عید قرباں:جاں نثاری اور فدائیت کے بے نظیر واقعہ کی یادگار

جذبات اور خواہشات پر حکم الٰہی کی چھری پھیرنا قربانی کا اہم مقصد

مولانا محمد یوسف اصلاحی

 

عیدالاضحی میں دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے حضور اپنے جانوروں کی قربانی کرکے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہیں۔ ایک بار صحابہ کرام ؓ نے اسی کے بارے میں نبیﷺ سے پوچھا:
ماہ ھذا الاضاحی ؟ یا رسول اللہ ﷺ!
یہ قربانی کیا ہے ؟ یا رسول اللہﷺ!
ارشاد فرمایا:
سنۃ ابیکم ابراہیم صلوۃ اللہ و سلامہ
(ابن ماجہ، ابواب الاضحی باب ۳)
یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کی سنت ہے۔
بے شک ہر سال مسلمانان عالم کروڑوں جانوروں کی قربانی کرکے جاں نثاری اور فدائیت کے اس بے نظیر واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہیں جو آج سے تقریباً سوا پانچ ہزار سال پہلے عرب کی سرزمین میں اللہ کے گھر کے پاس پیش آیا تھا۔ کیسا رقت انگیز اور ایمان افروز ہوگا وہ منظر جو ایک بوڑھے اور شفیق باپ نے اپنے نو خیز لخت جگر سے کہا:
يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ (الصافات۳۷:۱۰۲)
پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں، بتا تیری کیارائے ہے؟
اور لائق فرزند نے بے تامل کہا:
يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖسَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (الصافات۳۷:۱۰۲)
ابا جان ! آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اسے کر ڈالیے۔ آپ ان شا اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔ اور پھر اخلاص و وفا کے اس پیکر نے خوشی خوشی اپنی معصوم گردن زمین پر اس لیے ڈال دی کہ اللہ کی رضا اور تعمیل حکم کے لیے اس پر تیز چھری پھیر دی جائے اور ایک ضعیف اور رحمدل باپ نے اپنے محبوب لخت جگر کے سینے پر گھٹنا ٹیک کر اس کی معصوم گردن پر اس لیے تیز چھری پھیردینے کا ارادہ کرلیا کہ اس کے رب کی مرضی اور حکم یہی ہے۔
اطاعت و فرماں برداری کا یہ بے نظیر منظر دیکھ کر رحمت خدا وندی جوش میں آگئی اور ندا آئی:
وَنَادَيْنَاهُ اَنْ يَّـآ اِبْـرَاهِـيْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ اِنَّ هٰذَا لَـهُوَ الْبَلَآءُالْمُبِيْنُ (الصافات۳۷:۱۰۴‘۱۰۶)
اور ہم نے انہیں ندا دی کہ اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم وفادار بندوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔
اور اس وقت ایک فرشتے نے ابراہیم علیہ السلام کے سامنے ایک مینڈھا پیش کیا کہ وہ اس کے گلے پر چھری پھیر کر جاں نثاری اور وفاداری کے جذبات کی تسکین کریں اور اللہ نے رہتی دنیا تک یہ سنت جاری کردی کہ دنیا بھر کے مسلمان ہر سال اسی دن جانوروں کے گلے پر چھری پھیر کر اس بے نظیر قربانی کی یاد تازہ کریں۔
فَدَیْناهُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ (الصافات ۳۷:۱۰۷)
اور ہم نےایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس (نوعمر بچے کو) چھڑالیا۔
بڑی قربانی سے مراد قربانی کی یہی سنت ہے جس کا اہتمام ہر سال اسی دن مسلمانان عالم دنیا کے گوشے گوشے میں کرتے ہیں اور لاکھوں مسلمان تو مکے کی اس سرزمین پر اس سنت کو تازہ کرتے ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
ابراہیم علیہ السلام سے نہ تو اس قربانی کا یکا یک مطالبہ کیا گیا تھا اور نہ وہ یکا یک اس عظیم قربانی کے لیے تیار ہو گئے تھے بلکہ ان کی پوری زندگی ہی قربانیوں کی یادگا رہے۔ حیات ابراہیم کو اگر قربانی کی تفسیر کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔ اللہ کی راہ میں قربانی دینے کا مفہوم اگر آپ جاننا چاہیں تو ضروری ہے کہ آپ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو پڑھیں۔ اللہ کی خاطر آپ ماں باپ کی شفقتوں سے محروم ہوئے، ان کی دولت اور آسائش سے محروم ہوئے، خاندان اور برادری کی حمایت اور سہارے سے محروم ہوئے، خاندانی گدی سے محروم ہوئے، وطن عزیز سے نکلنا پڑا۔ اللہ ہی کی خاطر آتش نمرود میں بے خطر کود کر آپ نے اللہ کے حضور اپنی جان نذر کردی اور اللہ ہی کی رضا اور اطاعت میں آپ نے اپنی محبوب بیوی اور اکلوتے بچے کو ایک بے آب و گیاہ ریگستان میں لا کر ڈال دیا اور جب یہی بچہ ذرا سن شعور کو پہنچ کر کسی لائق ہوا تو حکم ہوا کہ اپنے ہاتھوں سے اس کے گلے پر چھری پھیر کر دنیا کے ہر سہارے اور تعلق سے کٹ جاو اور مسلم حنیف بن کر اسلام کامل کی تصویر پیش کرو۔
