سفر نامہ حج

1968ء میں مولانا عامر عثمانیؒ مدیرتجلی کے سفر کی ایک دلچسپ روداد

گزشتہ سے پیوستہ

 

’’کہاں؟‘‘ ڈرائیور نے سوال کیا، ہم نے پچھلی سیٹ کی پشت گاہ سے ٹیک لگاتے ہوئے سوچا کیا جواب دیں، منزل تو کوئی ہے ہی نہیں، دادر، پریل، فورٹ، چوپاٹی ہنگنگ گارڈن۔۔۔ اسی طرح کے چند نام نہ جانے کب کے حافظے کی تختی پر مدھم سی لکیروں کی شکل میں پڑے تھے، ان میں سے کس کو نوک زباں پر لائیں، کہاں کا رخ کریں،۔
’’بتائیے جناب کدھر چلنا ہے‘‘اس نے پہلے سے بلند آواز میں پوچھا، ہوسکتا ہے اس نے سمجھا ہو مولوی صاحب اونچا سنتے ہیں، وہ ایک ادھیڑ عمر کا سکھ تھا۔
’’چوپاٹی چلو‘‘ہماری زبان سے بس یونہی نکلا۔
گاڑی حرکت میں آگئی، ہمیں اندازہ نہیں کتنے وقت میں اس نے ہمیں چوپاٹی پہنچایا ہوگا، پھر وہ انتظار میں رہا ہوگا کہ اب مولوی صاحب ٹیکسی سے نکل کر کرایہ ادا کریں گے، لیکن ہم نہیں اترے، دھوپ ہر طرف بکھری ہوئی تھی، موسم اب ایسا نہیں تھا کہ دھوپ میں پھرنا خوشگوار محسوس ہوتا، ہم نے دور تک نظر دوڑائی، میرین ڈرائیو کی سر بفلک عمارتیں ایک دلکش گھوم کے ساتھ دور تک پھیلی ہوئی تھیں، ان کے دامن میں رینگنے والی سرمئی سڑک پر ٹریفک کا منظر خاصا جاذبِ توجہ نظر آ رہا تھا۔
’’چلو میرین ڈرائیو کا ایک راؤنڈ لے کر پھر اس طرف لوٹ آؤ۔‘‘ہم نے سمندر کی سرمئی پہنائی پر نظریں ڈالتے ہوئے کہا، ٹیکسی فوراً متحرک ہوئی۔
وقت چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہا تھا، گھڑی ہماری کلائی پر ضرور تھی لیکن اسے دیکھتے ہوئے خوف محسوس ہونے لگا تھا، وہ یہی بتائے گی کہ ابھی فقط نصف گھنٹہ گزرا ہے۔ابھی ظہر کے وقت میں اتنی دیر ہے کہ زمین کو نہ جانے کتنے ہزار میل گردش کرنی ہوگی، سورج کو نہ جانے کتنی دور چلنا پڑے گا، سمندر کی سبک خرام موجیں ساحل کی ریت پر آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں، ٹیکسی تیزی سے آگے بڑھتی جا رہی تھی۔
’’ذرا آہستہ۔۔۔۔ ڈرائیور صاحب سفر کے انداز میں نہیں سیر کے انداز میں چلیے۔‘‘ہم نے آرڈر کے انداز میں نہیں بلکہ گزارش کے لہجے میں کہا۔
’’جیسی مرضی جناب‘‘۔ ڈرائیور نے شائستہ لہجے میں جواب دیا، پھر ٹیکسی چلنے کے بجائے رینگنے لگی۔
یہ بے مدعا سیر ہم نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک کی تھی، نہ جانے کہاں کہاں پھرے، ڈرائیور معاملہ فہم معلوم ہوتا تھا، اس نے کہیں بھی تو کوئی ایسا لفظ نہیں کہا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ ہمارے خللِ دماغی سے پریشان ہے، یہ ظاہر ہے کہ وہ ہمیں کریک تصور کر رہا ہوگا، لیکن ہمارا کریک ہونا اس کا کیا بگاڑ سکتا تھا، اسے تو اپنا کرایہ چاہیے تھا اور وہ اسے حسب دل خواہ ملا۔ یاد پڑتا ہے کہ پائے دھونی کے قریب اتارتے ہوئے اس نے ہم سے بائیس روپے کچھ پیسے وصول کیے تھے، ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ کس حساب سے، پوچھ کر کرتے بھی کیا، سوار ہوتے وقت میٹر دیکھنے کا ہمیں خیال ہی نہیں آیا تھا، ہوسکتا ہے اس نے قاعدے سے کچھ زیادہ ہی وصول کر لیے ہوں مگر شرافت کا تقاضا یقیناً یہ ہے کہ ہم بد گمانی سے کام نہ لیں، وہ اگر پچاس روپے بھی کہتا تو ہم دے دیتے اور واقعہ یہ ہے کہ جس مالیخولیائی کیفیت میں ہم مبتلا تھے اس میں پیسہ کوئی قیمت نہیں رکھتا، خوشی کی بات تو یہ تھی کہ ڈیڑھ گھنٹہ کٹ گیا تھا۔
یہ تذکرہ ابھی تک ہم نہیں کر سکے کہ ضابطے کا اقامت گاہ تو ہم نے کیو پریس ہی کو قرار دے رکھا تھا، لیکن عملاً رہائش جماعت اسلامی کے اس دفتر میں تھی جو ابراہیم رحمت اللہ روڈ پر واقع ہے، ٹیکسی سے ہم ٹھیک دفتر ہی کے سامنے اترتے لیکن پائے دھونی کے فٹ پاتھ پر ہمیں وہی کرم فرما نظر آ گئے تھے جنہوں نے آج صبح کے لیے چائے کی دعوت دی تھی، یہاں سے دفتر کا نصف فرلانگ سے زیادہ نہ رہا ہوگا، ہم ٹیکسی کا کرایہ ادا کر کے فارغ ہی ہوئے تھے کہ وہ سڑک پار کر کے ہم تک آ پہنچے۔
چھوٹی چھوٹی تفصیلات میں جائیے تو یہ روداد ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے، مگر مقصود کتاب لکھنا نہیں، نہ یہ مطلوب ہے کہ آپ فضول و بے کیف جزئیات سے اکتا کر ورق الٹ دیں، لہٰذا ہماری اور آپ کی سلامتی اسی میں ہے کہ اب جلدی سے یہ کہانی ختم ہو۔
ظہر کے بعد مسافر خانے پہنچے تو مولانا منیری نے جہاں یہ فرمایا تھا کہ نیا پاسپورٹ غالباً تیار ہوگا، وہاں یہ بھی بتایا کہ سعودی سفارت خانے کے ویزا آفیسر کا آدمی آپ کو تلاش کر رہا ہے۔
’’کیوں کر رہا ہے؟‘‘ہم نے پوچھا۔
’’خدا جانے۔۔۔آپ اوپر جا کر مل آئیے ۔۔۔ ‘‘
’’نہیں، یہ سب بعد کی باتیں ہیں، آپ پہلے ہمارا پاسپورٹ دلوائیے۔‘‘
مولانا اٹھ کھڑے ہوئے،اور آگے بڑھ کر ہمارے پاسپورٹ کے بارے میں سوال کیا، مسئول نے نہ جانے کیا جواب دیا، ہم فاصلے اور شور کی وجہ سے سن نہیں سکے، دل کی رفتار تو اس کمرے میں قدم رکھتے ہی تیز ہوگئی تھی،کانوں میں یہ شہد بھرے الفاظ ٹپک ہی گئے کہ لیجیے نیا پاسپورٹ تیار ہے۔
اور ٹھیک اسی وقت ۔۔۔۔ جی ہاں عین اس وقت جب نیا پاسپورٹ ہماری طرف بڑھایا جا رہا تھا کمرے ہی کے کسی گوشے سے یہ نعرہ بلند ہوا کہ پہلا پاسپورٹ تو یہ موجود ہے!۔
