1998 میں ہونے والے احتجاج کا بھی مرکز تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کشمکش اشتراکی آمریت کے مقابلے بودھی جمہوریت کی ہے۔ مظاہرے میں شریک 21 سالہ طالبہ تھا زِن کا عزم ہے کہ ’’ہم اپنی آئندہ نسل کے لیے آمریت نہیں چاہتے۔ ہم یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ہم تاریخ نہیں بنا دیتے، ہم آخر تک لڑیں گے۔‘‘
امریکہ نے میانمار میں بپا ہونے والی سیاسی اتھل پتھل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن حالیہ انتخابات کے نتائج کو بدلنے یا میانمار میں جمہوریت کے تحت طاقت کی منتقلی کے خلاف ہر کوشش کی مخالفت کرتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سرکاری اور سول سوسائٹی رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’برما میں جمہوریت، آزادی، امن اور ترقی کی جدوجہد میں امریکہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ فوج کو فوراً یہ اقدامات واپس لینے ہوں گے۔ ‘‘آسٹریلیا میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم فوج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانون کی بالادستی کا احترام کرے، قانونی طریقہ کار سے تنازعات کا حل کرے اور غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے عوامی رہنماؤں کو رہا کرے۔‘ اس ہنگامہ نے حکومتِ ہند کے لیے دھرم سنکٹ کھڑا کر دیا ہے۔ اس لیے کہ وہ گو ناگوں وجوہات کی بناء پر نہ تو فوج کی حمایت کرسکتے ہیں اور نہ مخالفت اس لیے ہندوستان کے وزیر خارجہ نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ہم حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہندوستان نے میانمار میں جو سرمایہ کاری کر رکھی ہے اس کے ڈوب جانے کا خوف وزیر خارجہ کی پہلی مجبوری ہے۔ نئی فوجی حکومت ویسے ہی چین نواز ہے۔ سوچی کی حمایت سے وہ ہندوستان کی دشمن ہو جائے گی اور شمال مشرقی علاقہ میں علٰحیدگی پسند تنظیموں کا تعاون کرنے لگے گی اس لیے مودی سرکار کے لیے جمہوریت کی قبر پر بہانے کے لیے دو آنسو بھی نہیں ہیں۔ ینگون (رنگون)میں مدفون آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے جو بات اپنے بارے میں کہی تھی اب وہ وہاں کی جمہوریت پر بھی صادق آرہی ہے؎
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
***

آنگ سان سوچی کا اصل امتحان تو ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد شروع ہوا۔ بد قسمتی سے یہ نیلم پری اپنی پہلی ہی آزمائش میں پر جلا بیٹھی۔ سن 2017میں میانمار کی فوج نے اپنی مقبولیت بڑھانے کی خاطر ملک میں بسنے والے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو ہلاک کر دیا۔ اس کریک ڈاون میں 87000سے زائد مسلمان ہمسایہ ملک بنگلہ دیش ہجرت کے لیے مجبور کر دیے گئے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021