منیرؔ نیازی ۔۔

عبرت سرائے دہر میں احتجاجی لب و لہجہ کا غزل گو شاعر

ابوالحسن علی مفاز، بھٹکلی

 

منیر نیازی 09 اپریل 1928 کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے یادگار چھوڑے جن میں اس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا‘ آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی اور ایک تسلسل کے نام شامل ہیں جبکہ ان کی پنجابی شاعری کے مجموعے چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انہوں متعدد فلموں کے نغمے بھی تحریر کیے جو بے حد مقبول ہوئے۔ منیر نیازی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ لیکن اُن کے یہاں احتجاج کی آواز بہت بلند ہے۔ اِس کے علاوہ اُن کی آواز اپنے ہم عصروں میں سب سے الگ سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے جسے سینکڑوں صداؤں کے درمیان بھی پہچانا جا سکتا ہے، کیونکہ اُن کی لفظیات سب سے جدا ہیں۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور وہاں کئی اخبارات اور ریڈیو اور بعد میں ٹیلیویژن سے وابستہ رہے۔ انہیں بہت جدو جہد بھری زندگی گزارنی پڑی۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔
منیر نیازی سرتا پا شاعر تھے۔ وہ صاحبِ اسلوب تھے، ہزاروں شاعروں کی بھیڑ میں اُن کا کلام پہچانا جا سکتا ہے۔ دراصل ان کی شاعری اور شخصیت میں کوئی فرق نہیں تھا کیونکہ ان کی شاعری جمالیاتی اظہار سے عبارت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے ان کو صرف شاعری کے لیے پیدا کیا تھا۔ اسی لیے وہ بے تکان لکھتے رہے اور آخر وقت تک انہوں نے شاعری کی۔
ان کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا کیونکہ انہوں نے خود کو کبھی بھی حکومتِ وقت کے ساتھ وابستہ نہیں کیا تھا۔ وہ ہمیشہ حزب مخالف کا رول ادا کرتے رہے۔ اِسی لیے غزل میں بھی ان کا لب و لہجہ بلند آہنگ ہو جاتا ہے۔
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے
منیر کے لب ولہجے میں کڑواہٹ ضرور ہے لیکن وہ سب کچھ شعری پیرائے میں بیان کر دیتے ہیں اور کچھ بھی نہیں چھپاتے۔ شاید انہیں چھپانا آتا بھی نہیں۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
اگرچہ انہیں فلمی شاعر کہا جاتا تو وہ برا مان جاتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلموں میں جتنی پائے کی غزلیں ملتی ہیں ان میں بیشتر منیر ہی کی ہیں مثلاً: فلم ’شہید‘ میں نسیم بیگم کا گایا ہوا نغمہ ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ ہو یا ’سسرال‘ فلم کا نور جہاں کا گایا ہوا نغمہ ’’جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا‘‘ یا ’سسرال فلم کا ہی مہدی حسن کا گایا ہوا نغمہ ’’جس نے میرے دل کو درد دیا‘‘ یہ سارا کلام منیر نیازی کا ہی ہے۔
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کے باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اسی طرح ۔۔
آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی
کھل گئے شہر غم کے دروازے
اک ذرا سی ہوا کے چلتے ہی
اور
جس نے میرے دل کو درد دیا اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں
انہیں نا شناسی کا دکھ آخری دم تک رہا:
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خاموشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
ان کی باغیانہ غزلوں میں ایک معروف غزل کے کچھ اشعار:
گھرا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ
چمک زر کی اسے آخر مکان خاک تک لائی
بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہو گی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا۔ ان کی اپنی زندگی یا پھر عمومی طور پر زندگی کی بہترین اور بھر پور عکاسی اس شعر سے ہوتی ہے:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ان کے بارے میں ان کے معاصرین نے لکھا ہے کہ ان میں انتہائی خود پسندی تھی۔ بحیثیت شاعر اگرچہ لوگوں نے ان کی بڑی قدر کی لیکن بحیثیت انسان ہمارے سماج نے ان کو وہ مقام نہیں دیا۔
26 دسمبر 2006 کو اردو اور پنجابی کے صف اول کے شاعر منیر نیازی لاہور میں وفات پا گئے۔ منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا  10 اپریل 2021