اِذْ قَالَ لَـه رَبُّه اَسْلِمْ ۖ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ (۲:۱۳۱)
جب ان سے ان کے رب نے کہا مسلم ہوجا تو اس نے بے تامل کہا ’’میں رب العالمین کا مسلم ہوگیا‘‘۔ اسلام کے معنی ہیں کامل اطاعت، مکمل سپردگی اور سچی وفاداری ۔ قربانی کا یہ بے نظیر عمل وہی کرسکتا ہے جو واقعتاً اپنی پوری شخصیت اور پوری زندگی میں اللہ کا مکمل اطاعت گزار ہو ، جو زندگی کے ہر معاملے میں اس کا وفادار ہو اور جس نے اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کردیا ہو۔
اگر آپ کی زندگی گواہی نہیں دے رہی ہے تو آپ اللہ کے مسلم اور وفادارنہیں ہیں اور آپ نے اپنی پوری زندگی اللہ کے حوالے نہیں کی ہے تو آپ محض چند جانوروں کا خون بہاکر ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ نہیں کرسکتے۔ اور اس عہد میں پورے نہیں اترسکتے جو قربانی کرتے وقت آپ اپنے اللہ سے کرتے ہیں۔
دنیا کے مسلمان اس دن جانوروں کا خون بہا کر اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اے رب العالمین، ہم تیرے مسلم ہیں۔ تیری کامل اطاعت ہی ہمارا شیوہ ہے، ہم تجھ سے وفاداری کا اعلان کرتے ہیں اور اپنے بزرگوار اسماعیل کی طرح تیرے حضور اپنی گردن پیش کرتے ہیں۔ پروردگار تو نے ہی قربانی کی یہ سنت جاری کرکے اسماعیل علیہ السلام کی گردن چھڑائی تھی، ہم جانوروں کا خون بہاکر اپنی گردن چھڑاتے ہیں مگر ہمارا سب کچھ تیرا ہی ہے، تیرا اشارہ ہو گا تو ہم تیرے دین کی خاطر اپنی گردن کٹانے اور اپنا خون بہانے سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہم تیرے ہیں اور ہمارا سب کچھ تیرا ہے۔ ہم تیرے وفادار اور جاں نثار بندے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے پیرو ہیں اور انہی کی عقیدت سے سرشار ہیں۔ قربانی کرتے وقت آپ جو دعا پڑھتے ہیں وہ دراصل وفاداری اور جاں نثاری کے انہی جذبات کا اظہار ہے۔
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (الانعام۶، ۸ ‘۱۶۳ ‘۱۶۴)
میں نے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا رخ ٹھیک اس اللہ کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلم اور فرماں بردار ہوں، خدایا! یہ تیرے ہی حضور پیش ہے اور تیرا ہی دیا ہوا ہے۔
پھر سپردگی کی عجیب کیفیت کے ساتھ جانوروں کے گلے پرتیز چھری پھیرتے ہوئے آپ کہتے ہیں:
بسم اللہ اللہ اکبر، اللھم تقلبہ منی کما تقلبت من خلیلک ابراہیم و حبیبک محمد علیھما الصلوۃ والسلام
اللہ کے نام سے اللہ سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ! تو اس قربانی کو میری جانب سے قبول فرما جس طرح تو نے اپنے دوست ابراہیم علیہ السلام اور اپنے حبیب محمدﷺ کی قربانی قبول فرمائی۔
دراصل اسی واقعہ کو تازہ کرنا اورانہی جذبات کو دل و دماغ پر حاوی کرنا قربانی کی روح اور اس کا مقصد ہے۔
اگر یہ جذبات اور ارادےنہ ہوں، اللہ کی راہ میں قربان کی آرزو اور خواہش نہ ہو، اللہ کی کامل اطاعت اور سب کچھ اس کے حوالے کردینے کا عزم اور حوصلہ نہ ہوتو محض جانوروں کا خو ن بہانا، گوشت کھانا اور تقسیم کرنا قربانی نہیں ہے، بلکہ گوشت کی ایک تقریب ہے جو ہر سال آپ منالیا کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کردیا۔ اللہ کو نہ جانوروں کے خون کی ضرورت ہے نہ گوشت کی۔ اس کو تو اخلاص و وفا اور تقویٰ و جاں نثاری کے وہ جذبات مطلوب ہیں جو آپ کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ۔ اللہ کا ارشاد ہے۔
لَنْ يَّنَالَ اللّـٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُـهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ ۚ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَـبِّـرُوا اللّـٰهَ عَلٰى مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّـرِ الْمُحْسِنِيْنَ (الحج ۲۲:۳۷)
اللہ کو نہ ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کا خٰن، اسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
