تعلیمی میدان میں ایک نوجوان کی انقلابی جدوجہد

25 برس کےسنتوس ایسرام نے پورے گاؤں میںشروع کی تعلیمی تحریک

عبدالرحمٰن پاشا

 

عالمی وبا کورونا وائرس (کووڈ۔19) کے سبب مختلف شعبہ ہائے حیات تو متاثر ہوئے ہی ہیں، نظامِ تعلیم پر اس کا سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے شائع شدہ ایک رپورٹ ’پالیسی بریف: کووڈ۔19 کے دوران اور اس کے بعد تعلیم‘ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی اب تک کی معلوم تاریخ میں کورونا وائرس وبا کی وجہ سے نظام تعلیم میں زبردست خلل پیدا ہوا ہے۔ جس نے 190 سے زیادہ ممالک میں تقریبا 1.6 بلین (ایک سو ساٹھ کروڑ) سیکھنے والوں کو متاثر کیا ہے۔ یہ رپورٹ تو گزشتہ برس اگست ہی میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے تاحال نظام تعلیم مکمل طور پر بحال نہیں ہوا ہے۔ کووڈ۔19 کے ضمن میں نافذ لاک ڈاؤن کا ایک برس مکمل ہوا ہی تھا کہ کورونا کیسوں میں اضافے کے سبب ریاست تلنگانہ میں دوبارہ تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔ تعلیمی اداروں کے بند کیے جانے کے بعد جن متبادل ذرائع جیسے یوٹیوب پر تعلیمی ویڈیوز، آن لائن کلاسیس اور زوم وغیرہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے وہ ہر طالب علم کو میسر نہیں ہیں۔ خاص کر دیہی علاقوں کے طلبہ و طالبات کے لیے حصول تعلیم کا عمل معطل ہو کر رہ گیا ہے۔
امید کی کرن اور عمدہ مثال:
ان حالات میں سنتوش ایسرام نامی نوجوان نے تعلیمی میدان میں ایک بہترین مثال قائم کی ہے۔ سنتوش حیدرآباد کی ممتاز دانش گاہ عثمانیہ یونیورسٹی میں سائبر لا سال دوم کے طالب علم ہیں، جن کی عمر محض 25 برس ہے۔ وہ لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے بعد گزشتہ برس اپریل کے شروع میں حیدرآباد سے تقریبا دو سو کلو میٹر کی دوری پر واقع اپنے آبائی مقام ضلع مولوگو (Mulugu) چلے گئے۔ اس سے قبل وہ اپنے آبائی مقام کے عوام کے مسائل سے واقف تھے۔ یہاں کے رہائشیوں کا تعلق قبائلی خاندن سے ہے جو کہ بنیادی وسائل سے محروم ہیں۔ انہیں بجلی، تعلیم اور یہاں تک کہ مناسب خوراک تک بھی میسر نہیں ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران سنتوش ایسرام نے اپنے چند دوستوں سمیت مقامی این جی او بھیم چلڈرنس کیئر سوسائٹی (Bheem Children Care Society) کے تعاون سے دیہی علاقوں کے افراد میں مفت راشن تقسیم کیا۔ اس دوران انہوں نے مقامی لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ سنتوش نے ہفت روزہ دعوت کے نمائندہ کو بتایا کہ مولوگو اور اطراف ٹاونس کے مرد و خواتین دن بھر کاشت کاری کے لیے کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور ان کے کم عمر و معصوم بچے یا تو اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے یا پھر وہ یوں ہی کھیتوں میں وقت گزار دیتے۔ سنتوش کو ان کی یہ حالت دیکھ کر بار بار خیال آیا کہ کیوں نہ ان بچوں کو تعلیم فراہم کی جائے؟ کیوں نہ تعلیم کے ذریعہ ان کی زندگیوں کو بہتر سے بہتر بنایا جائے؟ ان بچوں کے ہاتھ میں قلم و کتاب آ جائے تو کل وہ قوم و ملک کا قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گے۔ ان ہی میں سے کوئی قوم کا قائد و رہنما بن سکتا ہے تو کوئی سائنس داں و ریاضی داں بن سکتا ہے تو کوئی اپنے ہی گاؤں میں تعلیمی کاز کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ اس طرح کے کئی سوالات کے بارے میں وہ بار بار سوچتے رہے اور اس بارے میں اپنے دوستوں سے مشورہ بھی کرتے رہے۔
بچوں کے لیے باضابطہ تعلیم کا آغاز کیسے ہوا؟
سنتوش نے نمائندہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ راشن کی تقسیم کے دوران وہ سرپرستوں سے کم عمر بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ انہوں نے خود ان بچوں کو روزانہ انڈے اور چاکلیٹس دے کر ان سے قربت حاصل کی اور براہ راست وہ ان سے باتیں بھی کرتے رہے۔ ان بچوں کو جسم ڈھانکنے کے لیے مناسب کپڑے تک میسر نہیں تھے۔ یہاں تک کہ ان کے پیروں میں چپل تک نہیں تھے۔ قبائلی خاندان کے اکثر بچے قلت تغذیہ (Malnutrition) کا شکار تھے۔ اسی بناء پر لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے 150 سے زائد خاندانوں میں مفت راشن تقسیم کیا گیا۔ اپنے فارغ وقت میں وہ ایک رضاکار کی حیثیت سے غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کرتے رہے جو قبائلی بچوں کو تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ اس دوران انہوں نے غیر سرکاری تنظیموں سے رجوع کرنا شروع کیا۔
