مسجدآیاصوفیہ : استنبول کا دل اور ترکی کی آن، بان اور شان

عظیم مذہبی، تاریخی اور ثقافتی ورثے کا دیدار۔ چند مشاہداتی تاثرات

افروز عالم ساحل

اگر استنبول دنیا کا دل ہے تو میری نظر میں استنبول کا دل یقیناً ’آیا صوفیہ‘ ہوگا۔ یہ عمارت صرف تاریخی اور مذہبی اعتبار سے ہی نہیں، بلکہ تعمیری و تہذیبی اعتبار سے بھی ایک نایاب عجوبہ ہے۔ یہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں، تہذیبوں اور مذہبوں کے تصادم کی داستان ہے۔ اس داستان کی شروعات سنہ 360 سے ہوئی، جب کونسٹنٹائن کے بیٹے کونسٹینٹیئس دوئم نے اسے کھولا، لیکن سنہ 404 میں فسادات کے دوران اسے جلا دیا گیا۔ تھیوڈوسیس دوئم نے سنہ 405 میں دوبارہ اس کی تعمیر کی، لیکن سنہ 532 میں پھر سے اسے نذرِ آتش کر دیا گیا۔ (اس وقت کے کچھ نشانات اب بھی موجودہ مسجد کے باغ میں موجود ہیں۔) کچھ ہی دنوں بعد شہنشاہ جسٹینیئن نے اسے دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا، اب جس ’آیا صوفیہ‘ کتھیڈرل چرچ کی تعمیر ہوئی وہ اگلے کئی سو برسوں تک دنیا کے سب سے بڑے چرچ کے طور پر شمار ہوتا رہا۔ اس طرح سے یہ سلطنتِ روم کی طاقت اور مزاحمت کا واضح اعلان و علامت بن گیا۔ مسیحی طاقت و مزاحمت کی یہ علامت اب ایک مسجد ہے۔ اس کے باوجود دنیا بھر کے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے اس کے دیدار کو ترستے ہیں۔

میں آج دوسری بار اس کے دیدار کے لیے استنبول میں حاضر ہوں۔ نومبر 2018 میں جب میں پہلی بار اس کے دیدار کو آیا تھا تب معلومات کی کمی کی وجہ سے اس تاریخی عمارت کو صرف باہر سے دیکھنا ہی نصیب ہو سکا تھا، کیونکہ سارا وقت اس کے قریب ہی مقیم ’توپ کاپی میوزیم‘ دیکھنے میں ختم ہوگیا، اور جب اس ’آیا صوفیہ‘ کے دروازے پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ کافی دیر ہو چکی ہےاوراب اندر داخل ہوتے ہی اس کے بند ہونے کا وقت ہوجائے گا۔ تب یہ میوزیم تھا اور مجھے یاد ہے کہ یہ شام 5 بجے بند ہو جایا کرتا تھا۔ ہم نے سوچا کہ کل اسے صبح آکر دیکھ لیں گے لیکن موسم نے ایسی بے رخی برتی کہ وہ ’صبح‘ نہیں آئی اور ہم اپنے وطن ہندوستان واپس لوٹ گئے۔

اس بار جب پھر سے اس شہر آنے کا ارادہ ہوا تو میرا پہلا ہدف ’آیا صوفیہ‘ دیکھنا ہی تھا۔ اسے دیکھنے کی خواہش دل میں مزید پروان چڑھنے لگی تھی، کیونکہ اب یہ میوزیم نہیں بلکہ مسجد ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سال 2018 کے آخر میں ’آیا صوفیہ‘ کے اندر جانے کے لیے سو لیرا کا ٹکٹ لینا پڑتا تھا۔ لیکن اب اس کے لیے کوئی ٹکٹ نہیں ہے۔ بس نماز کے وقت غیر مسلموں کو نماز پڑھنے کے لیے بنے احاطے میں جانے کے لیے منع کیا جاتا ہے۔ باقی وقتوں میں آپ مسجد کے ہر کونے میں بلا روک ٹوک آسانی سے گھوم پھر سکتے ہیں۔

