سوشل میڈیا، مسلمان اور نفرت انگیزی

(دعوت نیوز ڈیسک) کورونا وائرس کی تباہ کاریاں تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں، 17 اپریل کو پھر چین سے بری خبر آئی کہ وہاں ایک ہزار سے زائد افراد کرونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوگئے، حالانکہ چین سے کورونا وائرس کے حوالے سے خوش آئند خبریں موصول ہو رہی تھیں لیکن وائرس کے دوبارہ طاقتور حملے سے پوری دنیا میں سنسنی پھیل گئی، ادھر سوپر پاور امریکہ کی حالت بھی دگرگوں ہے، امریکہ میں 17 اپریل تک کورونا سے مرنے والوں کی تعداد تقریبا 35 ہزار ہو گئی تھی جبکہ ساڑھے چھ لاکھ سے زائد افراد متاثر تھے وہیں ہمارے ملک بھارت میں بھی کورونا کا قہر جاری ہے، 17 اپریل تک ساڑھے چار سو سے زائد افراد کورونا وائرس کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں اور متاثرین کی تعداد بڑھ کر کر تقریبا 14 ہزار ہوگئی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارا ملک صرف کورونا وائرس سے جنگ نہیں لڑ رہا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر مذہبی جنگ وجدال بھی جاری ہے جو کبھی بھی معاشرے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا رنگ اختیار کر سکتا ہے، پوری دنیا میں لوگ فی الحال کورونا وائرس کی وجہ سے معاشرتی علیحدگی پر کاربند ہیں اور سوشل ڈیسٹینسنگ پر عمل پیرا ہیں لیکن اس ملک میں ایسا لگتا ہے کہ کورونا وائرس کے ختم ہونے کے بعد بھی علیحدگی کو ہی لوگ ترجیح دیں گے، جب سے دلی میں واقع بستی حضرت نظام الدین مرکز کا واقعہ سامنے آیا ہے مسلم مخالف عناصر کھل کر سوشل میڈیا پر زہر افشانی کر رہے ہیں اور تبلیغی جماعت کے بہانے پوری قوم کو جرم و تقصیر کے کٹہرے میں کھڑا کر رہے ہیں۔ حالانکہ کچھ حق پرست ایسے بھی ہیں جو بڑھ چڑھ کر سچ بات کہنے سے نہیں ڈرتے ہیں چاہے ان کو کوئی بھی قیمت چکانی پڑے ان حق شناس میں دی وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن کا نام قابل ذکر ہے جن کے خلاف یو پی پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے۔ سدھارتھ نے جماعت کی حمایت میں اور اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی مخالفت میں مضمون لکھا تھا۔
لیکن اس طرح کے لوگ معدودے چند ہیں اگر سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے کورونا وائرس کا ذمہ دار مسلمانوں یعنی جماعت کے افراد کو ٹھہرایا جا رہا ہے حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہوئی معروف ریسلر اور بین الاقوامی میڈلسٹ ببیتا پھوگاٹ نے انڈیا میں کورونا وائرس کے پھیلاو کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا اور جماعت کے تعلق سے قابل اعتراض ٹویٹ کیا، ببیتا نے مسلمانوں کے لیے ایک توہین آمیز ہیش ٹیگ کا استعمال کیا اور کہا کہ انڈیا کے لیے وائرس سے بھی بڑا مسئلہ مسلمان ہیں۔ یہ ٹرینڈ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ہی ٹوئٹر نے اداکارہ کنگنا راوٹ کی بہن رنگولی چندیل کا اکاؤنٹ معطل کیا تھا جنہوں نے اسی نوعیت کی ٹویٹس کی تھیں، حالانکہ ببیتا کے خلاف ٹوئیٹر سے کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے وہیں ببیتا پھوگاٹ کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں لوگ لگے ہیں لیکن یہ بات کسے معلوم تھی کہ کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیتنے والی ببیتا سوشل میڈیا پر نفرت کے اسلحے تقسیم کرنے لگیں گی، اور ستم بالائے ستم یہ کہ ببیتا پھوگاٹ اپنے اشتعال انگیز بیان پر مستقل قائم ہیں۔
ملک میں تالا بندی کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشان اگر کوئی ہے تو وہ مزدور طبقہ ہے، بھوک مٹانے کے لیے دوسروں کے سہارے دو وقت کی روٹی کا انتظار رہتا ہے، شیلٹر ہوم میں گھنٹوں انتظار کے بعد تھوڑا سا کچھ کھانے کو ملتا ہے، مزدور طبقہ اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد روز کما کر کھاتے ہیں ایسے میں بغیر کام کیے پردیس میں رہنا ان کے لیے باعث عذاب ہے یہی وجہ ہے کہ دلی کی سڑکوں پر لاک ڈاون کے فوری بعد ہزاروں کی تعداد میں مزدور سڑک پر اتر آئے اور اپنے آبائی وطن کے لیے پیدل ہی نکل پڑے اور راستے میں کئی افراد کی موت واقع ہوگئی، پھر گجرات کے سورت میں مزدوروں نے بھی سڑکوں پر اتر کر خوب ہنگامہ کیا، آتش زنی بھی کی اور حال ہی میں ممبئی کے باندرہ اسٹیشن پر سینکڑوں مزدور جمع ہوگئے لیکن باندرہ کے واقعے کو سوشل میڈیا پر مذہبی رنگ دیا گیا کیونکہ اس جم غفیر میں ایک مسجد نظر آگئی، دلی تشدد کا ملزم اور بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے ٹویٹ کر کئی سوالات کیے جن میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ "بھیڑ جامع مسجد کے سامنے کیوں؟” اور ایک معروف صحافی رجت شرمانے بھی مسجد کے باہر امڈی بھیڑ پر تشویش کا اظہار کیا یعنی صرف مسجد کے سامنے کھڑے ہونے سے انہیں مزدور کے طور پر نہیں بلکہ شر پسند عناصر کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا۔
اگر آپ کہیں کہ سوشل میڈیا یا چند مین اسٹریم میڈیا پر زہر افشانی میں فسطائیت طاقتیں اور موجودہ حکومت کے عوامل کار فرما ہیں تو بغیر دلیل کے ماننے سے انکار کیا جا سکتا ہے لیکن حکومت کی حمایت میں چند مشہور ٹی وی اینکروں کے سوشل میڈیا پر چاپلوسی بھرے اسٹیٹس اور ٹویٹس کچھ اور ہی پتہ دیتے ہیں، حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے لاک ڈاون ٹو کے اعلان کے بعد ہی مشہور ٹی وی اینکروں نے بندشوں کی تاریخ کو لے کر پی ایم مودی کی تعریفوں کے پل باندھے دیے اور تقریباً ایک جیسے الفاظ میں پی ایم مودی کی پذیرائی کی ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ گویا ایک ہی جگہ سے انہیں خیالات شیئر کرنے کے لیے مواد مل رہا ہو، اور وہ ایک مقام نیوز ایجنسی اے این آئی تھی۔
جمہوری ملک میں صحافیوں کا کام حکومتوں پر سوال اٹھانا ہوتا ہے ورنہ قصیدہ گوئی کے لیے کروڑوں روپے حکومت خود اپنے اشتہارات پر خرچ کرتی ہے، معروف صحافی اجیت انجم کا سوشل اکاؤنٹ فالو کیجیے تو معلوم ہوگا کہ حکومت سے سوال کرنا کیا ہوتا ہے، انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ "جماعتیوں، ادھو ٹھاکرے، راہل گاندھی اور ملک کے مسلمانوں‌ سے بھی پوچھ لیا اب فرصت ملے تو کچھ سوال مودی اور شاہ سے بھی پوچھ لیے جائیں مثلاً کیوں مدھیہ پردیش میں بغیر کابینہ والی حکومت پچیس دنوں سے چل رہی ہے؟ اور کیوں شیوراج سنگھ چوہان خود صحت، زراعت، سینچائی، خزانہ اور داخلہ کے وزیر بنے بیٹھے ہیں؟”
مشہور ٹی وی ڈیبیٹ اینکر دیبانگ نے سوشل میڈیا پر کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمارا سوامی کے بیٹے کی شادی کو تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہی غریب اور مزدور کرتے تو انہیں سزا دی جاتی، شادی تقریب میں شریک ہوئے موجودہ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ یڈیورپا پر بھی سوال اٹھائے، ان تمام لوگوں نے لاک ڈاون کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کی۔
ٹویٹر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم میں سب سے اہم ترین اور قابل توجہ میدان ہے جس کے ذریعے حکومتوں تک آواز پہنچائی جاتی ہے ایسے میں کسی خاص طبقہ کے لیے نفرت انگیز اور اس کے خلاف افواہوں کے گردش کرنے کے باوجود حکومت تک بات پہنچتی نہیں ہے یا پھر اسے جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے، یہ بھی ایک سوال ہے۔

