لاک ڈاون میں رمضان کے چند مسائل

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سکریٹری شریعہ کونسل، جماعت اسلامی ہند

کورونا کے ڈاکٹر اور مریض وضو کیسے کریں اور نماز کیسے پڑھیں؟
سوال:جو مسلمان نماز سے لاپروا ہیں اور اسے کچھ اہمیت نہیں دیتے ان کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن جو اس کی اہمیت سے واقف ہیں اور جان بوجھ کر ایک بھی نماز چھوڑنا نہیں چاہتے وہ اگر کبھی ایسی صورت حال میں گِھر جاتے ہیں کہ انہیں وقت پر نماز ادا کرنے میں دشواری ہوتی ہے تو وہ بہت پریشان ہوجاتے ہیں اور کوئی ایسی تدبیر سوچنے لگتے ہیں جس سے وہ احساسِ گناہ سے باہر نکل آئیں ۔آج کل کورونا وائرس کے علاج میں جو مسلمان ڈاکٹرز، نرسیں اور طبی عملہ کے لوگ لگے ہوئے ہیں وہ بسا اوقات کئی کئی گھنٹے مسلسل اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ اس دوران کسی نماز کا وقت آجاتا ہے وہ جاننا چاہتے ہیں کہ نماز کیسے اداکریں؟ اسی طرح جو مسلمان کورونا وائرس کا شکار ہوگئے ہیں اور اسپتالوں میں ان کا علاج چل رہا ہے وہ فکر مند ہیں کہ ان کی نمازیں کیسے ادا ہوں؟
براہ کرم ان کے طریقۂ نماز کے سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں۔
جواب:شریعت نے عبادت کے جو طریقے بتائے ہیں اور جو احکام دیے ہیں، بندہ عام حالات میں ان پر جوں کا توں عمل کرنے کا مکلّف ہے، لیکن جس قدر عذر ہوگا اسی قدر اسے رخصت حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یُرِیدُ اللّٰہُ بِکُمُ الیُسرَ وَلَا یُرِیدُ بِکُمُ العُسرَ (البقرۃ:185) ’’اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ اور فقہی ضابطے ہیں: المشقّۃ تجلب التیسیر(دشواری کی صورت میں شریعت میں آسانی کا حکم ہے ۔ لا تکلیف الا بمقدور (کوئی شخص قدرت کی صورت ہی میں احکام کا مکلّف ہوتا ہے۔) موجودہ حالات میں ڈاکٹروں، نرسنگ اسٹاف اور مریضوں کے لیے درج ذیل صورتیں قابلِ عمل ہیں:
* ڈاکٹرز، نرسیں اور طبی عملہ کے لوگ ماسک، دستانے اور حفاظتی گاون پہننے سے قبل وضو کرلیں تاکہ بعد میں وہ وقتِ ضرورت موزوں پر مسح کرسکیں۔
* نماز کے وقت وضو کے لیے اگر وہ بغیر کسی مشقت اور ضرر کے گاون وغیرہ اتار سکیں تو ٹھیک ہے۔ وہ اعضائے وضو کو دھوکر موزوں پر مسح کرلیں۔
*اگر یہ ممکن نہ ہو تو تیمم کرلیں۔
* ہر نماز کی ادائیگی اس کے وقت میں ہونی چاہیے۔
* ممکن ہو تو نماز جماعت سے ادا کی جائے، ورنہ تنہا تنہا پڑھ لی جائے۔
* اگر مریضوں کے علاج میں شدید مصروفیت، یا کسی اور وجہ سے ڈاکٹروں اور دیگر لوگوں کے لیے ہر نماز کو اس کے وقت میں پڑھنا ممکن نہ ہو تو ان کے لیے جمع بین الصلاتین جائز ہے، یعنی وہ ظہر وعصر کو ایک ساتھ اور مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھ سکتے ہیں ۔
* جمع بین الصلاتین کی اجازت یوں تو سفر میں دی گئی ہے لیکن احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے کبھی حضر میں بھی دو نمازوں کو جمع کیا ہے۔ (بخاری:543، 562 ، مسلم:705)
* جمعِ تقدیم بھی کی جاسکتی ہے، یعنی ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب کے ساتھ عشاء پڑھ لی جائے اور جمعِ تاخیر بھی، یعنی عصر کے ساتھ ظہر اور عشاء کے ساتھ مغرب پڑھی جائے۔
