ناگفتہ بہ تعلیمی، معاشی اور معاشرتی حالات کے باوجود پناہ گزین کیوں قابل رحم نہیں؟

روہنگیائی پناہ گزینوں کے حالات پر وسیم حسین راتھر کے ساتھ ہفت روزہ دعوت کی خاص بات چیت

ملک میں روہنگیا و دیگر پناہ گزینوں کی حالت کو سمجھنے کے لیے ہفت روزہ دعوت کے صحافی افروز عالم ساحل نے وسیم حسین راتھر سے خاص بات چیت کی۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے وسیم حسین راتھر نے Refugees in India : Study of Socio-economic and demographic conditons of Rohingyas in Jammu  کے عنوان پر ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے اور ان دنوں سیریا کے مہاجرین پناہ گزین پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ پیش ہے اس اہم گفتگو کے کچھ خاص اقتباسات۔

آپ ملک کے روہنگیا مسلمانوں کے حالات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

میں ہندوستان میں رہنے والے تمام روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں تو بات نہیں کر سکتا میری ریسرچ صرف جموں و کشمیر میں رہنے والے روہنگیاؤں پر ہے جن کی آبادی جموں و کشمیر کی وزارت داخلہ کی طرف سے چند سال پہلے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق قریب ۵۷۰۰ اور اقوام متحدہ اعلیٰ کمشنر برائے پناہ گزین (یو این سی ایچ آر) کے مطابق ۷ ہزار ہے۔ یہ جموں کے کچھ باہری علاقوں میں رہتے ہیں۔ وہیں ۵۳ لوگ کشمیر کے ایک علاقے میں ہیں۔

آپ اپنے ریسرچ کے درمیان روہنگیاؤں کے پناہ گزین علاقوں میں بھی گئے ہوں گے وہاں آپ نے کیا دیکھا؟

ریسرچ کے دوران میں ایک علاقے میں گیا تھا، وہاں قریب ۲۰۰ گھر ہیں اور ان ۲۰۰ گھروں کے لیے صرف ایک نل ہے اور اس نل میں چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک گھنٹے کے لیے پانی آتا اور کبھی نہیں بھی آتا تھا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے لیکن میں نے اپنی ریسرچ میں ایسا بالکل نہیں پایا۔ بلکہ مجھے اپنی ریسرچ کے دوران صرف ایک ہی شخص ملا جس کے چار بچے تھے باقی تمام لوگوں کے دو تین بچے ہی تھے۔ ہاں! ان میں ایک مسئلہ ہے کہ یہ اپنے بچوں کی شادیاں بہت جلدی کر دیتے ہیں۔ ان کے یہاں لڑکی کی شادی کی عمر 12 تا 13 سال ہے وہیں لڑکے 15 تا 16 سال کے ہوتے ہی شادی کے لائق سمجھے جانے لگتے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ شرح خواندگی ہے جو ان کے یہاں کافی کم ہے۔ میں نے اپنی ریسرچ میں کوئی گریجویٹ نہیں پایا۔ مجھے بس دو بچے ملے، جن میں سے ایک دسویں درجہ کا طالب علم تھا جبکہ دوسرا بارہویں پاس کر کے اوپن لرننگ کورس میں بی اے کورس کے لیے داخلہ لیا تھا۔ جموں کے پناہ گزین علاقوں کے حالات بد سے بدتر ہیں۔ ایک پناہ گزین ہونے کے ناطے انہیں جو سہولتیں ملنی چاہئیں وہ انہیں نہیں مل رہی ہیں۔ حکومت ہند کے ذریعہ انہیں کوئی سہولتیں فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

جب حکومت انہیں پناہ گزین مانتی ہی نہیں تو پھر کس بنیاد پر انہیں سہولتیں فراہم کرائے گی؟

آپ کی بات درست ہے۔ ہندوستان میں اب تک پناہ گزینوں کے بارے میں کوئی قانون موجود نہیں ہے بلکہ حکومت ہند نے ۱۹۵۱ میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق کنونشن پر دستخط بھی نہیں کیے ہیں۔ ہندوستان نے آزادی کے بعد سے ہی پناہ گزینوں سے متعلق انسانی ہمدردی کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اس وقت بھی ہمارے ملک میں کئی دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے پناہ گزین رہ رہے ہیں حکومت انہیں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرتی ہے بلکہ اب تو ان کو شہریت دینے کے لیے شہریت ترمیمی قانون بھی بنایا گیا ہے۔

حکومت ہند روہنگیاؤں کو غیر قانونی تارکین وطن مانتی ہے؟ اور اس نے پناہ گزینوں سے متعلق کنونشن پر دستخط بھی نہیں کیا ہے تو پھر روہنگیاؤں کو ان کے ملک واپس کیوں نہیں بھیجا جاتا؟