’’کیا کہا۔۔۔ موجود ہے؟!‘‘ہم حیرت زدہ ہو کر ادھر ادھر نگاہ دوڑائی، بعض اور زبانوں پر بھی اسی طرح کا سوال تھا، پھر سوال و جواب کی آوازیں کچھ ایسی گڈ مڈ ہوئیں کہ ایک ذہنی جھٹکے کے سوا ہمارے پلے کچھ بھی نہیں پڑا، یہ لمحات بڑے ڈرامائی تھے۔یہ تک یاد نہیں کہ ہمیں جو پاسپورت عنایت کیا گیا وہ وہ تھا جو بعد میں تیار کیا گیا یا وہ تھا جو ہمیں حال سے بے حال کرنے کے لیے کسی بھوت کی طرح غائب ہوگیا تھا اور پھر جلوہ طراز اس وقت ہوا جب اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی۔
یہ معمہ بڑے سے بڑا طباع بھی قیاس و اجتہاد کے ذریعہ حل نہیں کرسکتا کہ پاسپورٹ آخر غائب کہاں اور کیوں ہوگیا تھا، مگر حل اس معمے کا بہت سادہ ہے جسے دو لفظوں میں یوں سمجھیے کہ جس روز یہ تیار ہوا تھا اسی روز ایک عزیزِ مکرم اسے اپنے گھر لیے چلے گئے تھے، ان عزیز کا نام ٹھیک طور پر یاد نہیں، خیال آتا ہے کہ شاید عبد القدیر یا کچھ ایسا ہی سا نام تھا، یہ حج کمیٹی کے متعلقہ دفاتر میں ہی کام کرتے ہیں، ان کے والدِ محترم تجلی کے قارئین میں سے ہیں، انہوں نے جب تجلی میں پڑھا کہ ایڈیٹر تجلی بھی امسال حج کو جا رہا ہے تو انہیں اشتیاق پیدا ہوا کہ اس سے ملاقات کریں، اس اشتیاق کو پورا کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا تھا کہ وہ اچانک بیمار ہوگئے، بیماری کسی قسم کے شدید درد پر مشتمل تھی اور رہائش ایک مکان کی بالائی منزل میں رہتے تھے، جب انہیں اندازہ ہوا کہ ملاقات کی خاطر وہ مسافر خانے یا کیو پریس نہیں جا سکیں گے تو انہوں نے اپنے صاحب زادے سے خواہش ظاہر کی کہ کم سے کم عامر عثمانی کا فوٹو تو دکھلا ہی دو جو پاسپورٹ بننے کے سلسلے میں یقیناً آیا ہوگا، صاحب زادے نے حکم کی تعمیل کی اور خوب کی، فوٹو پاسپورٹ سے منسلک تھا، وہ پاسپورٹ ہی اٹھا کر لے گئے، والد صاحب کو دکھلا کر فوراً واپس لے آتے تو کوئی قضیہ کھڑا ہی نہ ہوتا، لیکن جب کاتب تقدیر ہی نے ہمارے حصے میں شدید ذہنی ابتلا اور روحانی کرب کی کچھ گھڑیاں لکھ دی تھیں تو کیسے قضیہ کھڑا نہ ہوتا، یہ تفصیل ہم نہیں بتاسکتے کہ دفتر میں جو ڈیڑھ دن تک پاسپورٹ کی گم شدگی کا ہنگامہ رہا اس کی بھنک عزیز موصوف کے کانوں تک کیوں نہیں پہنچی، اگر پہنچ جاتی تو یقیناً وہ بتا دیتے کہ صورتِ حال حقیقت میں کیا ہے، یہ بہر کیف ہمیں یاد ہے کہ بعد میں انہوں نے شرمندگی کا اظہار کیا تھا اور ہمیں بڑے اصرار کے ساتھ اپنے گھر بھی لے گئے تھے، یہاں ان کے والدِ محترم سے ملاقات ہوئی، یہ واقعی صاحبِ فراش تھے، بڑی گرم جوشی سے ملے، بہت سی باتیں کیں، خاطر مدارات فرمائی۔
تو یہ تھی وہ دلچسپ افتاد جس کے نتیجے میں ہمارا اندازہ یہ ہے کہ زیادہ نہیں تو پانچ تولہ خون ضرور خشک ہوا ہوگا، اب وہ واقعہ بھی سنیے جس کے نتیجے میں ہم نے یہ اندازہ کیا کہ خشک شدہ خون فوراً بن گیا ہوگا۔