* یہی حکم کورونا کے مریض کے لیے بھی ہے کہ اگر اس کے لیے ممکن ہو تو وضو کرے، ممکن نہ ہو تو تیمم کرے۔ اور ہر نماز اس کے وقت میں ادا کرے۔ کچھ دشواری ہو تو جمع بین الصلاتین کرے۔
شریعت نے احکام میں بڑی آسانی رکھی ہے۔ قرآن میں ہے: ’’ اللہ کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ (البقرۃ:286) نماز زندگی کی آخری سانس تک معاف نہیں ہے۔ وہ لوگ قابلِ مبارک باد ہیں جو ہر حال میں اس کی پابندی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے کام یابی کی ضمانت دی گئی ہے۔ (المؤمنون:9_11)
قرنطینہ میں روزہ؟
سوال: جو لوگ کورونا پازیٹیو پائے جاتے ہیں ان کے تمام گھر والوں کو حکومتی عملہ قرنطینہ میں بھیج دیتا ہے اور مسلسل ان کی نگرانی کرتا ہے۔ قرنطینہ میں رہنے والی خواتین یہ جان کر پریشان ہیں کہ جو ڈاکٹر ان کی نگرانی کر رہے ہیں وہ انھیں آئندہ روزہ رکھنے سے منع کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسمانی قوّتِ مدافعت کم زور ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر میں حلق تر رکھا جائے۔ یہ ڈاکٹر زور دے کر روزہ رکھنے سے منع کر رہے ہیں ایسے حالات میں یہ خواتین کیا کریں؟
جواب:رمضان المبارک کے روزے تمام مسلمانوں (مردوں اور عورتوں) پر فرض کیے گئے ہیں ساتھ ہی اجازت دی گئی ہے کہ ان ایّام میں جو لوگ مسافر یا مریض ہوں وہ روزہ نہ رکھیں اور دوسرے دنوں میں ان کی قضا کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ (البقرۃ:184) ’’اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے‘‘۔کورونا انتہائی مہلک مرض ہے جو لوگ کورونا میں مبتلا کسی شخص کے رابطہ میں آجاتے ہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ ان میں بھی کورونا کے وائرس سرایت کر گئے ہوں اس لیے انہیں کچھ مدّت تک قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے اور ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔ خواتین کا دین کے احکام پر عمل کرنے کا جذبہ بڑا قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہے، لیکن چوں کہ وہ ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہیں اس لیے ان کی بات ماننا مناسب ہے۔ خاص طور سے اس صورت میں جب انہیں کسی کورنٹائن سنٹر میں رکھا گیا ہو۔اگر ڈاکٹر انہیں تاکید سے روزہ رکھنے سے منع کر رہے ہیں تو ان کی بات ماننی چاہیے۔ اس صورت میں وہ گناہ گار نہیں ہوں گی۔ ایسی خواتین اس وقت روزے نہ رکھیں آئندہ حسب سہولت ان کی قضا کرلیں گی۔
موجودہ حالات میں تراویح کیسے پڑھیں؟
سوال: لاک ڈاؤن میں مذہبی مقامات میں لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی ہے مساجد میں پنج وقتہ اور جمعہ کی نمازیں علامتی طور پر گنتی کے چند افراد کے ذریعے ہو رہی ہیں اور باقی تمام لوگ اپنے گھروں میں ہی نماز ادا کر رہے ہیں۔ ماہ رمضان کی ایک خاص عبادت تراویح ہے۔ ہر مسجد میں تراویح میں کم از کم ایک بار قرآن ختم کیا جاتا ہے اِن حالات میں گھروں میں عموماً یہ صورت ممکن نہیں پھر اس صورتحال میں گھروں میں نمازِ تراویح کیسے پڑھی جائے؟