انہوں نے بھیما چلڈرنس ہیپینیس سنٹر (Bhima Children’s Happiness Center) کے نام سے ایک جھونپڑی میں مقامی بچوں کو جمع کر کے بنیادی تعلیم دینا شروع کی۔ یہ بات رفتہ رفتہ پورے علاقہ میں پھیل گئی۔ کم عمر بچوں کو دوست نما استاد میسر آ جائے تو ان کے سیکھنے کے عمل میں مدد ملتی ہے۔ اسی لیے جنگلات میں واقع قبائلی گاؤں نیلم تھیگو کے معصوم بچے ہنسی خوشی روزانہ پڑھنے کے لیے آنے لگے۔ اس دوران سنتوش روزانہ فی بچے کو ایک انڈا دیتے اور ان کے ساتھ مختلف کھیلوں میں شامل بھی ہوتے۔
بچوں کے چہروں کی خوشی، بیان سے باہر!
پہلے غربت میں زندگی گزار رہے ان بچوں کو اسکول تک میسر نہیں تھا، اب وہ بانس سے بنے آشیانہ میں تلگو، انگریزی اور ریاضی کے بنیادی اسباق سیکھ رہے ہیں۔ جن بچوں کو جسم کو ڈھانکنے کے لیے صحیح سے لباس میسر نہیں تھے، فاصلہ پیمائی کے لیے چپل تک دستیاب نہیں تھی، اب ان کے ہاتھوں میں مستقبل کو سنوارنے کے لیے قلم موجود ہے۔ ان کے چہروں پر خوشی و مسرت کے احساسات عیاں ہیں۔
جب سنتوش نے سرپرستوں کے سامنے ان بچوں کی تعلیم کے بارے میں گفتگو کی تو مقامی لوگوں کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔ لیکن یہ قبائلی لوگ اپنے بچوں کو اپنی نظروں سے دور بھیج کر تعلیم نہیں دلوانا چاہتے تھے چنانچہ اسی لیے سنتوش نے مناسب سمجھا کہ بچوں کو ان کے گھروں کے آس پاس ہی رہ کر تعلیم فراہم کی جائے۔ سنتوش نے ان قبائلی گاؤں کی آبادی کے اطراف ہی گھاس بھوس سے جھوپٹری بنائی اور وہیں بچوں کے لیے بہتر سے بہتر تعلیمی ماحول فراہم کیا۔
سنتوش کا کہنا ہے کہ بچوں کی خوشی دیکھ کر انہیں بھی بے حد خوشی محسوس ہوتی ہے۔ وہ اور ان کے دیگر دوست نریش دوڈاپاکا، شیشندر ریڈی اور گنمنتھا راؤ فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ذریعہ تعلیم عام ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکول طالب علم کی زندگی بدل سکتا ہے۔ اگر شروع ہی سے طلبہ کو بہتر تعلیمی مواقع میسر آئیں تو وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار نبھائیں گے۔
ایک برس کے قلیل عرضہ میں بھیما چلڈرن ہیپی نیس سنٹر کے نام سے صرف ایک طالب کے ذریعہ شروع کی گئی اس تعلیمی تحریک سے اب 150 سے زائد طلبہ جڑ چکے ہیں۔ اس دوران مولوگو اور آس پاس کے علاقوں میں اس طرح کے اسکول نما پانچ تعلیمی مراکز کا قیام عمل میں آیا جن میں دیڑھ سو طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ قبائلی خاندان کے یہ بچے اب کھیتوں میں یا یوں ہی وقت برباد کرنے کے بجائے اب بانس سے بنے آشیانہ میں روزانہ ہنسی خوشی آ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سنتوش نے بتایا کہ ان مراکز میں استاتذہ کے طور پر تدریسی شعبہ میں تجربہ رکھنے والے پانچ نوجوانوں کی خدمات حاصل کی گئی۔ جنہیں مقامی ان جی او کے تحت باضابطہ تنخواہ بھی دی جاتی ہے جو بے حد مطمئن اور بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے جذبہ سے سرشار نظر آتے ہیں۔
کم عمر میں سیکھی ہوئی باتیں زندگی بھر ساتھ دیتی ہیں:
ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک نوخیز بچہ کم عمری میں جو چیزیں سیکھتا ہے، وہ زندگی بھر ساتھ دیتی ہیں۔ کم عمری میں کوئی بھی بچہ بہت جلد سیکھ جاتا ہے۔ کیونکہ عمر کے اس دورانیہ میں سیکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اب جب کہ گزشتہ ایک برس سے ملک بھر میں تعلیمی نظام ٹھپ پڑ چکا ہے اور طلبہ کو تعلیم کی فراہمی کے ضمن میں حکومت بھی ناکام ثابت ہوئی ہے تو ضروری ہے کہ ہم نئی نسل کے نہایت ہی قیمتی وقت کو ضائع کرنے کے بجائے اس طرح کی تعلیمی و فنی مصروفیات میں استعمال کیا جائے تاکہ وہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہنر مند بھی بن سکیں۔ ہم میں سے بہت سے ایسے افراد ہوں گے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جو کسی نہ کسی ہنر سے واقف ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم بھی اپنے سے کم عمر بچوں کو مختلف مضامین کے بنیادی اسباق سے واقف کروائیں۔ سنتوش ایسرام کی تعلیمی میدان میں بے مثال انقلابی جدوجہد ہم سب کے لیے ایک تحریک کا کام کرے گی۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا  10 اپریل 2021