تریپورہ کے مسلم علاقوں میں حملوں کے کئی واقعات۔بحالی امن کا مطالبہ

16مساجد میں توڑ پھوڑ، 3 نذرآتش۔جماعت اسلامی ہند، ایس آئی او اور اے پی سی آرکی آن لائن پریس کانفرنس

نئی دلی(دعوت نیوز نیٹ ورک )

تریپورہ میں بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف ہوئے تشدد کی مذمت میں کئی دنوں سے ریاست بھر میں مظاہرے جاری تھے جو ریاست کے مسلمانوں کے خلاف متشدد ہوگئے جس کے نتیجے میں مساجد میں توڑ پھوڑ، آگ زنی، مسلمانوں کی دکانوں و مکانوں میں توڑ پھوڑ، مسلم مخالف نعرے بازی جیسے واقعات روزانہ سامنے آرہے ہیں۔ اس معاملے پر اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سِوِل رائٹس(اے پی سی آر )، اسٹوڈنس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا(ایس آئی او) اور جماعت اسلامی ہند نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعہ حکومتِ ہند اور تریپورہ حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ جلد از جلد تریپورہ کے حالات پر قابو پانے کی کوشش کی جائے اور ریاست کے مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کی جائے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ملک معتصم خان نے کہا کہ ’’حکومت سے یہ اپیل ہے کہ حالات پر جلد از جلد قابو پایا جائے۔ ساتھ ہی مساجد کا جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کی جائے، مسلمانوں کو خصوصی تحفظ فراہم کیا جائے اور جو لوگ دہشت پھیلا رہے ہیں ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے تاکہ ریاست میں امن قائم ہو سکے۔‘آن لائن پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ شدت پسند عناصر کی جانب سے مسلم طبقے کی جان و مال کو شدید نقصان پہنچایا جارہا ہے اور حکمراں جماعت کے ساتھ اپوزیشن پارٹیاں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں جس سے ان شر پسند عناصر کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔ ‘ایڈووکیٹ فواز شاہین (مرکزی سکریٹری، ایس آئی او آف انڈیا) نے بتایا کہ ’’تریپورہ گزشتہ ایک ہفتے سے فرقہ وارانہ تشدد اور مسلمانوں کے خلاف حملوں کے ایک خطرناک سلسلے سے گزر رہا ہے۔ مقامی کارکنوں اور رہائشیوں کی معلومات کے مطابق ہندوتوادی ہجوم کی جانب سے مسلم علاقوں میں مساجد، گھروں اور افراد پر حملہ کرنے کے کم از کم 27 واقعات ہوئے ہیں۔ ان میں16 واقعات ایسے ہیں جہاں مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور ان پر زبردستی وی ایچ پی کے جھنڈے لہرائے گئے۔ کم از کم تین مساجد، ضلع اناکوٹی کی پالبازار مسجد، ضلع گومتی کی ڈوگرہ مسجد اور وِشال گڑھ میں نرولا ٹیلا کو نذر آتش کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے گھروں پر پتھراؤ اور نشانہ بنانے اور توڑ پھوڑ کرنے کی بھی خبریں ہیں۔ تقریباً یہ تمام حملے ہندوتوا ہجوم کی طرف سے کیے گئے جو بظاہر بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔ندیم خان سکریٹری (اے پی سی آر) نے کہا کہ ’’حکومت اور ریاستی انتظامیہ کی جانب سے اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے، گویا ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے حکومت چاہتی ہی نہیں کہ تشدد ختم ہو اور امن قائم ہو۔ کئی جگہ بنگلہ دیش کے واقعات کا حوالہ دے کر تریپورہ کی صورتحال کو درست بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں تشدد کے واقعات پر چند ہی دنوں میں حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کیے گئے جس میں تقریبا 500 گرفتاریاں بھی ہوچکی ہیں۔ لیکن تریپورہ میں اب تک حالات جوں کہ توں ہیں بلکہ مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔‘‘سلطان حسین (سکریٹری، ایس آئی او تریپورہ) نے بتایا کہ 26 اکتوبر کو نارتھ تریپورہ کے علاقے دھرمانگر اور کیلاشہر میں ریاست کے حالات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کی جانب سے مظاہرے کیے گئے، بعد ازاں وہاں پولیس انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا اور مظاہروں سے روک دیا گیا۔ لیکن جن مقامات پر شر پسندوں کے ذریعے دہشت کا ماحول بنایا جا رہا ہے، توڑ پھوڑ اور آگ زنی کی جا رہی ہے وہاں اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ حکومت و ریاستی انتظامیہ کی جانب سے محض چند مقامات پر پولیس کی تعیناتی دِکھا کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ حالات پر قابو پانے کی کوشش جاری ہے۔ پریس کانفرنس میں نورالاسلام مظہر بھیا (امیر، جماعتِ اسلامی ہند، تریپورہ) اور شفیق الرحمان (صدر، ایس آئی او تریپورہ) بھی موجود تھے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  7 نومبر تا 13 نومبر 2021