یہی تقویٰ اور اطاعات و فرماں برداری کا جو ہر قربانی کی روح ہے اور اللہ کے یہاں صرف وہی قربانی شرف قبولیت پاتی ہے جو متقی لوگ اطاعت اور فرماں برداری و جاں نثاری کے جذبات کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
وَاتْلُ عَلَيْـهِـمْ نَبَاَ ابْنَىْ اٰدَمَ بِالْحَقِّۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِۖ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّـٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ (المائدہ۔۵،۲۷)
اور انہیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک سنادو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میںسے ایک کی قربانی قبول کی گئی۔ اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا۔ اس نے جواب دیا ’’اللہ تو متقیوں ہی کی قربانی قبول کرتا ہے‘‘۔
یعنی تیرے دنبے کو اگر آسمانی آگ نے نہیں جلایا اور اللہ نے اسے قبول نہیں کیا تو اس میں میرا کیا قصور ہے جو مجھے قتل کی دھمکی دے رہا ہے۔ اپنی اصلاح کی فکر کر، تیرے اندر ہی کھوٹ ہے، اللہ تو صرف متقی لوگوں کی قربانی ہی قبول کرتا ہے۔
تقویٰ اور اخلا ص اور وفاداری و جاں نثاری کے یہ جذبات اس طرح پیدا نہیں ہوتے کہ آپ گاہے گاہے اللہ کو یاد کرلیں اور کچھ ایسے مخصوص اعمال کبھی کبھی کرلیں جو اللہ سے تعلق اور اس کی راہ میں قربانی کی علامت ہیں اور پھر اپنے افکار و خیالات، احساسات و جذبات، اخلاق و معاملات اور اطاعت وفاداری میں آپ آزاد ہیں کہ جو چاہیں سوچیں جو چاہیں ارادے رکھیں، جو چاہیں کریں اور جس کی اطاعت و فرماں برداری کا چاہیں دم بھریں۔اللہ سے یہ عہد کرنے کے بعد کہ ’’میں رب العالمین کا مسلم ہوں‘‘ اس کی کیا گنجائش ہے کہ ہم دوسرے ازموں اور طریقوں کو اطاعت کے لیے اپنائیں یا ایک کو دوسرے پر ترجیح دے کر اپنے لیے جائز اور قابل قبول قرار دیں اور اپنے من مانے طریقوں کی پیروی کریں۔ کیا جانوروں کا فدیہ دے کر ہم نے اپنی جانوں کو اس لیے چھڑایا ہے کہ ہم اپنی جانوں اور اپنی قوت و صلاحیت کو جہاں چاہیں کھپائیں اور قربان کریں اور اللہ سے یہ امید کریں کہ وہ ان جانوروں کے گوشت اور خون کو قبول کرلے گا۔اللہ کا دین آپ کی پوری شخصیت اور آپ کی پوری زندگی چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ اس کی اطاعت کے ساتھ کسی اور کی اطاعت کا جوڑ نہ لگائیں۔ جن برگزیدہ بندوں کی سنت کو آپ تازہ کررہے ہیں ، انہیں دیکھیں کہ وہ کس طرح زندگی کے ہر معاملے میں مسلم حنیف تھے۔ اللہ سے اسلام اور بندگی کا عہد کرنے والے ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اسلام کی کیا تصویر پیش کرتی ہے، ان کی زندگی کو آپ بار بار پڑھیں اور ذی الحجہ کے پہلے دس ایام میں خصوصی اہتمام کے ساتھ پڑھیں اور اپنے دل و دماغ اور شخصیت اور معاشرے پر ان جذبات اور کیفیات کو طاری کرنے کی کوشش کریں جو اس پاکیزہ زندگی میں آپ کو نظر آئیں ورنہ قربانی کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ عام دنوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ گوشت کھانے اور کھلانے کے لیے آپ ایک جشن منارہے ہیں۔
(مضمون نگار معروف عالم دین اور کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں )
***

اللہ کا دین آپ کی پوری شخصیت اور آپ کی پوری زندگی چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ اس کی اطاعت کے ساتھ کسی اور کی اطاعت کا جوڑ نہ لگائیں۔ جن برگزیدہ بندوں کی سنت کو آپ تازہ کررہے ہیں ، انہیں دیکھیں کہ وہ کس طرح زندگی کے ہر معاملے میں مسلم حنیف تھے۔ اللہ سے اسلام اور بندگی کا عہد کرنے والے ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اسلام کی کیا تصویر پیش کرتی ہے، ان کی زندگی کو آپ بار بار پڑھیں اور ذی الحجہ کے پہلے دس ایام میں خصوصی اہتمام کے ساتھ پڑھیں اور اپنے دل و دماغ اور شخصیت اور معاشرے پر ان جذبات اور کیفیات کو طاری کرنے کی کوشش کریں جو اس پاکیزہ زندگی میں آپ کو نظر آئیں ورنہ قربانی کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ عام دنوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ گوشت کھانے اور کھلانے کے لیے آپ ایک جشن منارہے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4 تا 10 جولائی 2021