جواب: ماہ رمضان کی ایک اہم عبادت تراویح ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’ جس نے رمضان کی راتوں میں قیام کیا، اللہ پر ایمان کی حالت میں اور اسی سے اجر کی امید میں، اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ (بخاری37، مسلم 759)تراویح قیامِ لیل کی ہی ایک صورت ہے اس فضیلت کی بنا پر مسلمان تراویح کا خوب اہتمام کرتے ہیں۔بعض حضرات کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے دوسرے دنوں میں اور رمضان میں بھی ہمیشہ رات کے آخری پہر آٹھ رکعتیں پڑھی ہیں۔ (بخاری3569، مسلم738) یہی رمضان کی تراویح ہے۔ جب کہ بعض دیگر حضرات (ائمۂ اربعہ) کہتے ہیں کہ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر بن الخطاب ؓ کے دورِ خلافت سے اس کا سلسلہ جاری ہے۔
لاک ڈاون کی صورت میں گھروں میں نمازِ تراویح ادا کرنے کی کئی صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں:
*ایک یہ کہ ہر فرد رات میں تنہا نوافل پڑھے آٹھ رکعت، بیس رکعت یاجتنی رکعت پڑھنے کی بھی اس کو توفیق ملے۔
*دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ جماعت سے تراویح پڑھی جائے۔
*جتنا قرآن یاد ہو اتنا تراویح میں پڑھا جائے۔مختلف مقامات سے سورتیں اور آیتیں پڑھی جا سکتی ہیں ۔
*سورۂ فیل سے سورۂ ناس تک دس سورتیں ہیں۔بیس رکعت تراویح پڑھنے کی صورت میں ہر سورت کو دو مرتبہ پڑھا جائے۔
سوال: موجودہ حالات میں جب کہ گھروں میں پنج وقتہ نمازیں ادا کی جا رہی ہیں اور ماہِ رمضان میں بھی یہی حالات باقی رہنے کا امکان ہے ایک سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا تراویح کی امامت نا بالغ کرسکتا ہے؟ اگر اہلِ خانہ میں سے کسی مرد کو زیادہ قرآن یاد نہ ہو اور کوئی ایسا لڑکا موجود ہو جو ابھی بالغ نہ ہوا ہو لیکن اسے مکمل قرآن یا اس کا خاصا حصہ حفظ ہو کیا اس کی امامت میں تراویح پڑھی جاسکتی ہے؟
جواب: نابالغ لڑکے کی امامت کے سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں فرض اور نفل نمازوں میں بھی فرق کیا ہے۔ شوافع کے نزدیک فرض اور نفل دونوں طرح کی نمازوں میں نابالغ امامت کرسکتا ہے۔ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں حضرت عمرو بن سلمہؓ اپنے قبیلے کے لوگوں کی امامت کرتے تھے، جب کہ ان کی عمر ابھی صرف چھ سات برس کی تھی۔ (بخاری4302)
مالکیہ اور حنابلہ فرض اور نفل نمازوں میں فرق کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک فرض نمازوں کی امامت نا بالغ نہیں کرسکتا، البتہ نفل، مثلاً تراویح کی نماز اس کی امامت میں پڑھی جا سکتی ہے ۔ان کی دلیل یہ ہے کہ نابالغ کی نماز نفل ہے جب کہ بالغ پر نماز فرض ہے اس لیے فرض کی بنا نفل پر نہیں رکھی جا سکتی۔ مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے صراحت سے نابالغ کی امامت کو درست نہیں قرار دیا تھا، بلکہ آپ نے فرمایا تھا:’’ امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو۔‘‘ اس ارشادِ نبوی کے بعد لوگوں نے اپنے طور پر حضرت عمرو بن سلمہؓ کو امام بنا لیا تھا۔ نفل میں چونکہ بالغ اور نابالغ کی حیثیت برابر ہوجاتی ہے، اس لیے اس میں نابالغ کی امامت جائز ہے۔
