سوشل میڈیا پراسلامو فوبک ریمارکس

یو اے ای میں مقیم ہندوستانیوں کو قانونی کارروائی کا سامنا

(دعوت ویب ڈیسک)

اسلامو فوبیا دراصل اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ایک مبالغہ آمیز خوف، نفرت اور دشمنی پر مبنی لہر ہے جو منفی و دقیانوسی تصورات کے زیر اثر پیدا کی گئی ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب و امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور معاشرتی، سیاسی اور شہری زندگی میں انہیں عدم رواداری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس منفی رجحان کے پنپنے کے لیے موجودہ معاشرے میں سوشل میڈیا ایک مضبوط پلیٹ فارم کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے، جہاں بلا خوف وخطر مسلمانوں کو نشانہ بنانا جارہا ہے۔ حالانکہ کئی گوشوں سے اس کی مذمت بھی کی جارہی ہے لیکن آزادی اظہار رائے کے نام پر آئے دن نئے نئے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سرکردہ شخصیات سے لے کر عام لوگوں تک کو صرف نام دیکھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ سوشل میڈیا خود کسی بھی قسم کی دل آزاری اور نفرت پر مبنی پیامات کی ترسیل کو روکنے کے لیے کئی اقدامات کرتا ہے ساتھ میں دنیا بھر کے ممالک میں کئی ایک طرح کے قانون نافذ العمل ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی مسلمانوں کے خلاف ہراسانی کا عمل جاری ہے. ابوظہبی میں مقیم ایک ہندوستانی شخص سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی وجہ سےمشکل میں گھر گیاہے۔ ابوظہبی میں قائم ایک فرم کے فینانشیل مینجر متیش اڈیسی کو فیس بک پر اسلامو فوبک پوسٹ پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس پوسٹ میں ایک متنازعہ ویڈیو کے حوالے سے ایک گرافک تصاویر بناتے ہوئے یہ دکھایا گیا ہے کہ” یہ جہادی، کورونا وائرس خودکش بم ہیں جو 20 کے مقابلے میں 2 ہزار کی اموات کا سبب بن سکتے ہیں جہاں ہر ایک جہادی بمبار اس دھماکہ خیز مواد سے دو چار بیلٹ میں دھماکہ کر رہا ہے۔ بھارت میں ایک خاص مسلم گروپ کے ارکان کو پولیس پر تھوکتے ہوئے دکھائے جانے کے حوالے سے ویڈیوز کے بارے میں غلط بیانات پر مشتمل متیش کی اس مذموم پوسٹ نے سوشل میڈیا پر غم و غصہ پھیلادیا ہے اور بہت سے لوگوں نے اسے فوری طور پر برخاستگی اور گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
گلف نیوز کی جانب اس کے آجر کو توجہ دلانے کے فوراً بعد اس کی کمپنی کے قانونی نمائندے نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اور اس معاملے کی جانچ کی جارہی ہے۔ اس شخص ک خلاف متحدہ عرب امارات کے قوانین کے مطابق سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اگر تفتیش سے پتہ چلتا ہے کہ وہی اس عہدے پر فائز تھا تو اسے برخاست کردیا جائے گا۔ پچھلے ہفتے پیش آئے ایک اور واقعے میں ملازمت کے متلاشی ہندوستانی شخص کو اپنے ہم وطن ساتھی ایس بھنڈاری کی جانب سے ’’پاکستان چلے جاو‘‘ جیسے استہزایہ الفاظ کا سامنا کرنا پڑا جو متحدہ عرب امارات میں ایک ایونٹ مینجمنٹ کمپنی کے مالک ہیں۔ ہندوستان کے مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ شمشاد عالم نے گلف نیوز کو بتایا کہ انہوں نے بھنڈاری سے اپنا بائیو ڈاٹا واٹس ایپ پر شیئر کیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے’’ پاکستان چلے جاو‘‘ کا پیغام دیا تھا۔ شمشاد عالم نے کہا ’’میں حیرت زدہ ہوں کہ کوئی اتنا بے حس کیسے ہوسکتا ہے‘‘؟ اس کے بعد دبئی پولیس میں شکایت درج کرنے والے عالم نے مزید کہا ’’جب میں نے اس جواب پر اعتراض کیا تو اس نے مجھ سے بد سلوکی کی اور مجھے پولیس میں رپورٹ کرنے کی دھمکی دی‘‘ عالم اور بھنڈاری کے درمیان واٹس ایپ پیامات کے تبادلے بھی سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات میں ایک قانون کے تحت تمام مذہبی یا نسلی امتیازات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون میں امتیازی سلوک منافرت سے متعلق ان تمام کارروائیوں کی ممانعت کی گئی ہے جو مذہبی منافرت کو ہوا دیتے ہیں اور کسی بھی اظہار کے ذریعے مذہب کی توہین کرتے ہیں خواہ وہ تقریر ہو یا تحریر یا کتابچے اور آن لائن میڈیا کے ذریعے ہو۔ اس قانون کا مقصد بنیادی طور پر مذہب، ذات پات، نظریہ، نسل، رنگ یا نسلی بنیاد پر مبنی افراد یا گروہوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو سختی سے روکنا ہے۔گزشتہ مہینے ہی دبئی میں مقیم ایک اور ہندوستانی شیف کو اس وقت برطرف کردیا گیا جب اس نے دہلی میں مقیم ایک خاتون سے حال ہی میں نافذ ہونے والے متنازعہ شہریت (ترمیم) ایکٹ کے خلاف بیان دینے کے بعد آن لائن زیادتی کی۔ اس شخص نے اپنی فیس بک پوسٹ میں اس کے ساتھ زیادتی کی دھمکی بھی دی تھی۔ ان تبصروں کے بعد سینکڑوں افراد نے فوری طور پر اس شخص کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
اسی طرح کے واقعات گزشتہ کچھ سالوں سے متواتر ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ جن میں2017 میں متحدہ عرب امارات میں قائم ایک کمپنی کے ہندوستانی ملازم کو سوشل میڈیا پر اسلامو فوبک مواد شائع کرنے اور بھارتی صحافی رانا ایوب کو گستاخانہ پیغامات بھیجنے پر ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ سنہ 2018 میں کیرالا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو خلیجی ممالک کی کمپنی کے ذریعہ ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا جب اس نے کیرالا میں 2018 کے سیلاب سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹ پر غیر سنجیدہ تبصرے شائع کیے تھے۔ یہ شخص جو لولو گروپ انٹرنیشنل کا ملازم تھا۔ اس نے مبینہ طور پر رضاکاروں کی جانب سے فیس بک پوسٹ پر کی گئی مدد کی اپیل کے جواب میں سیلاب زدگان کی سینیٹری کی ضروریات پر مذاق اڑایا۔ سن 2019 میں دبئی سے تعلق رکھنے والی ایک کمپنی نے ایک ایسے ملازم کو برطرف کر دیا تھا جس نے نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر 15 مارچ کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں سوشل میڈیا پر نامناسب تبصرے شائع کیے تھے۔ اس شخص کی شناخت بعد میں رونی سنگھ کے نام سے ہوئی جس نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھاکہ کرائسٹ چرچ پر حملہ ایک ’’خوشی کا دن‘‘ تھا اور وہ ’’پلوامہ کے شہدا‘‘ کو ’’امن‘‘فراہم کرے گا۔ اس شخص نے مزید کہا تھا ’’ایسے حملے بھارت میں بھی نماز کے دوران ہر جمعہ کو ہونے چاہئیں۔‘‘ٹرانس گارڈ گروپ جس کمپنی کے لیے اس شخص نے کام کیا تھا، کہا تھا کہ اس شخص کو ’’ہماری ملازمت سے فارغ کردیا گیا اور کمپنی کی پالیسی اور متحدہ عرب امارات کے سائبر کرائم قانون کے مطابق متعلقہ حکام کے حوالے کردیا گیا ہے۔

ابوظہبی میں مقیم ایک ہندوستانی متیش اڈیسی کو سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی وجہ سے قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے