بائیڈن انتظامیہ! تنظیم اور ترجیحات

واضح شکست کے بعد ٹرمپ کے لیے قانونی لڑائی مشکل ہوگئی

مسعود ابدالی

 

امریکی انتخابات کو تین ہفتے گزرجانے کے باوجود کئی ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی اب تک جاری ہے۔ زیادہ تر مقامات پر ڈاک سے آنے والے پرچہ انتخاب کا شمار ہو رہا ہے جبکہ جارجیا میں ریاستی سکریٹری آف اسٹیٹ کے حکم پر تمام ووٹوں کی ہاتھ سے دوبارہ گنتی کی جا رہی ہے۔ تاہم صدارتی انتخابات کے غیر سرکاری حتمی نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار سابق نائب صدر جو بائیڈن 306انتخابی یا الیکٹرل ووٹ لے کر امریکہ کے چھالیسویں صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ ان کے حریف صدر ٹرمپ کے کھاتے میں 232ووٹ درج ہیں۔ قصر مرمریں کی کنجی کے لیے 270الیکٹورل ووٹ درکار ہیں چنانچہ اگر دوبارہ گنتی کے بعد جارجیا میں صورتحال تبدیل ہو بھی گئی تو نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لیے کہ کلیہ انتخاب میں جارجیا کے 16ووٹ ہیں۔ حتیٰ کہ جارجیا کے ساتھ پنسلوانیہ کے نتائج بدل جانے کی صورت میں بھی جو بائیڈن ہی نو منتخب صدر رہیں گے۔
ریاضی کے مطابق صدر ٹرمپ کی کامیابی کا اب کوئی امکان نہیں اور جمہوری اقدار کی رو سے انہیں باوقار انداز میں اپنی شکست مان لینی چاہیے۔ لیکن موصوف اس پر تیار نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن میڈیا پر انتخاب جیتے ہیں اور بدترین دھاندلی کے ذریعے بائیں بازو کے سوشلسٹوں نے امریکی عوام کی امنگوں کا خون کیا ہے۔ امریکی سیاسی حلقے ٹویٹر پر صدر ٹرمپ کی شعلہ افشانیوں کو چائے کی پیالی میں طوفان قرار دے رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے اب تک کسی سنجیدہ قانونی سرگرمی کا آغاز نہیں ہوا۔ پنسلوانیہ، مشیگن، ایریزونا اور وسکونسن میں صدر کی 9 انتخابی عذر داریاں ابتدائی سماعت کے بعد مسترد کی جاچکی ہیں۔ خبروں کے مطابق موقر وکلا انکا مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ پنسلوانیہ میں ٹرمپ انتخابی مہم ٹیم نے مقدمے کے لیے Wright Morris & Arthur نامی وکلا کی مشہور کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں لیکن 13 نومبر کو جج کے روبرو ان کے وکلا نے پیروی سے انکار کرتے ہوئے منسوخی کے لیے اپنے وکالت نامے عدالت میں جمع کروا دیے۔ وکلا نے صدر ٹرمپ کو مطلع کر دیا ہے کہ کیس میں جان نہیں ہے۔ صدر کے ذاتی وکیل اور نیویارک کے سابق رئیسِ شہر روڈی جولیانی عدالتوں میں صدر ٹرمپ کی پیروی کے لیے راضی و پرعزم ہیں لیکن جناب جولیانی کی وجہ شہرت سیاست ہے اور وکالت کے حوالے سے موصوف کا کوئی بڑا نام نہیں ہے۔ صدر کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ سپریم کورٹ سے پورے انتخاب کو کالعدم کرنے کی درخواست کرنے والے ہیں لیکن دنیا بھر کی طرح امریکی عدلیہ بھی اداروں کو بے وقار نہیں ہونے دے گی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اگر انتخابات پر جھاڑو پھر جائے تو ریپبلکن پارٹی کے نو منتخب سینیٹرز، 11 گورنروں اور ارکان ایوان نمائندگان کا کیا ہوگا؟