احناف کے نزدیک نماز چاہے فرض ہو یا نفل، دونوں میں نابالغ کی امامت جائز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ تراویح نابالغ امام اور بالغ مقتدیوں دونوں کے لیے نفل ہے لیکن دونوں کی حیثیتوں میں فرق ہوتا ہے۔ نابالغ احکام کا مکلّف نہیں جب کہ بالغ مکلّف ہوتا ہے۔ بالغ اگر کوئی نفل نماز شروع کردے تو وہ اس کے ذمے لازم ہوجاتی ہے جبکہ نابالغ کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔
یہ احناف کا ’مختار‘ اور مفتیٰ بہ مسلک ہے، چنانچہ تمام حنفی کتبِ فتاوی میں یہی بتایا گیا ہے کہ نابالغ لڑکا تراویح کی امامت نہیں کرسکتا۔البتہ بعض حنفی فقہاء نے تراویح کی حد تک اسے جائز قرار دیا ہے۔ فقہ حنفی کی مشہور درسی کتاب ’ہدایہ‘ (مصنف شیخ برہان الدین مرغینانیؒ (م593 ھ/ 1197 ء) میں ہے:’’ و فی التراویح و السنن المطلقۃ جوّزہ مشایخ بلخ، و لم یجوّزہ مشایخنا… و المختار انّہ لا یجوز فی الصلوات کلّھا۔‘‘ (الھدایۃ:123-124/1)
’’ تراویح اور عام سنّتوں میں نابالغ کی امامت کو بلخ کے مشایخ نے جائز قرار دیا ہے، البتہ ہمارے مشایخ (یعنی سمرقند و بخارا کے مشایخ) کے نزدیک وہ ناجائز ہے۔ مسلکِ مختار یہ ہے کہ تمام نمازوں میں نابالغ کی امامت جائز نہیں ہے۔‘‘
مشہور حنفی فقیہ شیخ ابراہیم بن محمد الحلبیؒ (م956 ھ/1549 ء) نے لکھا ہے:
’’ و اذا بلغ الصبی عشر سنین فأمّ البالغین فی التراویح یجوز، و ذکر بعض الفتاوی انّہ لا یجوز، و ھو المختار‘‘ (الحلبی الکبیر408)
’’بچہ دس برس کا ہوجائے، پھر وہ تراویح میں مردوں کی امامت کرے یہ جائز ہے۔ بعض فتاویٰ میں ہے کہ یہ جائز نہیں۔ یہی مسلکِ مختار ہے ۔‘‘
خلاصہ یہ کہ تراویح کی نماز کے لیے نابالغ کی امامت مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک جائز ہے احناف کے مختار اور مفتیٰ بہ مسلک میں اسے ناجائز بتایا گیا ہے البتہ بعض حنفی فقہاء جواز کے قائل ہیں۔ ایک رائے یہ اختیار کی جاسکتی ہے کہ عام دنوں میں تو تراویح میں نابالغ کی امامت سے اجتناب کیا جائے کوشش کرکے بالغ حافظ سے تراویح پڑھوائی جائے البتہ ان دنوں میں جب بعض ناگزیر اسباب سے مسجدوں میں نماز نہ ہو رہی ہو اور گھروں میں نماز ادا کی جا رہی ہو، اگر کوئی نا بالغ لڑکا ایسا ہو، جسے مکمل یا نامکمل قرآن یاد ہو تو قرآن کی آخری دس سورتوں سے تراویح پڑھنے کے بجائے یہ بہتر ہوگا کہ اسے امام بنایا جائے اور اس کی اقتدا میں تراویح ادا کی جائے ۔‘‘
کیاعورت تراویح میں عورتوں کی امامت کرسکتی ہے ؟
سوال: اگر کوئی خاتون حافظۂ قرآن ہو تو کیا وہ تراویح میں عورتوں کی امامت کرسکتی ہے؟
جواب: کتبِ احادیث سے ثابت ہے کہ امہات المؤمنین حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما عورتوں کی جماعت کی امامت کرتی تھیں ۔ وہ صف سے آگے کھڑی ہونے کے بجائے اس کے وسط میں کھڑی ہوتی تھیں۔ (مصنَّف ابن ابی شیبہ: 88-89/2،روایت نمبر 4989، 4991)