انوج واجپائی کی زہر افشانی
سوشل میڈیا پر زہر اگلنے، قرآن پاک کی توہین کرنے اور مسلمانوں کو کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک بتانے والا جنونی انوج واجپائی گرفتار ہوا۔ یوپی کی اناؤ پولیس نے اس کو اسی کے گھر سے اٹھا لیا حالانکہ یہ گرفتاری کافی دیر میں ہوئی "دیر آئید درست آئید”دراصل انوج واجپائی نے 10 فروری کو نفرت انگیز ٹویٹ کیا تھا، اس نے اپنے ٹیوٹر ہینڈل (ANUJ BAJPAI، @Real_Anuj) پر لکھا تھا کہ "یاد رکھنا کورونا وائرس سے بھی خطرناک ہے قرآن وائرس (نعوذ باللہ) بھارت میں ٢٠ کروڑ سے بھی زیادہ متاثر ہیں” بعد میں انوج نے زہرافشاں ٹویٹ کو ڈیلیٹ کردیا، لیکن یہ ٹویٹ ٹرینڈ کرنے لگا اور حمایت ومخالفت میں لوگ آنے لگے، ٹویٹر پر مخالفین ہیش ٹیگ (hashtag) ’اریسٹ انوج‘ شیئر کرنے لگے وہیں حامی افراد ہیش ٹیگ (hashtag) ’کیپ اٹ اپ انوج‘ اپنے اسٹیٹس میں لگانے لگے اور اب پھر انوج کی گرفتاری کے خلاف ٹوئٹر پر لوگ سامنے آرہے ہیں اور رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں
****

ٹویٹر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم میں سب سے اہم ترین اور قابل توجہ میدان ہے جس کے ذریعے حکومتوں تک آواز پہنچائی جاتی ہے ایسے میں کسی خاص طبقہ کے لیے نفرت انگیز اور اس کے خلاف افواہوں کے گردش کرنے کے باوجود حکومت تک بات پہنچتی نہیں ہے یا پھر اسے جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے، یہ بھی ایک سوال ہے۔