اس بار آیا صوفیہ کو دیکھنے کی تمنا دل میں لیے صبح دس بجے ہی گھر سے نکل گئے۔ جھماجھم ہورہی بارش بھی مجھے روک نہیں سکی۔ راستہ بھر یہی سوچتا رہا کہ بارش میں تھوڑا سا بھیگ گیا تو کیا ہوا، وہاں آج موسم کی وجہ سے یقیناً بھیڑ کم ہوگی، لیکن اس کے برعکس جب ہم وہاں پہنچے تو منظر ہی الگ تھا، دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ دروازے پر اب ’مسجد ایاصوفیہ الکبیر‘ لکھا ہوا ہے۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی احاطے میں بڑا خوبصورت سا وضو خانہ بنا ہوا ہے۔ یہ وضوخانہ بھی تاریخی ہے۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ اسے سلطان محمود نے سنہ 1740 میں بنوایا تھا۔ اس کے صحن میں لگا سنگ مرمر کا آٹھ کالم والا حوض عثمانی کلاسیکی آرٹ کی عکاسی کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنا پرانا ہونے کے باوجود وہ اب بھی چمک رہا تھا۔

جیسے ہی اس سے آگے بڑھ کر عمارت کے صدر دروازے سے داخل ہوتے ہیں تو اندر کا منظر دل کو چھو لیتا ہے۔ ہر طرف لوگوں کا ہجوم ہے جو مختلف زبانوں میں آیا صوفیہ کی طرح طرح کی تاریخ اپنے زاویہ نظر اور عقیدوں کی روشنی میں اپنے ساتھیوں کو سنا رہا ہے۔ پہلی بار مجھے کوئی ہجوم اچھا لگ رہا تھا، کیونکہ اس ہجوم میں کوئی بے چینی نہیں تھی کوئی شور و غل نہیں تھا یا یوں کہیے کہ شور وغل کو اس عمارت میں جذب کر لینے کی ایک عجیب سی طاقت ہے۔ اس ہجوم میں میں کوشش کر رہا تھا کہ کوئی مل جائے جو اردو یا ہندی بولتا ہو، میرے ملک کا ہو، میرا ہم وطن ہو۔ لیکن میں اسے ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

بلند دروازوں سے داخل ہوتے ہی ٹھیک اوپر موزیک پینل (Mosaic Panel) بنے ہوئے ہیں۔ یہ دسویں صدی کے ہیں۔ اس میں دائیں طرف، شہنشاہ قسطنطائن — قسطنطنیہ کا بانی، ہاتھ میں شہر کا ایک ماڈل تھامے ہوئے کھڑا ہے، وہیں بائیں طرف شہنشاہ جسٹینیئن آیا صوفیہ کا ایک ماڈل پکڑے ہوئے ہے، ان دونوں کے درمیان میں ایک بچے کے ساتھ حضرت مریم کی طرف منسوب ایک ماڈل ہے۔

اب ہم قریب سات میٹر اونچے دروازے سے مسجد کے اندر داخل ہوئے تھے۔ یہ آیا صوفیہ کے دروازوں میں سب سے شاندار دروازہ ہے۔ اس دروازے کے بارے میں آیا صوفیہ کی ویب سائٹ پر لکھا ہوا ہے، ’خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ’شہنشاہی دروازہ‘ حضرت نوح کی کشتی کی لکڑی سے بنا ہوا ہے۔‘ اندر کے دلکش منظر نے میرے دل و دماغ پر ایسا جادو کیا کہ میں اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایک پل کے لیے محسوس ہوا کہ میں خوابوں کی دنیا میں پہنچ گیا ہوں، اور اس دنیا میں آنے کے لیے پورے تین سال کا انتظار کیا ہے۔ اس فلک بوس عمارت کی چھت سے لٹکتے بڑے بڑے فانوس اور اس کی جگمگاتی روشنی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہی تھی۔ ہر کوئی اس خوبصورتی کو اپنے کیمرے میں قید کر لینے کی جلدی بازی میں نظر آرہا تھا۔ نہ جانے کتنے لوگوں کی تصویریں ان کی فرمائش پر میں نے خود کھینچی ہوں گی۔

میری نظر گنبد کی اونچائی پر جاتی ہے اور دیوار کے نقش و نگار سے الجھتی ہوئی واپس فرش پر آجاتی ہے۔ فرش پر بے حد خوبصورت و مخملی فیروزی سے ملتے جلتے رنگ کا بے حد شاندار قسم کا قالین بچھا ہوا تھا، جس پر چلنے کا ایک الگ ہی احساس تھا۔ مسجد کے دیواروں پر آٹھ ’خطاطی راؤنڈلز‘ لگے ہوئے ہیں۔ لکڑی کے ان بڑے بڑے تختوں پر اللہ، محمد، چاروں خلفا راشدین اور پیغمبر محمد ﷺ کے نواسے حسن و حسین کے نام درج ہیں۔ اسے یہاں سلطان عبدالمجید کے دور حکومت میں رکھا گیا تھا۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ جب مسجد کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا تو انہیں ہٹانے کا ارادہ کیا گیا تھا لیکن سائز میں یہ اتنے بڑے تھے کہ وہ دروازوں سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔

اسی احاطے میں گنبد کے ٹھیک نیچے جنوب مشرقی حصے کے عین وسط میں ایک جگہ کو لال رسی سے گھیرا گیا ہے تاکہ کوئی اس کے اندر داخل نہ ہو سکے۔ گھیرے ہوئے اس احاطے میں 32 مختلف سائز کے ماربلز لگے ہوئے ہیں۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ جگہ Omphalion کہلاتی ہے۔ اس جگہ کا استعمال بازنطینی شہنشاہوں کی تاج پوشی کے لیے ہوا کرتا تھا۔ یہیں ایک کونے میں لکڑی کی ایک خوبصورت سی ریک پر دنیا کی مختلف زبانوں میں کچھ اسلامی کتابیں رکھی ہوئی ہیں، جسے کوئی بھی لے کر نہ صرف پڑھ سکتا ہے، بلکہ اپنے ساتھ لے جا بھی سکتا ہے۔

کتابوں سے یاد آیا کہ یہاں آنے سے پہلے میری پہلی خواہش تھی کہ میں آیا صوفیہ کے اس شاندار کتب خانہ کو دیکھوں، جس کا تذکرہ اسلامی تاریخ کی کتابوں میں خوب ملتا ہے۔ مسجد کے جنوبی کونے میں سلطان محمود (اول) کی لائبریری ہے، جسے سنہ 1739 میں قائم کیا گیا تھا جو اس وقت شیشے میں محفوظ ہے اور اس کے باہر سنہری جالیاں لگی ہوئی ہیں۔ باہر سے الگ الگ ریحل پر نایاب کتابیں اور قرآن کے نایاب نسخے رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی اس کے اندر ہزاروں کی تعداد میں کتابیں ہوا کرتی تھیں، جو اب بھی سلیمانی لائبریری میں موجود ہیں۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ آیا صوفیہ لائبریری کی ان اہم کتابوں کو 1968 میں ہی منتقل کر دیا گیا تھا۔ انشاء اللہ کسی دن سلیمانی لائبریری جانے کی کوشش کروں گا اور اس کے تجربے کو بھی آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا۔

دوسری خواہش آیا صوفیہ کے اس مدرسے کو دیکھنے کی تھی جس کے بارے میں ایک تاریخ کی کتاب میں پڑھا تھا لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ آج وہی مدارس سمانیئے (سہنِ سیمان) اب ترکی میں پہلا مقام رکھنے والا ’استبول یونیورسٹی‘ ہے۔ بتادیں کہ اس مدرسہ کی بنیاد 1453 میں عثمانی سلطان محمد دوم کی فتح استنبول کے بعد رکھی گئی تھی۔ یہی مدرسہ 13 جنوری 1863 کو ’استبول یونیورسٹی‘ بن چکا تھا۔ افسوس کہ مدرسے کی عمارت آج باقی نہیں رہی۔ کہا جاتا ہے کہ جدید ترکی کے جمہوری دور میں مدرسے کی اس عمارت کو منہدم کر دیا گیا۔

