چین کی مدد سے قضیہ فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت

صیہونی جبر کے خلاف ہر در پردستک دی جائے۔ عرب۔چین میل جول پر زور

افروز عالم ساحل

صیہونی دن رات کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے اندھا کر دیا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ چین کی تمام پالیسیاں سفید فام تعصب پر مبنی ہیں۔ یقیناً کچھ مسائل ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں کچھ بھی مثبت نہیں ہے۔ ہمیں فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے دنیا کے تمام ممالک سے ہر ممکن تعاون حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

یہ بات ’القدس انٹرنیشنل فاؤنڈیشن‘ کے صدر شیخ حمید بن عبداللہ الاحمر نے ترکی کے شہر استنبول میں ایک کانفرنس میں کہی۔ وہ 30؍ اکتوبر کو استنبول کے گوریئن ہوٹل میں ’چین اور فلسطین کاز‘ پر منعقدہ پہلی بین الاقوامی کانفرنس کے مقررین میں سے ایک تھے۔

اس کانفرنس میں پہلی بار کئی ممالک خاص طور پر ترکی، فلسطین اور چین کے متعدد ماہرین تعلیم چین اور فلسطین کے تعلقات کے ساتھ ساتھ فلسطین اسرائیل تنازع میں دنیا کے تمام ملک کے کردار اور اثرات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔

کانفرنس کا انعقاد استنبول میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم ’ایشیا مڈل ایسٹ فورم‘ نے کیا تھا۔ یہ تنظیم 2016 سے مشرقی و ایشیائی ممالک میں مشرق وسطیٰ کے درمیان مواصلات، مکالمے اور جمہوریت کی اقدار کو مستحکم کرنے کی کوشش کے لیے کام کر رہی ہے۔

شیخ حمید بن عبداللہ الاحمر نے اس موقع سے یاد دلایا کہ چین نے 1955 میں بانڈونگ کانفرنس میں فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کی حمایت کا وعدہ کیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا دروازہ نہیں چھوڑنا چاہیے جو صیہونی طاقت کے خلاف فلسطینی کاز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے نہ کھٹکھٹایا نہ گیا ہو۔

انہوں نے چین اور عالم اسلام کے درمیان تعلقات میں مثبت سرمایہ کاری پر زور دیا اور کہا کہ اس کانفرنس کے بعد پروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے گا جس کا مقصد چین کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانا ہوگا۔ واضح رہے کہ الاحمر یمن کے سابق سیاستدان ہیں اور وہاں رکن پارلیمنٹ بھی رہ چکے ہیں۔

شنگھائی یونیورسٹی فار انٹرنیشنل اسٹڈیز میں انسٹی ٹیوٹ آف مڈل ایسٹرن اسٹڈیز کے پروفیسر ڈنگ لونگ نے کہا کہ چین کے لوگ اپنی ثقافت سے بہت قریب ہیں، جس میں عربوں کی ثقافت سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ چینی عوام امتیازی سلوک کو پسند نہیں کرتے۔ وہ ایک قوم کی دوسرے پر بالادستی پر یقین نہیں رکھتے۔ فلسطین اور چین دونوں ثقافتوں و لوگوں کے درمیان بات چیت فلسطینی کاز کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔

ان کا خیال ہے کہ فلسطین مسئلہ پر چین کا مؤقف متاثر نہیں ہوا ہے اور وہ عرب ممالک اور اسرائیل کے ہاتھوں معمول پر آنے کی لہروں کے باوجود فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کرتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ مشرق وسطیٰ میں امن کے عمل میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

وہیں دی چائنیز فارن افیئرس یونیورسٹی میں سنٹر فار مڈل ایسٹرن اسٹڈیز کے ڈائریکٹر پروفیسر گاؤ شانگتاو نے کہا کہ اس وقت ’فلسطین۔اسرائیل امن مساعی‘ کے تعلق سے وہ بہت زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ عالمی برادری کو تمام تعصبات، شکایات اور الزامات کو ایک طرف رکھ کر فلسطین۔اسرائیل امن کے حصول کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔

ایشیا مڈل ایسٹ فورم کے صدر ڈاکٹر محمد مکرم بلاوی نے کہا کہ مشرقی ایشیائی ممالک کو صرف قلیل مدتی فوائد ہی نہیں بلکہ طویل المدتی مفادات کو بھی دیکھنا چاہیے۔ یہ کانفرنس براہ راست بات چیت کا ایک پلیٹ فارم ہے تاکہ فلسطینی، چینی اور عرب عوام ایک دوسرے کو سن سکیں، اور بیرونی ثالثی کے بغیر براہ راست نقطہ نظر تشکیل دے سکیں جو امیج کو بگاڑتے ہیں اور تصورات کو توڑتے ہیں اور باہمی رشتے بنانے کے اس طرح کے فیصلوں کو متاثر کرتے ہیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ کانفرنس ’’باہمی اور مشترکہ احترام پر مبنی افہام و تفہیم اور تعلقات کی حالت پیدا کرنا چاہتی ہے، نہ کہ استحصال اور تسلط کی بنیاد پر؟ اور اس کے لیے پورا خطہ اس بات چیت میں شامل ہونے میں دلچسپی رکھتا ہے۔‘‘ انہوں نے عرب دنیا میں استحکام کی ضرورت پر زور دیا، جس سے دنیا میں مجموعی طور پر استحکام آئے گا۔ ان کے مطابق مسئلہ فلسطین کے حل سے پوری دنیا میں امن قائم ہوگا۔

