آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

افغانستان میں سوپر پاور امریکہ کو شکست

ڈاکٹر سلیم خان

بین الاقوامی مذاکرات کی ابتداء اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک دونوں فریقین کی طاقت تقریباً یکساں نہ ہو اور اگر کسی مجبوری یا دباؤ کے تحت گفتگو شروع ہو جائے تو وہ نتیجہ خیز نہیں ہو پاتی جیسا کہ چین اور ہندوستان کے درمیان ہو رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان توازن اتنا بگڑا ہوا ہے کہ چین دھمکی سے نیچے بات ہی نہیں کرتا اور ہندوستان کے اندر اس کا منہ توڑ جواب دینے کی تک کی سکت نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب دو ممالک گفت و شنید کرتے ہیں تو ان کے درمیان طاقت کا توازن کبھی بالکل یکساں نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ ایک کا پلَّہ قدرے بھاری ہوتا ہے۔ امریکہ اور افغانستان کے درمیان گفتگو میں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جھکاؤ امریکہ کی جانب ہوگا لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ افغانستان میں طالبان کے حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی ہمیشہ ڈھلمل رہی ہے۔ اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کس طرح ان سے نمٹا جائے۔ پچھلے ایک سال کے واقعات گواہ ہیں کہ اپنے آپ کو دنیا کی سپر پاور سمجھنے والا امریکہ افغانی طالبان کے سامنے کوئی پختہ حکمت عملی تیار کر کے اس پر کاربند نہیں رہ سکا ہے بلکہ وہ گھڑی میں تولہ اور گھڑی ماشہ کی کیفیت میں مبتلا رہا ہے۔ اس سے امریکہ کی سفارت کاری پر سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں ایک بہت بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب گزشتہ سال 10ستمبر 2019 کو انہوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ افغانستان میں 18سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان سے ہونے والی بات چیت اب مکمل طور پر ختم (مردہ) ہو چکی ہے۔ انہوں نے قصر ابیض (White House) میں نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کہا تھا کہ ’’جہاں تک میرا تعلق ہے، یہ (مذاکرات) ختم ہو چکے ہیں‘‘۔ انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ ’ہماری میٹنگ (کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں سے ہونے والی خفیہ ملاقات) طے شدہ تھی۔ میٹنگ بلانے کی تجویز بھی میری تھی اور اس کو منسوخ کرنے کا فیصلہ بھی میں نے کیا تھا۔ یہاں تک میں نے کسی اور سے اس پر تبادلہ خیال تک نہیں کیا تھا۔ اپنے اس احمقانہ فیصلے کی صدر ٹرمپ نے دلیل یہ پیش کی تھی کہ ’میں نے کیمپ ڈیوڈ میٹنگ کو اس بنیاد پر منسوخ کر دیا کیونکہ انہوں (طالبان) نے کچھ ایسا کیا تھا جو انہیں بالکل نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘

یہ معاملہ کابل میں ہونے والے طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد کے ہلاک ہونے کا تھا۔ اس کے بعد 8 ستمبر 2019 کو امریکی صدر نے اپنی ٹویٹس کے ذریعہ مذاکرات کو منسوخ کر دیا۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’جھوٹے مفاد کے لیے طالبان نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ وہ مزید کتنی دہائیوں تک لڑنا چاہتے ہیں؟‘ امریکی صدر کا وہ فیصلہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے مابین جاری امن مذاکرات کے نویں دور کے بعد کیا گیا تھا۔ اس منسوخی پر کسی افسوس کا اظہار کیے بغیر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے رد عمل میں کہہ دیا تھا کہ وہ امریکہ کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ امن معاہدے کے باضابطہ اعلان کے لیے تیاریوں میں مصروف تھے جبکہ 23 ستمبر کو بین الافغان مذاکرات کا پہلا دن مقرر کیا گیا تھا لیکن چونکہ امریکی صدر نے اسلامی امارت کے ساتھ مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کیا ہے، تو اس کا سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہوگا، اُن کے اعتبار کو نقصان ہو گا، اُن کا امن مخالف مؤقف دنیا کو نظر آئے گا اور اُن کی جان اور مال کا نقصان بھی سب سے زیادہ ہوگا۔ طالبان کی پیشن گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور امریکہ کو چند ماہ کے اندر پھر سے مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔

اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ 24 فروری 2020 کو امریکہ کا ایک ایسا بد دماغ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنے مخالفین کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کرنے کا بھی قائل نہیں ہے یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوگیا کہ اگر افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ طے پاجاتا ہے تو وہ خود اس پر دستخط کرے گا۔ یہ اعلان صدر ٹرمپ نے ہندوستان کے دورے سے قبل کیا تھا حالانکہ اسے علم رہا ہوگا کہ حکومت ہند، طالبان کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور اس طرح کے اعلان سے بھارت سرکار ناراض ہوگی لیکن ٹرمپ کو اپنے میزبان کی خوشی یا غم کا احساس کب تھا؟ ہندوستان کے لیے روانہ ہونے سے قبل قصر ابیض میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں کہا تھا: ’ہاں، میں اس (معاہدے) پر اپنا نام ڈالنا چاہوں گا۔‘ اس وقت ایک عبوری جنگ بندی نافذ تھی تاکہ 29 فروری کو قطر میں ممکنہ تاریخی امن معاہدے سے قبل واشنگٹن اور طالبان کے درمیان 18سال بعد امریکی فوجوں کی نکاسی کی شرائط طے ہو سکیں۔ ٹرمپ نے اس وقت یہ اعتراف کیا تھا کہ ’یہ انخلا کا وقت ہے اور وہ بھی اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ طالبان بھی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، وہ جنگ لڑتے لڑتے تھک چکے ہیں۔‘ سچ تو یہ ہے طالبان نہیں بلکہ خود امریکہ جنگ لڑتے لڑتے تھک چکا تھا اور پسپا ہو کر لوٹ رہا تھا۔

 امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی اس حقیقت کا بلا واسطہ اعتراف کر لیا تھا کہ اس امن معاہدے سے بالآخر جنگ کا خاتمہ ہو سکے گا۔ پنٹاگون کو افغانستان میں موجود اپنے 12 سے 13 ہزار فوجیوں کو واپس وطن بلا نے کی فکر لاحق تھی۔ فروری 2020 کو دوحہ میں امریکہ کی طرف سے زلمے خلیل زاد اور طالبان لیڈر ملا برادر نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے اور اس طرح امریکہ اور طالبان نے افغانستان میں جاری 19 سالہ جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ اس امن معاہدے کی رو سے امریکہ اور اس کے اتحادی 14 ماہ میں افغانستان سے مکمل فوجی انخلا پر راضی ہوگئے۔ اس دوران طالبان کی جانب سے کسی کارروائی کے نہ کیے جانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ افغان امن مذاکرات اور امریکہ کے حتمی انخلا کے حوالے سے ٹرمپ نے اس وقت کہا تھا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ آخر کار ہم ہی کامیاب ہوں گے۔‘‘ لیکن سچ تو یہ ہے کہ معاہدے کا طے پانا ہی طالبان کی سب سے بڑی کامیابی تھی جب کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو اعلان فرما رہے تھے کہ امن معاہدہ سب کی کامیابی ہے۔

 اس تضاد بیانی کے علی الرغم طالبان رہنما ملا عبدالغنی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ 40 سال سے مسائل کا شکار افغانستان کے عوام کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔ اب تمام افغان دھڑوں کو مل کر ملک میں اسلامی اقدار کے نفاذ کے لیے کام کرنا ہو گا۔ اس موقع پر طالبان رہنما نے امن معاہدے میں معاونت پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں افغانستان میں تعینات 13 ہزار فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار ماہ میں 8600 تک لانا طے پایا، اس کے بعد باقی ماندہ فوجیوں کے انخلا کے لیے ساڑھے نو ماہ کی مدت طے کی گئی۔ اسی کے ساتھ امریکہ اور اس کی اتحادی افواج افغانستان میں پانچ فوجی اڈے خالی کرنے پر بھی رضا مند ہو گئے تھے۔ طالبان نے اپنے 5500 قیدیوں کو رہا کروانے کے ساتھ لگ بھگ ایک ہزار مغویوں کو تین ماہ کے اندر رہا کرنے کا عندیہ دے دیا تھا اور 27 اگست تک امریکہ اور اقوام متحدہ نے طالبان رہنماؤں پر پابندیاں ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی کے ساتھ طالبان نے یہ ضمانت بھی حاصل کرلی تھی کہ امریکہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔

اس تاریخی معاہدے سے قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امن معاہدہ افغان عوام کے لیے قیام امن کا بہترین موقع ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ 19 سال قبل نائن الیون واقعے کے بعد ذمہ داروں کو سزا دینے کے لیے یہ جنگ شروع کی گئی۔ اس دوران ہم نے افغانستان میں مثبت پیش رفت کی لیکن اس کی ہمارے فوجیوں، ٹیکس دہندگان اور افغانستان کے عوام کو بھاری قیمت چکانا پڑی۔ صدر ٹرمپ نے اس حقیقت بیانی کے بعد کریڈٹ لیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ’’جب میں صدر بنا تو اپنے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ افغان جنگ ختم کر کے فوجیوں کو واپس بلائیں گے۔ ہم اسی وعدے پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان سے القاعدہ، دولت اسلامیہ (داعش) دہشت گردوں گروہوں کا قلع قمع اس امن معاہدے کا بنیادی نکتہ ہے۔ البتہ اپنے مستقبل کا تعین کرنا افغان عوام پر ہی منحصر ہے۔ یہ امن معاہدہ اُن کے لیے بہترین موقع ہے۔

امریکی صدر نے افغانستان میں فرائض سر انجام دینے والے امریکی فوجیوں کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم ملک کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو کبھی نہیں بھولیں گے‘‘ یہ گویا امریکہ کی جانب سے اپنی شکست کا کھلا اعتراف تھا۔ اس دوران طالبان اپنے سارے قیدیوں کو رہا کرانے میں کامیاب ہو گئے اور امریکہ کو مکمل انخلاء کی ساری شرائط پر بھی مجبور کر دیا۔ اب اگلا مرحلہ بین الافغان اختلافات کو ختم کر کے ایک مستحکم اور پائیدار امن کا قیام ہے۔ اس مرحلے میں امریکہ کی موجودگی محض علامتی ہوگی۔ اسی لیے 2 ستمبر 2020 کو مذاکرات کے آغاز کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ ’امریکہ ایک خودمختار، متحد، جمہوری اور پُرامن افغانستان کی حمایت کرتا ہے۔‘ اور کر بھی کیا سکتا ہے؟ یہ اس کی پسند یا اختیار نہیں بلکہ مجبوری ہے۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ اس گفت و شنید کے لیے افغان حکومت کا ایک وفد 11 ستمبر 2020 کو کابل سے دوحہ روانہ ہوا۔ یہ وہی تاریخ ہے جب 19 برس قبل امریکہ پر حملے ہوئے تھے جن کے نتیجے میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔ افغان حکومت اور طالبان کے مابین قطر میں جاری مذاکرات کی آن لائن افتتاحی تقریب میں ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی حصہ لیا اور ان کے جوائنٹ سکریٹری جے پی سنگھ بھی اس وقت قطر کے دارالحکومت میں ہندوستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ پچھلے چالیس سالوں میں افغانستان سے متعلق گوناگوں وجوہات کی بنا پر ہم لوگوں نے ہمیشہ غلط فریق کا ساتھ دیا ہے۔ سوویت یونین کا حملہ اور اس کے بعد قائم ہونے والی کٹھ پتلی سرکار کو حکومت ہند کی حمایت حاصل رہی۔ مجاہدین نے انہیں مار بھگایا اس کے بعد جب ناٹو نے حملہ کیا اور اپنی کٹھ پتلی سرکار بنائی تو حکومت ہند نے اس کی بھی حمایت کر دی۔ ایسے میں غالب آنے والے اسلامی حریت پسند ہندوستانی سرکار کو اپنا ہمدرد و بہی خواہ کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ اس دوران تو ہر سرد و گرم میں پاکستان ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔

مذاکرات کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ہندوستان اور افغانستان کے مابین تاریخی تعلقات اور تعاون پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ امن مذاکرات میں افغان خواتین اور اقلیتوں کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ ہندوستان میں فی الحال خواتین پر جس طرح کے مظالم ہو رہے ہیں۔ آئے دن ان کی اجتماعی عصمت دری اور پھر ویڈیو بنا کر وائرل کرنے واقعات عام سی بات ہوگئے ہیں ایسے میں جے شنکر کی بات پر کون کان دھرے گا؟ اقلیتوں کا جہاں تک تعلق ہے بابری مسجد سے لے کر کشمیر تک کے واقعات اقلیت دشمنی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ کورونا وائرس کے معاملے میں تبلیغی جماعت کے بچاؤ میں عدالت کو آنا پڑا۔سدرشن چینل کو مسلم دشمنی سے روکنے کے لیے عدالت عظمیٰ کو مداخلت کرنی پڑی اور ہجومی تشدد جیسے واقعات ہندوستان میں رونما ہوتے ہیں۔ یوگی راج میں جو اندھیر نگری چل رہی ہے اس کے بعد جے شنکر کس منہ سے افغانیوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ مودی سرکار نے عالمی سطح پر ملک کے وقار کو بہت متاثر کیا ہے اور چین نے حربی طاقت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ۔

