کورونا کی عالمی آفت سے لڑائی کے دوران جرمنی کے فسطائی ماڈل کی گونج

ہندوتوا قو م پر ستی: تہذیبی جارحیت سے خونین فسطائیت تک (قسط ۲ )

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی

تہذیبی جارحیت کی ہندتو برانڈ اب اس ملک میں روز مرہ کے معمول کا حصہ بن چکا ہے، بی جے پی نے اپنی حکومت کی دوسری میقات میں ہر شئے کوہندوتو کے زعفرانی رنگ میں رنگنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس مقصد سے کورٹ اوریونیورسٹیوں سمیت تمام بڑے ریاستی اداروں پر اپنا کنٹرول دھیرے دھیرے بڑھاتی جا رہی ہے، ملک کی زیادہ تر جامعات میں آر ایس ایس سے وابستہ یا اس کی مرضی کے وائس چانسلرز کی تقرری اس وقت بی جے پی کی بڑی ترجیحات میں سے ہے، اور اس دوران تقریبا تمام تقرریاں اسی بنیاد پر ہوئی بھی ہیں۔ جے این یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس پر پولیس اور فسطائی گروہ کے کارندوں کےحملے ، جامعہ و شاہین باغ کے پر امن احتجاجات پر با قاعدہ پولیس کی بھاری موجودگی میں ہندوتو سے متاثر گروہوں کے مسلح حملے، دلی فساد بھڑکانے میں آر ایس ایس اور ہندوتو کے نمایاں رہنمائوں کا پیش پیش رہنا اور دلی ہائی کورٹ کی ہدایت کے باوجود ان کا ہر طرح کی کاروائی سے محفوظ رہنا، انسانیت کی تمام حدوں کو روندتے ہوئے کو رونا جیسی عالمی وبا کے مریضوں کے معاملات، یہاں تک کہ ہاسپیٹل کے وارڈ کو بھی فرقہ پرستی کی بنیاد پر تقسیم کرنا یہ مثالیں اس ملک کے موجودہ ماحول کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔
ہندوتو قوم پرستی کی برانڈ کو مزید سمجھنے کے لیے کچھ ایسے واقعات پر توجہ دینا ضروری ہے جن کے پس منظر میں فرقہ وارانہ امتیاز ات ہی نہیں تہذیبی جارحیت اور ہندوتو کے مکروہ فسطائی چہرے کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہم اب آگے ان واقعات کا قدرے تفصیل سےتجزیہ کرکے یہ دیکھیں گے کہ یہاں فسطائیت اپنی کس منزل میں ہے۔
۱ ۔نفرت کے زہر میں ڈوبے ہندوتو کی تازہ کارستانی کو کروناوائرس اور تبلیغی جماعت کے واقعہ میں بہت صاف طریقے سے دیکھا جا سکتا ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، چند کرونا کیسز کے پازہٹیو نکلنے کے بعد کس طرح پولیس ہندوتو کے زیر اثر کام کرنے والی میڈیا اور سوشل میڈیا میں تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو ہر طرف سے نشانہ بنایا گیا، جماعت کے نام پر اسپتال سے لیکر قرنطینہ سنٹرز تک میں مسلمانوں کی توہین کی گئی اور نفرت کے اس تازہ کھیل میں نہ صرف ہندوتو میڈیا بلکہ پولیس اور حکومت بھی برابر کی شریک رہی، جیسا کہ تبلیغی جماعت اپنی ابتدائی لاپرواہیوں کے باوجود بار بار اس کا ثبوت دے چکی ہے کہ اس نے حکومت کی گائیڈ لائن آنے کے بعد نہ تو ان کی خلاف ورزی کی ہے اور نہ ہی اس کے بعد مرکز میں کوئی اجتماع ہوا، اس کے علاوہ پوری دنیا کو اس کی بھی خبر ہے کہ اس واقعے میں اصل قصور انتظامیہ اور پولیس کا