صدر ٹرمپ کے پاس ملک گیر مظاہروں کا راستہ موجود ہے۔ 14 نومبر کو دارالحکومت واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے حامیوں نے زبردست جلوس نکالا جس میں عوامی امنگوں پر ڈاکہ مردہ باد، امریکہ پر سوشلسٹوں کا قبضہ نامنظور اور ترقی و خوشحالی کے چار مزید سال کے نعرے لگائے گئے۔ اس موقع پر سیاہ فام اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے جوابی مظاہرہ کیا۔ دھکم پیلی اور ہاتھا پائی کے دوران ایک شخص چھری کے وار سے زخمی ہو گیا۔
امریکی نظمِ حکومت میں صدر بہت با اختیار ہوتا ہے لیکن امریکی دستور کے مصنفین نے اختیار میں اعتدال کے لیے کلیدی نوعیت کے صدارتی فیصلوں کو مقننہ سے مشورے بلکہ توثیق کا پابند کردیا ہے۔ مثلاً اٹارنی جنرل سمیت وفاقی کابینہ، وفاقی جج، سفرا، خفیہ اداروں کے اعلیٰ اہلکار، حکومتی انتظام کے تحت چلنے والے خود مختار اداروں کے سربراہ اور عسکری قیادت کا تقرر کانگریس کے ایوان بالا یعنی سینیٹ (راجیہ سبھا) کی توثیق سے مشروط ہے۔ اسی طرح سالانہ میزانیہ، دوسرے ملکوں کو اسلحے کی فروخت اور دوسرے اہم معاملات کی کانگریس سے منظوری لازمی ہے۔ کچھ معاملات پر صدر ایکزیکیوٹیو آرڈر کے ذریعے کام چلا سکتا ہے لیکن اگر گانگریس کھلی مخالفت پر اتر آئے تو انتظامی مشنری سست و غیر موثر ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑی مثال اومابا کے دور میں سپریم کورٹ کے جج کی تقرری کا معاملہ ہے۔ جسٹس انتھونی اسکالیا فروری 2016 میں انتقال کر گئے۔ صدر اوباما نے انکی جگہ ایک سینئر جج میرک گارلینڈ کو نامزد کیا۔ اسوقت امریکی سینیٹ میں 2 اتحادیوں کو ملا کر 46 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن سینیٹروں کی تعداد 54 تھی۔ سینیٹ کے قائد ایوان مچ میک کانل نے یہ کہہ کر توثیق سے انکار کر دیا کہ صدر اوباما کی مدت صدارت ختم ہونے میں ایک سال سے بھی کم کا عرصہ باقی ہے اور سپریم کورٹ کے جج کا تقرر ساری زندگی کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ اہم فیصلہ نئے صدر کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ اس سال ستمبر میں جب سپریم کورٹ کی جج جسٹس روتھ بدر گنزبرگ کا انتقال ہوا تو یہی موقف ڈیموکریٹس نے اختیار کیا اور قائد حزب اختلاف نے مچ مک کانل کو یاد دلایا کہ 2016 میں انتخابات 10 مہینے دورتھے جبکہ اس بار تو قبل از ووٹنگ بھی شروع ہو چکی ہے لہذا جج کا تقرر انتخابات تک موخر کر دیا جائے لیکن اکثریت کے بل پر چند ہفتوں میں جسٹس ایمی کونی بیرٹ کی سپریم کورٹ سے توثیق کرالی گئی۔
اسی طرح کانگریس کے ایوان زیریں یا ایوان نمائندگان (لوک سبھا) پر ڈیموکریٹک پارٹی کی گرفت صدر ٹرمپ کو کچھ معاملات میں ناکوں چنے چبوا چکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ غیرملکی تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کریں گے لیکن ایوان نمائندگان نے اسکے لیے رقم منظور نہیں کی چنانچہ یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔
اس گفتگو کے پس منظر میں عرض کرنا یہ ہے کہ تین نومبر کو صدارتی انتخابات کے ساتھ ایوان نمائندگان کی کل 435 اور سینیٹ کی 35 نشستوں کے انتخابات ہوئے۔ ان نشستوں میں سے 23 ریپبلکن پارٹی کے سینیٹروں کی میعاد مکمل ہونے پر خالی ہوئی ہیں اور ڈیموکریٹس کو اپنی 12 نشستوں کا دفاع کرنا تھا۔ نتائج کے مطابق ڈیموکریٹس نے ایریزونا اور کولوریڈو میں ریپبلکنس سے نشستین چھین لیں اور جواب میں صدر ٹرمپ کی جماعت نے الاباما میں ڈیموکریٹس رکن کی معیاد مکمل ہونے پر خالی ہونے والی نشست ہتھیالیں۔ اب نئی سینیٹ کی ہئیت ترکیبی کچھ اس طر ح ہے کہ 100 رکنی ایوان میں 50 ریپبلکن ارکان کے مقابلے میں 48 نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہوں گے۔ جارجیا کی دو نشستوں پر کوئی بھی امیدوار مطلوبہ 50 فیصد ووٹ نہ حاصل کرسکا چنانچہ یہاں جنوری کے پہلے ہفتے میں ضمنی یا Run-off انتخاب ہوگا۔ اگر ڈیموکریٹس یہ دونوں نشست جیت گئے پھر تو خیر ہے ورنہ ایوان بالا پر ریپبلکن کی برتری صدر بائیڈن کے لیے سخت مشکل کا سبب بن سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں دونوں جماعتوں کے درمیان نفرت کی حد تک جو کشیدگی نظر آرہی ہے اسے دیکھتے ہوئے کسی قسم کی مفاہمت یا رواداری کا کوئی امکان نہیں اور سیاسی مبصرین ہر نکتے پر دما دم مست قلندر کی توقع کر رہے ہیں۔سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اعترافِ شکست سے انکار اور صدر ٹرمپ کا مہم جویانہ انداز جارجیا میں سینیٹ کے ضمنی انتخاب کے لیے اپنے حامیوں کا حوصلہ بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ شکست تسلیم کرلینے سے صدر کی کمزوری ظاہر ہوگی۔ وہ اپنے حامیوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جنگ جاری ہے اور کمر کھولنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ صدر کی موجودہ مدت 20 جنوری تک ہے اور وہ یہ عرصہ امریکی روایت کے مطابق غیر موثر و نمائشی یا lame-duck صدر کی طرح نہیں گزارنا چاہتے۔ خیال ہے کہ وہ جلد ہی جارجیا میں اپنے امیدواروں کے لیے بھرپور انتخابی مہم شروع کردیں گے اور اگر ریپبلکن پارٹی سینیٹ کی کم ازکم ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئی تو وہ پروقار انداز میں اقتدار جو بائیڈن کے حوالے کر کے 2024میں انتخاب لڑنے کا اعلان کر دیں گے۔
ایوان نمائندگان کے انتخابات میں بھی ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی بہتر نہیں رہی۔ اس وقت ایوان نمائندگان میں ریپبلکن ارکان کی تعداد 197ہے اور 232نشستیں ڈیموکریٹس کے پاس ہیں لیکن 3نومبر کے انتخاب کے بعد ڈیموکریٹس کی تعداد گھٹ کر 225ہونے کی توقع ہے یعنی واضح اکثریت سے صرف 7 زیادہ۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی صفوں میں نظریاتی تفریق بھی خاصی گہری ہے۔ چار نوخیز خواتین، الیکزینڈرا اورٹیز المعروف AOC، الحان عمر، رشید طلیب اور آیانا پریسلے پر مشتمل گروہ جسے صدر ٹرمپ چار کا ٹولہ یا squad کہتے ہیں اب مزید مضبوط ہوگیا ہے اور اس بار نیویارک سے جمال بومن اور مزوری سے محترمہ کوری بش نے ڈیموکریٹک پارٹی کے برج گرا کر اسے مزید تقویت دیدی ہے۔ جسٹس ڈیموکریٹس کے نام سے اس انقلابی Caucus کے ارکان کانگریس کی تعداد اب 10 ہوگئی ہے۔ جسٹس ڈیموکریٹس کم سے کم تنخواہ 15 ڈالر فی گھنٹہ، تمام امریکیوں کے لیے صحت بیمہ، پولیس اصلاحات، صنعتی اداروں میں مزدور یونینوں کے قیام، ماحول کی حفاظت، کاربن ٹیکس کے ساتھ غیر ملکی امور پر بھی اپنی رائے رکھتے ہیں۔ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام، تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) پر پابندی ان کے منشور کا حصہ ہے۔ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی، ترک نژاد چینی مسلمانوں سے بدسلوکی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی پر بھی اس گروپ نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کیلی فورنیا سے رکن کانگریس شری رو کھنہ سمیت تین ہند نژاد ارکان بھی اس گروپ کا حصہ ہیں۔