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق کنونشن پر دستخط نہ کرنے کے باوجود ہندوستان نے عام طور پر کبھی کسی پناہ گزین کو وطن واپس نہیں بھیجا ہے چونکہ واپسی کے وقت ظلم و ستم ہونے کا خدشہ ہے اور ان کے مذہب کی بنیاد پر مہاجروں یا پناہ گزینوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا خدشہ رہتا ہے۔ یہ ایک ریکارڈ ہے جو ہندوستان نے صدیوں سے قائم کیا ہے۔ ایسے میں روہنگیاؤں کے مسئلہ پر موجودہ حکومت کے مقاصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہندوستان کو روہنگیاؤں کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ پہلے ہی اپنے ملک میں ’نسل کشی‘ کا شکار ہو چکے ہیں۔ آپ کی بات درست ہے کہ حکومت ہند انہیں غیر قانونی تارکین وطن سمجھتی ہے۔ بلکہ ۱۴ ستمبر ۲۰۱۷ کو ایک حلف نامہ میں حکومت ہند نے سپریم کورٹ کو بھی بتا دیا ہے کہ ہندوستان میں مقیم روہنگیا ہندوستان کی داخلی اور قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں جبکہ ۲۰۱۸ میں سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ روہنگیاؤں کے مسئلے کو قومی مفاد اور انسانی اقدار دونوں نقاط نظر سے دیکھیں۔

ان روہنگیائی باشندوں کے یہاں رہنے کے لیے کوئی قانونی بنیاد تو نہیں ہے؟

بھلے ہی ہندوستان میں پناہ گزینوں کے متعلق کوئی قانون نہ ہے اور بھلے ہی حکومت ہند نے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق کنونشن پر دستخط بھی نہیں کیا ہو لیکن عدم تردید کو روایتی بین الاقوامی قانون کا ایک اصول سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ہندوستان اس کا پابند ہے۔ Principle of non-refoulement کے تحت اس کنونشن کو دنیا کے تمام ممالک مانتے ہیں ہندوستان کو بھی ماننا چاہیے، ساتھ ہی ہمیں اپنے ملک کے آئین کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ہمیں اپنے آئین کے آرٹیکل ۱۴ اور آرٹیکل ۲۱ کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی آئین کے آرٹیکل ۵۱ اے اور آرٹیکل ۵۱ سی کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بین الاقوامی امن و سلامتی کو فروغ دیا جائے اور آرٹیکل ۵۱ سی میں بین الاقوامی قانون اور معاہدے کی ذمہ داریوں کے احترام کو فروغ دینے کی بات کہی گئی ہے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسی ملک میں سری لنکا سے آئے ہوئے تمل بھی رہتے ہیں، تبتی بھی رہتے ہیں اور افغان و نائجیریا سے آئے ہوئے پناہ گزین بھی رہتے ہیں۔ کچھ ملکوں سے آئے پناہ گزینوں کو شہریت بھی دی جا چکی ہے اور کچھ کو شہریت دینے کی بات بھی ہو رہی ہے جس کے لیے ملک میں شہریت ترمیمی قانون نافذ کیا گیا ہے۔ اگر تبتی پناہ گزین کئی دہائیوں تک ہندوستان میں رہ سکتے ہیں، تمل پناہ گزین جو ایک وزیر اعظم کے قتل کے ذمہ دار ہیں، وہ ہندوستان میں رہ سکتے ہیں، پاکستان کے ہندو یہاں شہریت حاصل کر سکتے ہیں اور دیگر منتخب مہاجر گروپ برسوں تک ہندوستان میں رہ سکتے ہیں تو روہنگیا پناہ گزین ہندوستان میں کیوں نہیں رہ سکتے؟ جبکہ زیادہ تر روہنگیاؤں کے پاس اقوام متحدہ اعلیٰ کمشنر برائے پناہ گزین یعنی یو این سی ایچ آر کے ذریعہ جاری کردہ سرٹیفیکٹ اور کارڈس موجود ہیں جن میں صاف طور پر لکھا ہے کہ جب تک ان کے ملک میں حالات بہتر نہیں ہو جاتے، تب انہیں واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔

تو کیا آپ نے روہنگیاؤں کے علاوہ بھی دیگر ملکوں کے پناہ گزین پر کچھ ریسرچ کیا ہے؟ ان کے ساتھ حکومت کا کیا رویہ ہے؟

جی! میرے ریسرچ میں ایک چیپٹر اس پر بھی ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تبت، تمل یا افریقہ جیسے ملکوں سے آئے ہوئے پناہ گزینوں کے تئیں حکومت ہند کا رویہ اتنا خراب نہیں ہے جبکہ روہنگیاؤں کے تئیں ان کا رویہ بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ ہندوستان کے عوام کی بھی یہی حالت ہے۔ حالانکہ پہلے عوام کا ایسا رویہ نہیں تھا پہلے ان روہنگیاؤں کے یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ بہتر تعلقات تھے مگر گزشتہ کچھ دنوں میں پورے ملک میں روہنگیا مسلمانوں کی پریشانیاں مزید بڑھی ہیں حالات بگڑ چکے ہیں۔ جموں میں ایک خاص آئیڈیالوجی سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں نے ان روہنگیاؤں کے خلاف ایک تحریک چلا کر ماحول بنایا کہ یہ روہنگیائی پناہ گزین اس ملک کے لیے خطرہ ہیں اور ان کے ساتھ نہ صرف مار پیٹ کی گئی بلکہ ان کے گھروں کو بھی جلا دیا گیا۔