یہی فتویٰ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ (مصنف عبد الرزاق :140/3،روایت نمبر 5083)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت نماز میں عورتوں کی امامت کرسکتی ہے۔البتہ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے: شوافع اور حنابلہ کے نزدیک عورت عورتوں کی جماعت کرسکتی ہے۔ ان کی دلیل مذکورہ بالا روایات ہیں۔
مالکیہ کے نزدیک فرض ہو یا نفل، کسی نماز میں عورت کا عورتوں کی جماعت کی امامت کرنا درست نہیں ہے۔ احناف کہتے ہیں کہ عورتوں کی جماعت خواہ اس کی امامت کوئی عورت ہی کیوں نہ کرے فرائض اور نوافل دونوں میں مکروہ تحریمی ہے۔ (الدر المختار:565/1 ) اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ امام کا مقتدیوں سے آگے رہنا واجب ہے۔ چوں کہ عورت وسط صف میں کھڑی ہوتی ہے، اس لیے ترکِ واجب لازم آتا ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر عورتیں جماعت سے نماز پڑھ لیں تو ان کی نماز درست ہوگی۔
حضرت عائشہ ؓسے متعلق روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کا یہ عمل ابتدائے اسلام میں تھا۔ (ہدایہ:56/1) بعد میں یہ اجازت منسوخ ہوگئی۔ یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کی وفات کے وقت حضرت عائشہ ؓکی عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔ وفات کے بعد وہ تقریباً پچاس برس مزید با حیات رہیں۔ اس لیے ان کے عمل کو نہ ابتدائے اسلام کا قرار دیا جاسکتا ہے نہ منسوخ کہا جاسکتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کے عمل کو نقل کرنے والی حضرت ام حسن ؓتابعیہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عہدِ نبوی کے بعد بھی امہات المؤمنین عورتوں کی جماعت کی امامت کرتی رہیں۔
اگر مسجدوں میں تراویح کی نماز ہورہی ہو اور وہاں عورتوں کے لیے بھی انتظام ہو تو وہ اس میں شرکت کرسکتی ہیں۔ لیکن اگر گھروں میں تراویح کی نماز ہورہی ہو اور کوئی خاتون حافظۂ قرآن ہو یا اسے قرآن کا خاصا حصہ یاد ہو تو وہ قرآن سنا سکتی ہے اور اس کی امامت میں عورتیں نماز پڑھ سکتی ہیں۔ حافظۂ قرآن نہ ہو تو بھی عام حالات میں ایک عورت عورتوں کی امامت کرسکتی ہے۔
کیا تراویح میں مصحف میں دیکھ کر قرآن پڑھا جا سکتا ہے؟
سوال: تراویح کی نماز میں پورا قرآن پڑھنے اور سننے کی خواہش ہو تو کیا نماز میں مصحف سے دیکھ کر قرآن پڑھا جا سکتا ہے؟
جواب:اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے: شوافع اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ تراویح میں مصحف میں دیکھ کر قرآن پڑھا جاسکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ ماہِ رمضان میں اپنے غلام ذکوان کی اقتدا میں تراویح پڑھتی تھیں۔ وہ مصحف میں دیکھ کر قراءت کرتا تھا۔ (بخاری تعلیقاً ، کتاب الأذان، باب امامۃ العبد و المولی، مصنف ابن ابی شیبۃ: 235/1، السنن الکبریٰ للبیہقی:336/1)
امام زہری ؒسے دریافت کیا گیا کہ کیا رمضان کی نوافل میں مصحف دیکھ کر قرآن پڑھا جا سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا:’’ ہم سے بہتر لوگ (یعنی صحابۂ کرام) نماز میں مصحف سے دیکھ کر قرآن پڑھتے تھے۔ (المدوّنۃ الکبریٰ: 289-288/1، المغنی لابن قدامۃ: 335/1)