جسٹس گروپ کے غیر اعلانیہ سرپرست سینیٹر برنی سینڈرز ہیں جنہوں نے پارلیمانی سال کے آغاز پر جسٹس ڈیموکریٹس کے منشور کو آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ برنی سینڈرز کابینہ کی تشکیل، کانگریس کی مجالس قائمہ اور پالیسی سازی میں جسٹس ڈیموکریٹس کو مناسب نمائندگی دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس تناظر میں جو بائیڈن انتظامیہ کا آغاز نا ہموار یا bumpy نظر آرہا ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ کابینہ اور کلیدی تقرریوں کے لیے سینیٹ کی توثیق ضروری ہے اور ریپبلکن پارٹی ’ناپسندیدہ نامزدگیوں‘ کو مسترد کرکے نئے صدر کے لیے مشکل پیدا کرسکتی ہے۔ اس پس منظر میں اسرائیلی ترغیب کاروں (lobby) کا کام آسان ہو جائے گا اس لیے کہ اسرائیل کے مخلص حامی دونوں جماعتوں میں کلیدی عہدوں پر موجود ہیں چنانچہ اب صفِ مخالف سے حمایت حاصل کرنے کے عوض اسرائیل کے ہمدردوں کو انتظامیہ کے اہم عہدوں پر آگے بڑھانے کی کوشش کی جائیگی۔ اس ضمن میں وزیر خارجہ، وزیر دفاع، اسرائیل اور اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر کے مناصب بہت اہم ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کے لیے جو نام سامنے آرہے ہیں ان میں مشہور دانشور ڈاکٹر سوزین رائس سر فہرست ہیں۔ 55 سالہ سوزین اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر اور صدر اوباما کی مشیر قومی سلامتی رہ چکی ہیں۔ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل اور صدر اوباما کے تعلقات کشیدہ کرنے میں ڈاکٹر صاحبہ کا ہاتھ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ 2014 میں ایران سے ممکنہ معاہدے پر اپنے اتحادی کو اعتماد میں لینے تل ابیب گئیں تو اسرائیل حکام کا رویہ ان سے اچھا نہیں تھا۔ اس دوران اسرائیلی زعما نے مبینہ طور پر صدر اوباما کے بارے میں کچھ اس انداز میں باتیں کیں جو نسلی حساسیت کے حوالے سے بے باک نوعیت کی تھیں۔ یہ عام خیال ہے کہ امریکہ کے اسرائیل نواز عناصر کے لیے سوزین رائس کا بطور وزیر خارجہ تقرر پسندیدہ نہ ہوگا لیکن black lives matter تحریک اب مضبوط ہوچکی ہے اور ایک لائق و فائق سیاہ فام دانشور کی کھلی مخالفت ایک مشکل کام ہے۔ متوازن و امن پسند اسرائیلی حلقوں میں ڈاکٹر صاحبہ پسند کی جاتی ہیں اور امریکی یہودی تنظیموں کی فیڈریشن انہیں اعزاز سے بھی نواز چکی ہے۔
ایک اور اہم نام اوباما دور کے نائب وزیر خارجہ ڈاکٹر ولیم برنز ہیں۔ 64سالہ ڈاکٹر صاحب ایک منجھے ہوئے سفارتکار ہیں جنکی پشت پر 38سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے مارشل اسکالر شپ پر انگلستان کی جامعہ آکسفورڈ سے بین الاقوامی تعلقات پر پی ایچ ڈی کی اور وہ کئی گرانقدر مقالوں کے خالق ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی موصوف نے ہی فرمائی تھی۔ صدر مرسی کے خلاف سیکیولر قوتوں کے محاذ میں اسلام پسند النور پارٹی کی شرکت انہیں کی مہین سفارتکاری کا کمال ہے۔ جمہوری حکومت کی معزولی اور قاہرہ کی مشہور مسجد رابعۃ العدویۃ میں اخوانی کارکنوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کے بعد سب سے پہلے جناب برنز قاہرہ پہنچے اور جنرل السیسی سے ملاقات میں انہیں مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ اس وقت تک السیسی مصر کے وزیر دفاع تھے۔ اس ہم ملاقات کے بعد جنرل السیسی نے صدر بننے کی کوششیں شروع کیں اور ایک سال بعد صدارت کا عہدہ سنبھال لیا۔ایک اور اہم امیدوار ڈاکٹر وینڈی شرمن ہیں۔ 71سال وینڈی شرمن جامعہ ہارورڈ میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ وینڈی بھی اوباما انتطامیہ میں نائب وزیر خارجہ رہ چکی ہیں۔ اگر وزیر خارجہ نہ بنیں تو راسخ العقیدہ یہودی محترمہ وینڈی کی اقوام متحدہ میں بطور مستقل سفیر تعیناتی بھی خارج از امکان نہیں۔
اقوام متحدہ کے سفیر کے لیے انڈیانا کے ایک چھوٹے سے قصبے ساوتھ بینڈ کے سابق رئیس شہر پیٹ بیوٹیجیج کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ پیٹ صاحب نے حالیہ صدارتی انتخابات میں بھی قسمت آزمائی کی لیکن پارٹی ٹکٹ کے ابتدائی مقابلوں میں پے درپے شکست کے بعد جو بائیڈن کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ پیٹ ہم جنس پرست ہیں اور انہوں نے ایک مرد سے شادی کر رکھی ہے۔ سابق صدر اوباما ہم جنس پرستوں پر عائد پابندیوں کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے سعودی عرب اور پاکستان پر زور دیا تھا کہ ہم جنس شادیوں کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس اہم عہدے پر پیٹ بیوٹیجیج کے تقرری سے دنیا کو یہ پیغام بھی جائیگا کہ بائیڈن انتظامیہ ہم جنسی پر پابندیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔
دو ایک سینیٹرز بھی وزارت خارجہ کے امیدوار ہیں۔ اگر سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کو برتری حاصل ہوگئی تو بہت ممکن ہے کہ نئے امریکی صدر اپنے کسی ساتھی سینیٹر کو وزیر خارجہ نامزد کریں۔ تعلقات، رواداری، رکھ رکھاؤ اور آنکھ کے لحاظ کی بنا پر سینیٹر کی سینیٹ سے توثیق زیادہ آسان ہیں۔ اس سلسلے میں بائیڈن کی ریاست ڈیلاوئیر کے سینیٹر کرس کون اور ریاست کنیٹیکٹ کے سینٹر کرس مرفی کا نام لیا جا رہا ہے۔ 57 سالہ کرس کون اسرائیلی لابی میں بہت مقبول ہیں اور وہ امر یکہ اسرائیل سیاسی مجلس عمل (AIAPC) کی مجلسوں میں باقاعدگی کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔ کون صاحب سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے خارجہ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ریاست کنیٹیکٹ سے 47 سالہ ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی بھی جو بائیڈن کے قریبی دوست اور خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کی مخالفت کی تھی جس پر اسرائیلی لابی ان سے ناراض ہوئی تھی لیکن اسکا کفارہ مرفی صاحب نے اسطرح ادا کیا کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد سینیٹر صاحب نے سعودی و کویتی رہنماؤں کو فون کرکے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی درخواست کی۔ یہ دونوں ریاستیں ڈیموکریٹس کا گڑھ ہیں اور وزیر بننے کی صورت میں خالی نشست پر ضمنی انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار کا جیتنا مشکل نہ ہوگا۔
