زینب الغزالیؒ : عظیم داعیہ،مجاہدہ اور مفسر قرآن

نظرات فی کتاب اللہ ،خواتین سے متعلق احکام کی مدلل تفسیر

مجتبیٰ فاروق، حیدرآباد

 

زینب الغزالیؒ ۲/ جنوری ۱۹۱۷ء کو قاہرہ کے شمال میں ضلع دقہیلہ کے دور دراز گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری اسکول میں پرائمری اور سکنڈری اسکول تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے ازہر یونیورسٹی کے معروف اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ انہوں نے علم و تحقیق سے بے انتہا رغبت کی بنا پر قدیم و جدید علوم میں کافی عبور حاصل کیا۔ زینب الغزالیؒ دور طالب علمی ہی سے وہ خواتین اور طالبات میں پُرجوش اور شعلہ بیان خطیبہ کی حیثیت سے مشہور تھیں اور خواتین کی مختلف تنظیموں سے بھی وابستہ رہیں۔ ۱۹۳۷ء میں انہوں نے خواتین کی ایک تنظیم کی بناء ڈالی جس کا نام ’’السیدات المسلمات‘‘ تھا۔ اس تنظیم کو بعد میں انہوں نے حسن البناؒء کے کہنے پر اخوان میں ضم کر دیا۔ وہ ایک بے باک داعیہ اور راہ حق کی ایک عظیم مسافر اور مجاہدہ تھیں۔ اسلام کی اشاعت کے لیے انہوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ اس عظیم مسافرہ کو جمال عبدالناصر نے ۱۹۲۵ء میں جیل میں ڈال دیا اور انہیں طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ وہ زندان کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں ’’ایک دن مجھے ایک اندھیری کوٹھری میں دھکیلا گیا جو کتوں سے بھری ہوئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کتے مجھ پر حملہ آور ہوئے، میرا ہاتھ میری چھاتی غرض میرا سارا جسم کتوں کی زد میں آگیا۔ میں صاف محسوس کر رہی تھی کہ کتوں کے تیز نوکیلے دانت میرے جسم کے ہر حصے میں پیوست ہو رہے ہیں۔ میں آنکھیں بند کر کے اسمائے حسنیٰ کا ورد کرنے لگی جب دروازہ کھول دیا گیا۔ میرا خیال تھا کہ جیل کی کوٹھری میں جو کچھ مجھ پر گزرا ہے اس کے نتیجے میں میرے سفید کپڑے خون میں ڈوب چکے ہوں گے۔ لیکن یہ اللہ کی مجھ پر ایک واضح کرامت تھی کہ میرے کپڑے پہلے جیسے ہی تھے اور میرے چہرہ پر کوئی زخم نہیں تھا۔ جب صفوت مجھے دیکھنے آیا تو مجھے صحیح سلامت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا‘‘۔ اذیت رسانی کا ایسا کون سا طریقہ نہیں تھا جو حکومت وقت نے ان پر استعمال نہ کیا ہو۔
زینب الغزالیؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ آپ کی پوری زندگی جہدِ مسلسل اور عزیمت سے پُر تھی۔ انہوں نے مصر میں آزاد پسند اور حقوق نسواں کے علمبرداروں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور مصر میں اسلام کو متبادل طریقہ زندگی کے طور پر پیش کیا تھا جہاں مغربی فکر و تہذیب اور سیکولرزم یعنی لا دینیت کی جڑیں مضبوط تھیں۔ خواتین میں اسلامی بیداری لانے کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ انہوں نے خواتین میں اسلام کے دیے گئے حقوق کی بھر پور نمائندگی کی اور برملا اس حقیقت کا اظہار کرتی رہیں کہ اسلام نہ صرف خواتین کو ذاتی زندگی گھر کی چار دیواریوں میں کلیدی رول ادا کرنے کی تاکید کرتا ہے بلکہ سماجی اور معاشی زندگی میں بھی اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیتا ہے اور سیاست میں بھی حصہ لینے اور اظہار خیال کی آزادی بھی دیتا ہے غرض کہ انہوں نے خواتین کے درمیان اسلامی بیداری کا علم بلند کیا اور ان کے اندر حوصلہ، جذبہ ایمان اور عزم و استقلال پیدا کیا ہے۔ گھر ہو یا جیل کی کال کوٹھریاں، بازار ہو یا گلیاں ہر جگہ خواتین کو نہ صرف اسلام کی طرف بلاتیں اور ان کی تعلیم تربیت کا انتظام بھی کرتی تھیں۔ زینب الغزالی قرآنی آیتوں کی ایک عملی تفسیر تھیں۔ مصری حکومت ان کی ہر بات سے خائف تھی۔ انور السادات نے اس عظیم خاتون کو ٦ سال تک جیل کی کال کوٹھریوں میں مقید کر رکھا تھا۔ موصوفہ ایک بہترین مصنفہ بھی تھیں۔ ان کی چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں :(۱) ایام حیاتی (۲) نظرات فی کتاب اللہ (۳) غریرۃ المراۃ مشکلات الشباب والفتیات (٤) الی بنتی (۵) تاملات فی الدین و الحیاۃ۔