سنٹر فار مڈل ایسٹرن اسٹڈیز کے صدر پروفیسر جواد الحمد نے کہا کہ فلسطین چین کی پالیسیوں کا ایک اہم جز رہا ہے۔ چین اس وقت مشرق وسطیٰ کی معیشت میں کافی دلچسپی رکھتا ہے۔ تاہم، چین کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ اپنے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو‘ میں اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر ایک بار پھر نظر ثانی کرے اور انسانی بنیادوں پر اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔

سنٹر فار اسٹڈیز آن اسلام اینڈ انٹرنیشنل افیئرز (سی آئی جی اے) کے ڈائریکٹر پروفیسر سمیع العریان نے اس عمل کی وضاحت کی جس کے ذریعے ایک دو قطبی دنیا کو کثیر قطبی دنیا میں تبدیل کرنا ممکن ہوا اور ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اس موقع کو فلسطین کے کاز کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ چین اپنے پڑوسی بڑے ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’چونکہ ہم کثیر قطبی دنیا میں ہیں، اب ہمارے پاس مزید جگہیں ہیں۔ چین فلسطین کے مسئلہ کو بین الاقوامی سطح پر لانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ چین کی مدد سے مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی سطح پر اہم ترین مسئلہ بنایا جا سکتا ہے۔ صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ چین بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کے بعد امریکہ کو اس مسئلے سے نمٹنے کے طریقے پر غور کرنا پڑے گا۔‘

الزیتونہ سنٹر فار اسٹڈیز اینڈ کنسلٹیشنس کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر محسن صالح نے اشارہ کیا کہ ایسے کئی پہلو ہیں جو چین کو مشرق وسطیٰ اور فلسطینی کاز میں زیادہ موثر کردار ادا کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ انہوں نے فلسطینی، عرب اور اسلامی فریقوں پر زور دیا کہ وہ چین کے ساتھ معاملات کو فعال کریں اور فلسطینی مفادات کے لیے تعلقات کو بہتر بنائیں۔

وہیں سن یات سین یونیورسٹی آف چائنا میں سنٹر فار مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے ریسرچر پروفیسر داؤد المالحی نے کہا کہ چینی اور عرب فریق یک قطبی، امریکہ کے تسلط اور دباؤ کے شکار ہیں جس کی وجہ سے دونوں فریقوں کے درمیان میل جول کی گنجائش زیادہ ہے۔

انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ عرب چینی میل جول کو روکنے میں کئی رکاوٹیں بھی ہیں۔ انہوں نے چینی عوام کی عرب ثقافت اور فلسطین-اسرائیل تنازع کو نہ سمجھنے اور فلسطینی کاز کی مارکیٹنگ کرنے میں عربوں کی ناکامی کی جانب اشارہ کیا۔

اس کانفرنس کے مقررین نے چین اور فلسطین کے عوام سے روابط کو بڑھانے کے لیے چینی شہروں میں ثقافتی مراکز کھولنے پر زور دیا اور کہا کہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام شعبوں میں چین-فلسطین تعلقات کو بلند کرنے کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت اور تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے جس سے دنیا میں امن اور ترقی ہو۔

مقررین نے یہ بھی کہا کہ چین کے عام لوگ صرف مغربی میڈیا کے ذریعے اسرائیل کی فوجی اور تکنیکی ترقی کے بارے میں جانتے ہیں۔ تاہم علمی اور ثقافتی کاوشوں کے ذریعے فلسطینیوں اور فلسطین کے مقصد کو نوجوان ذہنوں سے متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔اس کانفرنس کی نظامت استنبول میں مقیم صحافی اسرا شیخ نے کی۔

***

 ’’مشرقی ایشیائی ممالک کو صرف قلیل مدتی فوائد ہی نہیں بلکہ طویل المدتی مفادات کو بھی دیکھنا چاہیے۔ یہ کانفرنس براہ راست بات چیت کا ایک پلیٹ فارم ہے تاکہ فلسطینی، چینی اور عرب عوام ایک دوسرے کو سن سکیں، اور بیرونی ثالثی کے بغیر براہ راست نقطہ نظر تشکیل دے سکیں۔‘‘
(ڈاکٹر محمد مکرم بلاوی صدرایشیا مڈل ایسٹ فورم )


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  7 نومبر تا 13 نومبر 2021