وزیر دفاع کے لیے محترمہ مشل فلورنی کا نام لیا جا رہا ہے۔ 59 سالہ مشل اوباما انتظامیہ میں نائب وزیر دفاع تھیں۔ ان کے شوہر اسکاٹ گڈ بھی نائب وزیر دفاع رہ چکے ہیں۔ مشل اور ان کے شوہر اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں۔ تاہم مشل صاحبہ کو غرب اردن میں اسرائیلی بستیوں پر شدید تحٖفظات ہیں۔ اسرائیل کو امریکہ کے جدید ترین میزائیل شکن نظام فولادی گنبد (Iron Dome) کی فراہمی میں مشل صاحبہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔وزیر دفاع کے لیے ایک اور اہم امیدوار لیفٹینیٹ کرنل (ر) ٹیمی ڈک ورتھ ہیں۔ اپنی ننھیال کی جانب سے تھائی نژاد ٹیمی امریکی فوج میں پائلٹ تھیں۔ عراق میں انکا ہیلی کاپٹر القاعدہ نے گرا لیا تھا۔ شدید زخمی ٹیمی کا پورا دایاں پیر اور بایاں پاؤں گٹھنے کے نیچے سے کاٹ دیا گیا۔ انکے دونوں ہاتھ بھی متاثر ہیں۔ نومبر 2016 میں ٹیمی الی نوائے سے امریکی سینیٹر منتخب ہوئیں۔ اس سے پہلے وہ ایوان نمائندگان کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔ ٹیمی امریکہ کی واحد سینیٹر ہیں جو اس عہدے پر رہتے ہوئے ماں بنیں جب انہوں نے 2018 میں ایک چاند سی بیٹی کو جنم دیا۔ ڈک ورتھ صاحبہ سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے عسکری خدمات کی رکن ہیں۔
وزارت، نظامت و سفارت کا تاج کن لوگوں کے سر سجے گا اسکے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ ان اہم اسامیوں کے لیے نو منتخب صدر نے با ضابطہ رابطے ابھی شروع نہیں کیے ہیں لیکن آثار کچھ ایسے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اوباما اقتدار کی شرطیہ نئی کاپی ہوگی۔ یعنی ایران جوہری منصوبہ کی تجدید، چین کے گھیراؤ کے لیے بحر ہند و خلیج بنگال میں ہند ناو سینا (بھارتی بحریہ) کی تکنیکی اعانت میں اضافہ، اسرائیل کی بھرپور مدد کے ساتھ نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام کی مخالفت، آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت، دنیا بھر میں ہم جنسی و اسقاط حمل پر پابندیوں کی حوصلہ شکنی، ماحولیاتی کثافت سے بچاؤ کے لیے پیرس کلب کی سفارشات پر عملدرآمد، نیٹو کا استحکام اور یورپی یونین سے قریبی تعلقات شامل ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ ٹرمپ حکومت کے قائم مقام وزیر دفاع نے کرسمس تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا عندیہ دیا ہے۔ اگر 20جنوری سے پہلے انخلا مکمل ہوگیا تو فوج کو واپس افغانستان بھیجنے کے بجائے طالبان سے معاملہ کر کے وہاں امن کو یقینی بنانا امریکہ بہادر کی منطقی ترجیح ہوگی۔ یورپی یونین اور ترکی کے مابین حالیہ کشیدگی میں جو بائیڈن یورپ کی مکمل حمایت کریں گے۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انقرہ میں اقتدار کی تبدیلی یا regime change ان کی ترجیح ہے۔
(مسعود ابدالی معروف کالم نویس ہیں جو مشرق وسطیٰ ، مسلم دنیا اور عالمی سیاست پر لکھتے رہے ہیں)
[email protected]

بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ ٹرمپ حکومت کے قائم مقام وزیر دفاع نے کرسمس تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا عندیہ دیا ہے۔ اگر 20 جنوری سے پہلے انخلا مکمل ہوگیا تو فوج کو واپس افغانستان بھیجنے کے بجائے طالبان سے معاملہ کر کے وہاں امن کو یقینی بنانا امریکہ بہادر کی منطقی ترجیح ہوگی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020