یہ شریعت بزدلوں کے لیے نہیں اتری ۔۔!

’’یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے، نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے‘ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک‘ اور پانی کے بہاؤ پر پہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ اُن بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہوں‘ جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاؤ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہوں‘ جو صبغۃ اللّٰہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاؤ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینش کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس راستے پر رواں کر دے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے‘ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستے سے پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے کے لیے راضی ہو جائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے‘ وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا‘ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صَرف کر دے گا‘ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پروا نہ ہوگی‘ وہ ہر اس نقصان کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو‘ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہو جائیں‘ اور پانی کی موجیں اس کو نیم جاں کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں‘ تب بھی اس کی روح ہرگز شکست نہ کھائے گی‘ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔

قرآن تمھارے سامنے ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں تمھارے سامنے ہیں۔ ابتدا سے لے کر آج تک کے علم برداران اسلام کی زندگیاں تمھارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جدھر اڑائے ادھر اڑ جاؤ؟ پانی جدھر بہائے ادھر بہہ جاؤ؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جاؤ؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی ؑ کی بعثت کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ہوا کی موجیں تمھاری ہدایت کے لیے اور حیاتِ دنیا کا بہاؤ تمھاری رہنمائی کے لیے اور زمانے کی نیرنگیاں تمھیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ اس ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام بھی آیا ہے اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے‘ اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے‘ اوردنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے‘ ایمان داروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔ انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض کے لیے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں۔ نقصان برداشت کیے ہیں اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایتِ آسمانی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں نقصان اورمشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوف زدہ ہو کر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوشحال‘ کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں‘ تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے، مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو اور دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اور اس کے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کربھی اس کا پیرو ہے؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے۔ اس پر جھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کرکے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے؟

یہ خیال کہ زندگی کا دریا جس رخ بہہ گیا ہے اس سے وہ پھیرا نہیں جاسکتا عقلاً بھی غلط ہے اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ دنیا میں ایک نہیں سیکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رخ کو بدلا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال خود اسلام ہی میں موجود ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا یہ دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دنیا پر کفر و شرکت کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغ دار نہ بنا رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر فواحش‘ معاشرت پر نفس پرستی‘ معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری‘ اور قانون پر بے اعتدالی کا تسلط نہ تھا؟ مگر ایک تنِ واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چیلنج دے دیا۔ تمام اُن غلط خیالات اور غلط طریقوں کو رد کر دیاجو اس وقت دنیا میں رائج تھے۔ ان سب کے مقابلے میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا‘ اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دنیا کے رخ کو پھیر کر اور زمانے کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔

تازہ ترین مثال اشتراکی تحریک کی ہے۔ انیسویں صدی میں سرمایہ داری کا تسلط اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ کوئی بزدل مرغ بادنمااُس وقت یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ جو نظام ایسی ہولناک سیاسی اور جنگی قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے اُس کو الٹ دینا بھی ممکن ہے، مگر انھی حالات میں ایک شخص کارل مارکس نامی اٹھا اور اس نے اشتراکیت کی تبلیغ شروع کی۔ حکومت نے اس کی مخالفت کی۔ وطن سے نکالا گیا۔ ملک ملک کی خاک چھانتا پھرا۔ تنگ دستی اور مصیبت سے دوچار ہوا، مگر مرنے سے پہلے اشتراکیوں کی ایک طاقت وَر جماعت پیدا کرگیا۔ جس نے چالیس سال کے اندر نہ صرف روس کی سب سے زیادہ خوفناک طاقت کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ تمام دنیا میں سرمایہ داری کی جڑیں ہلا دیں اور اپنا ایک معاشی اور تمدنی نظریہ اس قوت کے ساتھ پیش کیا کہ آج دنیا میں اس کے متبعین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے، اور ان ممالک کے قوانین بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن پر سرمایہ داری کی حکومت گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہے، مگر انقلاب یا ارتقا ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے‘ اورقوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے‘ مڑجانے کو قوت نہیں کہتے‘ موڑ دینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا‘ جو لوگ اپنا کوئی اصول‘ کوئی مقصد حیات‘ کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں‘ جو بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں‘ جو خطرات و مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں‘ جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو‘ جو ہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دباؤ سے دب جانے والے ہوں‘ ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کاکام ہے۔ انھی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کارخ پھیرا ہے، دنیا کے خیالات بدلے ہیں، مناہجِ عمل میں انقلاب برپا کیا ہے، زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔

پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستے پر جارہی ہے اس سے وہ پھیری نہیں جاسکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چاہیے، اور جب تم اس کا اعتراف کرلو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے‘ نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ۔ اس کو تو ہرزور آور سے دبنا پڑے گا۔ ہر طاقت وَر کے آگے جھکنا پڑے گا۔ وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطے کا پابند نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔‘‘

(مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ کی کتاب تنقیحات سے ماخوذ)