تیسری خواہش اس سکے کو حاصل کرنا تھا، جسے گزشتہ دنوں جاری کیا گیا ہے۔ ترکی کے وزارتِ خزانہ سے منسلک کرنسی چھاپنے والے ادارے کی جانب سے جاری کردہ اعلان کے مطابق ایک لیرا کے سکوں کے عقبی جانب مسجد آیا صوفیہ کی تصویر کو جگہ دی گئی ہے۔ یہ یادگاری سکہ چاندی اور کانسہ سے تیار کیا گیا ہے۔ چاندی کے سکے کی قیمت 185 ترک لیرا جبکہ کانسی کے سکے کی قیمت 55 ترک لیرا مقرر کی گئی ہے۔ اس کے بارے میں ترکی کے وزیر خزانہ بیرات البائراک کا بیان تھا کہ اس خصوصی سکے کے ساتھ آیا صوفیہ مسجد میں عبادت کے آغاز کو تاریخ کے صفحات میں قلم بند کیا جائے گا۔ مگر افسوس کہ میں سکہ حاصل نہیں کر سکا۔ اگلی دفعہ جب وہاں دوبارہ جاؤں گا، تو انشا اللہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کروں گا کیونکہ مجھے پرانے اور مختلف ممالک اور مختلف طرز کے سکّے جمع کرنے کا شوق ہے۔ تقریباً چالیس ممالک کے پرانے سکّے میرے خزانے میں موجود ہیں۔ وہیں ہندوستان کے پرانے سکوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔

میری چوتھی خواہش آیا صوفیہ کی بلی Gli سے ملنے کی تھی جو یہاں کی مشہور بلی ہے۔ جی وہی سبز آنکھوں والی بلی جس کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اس وقت 120 ہزار سے زائد فالوورس ہیں۔ لیکن افسوس کہ کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ اب Gli اس دنیا میں نہیں رہی۔ ستمبر 2020 میں وہ بیمار ہوئی، اسے علاج کے لیے ویٹرنری کلینک منتقل کیا گیا لیکن نومبر میں وہ مر گئی۔ گزشتہ سولہ سالوں تک آیا صوفیہ ہی اس بلی کا گھر تھا۔ دنیا کے تمام زائرین اسے یہاں دیکھنا اور اس کے ساتھ تصاویر کھنچھوانا پسند کرتے تھے۔

ابھی اس بلی کے خیالوں میں کھویا ہی تھا کہ یہاں موجود گارڈس نے آواز لگائی کہ اب سے کچھ دیر میں نماز ہوگی، جن کو نماز ادا نہیں کرنی ہے وہ باہر چلے جائیں۔ حالانکہ ابھی ظہر کی نماز میں کافی وقت تھا لیکن میرے ساتھ گئے عمر اور عثمان نے بتایا کہ ہمیں جلدی سے وضو کرکے آ جانا چاہیے ورنہ اندر جگہ ملنی مشکل ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب پورے 86 برس بعد یہاں جمعہ کی نماز کا اعلان کیا گیا تو یہاں لوگوں کا ہجوم دیکھنے کے لائق تھا۔ لوگ فجر سے ہی یہاں پہنچنے لگے تھے۔ اس ہجوم کی وجہ سے اس علاقے کی ٹرام سروس عارضی طور پر معطل کر دی گئی تھی۔ لوگوں نے سڑکوں اور ٹرام کی پٹریوں پر نمازیں ادا کیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار وہ ساڑھے تین بجے شب ہی یہاں پہنچ گئے تھے اس کے باوجود انہیں نماز پڑھنے کے لیے اندر جگہ نہیں ملی۔ یہاں تک کی خواتین والا احاطہ بھی عورتوں سے پوری طرح بھرا ہوا تھا۔

اتنا سننا تھا کہ ہم WC یعنی بیت الخلاء کی طرف بھاگے، اس کے لیے ایک لیرا دینا ہوتا ہے۔ بیت الخلا میں وضو کرنے کے لیے گرم پانی بھی ہوتا ہے۔ اور صفائی کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ ہر وقت یہاں صفائی کرنے کے لیے اسٹاف مستعد رہتا ہے۔

اب وضو کے بعد ایک بار پھر ہم مسجد کے اندر تھے۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ ہمیں امام کے پیچھے والی دوسری صف میں ہی جگہ مل گئی۔ اتنے میں امام صاحب نے درس دینا شروع کیا، لیکن یہ درس ترکی زبان میں تھا۔ لوگ درس کے درمیان بھی تصویر لینے اور ویڈیو بنانے میں لگے ہوئے تھے اور کوئی انہیں منع کرنے والا نہیں تھا۔ شاید ہمارے وطن میں انہیں نہ جانے کتنے بزرگ ڈانٹ چکے ہوتے۔ ابھی انہی باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بزرگ پیچھے سے آئے اور بالکل آگے جاکر فیس بک لائیو کرنے میں مصروف ہو گئے۔ اچانک کچھ سوچ کر میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی کہ چچا! ہمارے شہر کی مسجد میں یہ حرکت کرتے تو لوگ کب کا ان کو باہر کا راستہ دکھا چکے ہوتے۔