پاسپورٹ ہاتھ میں آگیا تو معاً ایسا محسوس ہوا جیسے چاروں طرف بے شمار قمقمے جل اٹھے ہوں، جیسے تاریکیوں کے دبیز پردے آنکھوں کے سامنے سے ہٹتے چلے گئے ہوں، بمبئی وہی تھی، مناظر وہی تھے، مگر ہر چیز ایسی شاداب اور نکھری ہوئی نظر آ رہی تھی جیسے اسے ابھی ابھی غسل دیا گیا ہو، حجاج کے شور و غل میں ایک موسیقی تھی، جو دھکے پاسپورٹ ملنے کے بعد ہم نے مسافر خانے کی راہداریوں کی بھیڑ میں کھائے وہ اتنے خوش گوار تھے جیسے ہماری پیٹھ پر شاباشی کی تھپکیاں دی جا رہی ہوں۔در و بام جو کچھ دیر قبل تک اداسیوں اور ماسیوں کی گرد میں اٹے ہوئے تھے اب صاف و شفاف دل کش اور حسین نظر آ رہے تھے، دو شعر اس وقت بے ساختہ یاد آئے جنہیں نہ جانے کتنی بار ہم نے گنگنایا
اگر شریکِ جمال رنگیں ہمارا حسنِ نظر نہ ہوتا
قمر میں نورِ قمر نہ ہوتا سحر میں رنگِ سحر نہ ہوتا
نہ جانے کتنی ساعتیں اسی عالمِ رنگ و طلعت میں گزارنے کے بعد آخر کار ہم نے مولانا منیری سے کہا کہ اب ہمیں بتائیے کون ہمیں تلاش کر رہا تھا اور کہاں ہماری طلبی ہے؟
مولانا نے اس وقت اسی کرم جوشانہ رہنمائی کا مظاہرہ فرمایا جس سے اب تک نوازتے رہے تھے، فوراً اٹھے اور دالانوں سے گزار کر زینوں کی طرف لے چلے، یاد نہیں کتنی سیڑھیاں چڑھ کر ہم مسافر خانے ہی کے ایک بالائی کمرے میں پہنچ گئے تھے، یہاں سعودی ویزا آفیسر کے غالباً سکریٹری صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے ہمیں بیٹھنے کو کہا اور اب مولانا منیری یہ کہہ کر رخصت ہوگئے کہ یہی صاحب آپ کو وہاں پہنچا دیں گے جہاں آپ کو یاد کیا جا رہا ہے۔
کچھ دیر بعد ہمیں ایک بڑے کمرے میں پہنچایا گیا جہاں ایک خوش پوش عرب افسر لمبی سی میز کی پشت پر تشریف فرما تھے، صحت مند چہرہ، وجیہہ و مؤثر شخصیت، کافی تپاک سے ہمارا مصافحہ ہوا، پھر انہوں نے ایسی باتیں کہیں جن سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ ان کے قلب میں ایک خادمِ دین و ملت کی حیثیت سے ہمارا کافی احترام موجود ہے، وہ عربی بول رہے تھے، مگر ہم انہیں عربی میں جواب نہیں دے سکے، کہنے کو ٹوٹے پھوٹے فقرے ہم نے کہے ضرور تھے مگر ان کا حاصل فقط اعتذار تھا، ہم نے کتابی عربی میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ عربی بولنا ہمارے بس کا روگ نہیں، جو کچھ آپ نے فرمایا اسے مر مار کے ہم نے سمجھ تو لیا اور اس کے لیے آپ کے شکر گزار بھی ہیں لیکن روانی کے ساتھ عربی میں جواب بھی دے سکیں یہ ہماری مقدرت سے باہر ہے۔
اس اعتذار پر انہوں نے اخلاق آمیز تبسم کے ساتھ ہماری ہمت افزائی یہ کہہ کر فرمائی کہ بے شک ہم آپ کی معذوری کو سمجھتے ہین، آپ اردو ہی میں گفتگو کیجیے، یہ ترجمانی کے فرائض انجام دیں گے۔