تفسیری خدمات:
زینب الغزالی قرآن مجید سے گہرا تعلق اور بے حد محبت رکھتی تھیں۔ وہ قرآن مجید کے پیغام کو دوسری خواتین تک پہنچانے میں ہمہ وقت مصروف رہتی تھیں۔ انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میں نے ساٹھ سال سے زائد کا عرصہ اللہ کی کتاب کو سمجھنے اور اس کو اس کے بندوں تک پہنچانے میں صرف کیا ہے۔ زینب الغزالی نے تفسیر کے میدان میں اور فہم قرآن کو عام کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے ’نظرات فی کتاب اللہ‘ کے عنوان سے تفسیر لکھی۔ اس تفسیر کا پس منظر یہ ہے کہ ایک دن ایک اشاعتی ادارہ کی مالکہ خاتون کی جانب سے پیغام آیا کہ وہ کم عمر بچوں و بچیوں کے لئے ۲۸،۲۹ اور ۳۰ویں پارے کی ایسی آسان تفسیر لکھوانا چاہتی ہیں جو ان کی زبان اور معیار کے مطابق ہو۔ زینب الغزالی نے جواب دیا کہ میں نے کبھی تفسیر لکھنے کے بارے میں سوچا نہیں اور یہ میرا میدان بھی نہیں ہے۔ مگر جب اس خاتون نے خود زینب سے رابطہ کر کے اصرار کیا تو پہلے انہوں نے استخارہ کیا اور دعا کی پھر اللہ کے نام سے کام شروع کیا اور تین پاروں کی تفسیر تیار
کر لی ۔جب وہ مسودہ لے کر اس خاتون کی تلاش میں نکلیں تو ان کا کہیں پتہ نہ چلا۔ واپس لوٹتے ہوئے شیخ محمد الملعم کے پاس پہنچ گئیں اور ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ اسے شائع کرسکتے ہیں؟انہوں نے اسے دیکھا اور کہا ہاں مگر ایک شرط ہے وہ یہ کہ آپ پورے قرآن کی تفسیر لکھیں۔ اس کے بعد انہوں نے مکمل تفسیر لکھی۔ تفسیر کے مقدمہ میں موصوفہ لکھتی ہیں ’’میں قرآن مجید سے اتنی محبت کرتی ہوں کہ بخدا میں نے قرآن پڑھا ہی نہیں بلکہ اسے اپنی زندگی بنا لیا اور اس کے بعد یہ کوشش کی کہ جس کتاب سے میں اس قدر محبت کرتی ہوں اسے دوسرے لوگوں تک پہنچاؤں تاکہ وہ بھی اسے محبت کرنے لگیں‘‘۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’’میں قرآن مجید کی کوئی مفسرہ نہیں ہوں نہ ہی میرے اندر یہ صلاحیت ہے مگر اپنے اس جذبے کی تسکین کے لیے میں نے اپنی اس کتاب نظرات فی کتاب اللہ میں سورہ بقرہ، سورہ آل عمران اور سورہ نساء کے مطالب بیان کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔
زینب الغزالی نے اس تفسیر کو لکھنے میں نہایت غور و فکر سے کام لیا ہے۔ انہوں نے جیل کی کال کوٹھریوں اور تنہائیوں میں بھی اور گھر کو بھی قرآن مجید کی آیتوں پر غور و فکر کرنے کا ذریعہ بنایا۔ دعوت کے میدان میں بھی اور سفر کے دوران بھی قرآن مجید کو غور و فکر اور تدبر کی جولان گاہ بنایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے قدیم و جدید عربی تفاسیر سے بھی بھر پور استفادہ کیا ہے۔ وہ اس حوالے سے رقمطراز ہیں: ہمارے علمائے سابقین اور سلف صالحین نے کتاب اللہ کی تفسیر میں جو وسیع تصنیفات چھوڑی ہیں ان سے بھی میں نے فائدہ اٹھایا ہے، چنانچہ میں نے قرطبی کی تفسیر، حافظ ابن کثیر کی تفسیر جس کو میں نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا تھا اور میں اس کی عاشق ہوں،ل۔ آلوسی، ابوالسعود قاسمی اور رازی کی تفسیروں سے بھی استفادہ کیا ہے اور سید قطب شہید ؒکی تفسیر ’فی ظلال القرآن‘ سے بھی استفادہ کیا ہے‘‘ نیز انہوں نے احادیث کو بھی قرآن مجید کی تشریح و توضیح کا ذریعہ بنایا اور احادیث کے ذخیرے سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وہ لکھتی ہیں: ’’میں نے اپنی طاقت بھر حدیث سے مراجعت کی کیوں کہ یہ اللہ کی کتاب قرآن کی بہترین تفسیر ہے اور تفسیر کے موضوع پر فاضل علماء نے جو کچھ تحریر کیا ہے ان سبھوں نے احادیث سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس سرچشمہ سے سیراب ہوئے ہیں“۔ نیز اس تفسیر میں جگہ جگہ اقوال صحابہ اور سلف صالحین کے اقوال سے بھی انہوں نے استدال کیا ہے۔ غرض کہ یہ تفسیر، تفسیر بالماثور کا بہترین نمونہ ہے۔ تفسیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے تفسیر میں اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کے طور پر پیش کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی عصری معنویت کو اجاگر کرنا بھی اس میں ہر لحاظ سے پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبد الحی فرماوی کے بقول قرآن مجید کے معنی و مطالب اور احکام کو ہمارے موجودہ زمانے کے حالات سے سچی اور مخلصانہ کوشش کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے تاکہ ان احکام کی رہنمائی میں اور ان مطالب کے دائرے میں ہمارے موجودہ حالات کو درست کیا جائے۔ ان معنیٰ اور احکام کو نمایاں کر کے معاشرے کی بیماریوں کے علاج کے لیے مخلصانہ کوشش کی گئی ہے۔ ایک اور نمایاں خصوصیت اس تفسیر کی یہ ہے کہ اکثر وبیشتر متجددین، مغربی مصنفین اور مستشرقین یہ کہتے ہیں کہ تفاسیر میں مردانہ اپروچ غالب ہے اور نسائی اپروچ کا فقدان ہے جس کی وجہ سے خواتین کو سماجی، سیاسی، تعلیمی اور دیگر میدانوں میں نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن اس تفسیر میں خواتین کی نفسیات و ضروریات اور ان کے جذبات و احساسات کا بھرپو رخیال رکھا گیا اور جہاں جہاں خواتین کے مسائل اور احکامات کے بارے میں ہدایات ہیں، ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے ان کی مدلل تفسیر بیان کی ہے۔ تفسیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ مفسرہ ہر سورت کے آغاز میں نہایت عمدہ اور جامع تعارف پیش کرتی ہیں۔اس سلسلے میں فاتحہ کا مختصر و جامع تعارف ملاحظ فرمائیے: ’’فاتحہ الکتاب، یہ سب سے پہلی سورت ہے جو پوری سات آیتوں کے ساتھ یکبارگی نازل ہوئی ہے۔ یہ جامع سورت ہے، اس کی آیتوں میں قرآن مجید کے سبھی مقاصد، عقیدہ، تشریح اور قصے ہیں جن کا تذکرہ اختصار کے ساتھ جامع انداز میں بلاغت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی چند آیتوں میں توحید، توکل، مشرکین، گمراہوں اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل نہ کر کے ان کو معطل کرنے والوں کا کافی و شافی بیان ہے‘‘ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تفسیر ہر معنیٰ میں مکمل ہے۔
یہ تفسیر پی ڈی ایف کی صورت میں دو جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کا نیا ایڈیشن تحقیق کے ساتھ آٹھ جلدوں میں قاہرہ سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تین جلدوں میں ہے اور ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی نے اس تفسیر کو اردو جامہ پہنایا ہے۔ موصوف تصنیف و تحقیق کے ماہر ہیں اور درجنوں کتابوں کے اردو تراجم بھی کر چکے ہیں۔ اس تفسیر کے اردو ترجمہ میں مقدمہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ تقریظ کے طور پر مولانا امین عثمانی مرحوم کی تحریر بھی جلد اول میں شامل ہے اور معروف ازہری اسکالر ڈاکٹر عبد الحی فرماوی کے تاثرات بھی تفسیر میں شامل ہیں۔ المنار پبلشنگ ہاوس، نئی دہلی نے ۲۰۲۰ء میں اس کو شائع کیا ہے۔
(مضمون نگارمانو،حیدرآباد سے پی۔ایچ۔ ڈی اسکالر ہیں)
***

زینب الغزالیؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ آپ کی پوری زندگی جہدِ مسلسل اور عزیمت سے پُر تھی۔ انہوں نے مصر میں آزاد پسند اور حقوق نسواں کے علمبرداروں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور مصر میں اسلام کو متبادل طریقہ زندگی کے طور پر پیش کیا تھا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020