ہے جن کو لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد جماعت کی طرف سے یہ تحریری اطلاع دی جا چکی تھی کہ ان کے مرکز میں ایک ہزار افراد پھنسے ہوئے ہیں جنھیں ان کے گھروں تک پہنچانے کے لیے ان کی مدد کی ضرورت ہے، لیکن اس پوری مدت میں پولیس کی طرف سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا، وہ معنی خیز انداز میں خاموش رہی ، پھر اچانک مرکز پر میڈیا کے لاؤ لشکر کے ساتھ ایک دن اس طرح ٹوٹ پڑنا جیسے وہاں کوئی کرونا آتش فشاں پھٹ پڑا ہو حیرت انگیز ہے۔ اب حال یہ ہے کہ تمام اخلاقیات اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر کرونا جہاد اور کرونا ٹررزم کی اصطلاحات کی مدد سے اس نازک وقت میں پولیس اور بے لگام میڈیا کی جانب سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی گھناؤنی مھم چھیڑ دی گئی ہے جو یہ تحریر لکھے جانے تک جاری ہے ۔۔۔ پھر کیا تھا، تبلیغی جماعت کے ہیڈکوارٹر کی ناکہ بندی کردی گئی، میڈیا اس کے معزز رہنما کا نام دن رات ایسے لے رہا ہے جیسے وہ کسی جماعت کے قائد نہیں بوانہ چوری ڈکیتی کے کیس میں مطلوب کوئی مفرور مجرم ہوں۔ جماعت کے امیر مولانا سعد صاحب پر تمام چھوٹی بڑی دفعات لگا کر گرفتاری وارنٹ جاری کردیا گیا ۔۔۔حد تو یہ ہے کہ پولیس نے دلی میں ان کے خلاف حیاتیاتی دہشت گردی ( BioTerrorism) کی ایک ایف آئی آر بھی درج کر لی ۔اور اس کے سینکڑوں متبعین کو بعض ایسے کورنٹین سنٹر میں بھیج دیا گیا جہاں نہ پانی ہے اور نہ صفائی کا کوئی مناسب انتظام ، اس دوران میڈیا نے قرنطینہ سنٹرز میں نرسز سے چھیڑ چھاڑ کے واقعات پر مشتمل سوشل میڈیا کی بعض فرضی ویڈیوز کی بنیاد پر ان کی کردار کشی میں بھی کوئی کمی نہیں رہنے دی، یہاں تک کہ جب پولیس نے خود ان واقعات کو فرضی بتایا تب بعض چینلوں نے اس پر معافی مانگی۔
کرونا کی وبا نے بیشتر ممالک کے حکمرانوں کے برتاؤ کو اپنے تمام شہریوں اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے بڑی حد تک نرم بنانے کا کام کیا ہے لیکن موقع کا فائدہ اٹھا کر اس ملک کے مسلمانوں پر فسطائیت اور زیا دہ شدت سے حملہ آور ہے، اب تو حال یہ ہے جرمنی کے اسی فسطائی ماڈل کی گونج کرونا لاک ڈاؤن کے دور میں ہی شروع ہو چکی ہے، تبلیغی جماعت کے وابستگان کے کچھ کیسز پازیٹیو کیا نکلے فسطائی قوتوں کو مسلمانوں کے خلاف ایک نیا طوفان کھڑا کرنے کا موقع مل گیا، ایک طرف کچھ علاقوں کی پولیس انھیں ہراساں کر رہی ہےتو دوسری طرف میڈیا اور فسطائیت کی نفرت انگیز مہم کے اثر سے بہت سے محلے اور کالونیون میں وہان کے رہائشیوں نے مسلمانوں کے داخلے پر روک لگا رکھی ہے۔ مسجدوں کو کرونا انفیکشن کا مرکز کہا جارہا ہے اور اس بیچ ان پر حملے بھی کیے گئے ۔ یہاں تک کہ اسپتال جنھیں خدائی مہمان خانہ اور مقدس کنبہ کہا جاتا ہے نفرت کا عفریت ان کی دہلیز تک بھی پہنچ گیا، انڈین ایکسپریس کی تحقیق کے مطابق ۱۴ اپریل کو جمشید پور کے ایم جی ایم اسپتال میں تیس سالہ حاملہ مسلم عورت رضوانہ کے ساتھ جو ہوا وہ انسانیت کی پیشانی پر بد نما داغ کی طرح باقی رہے گا، وہ مظلوم عورت تو اسپتال اس امید سے گئی تھی کہ وہاں اس کا درد کم ہوگا لیکن وہاں کے اسٹاف نے مسلمان ہونے کی سزا اسے یہ دی کہ نہ صرف یہ کہتے اور گالیاں دیتے ہوئے اس کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا کہ تم مسلمان ہو، یہاں "کرونا پھیلانے” آئی ہو بلکہ اس کی چپلوں سے پٹائی کی گئی اور شدید درد کی حالت میں زبردستی فرش پر ٹپکا خون بھی اسی سے صاف کروایا گیا، وہاں اس مظلوم پر ذہنی و جسمانی طور سے اتنا ظلم ہوا کہ اس نے آخر اپنا بچہ گنوا دیا اور دوسرے اسپتال میں جاکراپنا علاج کروایا جہاں اس کے بچے کو مردہ قرار دیا گیا۔ مسلم فرقے کے خلاف یہ وحشت و بربریت اسی ہندوتو کی دین ہے جس کی مبلغ آر ایس ایس ہے۔
۔ اسپتال ہی کے ایک دوسرے واقعے نے کرونا سے جوجھتی انسانیت کو اس وقت شرمسار کردیا جب ہمیں بتایا گیا کہ احمدآباد سول ہاسپیٹل میں ہندو و مسلم کرونا مریضوں کے لیے دو الگ الگ وارڈ بنائے گئے ہیں۔ ہندوتو نے فسطائی منصوبوں کی تکمیل کے لیے فرقہ وارانہ نفرت کو کس سطح پر پہنچا دیا ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جب وہاں کے ڈاکٹر جی ایچ راٹھور سے اس فرقہ وارانہ/ نسلی تقسیم کی وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے بھاجپا کی صوبائی حکومت کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے بڑے فخر سے کہا :’’عام طور سے اسپتالوں میں عورت اور مرد کے لیے علاحدہ نظم ہوتا ہے لیکن ہم نے ہندو و مسلم کے لیے علیحدہ وارڈ بنائے ہیں‘‘۔(انڈین ایکسپریس مورخہ ۱۷ اپریل ۲۰۲۰)۔
یہ عندیہ ہے اس بات کا کہ جو کچھ اب تک یہاں دستوری و انسانی لحاظ سے ناخوب تھا وہ اب اس نئے نظام کے تحت بتدریج ’’خوب‘‘ ہوتا جائے گا۔اس طرح اس کرونا نے ہمیں ہندوتو نامی فسطائیت کا اصلی روپ دکھانے کا کام کیا ہے، ہٹلر کے پرائیوٹ والینٹیرز ایس ایس کی طرح جو عوامی پناہ گاہ کے نام بنی قتل گاہوں سے لیکر گیس چیمبر تک متحرک رہتے تھے، پہلی بار ہم نے دیکھا کہ آر ایس ایس کے سیوکوں (والینٹیئرز) نے بھی غیر قانونی طور سے قانون اپنے ہاتھ میں لیکر اور پولیس کے ساتھ کھڑے ہوکر نہ صرف چوراہوں پر عام لوگوں کو چیک کرنے اور ڈرانے کا کام کر رہے ہیں بلکہ جگہ جگہ مسجدوں میں جھانک جھانک کر کرونا مریض بھی تلاش کر رہے ہیں، یہی نہیں بعض مسجدوں کے باہر پولیس کے ساتھ سادہ وردی میں ایسے ہی لوگ نمازیوں پر ڈنڈے بھی چلاتے دیکھے گئے۔۔ یہ حالیہ واقعات کا وہ پہلو ہے جو ایک خطرناک اور بے لگام ہندوتو کی تصویر پیش کر رہا ہے، یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب پولیس اور سکورٹی فورسز کے لوگ ان فسطائی والینٹیرز کی انگلیوں پر ناچتے ہیں اور قانون کی رعایت میں ظلم و زیادتی کا جو کام پولیس کے ہاتھوں نہیں ہوپاتا وہ ان درندوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔
اس وقت حال یہ ہے کہ یہاں کا عام مسلمان کرونا سے زیادہ اپنے جان و مال کے تحفظ کے لیے فکر مند ہے، کرونا ان کے فرقہ پرست ہی نہیں قاتل بھی ہوگیا ہے،، نفرت کی اس تازہ لہر کی وجہ سے بروانہ( دلی) اور جھارکھنڈ کے دو ایسے غریب مسلم نوجوانوں کو کرونا پھیلانے کی افواہ کے الزام میں فسطائی منافرت کی شکار ہندو بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جن کے بارے میں پولیس اور صحت عملہ پہلے ہی کہ چکا تھا کہ ان پر کرونا کا کوئی اثر نہیں ہے۔ اسی طرح ہماچل کے محمد دلشاد نام کے ایک مسلم نوجوان نے اس دوران سماجی بائیکاٹ اور پڑوسیوں کے طعنوں سے تنگ آکر خودکشی کر لی۔ مسلم دشمن میڈیا اور آر ایس ایس والینٹیئرز دونوں کا کمال ہے کہ اس کرونا کو مسلم کرونا اور جہادی کرونا قرار دے کر حکومت کی کوتاہیوں اور اس کی صفر کے برابر تیار ہوں کو چھپانے کے لیے کرونا کا پورا طوفان مسلمانوں کی طرف پھیر دیا گیا ہے، اس دوران مسلمانوں کے خلاف زبان بھی وہی استعمال کی گئی جس سے جارحیت و فسطائیت دونوں کی بو آتی ہے، انھیں "گولی مارنے” اور "گیس چمبر” میں ڈالنے کی دھمکیاں کھلے عام دی گئیں، لیکن چونکہ یہ سب کہنے والوں کا تعلق اکثریت سے ہے اس لیے وہ بغیر کسی خوف کے آزاد گھوم رہے ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ کے اخلاقی دیوالیہ پن کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ اس وبا کے چلتے جب پوری دنیا میں قیدیوں کے ساتھ خصوصی رعایت برتی جارہی ہے دلی پولیس نئے شہری قوانین کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والے بعض سرگرم مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانے کا کام کر رہی ہے اور خصوصا دلی کے سیلم پور اور جامعہ نگر کے علاقے سے لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر انھیں چن چن کر گرفتار کر رہی ہے ۔۔۔پولیس کی اس مہم میں نہ تو طالب علموں کو بخشا جارہا ہے اور نہ عورتوں کو۔ جامعہ کے۔پی ایچ ڈیی طالب علم میران حیدر اور وہیں کی ایم فل کی طالبہ صفورہ زرگار کو پولیس نے حکومت کے اشارے پر اسی دوران گرفتار کیا ہے جن کا قصور صرف یہ تھا کہ انھوں نے نئے قوانین شہریت کے خلاف ہونے والے احتجاج میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ احتجاج و اختلاف جمہوریت کی صحتمند روایت کا حصہ ہے لیکن یہ اقدامات اس بات کا اعلان ہے کہ ہندوستان کے جمہوری۔نظام پر ہندوتو فسطائیت پوری طرح مسلط ہو چکی ہے۔
بھارت شاید دنیا کا ایسا اکیلا ملک ہے جہاں اس بیماری کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو مداخلت کرکے یہ کہنا پڑا کہ یہ ایک عالمی وبا ہے جس کا کوئی بھی شکار ہوسکتا ہے اس لیے اس کے مریضوں کو نسل اور مذہب کے خانوں میں نہ بانٹا جائے، ٹائم میگزین کے معروف کالم نگار بلی پریگو ( Belly Perrigo) نے مسلمانوں کے خلاف ہندوتو قوم پرستوں کے ٹویٹ کے سیلاب پر اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے لگتا کہ ’’کس طرح کروناوائرس کی اذیتوں کو ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت ک طویل سلسلے اسلاموفوبیا (Islamophobia) سے جوڑ دیا گیا ہے‘‘۔
