تریپورہ میں دلی فسادات کا اعادہ کیا گیا

پولیس کی موجود گی میں مسلمانوں کی دکانات جلائی گئیں

مسیح الزماں انصاری

سب کچھ جلنے کے بعد دفعہ 144نافذاور حالات کنٹرول میں رہنے کا دعویٰ
زبردست تباہی مچنے کے بعد تریپورہ پولیس نے ہندتوا گروپوں کی جانب سے لوٹ مار اور فساد روکنے کے لیے سی آر پی سی کی دفعہ 144 کو نافذ کیا ہے۔ زائد از ایک ہفتے سے تریپورہ پولیس حصار کی اوٹ سے لوٹ مار اور آگ زنی کا مشاہدہ کرتی رہی۔ مساجد، درگاہیں ، املاک اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ یہ حملے بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے موقع پر اقلیتوں پر تشدد کے بہانے سے کیے گئے۔ پولیس نے اب شمالی تریپورہ میں دفعہ 144نافذ کیا ہے جس کے تحت کسی ایک جگہ چار سے زائد افراد جمع نہیں ہوسکتے۔ تشدد نے 26اکتوبر کو اس وقت زور پکڑا جب وشوہندو پریشد، آر ایس ایس اور بی جے پی نے ایک ریلی نکالی، اشرار نے توڑپھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی نیز مسلمانوں کی دکانات ومکانات کو نذر آتش کیا۔ عامر حسین، عامل الدین، نظام الدین، سنوفر، یوسف علی، جمال الدین، محمد علی اور سلطان حسین کی 8 دکانیں جلادی گئیں۔
عامر الکٹرک کے سامان کی ایک دکان چلاتے تھے ، جنہیں تقریباً 12لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ عامل الدین کی ایک راشن کی دکان تھی انہیں 17لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ نظام الدین کاسمیٹکس اور موبائل فون کے سامان کا کاروبار کرتے ہیں جنہیں 10لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سنوفر اور سنوہر کپڑے ، جوتے اور اسکول بیگس بیچا کرتے تھے جنہیں 15لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ یوسف علی کی ایک راشن کی دکان تھی جنہیں15لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ جمال الدین کی ایک فوٹو کاپی شاپ تھی، فسادیوں نے مشین، کمپیوٹر اور پرنٹر کو نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے انہیں تقریباً سات لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اسی طرح کپڑوں، جوتوں اور کاسمیٹکس کے تاجر محمد علی کو 5لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ایک اور تاجر سلطان حسین کو تین لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
تریپورہ کے چیف منسٹر بپلب کمار دیب کے سکریٹری پرشانت گوئل نے بتایا ’’حکومت نے اپنے طور پر نوٹس لیا ہے بعض لوگوں کی شناخت کرلی گئی ہے پولیس اس معاملے کو سرگرمی سے دیکھ رہی ہے۔ سیکوریٹی بڑھادی گئی ہے تاکہ مزید کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آئے‘‘ تاہم متاثرین کا الزام ہے کہ دکانات کو پولیس کی موجودگی میں نقصان پہنچایا گیا اور نذر آتش کیا گیا ہے۔
