اگرتلہ پولیس نے انڈیا ٹومورو کے صحافی کو حراست میں لیا، دو گھنٹے تک پوچھ گچھ کے بعد رہا کیا

نئی دہلی، نومبر 3 (سید خلیق احمد، انڈیا ٹومورو): اگرتلہ پولیس نے انڈیا ٹومور کے نامہ نگار مسیح الزما انصاری کو آج علی الصبح حراست میں لیا اور دو گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا۔

مسیح الزماں انصاری ریاست میں حالیہ مسلم مخالف واقعات کا احاطہ کرتے ہوئے گزشتہ تین دنوں سے تریپورہ میں ہیں۔

انھوں نے پانیساگر، سپاہیجیلا ضلع کے نارورا قصبہ اور گومتی ضلع سے ان متاثرین کے ویڈیو بیانات کے ساتھ زمینی رپورٹس پیش کیں ہیں جن کی املاک کو فسادیوں نے تباہ کردیا تھا۔

انصاری نے مسجد کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے علاوہ نذر آتش مساجد کے کچھ اماموں کے ویڈیو بیانات بھی لیے۔ ان کی خبروں نے تریپورہ پولیس کی طرف سے پھیلائے جانے والے اس جھوٹ کا پردہ فاش کیا کہ ایک ہفتہ تک جاری رہنے والے تشدد کے دوران کسی مسجد کو جلایا یا منہدم نہیں کیا گیا تھا۔

چوں کہ فسادات میں پانیساگر سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا، اس لیے وہ بدھ کو پانیساگر کا دوبارہ دورہ کرنا چاہتے تھے تاکہ ان مقامی لوگوں سے مل سکیں جن کی املاک تباہ ہو گئی تھیں۔ وہ بی جے پی ایم ایل اے ببنائے بھوشن داس سے بھی ملنا چاہتے تھے تاکہ فسادات کے بارے میں ان کا بیان حاصل کیا جا سکے۔

بی جے پی لیڈر سے ملاقات کا مقصد ان سے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے بنیاد پرستوں کے بارے میں سوال کرنا تھا جو مبینہ طور پر تشدد میں ملوث تھے۔ پانیساگر میں توڑ پھوڑ وی ایچ پی کی ریلی کے دوران ہی ہوئی تھی۔ جب کہ پولیس نے دعویٰ کیا کہ پانیساگر میں کسی مسجد میں توڑ پھوڑ نہیں ہوئی۔ مقامی مسلمانوں نے انصاری کو دو مساجد دکھائیں جنھیں فسادیوں نے منہدم کردیا تھا۔ تاہم پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ مسجدیں نہیں تھیں، بلکہ 26 اکتوبر کو انھیں گرانے تک دونوں کو بطور مسجد استعمال کیا جاتا تھا۔

چناں چہ بدھ (3 نومبر) کی صبح وہ تریپورہ حج ہاؤس (انصاری حج ہاؤس میں مقیم ہیں) سے پانیساگر کے لیے ٹرین میں سوار ہونے کے لیے صبح 6 بجے روانہ ہوئے۔

تاہم دو پولیس اہلکار، جن میں سے ایک سادہ لباس میں تھا، حج ہاؤس کے سامنے والے مکان سے نکلے اور انصاری کو حراست میں لے لیا۔ نتیجتاً انھیں ریلوے اسٹیشن جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

انصاری کو مغربی تریپورہ پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، جہاں ایک پولیس سب انسپکٹر سمیت کئی پولیس والوں نے ان سے پوچھ گچھ کی۔ انھوں نے ان سے اس تنظیم کے بارے میں تفصیل سے پوچھا جس کی وہ نمائندگی کر رہے تھے اور جس مقصد کے لیے وہ تریپورہ گئے تھے۔

اہلکاروں نے ان کا موبائل فون سیٹ بھی چیک کیا۔ انھوں نے پولیس حکام کے فون نمبر دکھائے جن میں پولیس کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی پی) وی ایس یادو اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) ارندم ناتھ شامل ہیں، جنھیں انڈیا ٹومورو ٹیم نے تریپورہ کے واقعات کے بارے میں ان کا ورژن جاننے کے لیے فون کیا تھا۔ انڈیا ٹومورو نے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (میڈیا) جیوتیش مین کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی شائع کی، جنھوں نے کہا تھا کہ ’’پانیساگر یا تریپورہ کے کسی اور مقام پر کسی مسجد یا کسی دوسرے مذہبی مقام پر توڑ پھوڑ نہیں کی گئی۔‘‘

پولیس نے انصاری سے ایک مسلم وفد کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کی جس نے توڑ پھوڑ اور مساجد اور مسلمانوں کی املاک کو تباہ کرنے کے بارے میں ابتدائی معلومات اکٹھی کرنے کے لیے فسادات کے مقامات کا دورہ کیا تھا۔ فساد زدہ مقامات کا دورہ کرنے کے بعد مسلم وفد نے اگرتلہ پریس کلب میں میڈیا سے خطاب کیا تھا۔ وفد نے وزیر اعلیٰ بپلب کمار داس کو ان واقعات کے لیے قصوروار ٹھہرایا۔ اس نے ان پولیس اہلکاروں کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا جن کے دائرۂ اختیار میں یہ مسلم مخالف تشدد ہوا تھا، خاص طور پر پانیساگر ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور مقامی اسٹیشن ہاؤس آفیسر کو۔ رپورٹ کے مطابق پانیساگر میں توڑ پھوڑ پولیس کی موجودگی میں ہوئی۔

پولیس نے مسلم وفد کی پریس کانفرنس کی ویڈیو چلائی۔ انھوں نے انڈیا ٹومارو کے رپورٹر سے وفد کے ارکان کی شناخت کے بارے میں پوچھا، جس کے ساتھ انصاری کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وفد میڈیا سے خطاب کے بعد تریپورہ روانہ ہوا۔ پولیس کو وفد کے ارکان سے خود بات کرنی چاہیے تھی اگر وہ ان کے بارے میں کوئی معلومات چاہتے تھے۔ پولیس کی طرف سے یہ غیر پیشہ ورانہ تھا کہ وہ کچھ لوگوں کے بارے میں معلومات نکالنے کے لیے ایسی رپورٹ پیش کرے جن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انصاری نے پریس کانفرنس کی کوریج کی اور اسے اگرتلہ میں دیگر صحافیوں کی طرح انڈیا ٹومورو نیوز پورٹل کے لیے رپورٹ کیا۔

انصاری کی حراست کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد میں نے فوری طور پر تریپورہ پولیس کے ایک آئی پی ایس افسر سوربھ ترپاٹھی کو فون کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ انڈیا ٹومورو کے صحافی کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ میں نے اگرتلہ پریس کلب کے صدر سبل کمار ڈے سے بھی بات کی جنھوں نے فوری طور پر متعلقہ حکام کے ساتھ مسئلہ اٹھایا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ انصاری کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

انڈیا ٹومور نے بالترتیب پریس کلب آف انڈیا کے صدر اور سکریٹری اماکانت اوکھیرا اور ونے کمار کو بھی آگاہ کیا۔ ہم نے ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کی صدر سیما مصطفیٰ اور سکریٹری سنجے کپور کو بھی اس کے بارے میں پیغامات بھیجے اور انھیں تریپورہ میں اپنے رپورٹر کے ساتھ ہوئی پیش رفت سے آگاہ کیا۔