ہمارے ملک میں یہ خیال ہو سکتا ہے کہ افغانستان میں سارے ناخواندہ لوگ بھرے پڑے ہیں۔ ان کو ہمارے ملک کی حقیقت حال کا علم نہیں ہوگا اور وہ اب بھی ہم سے مرعوب ہوں گے تو ایسا نہیں ہے۔ دونوں وفود میں شامل ارکان کی تعلیمی قابلیت کا ہندوستانی ارکان پارلیمان یا وزراء تک سے موازنہ کیا جائے تو سر شرم سے جھک جائے گا۔ سرکاری وفد کے سربراہ ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ ہیں جو پیشے سے معالج ہیں۔ مذاکرات کے لیے نامزد کردہ 21 رکنی سرکاری کمیٹی کی قیادت کرنے کے لیے افغان خفیہ ادارے کے سابق سربراہ معصوم ستانکزئی کو مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کابل ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد کابل کی فوجی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی۔ افغانستان میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے انجینئرنگ اور پائیدار ترقی اور اس کے بعد امریکہ کی پرسٹن یونیورسٹی سے بزنس مینجمنٹ میں ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اس طرح اجیت ڈوول اور جے شنکر ان کے آگے پانی بھرتے ہیں۔

اس وفد سے مذاکرات کے لیے افغان طالبان نے بھی 21 رکنی ٹیم کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کی جانب سے ان مذاکرات کی قیادت طالبان کے چیف جسٹس مولوی عبد الحکیم کریں گے۔ مولوی عبد الحکیم کو افغان طالبان قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور طالبان تنظیم کے اندر جنگ کے بارے اکثر فتویٰ وہی جاری کرتے ہیں۔ مولوی عبد الحکیم افغان طالبان میں سخت گیر موقف رکھنے والے رہنما ہیں لیکن ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اصولی موقف اور مشکل مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد مرتبہ مشکل مراحل کو حل کیا ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم افغانستان میں حاصل کی مگر ان کی اعلیٰ تعلیم اور دستار بندی پاکستان کے شہر اکوڑہ خٹک میں واقع جامعہ دارلعلوم حقانیہ میں ہوئی۔ طالبان کے ترجمانی کی ذمہ داری ڈاکٹر محمد نعیم کو دی گئی ہے انہوں نے پاکستان میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کی ہے۔

ڈاکٹر محمد نعیم نے بین الافغان مذاکرات کے افتتاحی اجلاس کی صبح یہ پیغام دیا ہے کہ ان مذاکرات میں ان کی کوشش ہو گی کہ ملک میں مکمل امن اور اسلامی نظام نافذ ہو۔ افغان حکومت کے مفاہمتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ یہ تاریخی مذاکرات ہو رہے ہیں جن میں ان کی کوشش ہو گی کہ ملک میں سالوں سے جنگ کے آثار اور لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے فیصلے کیے جا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب اعتماد سازی کے کچھ فیصلوں کے بعد ممکن ہو سکا ہے۔ ان پیغامات کے اندر امن امید کی ایک کرن پوشیدہ ہے۔ آج سے 20 سال پہلے کون سوچ سکتا تھا کہ جن افغانیوں کو آپس میں لڑاکر فرنگیوں نے غلام بنانے کی سازش رچی تھی وہ بالآخر حاشیے پر پہنچا دیے جائیں گے اور ایمانی بھائی پھر سے اسلام کی سر بلندی کے لیے آپس میں شیر و شکر ہو جائیں گے۔ فی الحال عالم اسلام اور افغانستان کے حالات پر نظر رکھنے والے بڑے بڑے دانشوروں کی آنکھیں خیرہ ہیں۔ علامہ اقبال کی یہ پیشن گوئی دو سوپر پاورس کی شکست کے بعد افغانستان پر پوری ہو رہی ہے؎

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں

محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے