بیٹی کے نام باپ کے خطوط

(سیریز۔13)

متین طارق باغپتی

پردہ
عزیز بیٹی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
تم نے لکھا کہ آصفہ یہاں آکر بے پردہ ہوگئی ہے لیکن ہم لوگوں کو یہ سن کر تعجب نہیں ہوا کیونکہ جس ماحول میں اس کی پرورش ہوئی تھی اس کا تقاضہ یہی تھا۔ شروع شروع کی آزادیوں خوش فعلیوں اور روشن خیالیوں کا نتیجہ اسی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔
ایک بے چاری آصفہ کیا اور بھی بہت سی بھولی بھالی خواتین شیطان کے پھندے میں پھنسی ہوئی ہیں اور پیتل کے ٹکڑے کو سونا سمجھ کر بے اختیار اس کو حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ لٹارہی ہیں۔ ان کی زندگی کا نصب العین باغوں، پارکوں اور سینماوں کی سیر کے علاوہ اور کچھ نہیں ان کو معلوم نہیں کہ پرسکون زندگی کس چیز کا نام ہے وہ بس بے پردہ ہوکر اِدھر اُدھر گھومنے کو ہی انسانیت کی معراج سمجھتی ہیں۔ وہ پردے کو مردوں کی تنگ نظری کی نشانی کہتی ہیں۔مگر یہ بات اتنی ہی غلط ہے جتنا روشنی کو اندھیرا کہنا۔ سچ بات یہ ہے کہ عورت کا پردے میں رہنا خود اس کے وقار کا ضامن تھا، اس کے سکون قلب کا سامان تھا اور اخلاقی بلندی کا نشان تھا۔ لیکن جب سے عورت گھر کی چہار دیواری سے باہر آئی ہے اور مرد کے دوش بدوش چلنا شروع کیا ہے تب سے عورت کی مظلومیت بڑھ گئی ہے۔ اور ہر طرف اخلاقی فساد رونما ہے۔
ہمارے یہاں یہ بے پردگی یورپ کی طرف سے آئی ہے لیکن ابھی ہم نے ان نتائج پر نظر نہیں ڈالی کہ یورپ میں عورتوں کو آزادی دینے کا کیا انجام ہوا اور آج وہاں کی گھریلو زندگی کتنی عبرت ناک ہو گئی ہے۔ اخباروں میں اس کی تفصیل آتی رہتی ہے وہاں ہر منٹ میں طلاق اور ہر لمحہ خودکشی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جس سے وہاں کے لوگ پریشان ہیں۔ لیکن اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اسلام انہیں نتائج کو سامنے رکھ کر بطور پیش بندی اپنے پیرو کاروں کو شرم وحیا کی تعلیم دیتا ہے۔ چونکہ اسلام ایک فطری مذہب ہے اس لیے اس نے اپنے احکامات میں انسان کی فطرت کی رعایت رکھی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں امہات المومنینؓ کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ تمام عورتوں کے لیے ایک سبق ہے۔ امہات المومنین سے زیادہ کس کو پاک نفس کہا جاسکتا ہے، یہ معمولی عورتیں نہیں ہیں، یہ پوری امت کی مائیں ہیں مگر چونکہ انسان کے پیچھے اس کا نفس اور شیطان لگا ہوا ہے جو اس کو ہر وقت غلط راستوں کی طرف رہنمائی کرتا رہتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی محتاط رہنے کے لیے صاف الفاظ میں فرمایا کہ "اے پیغمبر کی بیویو! اپنے گھروں میں جمی بیٹھی رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح بناو سنگھار نہ دکھاتی پھرو۔ نماز پڑھو، زکوٰۃ دو۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، خدا چاہتا ہے کہ تم سے نجاست دور کردے اور خوب پاک صاف رکھے‘‘۔
یہاں یہ بات سوچنے کی ہے کہ یہ بات اس وقت کہی گئی ہے جبکہ ہر آدمی نیکی و پاکیزگی کا دلدادہ تھا اور ہر ایک کے دل میں رضائے الہی کی تڑپ تھی جن کے خلوص کو دیکھ کر اللہ نے دنیا میں بہت سے لوگوں کو جنت کی بشارت دے دی تھی۔ مگر احتیاط کا تقاضا تھا کہ ان سے بھی یہ مطالبہ کیا جائے کہ گھر میں جمی بیٹھی رہیں۔ پھر بھلا آج کے دور میں جبکہ چاروں طرف گندہ ماحول پھیلا ہوا ہے، عورتوں کا باہر نکلنا، بازاروں میں شاپنگ کرنا، سینماوں میں جاکر فلمیں دیکھنا اور پارکوں میں پہنچ کر چہل قدمی کرنا خرابیوں سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟
آزادی کا جذبہ اچھا ہے مگر اسی حد تک کہ اپنے کردار اور چال چلن پر حرف نہ آئے لیکن اگر آزادی یا بے پردگی سے اپنی آبرو خراب ہوتی ہے یا اپنا وقار گرتا ہے اور دین کو نقصان پہنچتا ہو تو ایسی آزادی کو دور سے سلام کرنا چاہیے۔ شرم وحیا کو عورت کی سب سے بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے یہ ایک فطری جذبہ ہے جس کو ہمیشہ اچھا سمجھا گیا ہے۔ شرم کرنے کا مطلب لونڈی بننا اور مرد کی غلامی کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے عورت کی حفاظت مقصود ہے۔ پردے کے احکام کے ذریعے اسلام نے فتنوں کا سدباب کیا ہے تاکہ انسانی طبعیت میں جو اخلاقی کمزوریاں ہیں وہ ابھرنے ہی نہ پائیں شیطان کو موقع ہی نہ ملے کہ وہ بُرے میلانات کو نشو ونما دے سکے اور ایسے تمام امکانات کا خاتمہ ہوجائے جن سے نظام تمدن میں برہمی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ ’’جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آنا چاہیے سوائے چہرے اور کلائی کے‘‘۔
نیز سورہ نور میں مردوں کو بلا اجازت گھر میں اچانک آنے سے منع کیا گیا ہے۔
اور جب تمہارے لڑکے سن بلوغ کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ وہ اسی طرح گھر میں اجازت لے کر آئیں جس طرح ان کے بڑے ان سے پہلے اجازت لے کر آتے تھے۔اور جب تم عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو اس میں تمہارے دلوں کے لیے بھی پاکیزگی ہے اور ان کے دلوں کے لیے بھی۔
(سورۃ الاحزاب)
اے نبی مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں۔ اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے جو خود ظاہر ہوجائے اور وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیاں کے بکل مارلیا کریں۔ (النور)
ان احکامات میں جو حکمتیں پوشیدہ ہیں وہ ہر آدمی جانتا ہے۔ ان کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنانا سکون وعافیت کی ضمانت ہے جن عورتوں نے ان پر عمل کیا وہ دنیا کی بہترین عورتیں تھیں۔ والسلام
تمہارا باپ

آزادی کا جذبہ اچھا ہے مگر اسی حد تک کہ اپنے کردار اور چال چلن پر حرف نہ آئے لیکن اگر آزادی یا بے پردگی سے اپنی آبرو خراب ہوتی ہے یا اپنا وقار گرتا ہے اور دین کو نقصان پہنچتا ہو تو ایسی آزادی کو دور سے سلام کرنا چاہیے۔