ان کا اشارہ سکریٹری صاحب کی طرف تھا جو ملاقات کی تمام مدت تک یہیں موجود رہے۔
ندامت ہمیں جیسی کچھ ہو رہی تھی اسے آپ سے کیا چھپائیں، منصب تو یہ کہ رسالے میں جہاں بھر کے مسئلے بیان فرماتے ہیں، نام کے آگے فاضلِ دیوبند لکھتے ہیں، مولانا اور حضرت کہلاتے ہیں، علم و فضیلت کی ایک لمبی سی سند بھی صندوق میں محفوظ رکھ چھوڑی ہے، لیکن نا اہلی کا عالم یہ کہ پانچ منٹ عربی میں بات بھی نہیں کر سکتے، ہکلا ہکلا کر فقرہ پورا کرتے ہیں اور اس فقرے میں بھی نہ جانے کہاں کہاں جھول ہو، کیسی کیسی غلطیاں ہوں۔
واقعہ اگرچہ یہ ہے کہ ایک طرف تو جدید عربی اسالیب کافی بدل گئے ہیں، دوسری طرف الفاظ اور مشتقات نئے نئے ہیں، تیسری طرف کتنے ہی جملوں کو مخفف کر لیا گیا ہے جن کی حیثیت خالص محاورات بن گئی ہے، چوتھی طرف جو سب سے بڑی دشواری ہے وہ اہلِ عرب کا لب و لہجہ اور رفتار کلام ہے، الفاظ اپنی اصل شکل میں اگر ہندوستانی سامع کے دماغ میں پہنچیں ہی نہیں تو ان کا مفہوم و منشا کیوں کر اخذ کیا جاسکے گا۔
فی الحال تو یہ سمجھ لیجیے کہ اپنی معذوری کا منطقی جواز رکھتے ہوئے بھی ہمیں بڑی شرمندگی ہو رہی تھی جس مدیرِ تجلی کو وہ چشم بددور عالم و فاضل اور نہ جانے کیا کیا سمجھ رہے ہیں وہ اتنا جاہل واقع ہوا ہے کہ اسلام کی سرکاری زبان میں کچھ دیر ان سے بات بھی نہیں کرسکتا۔
گفتگو ترجمانی ہی کے توسط سے ہوئی، مگر گفتگو کے باقی مراحل میں انہوں نے انگریزی سے کام لیا ۔اسی دوران افسر صاحب نے ہمیں دو ورق عنایت کیے جن کی پیشانیوں پر‘‘وزارۃ الخارجیۃ السفارۃ العربیۃ السعودیۃ بالھند’’چھپا ہوا تھا اور پہلو میں ہمارے فوٹو کی ایک ایک کاپی چپکی ہوئی تھی، نیچے اسی سفارت خانے کی مہریں تھیں، ایک کاغذ ان میں اس مضمون کا تھا کہ یہ مدیر تجلی السید عامر عثمانی ہیں (اب دیکھ لیجیے کہ محاورے کی کرامت سے عامر عثمانی کو سید کہلانے کا بھی فخر حاصل ہوگیا) یہ ۱۳۸۷ھ کا فریضہ حج ادا کرنے جا رہے ہیں، انہیں وہ تمام ٹیکس اور محاصل معاف کیے جاتے ہیں جو مملکتِ عربیہ سعودیہ میں دورانِ حج میں حجاج کو ادا کرنے پڑتے ہیں، یہ سرٹیفکٹ اس لیے دیا گیا ہے تاکہ ان کے خیر مقدم میں اس خصوصی رعایت کا لحاظ رکھا جائے۔
دوسرے ورق کا خلاصہ یہ تھا کہ اپنی خاص حیثیت میں مدیر تجلی بجا طور پر اس کے مستحق ہیں کہ ضابطہ و قانون کی رو سے حاجیوں یازمانہ حج میں جو پابندیاں نقلِ مکانی کے سلسلے میں عائد ہوتی ہیں ان سے انہیں مستثنیٰ رکھا جائے، یہ جب جہاں چاہیں بغیر روک ٹوک کے جاسکیں۔