(Time: 6-4-2020)
یہ رائے اسی بات کی تائید ہے کہ یہاں ہندوتو فسطائیت مسلمانوں کے خلاف برسوں سے ہتھیار بند ہے اور وہ ہر بہانے سے اپنا ایجنڈا پورا کرنے میں لگی ہے۔
بھارت میں کرونا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف اس گھناؤنی مہم آگاہ یروشلم حبریو یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر یوال حراری ( Yuval Noah Harari) نے بھی اسی نقطہ نظر کے ساتھ اس پورے عمل کی مذمت کی ہے، انھوں نے انڈیا ٹوڈے ( 2020-4-14)سے بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’’انڈیا میں جس طرح اقلیتوں، خصوصا مسلمانوں پراسے پھیلانے کا الزام لگایا جا رہا ہے وہ انتھائی احمقانہ اور انتھائی خطرناک ہے‘‘۔
۲۔ فسطائیت کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ عدل و مساوات اور تمام بنیادی حقوق کی ضمانت دینے والا کسی ریاست کا دستور و قانون ہوتا ہے، اسی وجہ سے اس کے علم بردار سب پہلے ایسی تمام دستوری رکاوٹوں کو دور کرتے ہیں جو ان کے خطرناک منصوبوں کے نفاذ میں حارج ہوں۔آر ایس ایس کی فسطائی قوم پرستی کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہندوستان کا موجودہ جمہوری دستوری ڈھانچہ ہے، جب وہ حکومت میں نہیں تھے تو بابری مسجد کے خلاف اپنی ہولناک مہم کے دوران ان کے سیاسی قائدین کھل کر یہ نعرہ لگاتے تھے کہ ’’بھگوان رام کا معاملہ دستور و عدالت سے بالاتر ہے‘‘اور اب جب وہ اقتدار میں ہیں تو اس دستوری رکاوٹ سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہندوتو کی تہذیبی قوم پرستی نے من چاہی دستوری ترمیمات کا سہارا لے لیا ہے ، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اسرائیل کی طرح ہر لاقانونیت ( نا انصافی) کو قانون بنانے
( Legalisation of illegality) کا عمل شروع کردیا ہے۔شہریت کے نئے ترمیم شدہ قوانین، دستور میں دی گئی مذہبی آزادی سے متصادم ٹرپل طلاق ایکٹ کا حکومتی حکم نامہ، کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات کا خاتمہ اور دیگر دستوری ترمیمات کا نفاذ اس کی واضح ترین مثال ہیں۔
نئے شہری قوانین: ہندوتو کے قدیم ایجنڈے کا حصہ
حالیہ دستوری ترمیمات اور سرکاری حکم ناموں کا ایک بڑا حصہ ہندوتو کے انھیں فسطائی مقاصد کے لیے وقف ہے جن کا ذکر ابھی کیا گیا۔ تاہم نئے قوانین شہریت ہندوتو کا سب سے بڑا اور قدیم ایجنڈا ہے۔ عام لوگوں کے لیے یہ سوال بڑا اہم ہے کہ یہ ایجنڈا اس کے لیے اتنا اہم اور خاص کیوں ہے کہ وہ اس کے لیے ہر داؤ کھیلنے پر تلی ہے، یہاں تک کہ وہ اس کے لیے بقول امت شا ” ایک انچ ” بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہے، چاہے اس کی وجہ سے ملک کو ہولناک فسادات ہی نہیں خانہ جنگی کی راہ پر ہی کیوں نہ جانا پرے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے آپ کو کچھ دیر کے لیے ہندوتو قوم پرستی کی تاریخ میں جانا پرے گا۔