نماز ختم ہوچکی تھی۔ ایک بار پھر سے باہر انتظار کر رہے لوگ مسجد میں پوری طرح سے داخل ہو چکے تھے۔ میرے ساتھ موجود عمر اور عثمان کا مشورہ تھا کہ اب ہمیں باہر چلنا چاہیے۔ اب ہم مسجد کے احاطے سے باہر تھے۔ باہر ابھی بھی بارش ہورہی تھی۔ میں باہر دیوار پر لگے بورڈوں کو پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔ یہاں باہر موزیک یعنی سلطان کی دستخط والا طغرا موجود تھا جسے ایک مشہور اٹالین آرٹسٹ لانجونی نے سلطان عبدالمجید کو تحفے میں دیا تھا۔ یہیں ایک بورڈ پر آیا صوفیہ کی پوری تاریخ لکھی ہوئی ہے، ساتھ ہی اس حکم کی ایک کاپی بھی فریم میں لگائی گئی ہے جس کے بعد آیا صوفیہ کو میوزیم سے دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے۔

بتادیں کہ 29 مئی 1453 کو سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تو اس عمارت کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ اس دور میں چرچ ہی حکومت کیا کرتے تھے، ہر طرح کے سیاسی و عسکری فیصلے لینے کا اختیار چرچ کے پاس ہی ہوتا تھا۔ اس دور میں آیا صوفیہ ہی سیاسی و عسکری فیصلوں کا مرکز تھا۔ اس بنا پر سلطان فاتح کے پاس اس کو اپنے قبضے میں لینا ہی واحد حل تھا۔ حالانکہ ہمیں اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ استنبول کے باقی چرچ کو برقرار رکھا گیا۔ وہ نہ صرف عیسائیوں کے عبادت کے لیے استعمال ہوتے رہے بلکہ ان چرچ کے ذمہ داروں کے وظیفے بھی سلطان فاتح ہی دیتے رہے۔ اب بھی اس شہر میں متعدد چرچ موجود ہیں۔ کبھی ان چرچ کی داستانوں سے بھی آپ سب کو روبرو کراؤں گا۔

آیا صوفیہ سنہ 1453 سے مسجد کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ لیکن سنہ 1931 میں مصطفٰی کمال اتاترک نے اس تاریخی مسجد کو بند کر دیا، اور چار سال کے بعد 1935 میں اسے دوبارہ ایک میوزیم کے طور پر کھولا گیا۔ لیکن ایک بار پھر سے جولائی 2020 میں ترکی کی سب سے اعلیٰ انتظامی عدالت، کونسل آف اسٹیٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی اب یہ مسجد بن چکی ہے۔ اس پر پوری دنیا میں سوال اٹھائے گئے اور کہا گیا کہ آیا صوفیہ میں موجود پرانی شبیہوں کا کیا ہو گا؟ تب ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے میڈیا کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ گزشتہ 500 برسوں کی طرح اب بھی ان کا تحفظ کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ سب ثقافتی ورثے کا اثاثہ ہیں۔ یہ شبیہیں جو حضرت عیسی اور حضرت مریم علیہم السلام اور عیسائی حواریوں سے تعلق رکھتی ہیں ان کو چھوا تک نہیں جائے گا۔ ان کی اصلی ماہیت برقرار ر ہے گی۔ دیگر سیاح اس سے پہلے کی طرح اب بھی اس عظیم معماری ورثے کی زیارت کر سکیں گے۔

یہاں آکر معلوم ہوا کہ ترکی کی حکومت اپنے وعدے پر قائم ہے، چرچ کی کسی بھی نشانی کو ختم نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اسے ہر طرح سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس عظیم ورثے کی زیارت کرنے والوں کی تعداد دن بہ دن مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس طرح 916 سال تک ایک چرچ، 482 سال تک ایک مسجد، بہت تھوڑے سے عرصے کے لیے میوزیم اور اب ایک مرتبہ پھر مسجد بننے والی آیا صو فیہ کی عمارت اب بھی پوری مضبوطی اور شان سے کھڑی ہے۔

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  7 نومبر تا 13 نومبر 2021