ان اوراق کے لیے جذبہ امتنان کا اظہار کرنے کے بعد ہم نے رخصت کی اجازت طلب کی۔ ان کی ضیافت سے لطف اندوز ہونے کے بعد ایک گرمجوش مصافحہ نے اس ملاقات کا اختتام کیا، رخصتی مصافحہ کرتے ہوئے وہ اخلاقاً کھڑے بھی ہوگئے تھے اور ہمیں حقیقتاً خوشی بھی سب سے زیادہ اسی بات کی ہوئی کہ ہمیں خصوصی مراعات عطا کی گئی تھیں۔پھر بتائیے، اس واقعے کا طبعی اثر کیا یہ نہیں ہونا چاہیے تھا کہ جتنا خون خشک ہوا ہے اس سے زیادہ ہی پیدا ہوجائے ۔
اب آپ اعتراض کریں گے کہ جب تم آسائشوں اور آسانیوں کو خدا کے انعام و اکرام کا نام دے رہے ہو تو پھر کیوں اس وہم میں مبتلا ہو کہ تمہارا حج، حج حقیقی نہیں ہوا، یہ تو حج کی توہین ہے کہ حج کرو اور اسے حج کی نقل کہو، کہیں ایسا تو نہیں کہ حج کیا ہی نہ ہو، بس ایسے ہی ٹہل وہل کے چلے آئے ہوں۔
آپ کا اعتراض اور اشتباہ ہیں تو دونوں کچھ جاندار سے، مگر اب اتنا بھی سیاہ کار اور گیا گزرا مت سمجھیے کہ حجاز پہنچ جائیں اور ٹوٹا پھوٹا سا حج بھی نہ کریں، حج اس کے تمام فقہی لوازمات سمیت ادا کیا تھا، عمرے بھی کچھ نہ کچھ ہو ہی گئے، قابلِ ذکر مقامات میں سے اکثر پر جانے کی سعادت سے محروم نہیں رہے، یہاں تک کہ جبلِ نور کی اوسطاً ایک گھنٹہ کی چڑھائی چڑھ کر غارِ حرا کا دیدار بھی ان گناہگار آنکھوں کو میسر آہی گیا، لیکن کسی بھی مرحلے میں ایسی کوئی خاص بات پیش نہیں آئی جسے عجز و انکساری کے ڈھلے ڈھلائے انداز میں بیان کر کے ہم آپ پر اپنی روحانیت اور للّٰہیت کا سکہ جما سکیں۔۔۔۔ نہیں دوستو، ہم وہ تیرہ بخت ہیں کہ جیسے کورے گئے تھے ویسے ہی کورے لوٹ آئے، آج اپنے باطن، اپنے دل و دماغ اور اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں سب کچھ وہی ہے جو جانے سے پہلے تھا، نہ جہاد فی سبیل اللہ کے جذبے میں کوئی اضافہ ہوا، نہ صوم و صلوٰۃ کے ذوق میں کوئی ترقی نظر آئی، نہ نفس کے تقاضے مضمحل ہوئے، نہ دنیا کے ہنگاموں سے طبیعت اچاٹ ہوئی، وہی بے فکری ہے کہ جیسے یوم الحساب تو کبھی آنا ہی نہیں، وہی اطمینان ہے کہ جیسے حشر کی ساری ہولناکیاں اوروں کے لیے ہے، خود تنقیدی اگر آدمی کو اس افسوس ناک نتیجے تک پہنچائے تو آپ ہی بتائیے کہ وہ کس طرح اس خوش فہمی کی جرأت کرسکتا ہے کہ اس کا حج بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہوگیا ہوگا ۔
یہی وجہ ہے کہ حج کا سفر نامہ لکھنے پر طبیعت مائل نہیں، میلان کے بغیر اگر لکھنا شروع کر دیا تو اول تو وہ ایسا ہی لا یعنی اور بے مزہ سا ہوگا۔ ہمارے وہ تمام احباب رکھتے ہیں جنہیں اس سفر نامے کا انتظار ہےوہ اگر اس عرضِ حقیقت کے باوجود وہ ضروری تصور کریں گے کہ سفر نامہ پڑھیں تو ہمیں ضد بھی نہیں کہ انہیں مایوس ہی کردیں۔ ختم شد
واللہ الموفق۔ تجلی دیوبند۔ جنوری،فروری ۱۹۶۸ء
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14  اگست 2021