روا پانی ساگر سے بی بی جے پی رکن اسمبلی بینائے بھوشن داس نے بتایا کہ وشو ہندو پریشد کے کارکن جو ریلی کا حصہ تھے فساد میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا ’’ملزمین کی شناخت کا پتہ چلایا جارہا ہے انہیں بہت جلد گرفتار کیا جائے گا‘‘۔ روا پانی ساگر پولیس اسٹیشن کے اے ایس آئی ادئے رام نے بتایا کہ مسلمانوں کی دکانوں کو اُن لوگوں نے جلایا جو ریلی کا حصہ تھے اس تعلق سے ایک کیس درج کرلیا گیا ہے اور ملزمین کی شناخت کی جارہی ہے۔ ہم بہت جل د ملزمین کو گرفتار کرلیں گے۔ دکانوں کے مالکین نے جن کے کاروبار کو مبینہ طور پر وی ایچ پی کے کارکنوں نے نذر آتش کیا ہے ’انڈیا ٹومارو‘ کو بتایا کہ ہجوم روا پانی ساگر میں جامع مسجد پر حملہ کرنے کے لیے پوری تیاری سے آیا تھا۔ وہ اپنے ساتھ پٹرول کی ایک کین ، جے سی بی اور دیگر مٹیریل لائے تھے۔ مسلمان ، دکاندار اپنی دکانیں چھوڑ کر مسجد کی طرف بھاگے۔ ہر کوئی مسجد کے تحفظ کے لیے دیوار بن کر کھڑا رہا۔ جس کے فوری بعد فسادیوں نے اپنا منصوبہ تبدیل کیا اور 8دکانوں کو نذر آتش کردیا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ وشو ہندو پریشد کی یہ ریلی تقریباً 4 بجے روا پانی ساگر پہنچی۔ ان لوگوں نے ہمارے رسولؐ پر دشنام طرازی کی ۔وہ اہانت آمیز نعرے لگارہے تھے۔ دکانوں کا جلایا جانا برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن ہم اپنے رسولؐ کی توہین برداشت نہیں کرسکتے۔ متاثرین میں سے ایک جلال الدین نے یہ بات کہی ۔ عامل الدین اور سنوفر نے جن کی دکانوں کو نذر آتش کیا گیا، بتایا کہ پولیس نے فساد کو روکنے کی کوئی کارروائی نہیں کی۔ فسادیوں نے پورے ڈھٹائی کے ساتھ تشدد برپا کیا ۔اطلاعات میں بتایا گیا کہ تریپورہ کے 5 اضلاع میں ایک درجن سے زائد مساجد کو نقصان پہنچایا گیا۔ قرآن پاک کے ایک ادھ جلے نسخے کی تصویر وائرل ہوئی ہے ۔
حیرت انگیز طور پر کسی نے اس واقعہ کی مذمت نہیں کی حتیٰ کہ چیف منسٹر نے بھی مکمل خاموشی اختیار کی۔ متاثرین کے مطابق ان تمام ہی دکانوں کو پولیس کی موجودگی میں جلایا گیا۔ جب متاثرین نے پولیس سے فسادیوں کو روکنے کی اپیل کی تو انہوں نے بے بسی ظاہر کی ۔ بعد ازاں ایس ڈی پی دھرما نگر نے مسلمانوں کو تیقن دیا کہ پولیس مساجد کا تحفظ کرے گی۔ تریپورہ پولیس نے بھی ٹویٹ کیا کہ صورتحال کنٹرول میں ہے اور دفعہ 144 نافذ کیا گیا ہے۔ قبل ازیں لوگوں نے ٹوئٹر پر تریپورہ پولیس سے رجوع ہونے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ متعدد متاثرین نے کہا ہے کہ پولیس فساد کے مقام پر دیرسے پہنچی ۔
تریپورہ کا فساد ، دلی کے حالیہ فساد کی یاد دلاتا ہے۔ دونوں شہروں میں مسلمانوں پر منظم حملے کیے گئے۔ پولیس انتظامیہ، اور حکمراں پارٹی اس تباہی کے لیے مساوی طور پر ذمہ دار ہیں۔
(صحافی مسیح الزماں انصاری نیوز پورٹل ’انڈیا ٹو مارو‘ سے وابستہ ہیں)
***

 

***

 ’’ان لوگوں نے ہمارے رسولؐ پر دشنام طرازی کی ۔وہ اہانت آمیز نعرے لگارہے تھے۔ دکانوں کا جلایا جانا برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن ہم اپنے رسولؐ کی توہین برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔متاثرہ تاجر جلال الدین کا تاثر


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  7 نومبر تا 13 نومبر 2021