یہاں آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ آر ایس ایس کا کوئی نیا منصوبہ نہیں بلکہ وہ تو اپنے سیاسی بازو کی مدد سے بس اسی نشانے کو پورا کر رہی ہے جو ساور کر کی ایک کتاب میں ہندوتو وادی قوتوں کو اس نے ۔1923 میں دیا تھا اور ان کے لیے ” ہندوتو” کے خالق کی یہ کتاب اس ہندوتو بائیبل کی طرح ہے جس کے لفظ لفظ کو عملی جامہ پہنانا وہ اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں۔۔ نئے شہری قوانین کے اس سرکاری اقدام کی بنیادی نوعیت کیا ہے اور وہ مسلمانوں کو فسطائیت کی آتش جور و ستم میں کس قدر جھونک سکتا ہے اس پر گفتگو سے پہلے آئیے دیکھیں کہ ان کے اصل منصوبہ ساز نے مسلمانوں کی شہریت کے تعلق سے انھیں کیا گائیڈ لائن دی ہے۔موجودہ مسلم مخالف شہری قوانین کی تشکیل کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہے جسے بی جے پی- آر ایس ایس انتظامیہ "گھسپیٹھیوں’’سے جڑے مسئلے کو فوری طورسے حل کرنے یا پڑوس کے مظلوم ہندووں کو شہریت کا تحفہ دینے کے لیے کیا ہے جیسا کہ ان کا دعوی ہے، بلکہ اگر ہم اس کے پیچھے کارفرما اصل عنصر کو جاننا چاہتے ہیں تو اسے بھی ہمیں ساور کے بنائے ہوئے اسی معیار کو سامنے رکھ کر دیکھنا چاہیئے جو اس نے ہندوستانی قومیت/ شہریت کے لیے بنایا ہے، اپنے اس معیار میں اس نے بھارت کی قومیت/ شہریت کو ہندو مذہبی روایات کے مطابق اس سر زمین کو ’’ارض مقدس‘‘ ماننے کی شرط رکھی ہے، اس نے صاف لکھا ہے کہ ہندوستانیت جسے وہ ہندوتو کے ہم معنی مانتا ہے، کے لیے یہی کافی نہیں ہے کہ ایک شخص یہاں پیدا ہوا ہو اور یہاں کا رہنے والا ہو بلکہ وہ کلچر کے لحاظ سے بھی ہندو ہو، کیونکہ ہندوستانیت یاہند و تومیں ہندو کے علاوہ کسی اور ازم ( مذہب اور کلچر) کی گنجائش نہیں ہے۔ (Sawarkar,Hindutva-What is Hindu: 12,14) اس کی نظر میں اس ملک کی جغرافیائی حد بندی صرف ہندو ہے اور یہ خالصتا ہندو نسل اور ہندو کلچر سے مربوط ہے، ( ساورکر : 20-18، 28)
ہندوتو کی اس تعریف کے مطابق غیر ہندو اقوام خصوصا مسلم، اگرچہ ان کے اباء و اجداد یہیں کے ہوں تب بھی، اس تعریف کے مطابق ہندو ( ہندی ) نہیں ہیں اور نہ وہ ہندوستانی قوم کا حصہ ہیں کیونکہ ان کی اصل وابستگی ایک دوسرے مذہب اور کلچر سے ہے اور یہاں سے ان کی وابستگی مشکوک ہے
( ساورکر29-30 :)۔ جب کہ جیسا کہ اس کا دعوی ہے ہندوستانی اصلیت ( Hinduness or Hindutva) صرف ہندو سے ہے اور اسی سے ایک جہان ہندو ("Hindudom”) کی تعمیر ہوتی ہے۔
( ساورکر 16-17 🙂
(باقی سلسلہ صفحہ نمبر ۲۳)

بھارت شاید ایسا اکیلا ملک ہے جہاں اس بیماری کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو مداخلت کرکے یہ کہنا پڑا کہ یہ ایک عالمی وبا ہے جس کا کوئی بھی شکار ہوسکتا ہے