امام نوویؒ نے فرمایا ہے:’’مصحف دیکھ کر قرآن پڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوگی اوراق پلٹنے سے بھی نہیں ۔‘‘ (المجموع:27/1)
امام ابو حنیفہؒ اور امام ابن حزمؒ کے نزدیک مصحف میں دیکھ کر قرآن پڑھنے سے نماز فاسد ہو جائے گی۔ اس کی دلیل میں ایک روایت یہ پیش کی جاتی ہے کہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے نماز میں مصحف میں دیکھ کر قرآن پڑھنے سے منع کیا ہے۔ (کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: 655) لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ اس کا ایک راوی نہش بن سعید کذّاب متروک ہے۔
دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قرآن پڑھنے کے لیے ہر رکعت میں مصحف اٹھانا پھر رکوع کرتے وقت اسے رکھنا دوسری رکعت میں پھر اسے اٹھانا اور رکھنا ’عملِ کثیر‘ ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے ۔ یہ دلیل بھی مضبوط نہیں ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نماز پڑھتے ہوئے اپنی نواسی حضرت امامہ بنت ابی العاص (حضرت زینب کی صاحب زادی) کو اٹھا کر اپنے کندھے پر بٹھالیتے تھے۔ جب سجدہ کرتے تو اسے اتار دیتے۔ کھڑے ہوتے تو پھر کندھے پر بٹھالیتے۔ (بخاری:516، مسلم:543) ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ جوتے پہن کر نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز کے دوران میں ہی آپ کو معلوم ہوا کہ ان میں گندگی لگی ہوئی ہے۔آپﷺ نے فوراً انہیں اتار دیا۔ (ابوداؤد:650)
دورانِ نماز کسی بچی کو اٹھانا، پھر اتارنا، اسی طرح جوتے اتارنا جتنا زیادہ عمل ہے، مصحف اٹھانا اور رکھنا اور ورق پلٹنا اس سے کم ہے۔ جب اُس سے نماز فاسد نہیں ہوتی تو اِس سے بھی فاسد نہیں ہونی چاہیے۔ امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں (صاحبین) امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک نماز تو ہوجائے گی لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے۔ کراہت کا سبب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) کے عمل کے مشابہ ہے ۔ اس بات میں بھی وزن نہیں ہے۔ اس کا جواب خود حنفی فقیہ ابن نجیمؒ نے ان الفاظ میں دیا ہے:
’’ اہلِ کتاب سے مشابہت ہر چیز میں مکروہ نہیں ہے۔ جیسے وہ کھاتے پیتے ہیں اسی طرح ہم بھی کھاتے پیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کھانا پینا مکروہ ہے۔ ناجائز مشابہت وہ ہے جو کسی غلط کام میں کی جائے۔ اس بنا پر اگر تشبیہ مقصود نہ ہو تو صاحبین کے نزدیک مصحف سے قراءت مکروہ نہ ہوگی۔‘‘(البحر الرائق: 11/2) مصحف ہی کے حکم میں موبائل بھی ہے اس میں دیکھ کر بھی قرآن پڑھا جاسکتا ہے۔

امام زہری ؒسے دریافت کیا گیا کہ کیا رمضان کی نوافل میں مصحف دیکھ کر قرآن پڑھا جا سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا:’’ ہم سے بہتر لوگ (یعنی صحابۂ کرام) نماز میں مصحف سے دیکھ کر قرآن پڑھتے تھے۔ (المدوّنۃ الکبریٰ: 289-288/1، المغنی لابن قدامۃ: 335/1)
امام نوویؒ نے فرمایا ہے:’’مصحف دیکھ کر قرآن پڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوگی اوراق پلٹنے سے بھی نہیں ۔‘‘ (المجموع:27/1)