معیشت میں سدھار کےلیے حکومت کرشمہ کی منتظر !

دیرپا سستی کے اثر سے 1.75کروڑ چھوٹے کاروبار خطرے میں

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ریزرو بینک آف انڈیا نے اعتراف کیا ہے کہ کورونا وبا کو قابو میں کرنے کے لیے سخت لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں کافی متاثر ہوئی ہیں جس کے نتیجہ میں پیداوار اور سپلائی متاثر ہوئی ہے اور ٹرانسپورٹ، شعبہ خدمت و سیاحت، رئیل اسٹیٹ اور ثقافتی شعبوں کی حالت بہت بھی بہت بدتر ہوئی ہے۔ لوگوں نے خرچ کرنا بند کر دیا ہے ان کی پوری توجہ غذائی اشیا کی ضروری فراہمی اور کرایہ مکان کی ادائیگی پر مرتکز ہے۔ آر بی آئی نے صنعتوں کی ابتری پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس رپورٹ میں سرمایہ کاری میں اضافہ اور معاشی اصلاحات پر کافی زور دیا گیا ہے اور کھپت میں تیزی لانے پر زور دیا ہے۔ آر بی آئی نے کہا کہ گزشتہ سال ستمبر میں کارپوریٹ ٹیکس میں رخصت دی گئی تھی مگر اس سے حکومت کو کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ کیوں کہ بڑی کمپنیوں نے اسے اپنا قرض چکانے اور نقدی جمع کرنے میں استعمال کیا ہے۔ آر بی آئی نے معاشی اصلاح کے لیے سرکاری سرمایہ کاری کو بڑھانے اور ہوائی شعبے کو قبضے میں لینے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ بہر حال موجودہ حالات میں معیشت کو سنبھلنے میں اچھا خاصا وقت لگ سکتا ہے۔

موجودہ چیلنجز کو معاشی سست روی مزید بڑھا رہی ہے۔ ٹراجیکٹوری کا حوالہ دیتے ہوئے موڈیز ریٹنگ ایجنسی کے نائب صدر اور سنٹرل کریڈٹ آفیسر کوستھ چوبل نے کہا ہے کہ معاشی مندی موجودہ چیلنج کو بڑی حد تک بڑھا رہی ہے۔ خاص کر جن شعبوں میں کھپت میں کمی واقع ہوئی ہے اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ واقع ہوا ہے۔ ان میں آٹوموٹیو، تیل اور گیس، مائننگ اور اسٹیل سیکٹر شامل ہیں۔ جاریہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی (اپریل تا جون) میں بھارت کی جی ڈی پی میں 24 فیصد کی گراوٹ رہی ہے۔ معیشت کے اہم میدان میں یہ بڑی تنزلی ہے جو مارچ 2021 میں ختم ہونے والے مالی سال کے لیے 40 سال کی سب سے بڑی تنزلی رہے گی۔ تیسری سہ ماہی میں ریکوری کی توقع کے باوجود مالی سال 2021 میں اوسط ریونیو میں مالی سال 2020 کے مقابلے میں 7 فیصد کی کمی رہے گی۔ موڈیز نے مالی سال 2020 میں مسافروں اور کمرشیل وہیکلس کی فروخت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 20 فیصد کی تنزلی کا امکان ظاہر کیا ہے۔ تیل اور گیس کی قیمت، ریفائننگ مارجن میں کمی اور ٹرانسپورٹ کی طلب کم ہونے کی وجہ سے تیل اور گیس کمپنیوں پر بوجھ بڑھے گا۔ اشیا کی متزلزل قیمتیں اور زیادہ قرض مائننگ اور اسٹیل میکنگ سے مربوط کمپنیوں سے کریڈٹ سسٹم کی اصلاح میں رکاوٹ پیدا ہو گی۔ موڈیز کا کہنا ہے کہ آئی ٹی سروسز اور ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کا کریڈٹ ٹرینڈ معمول کے مطابق رہے گا۔ چیلنجز کے باوجود زیادہ کمپنیوں کا ریفائننگ رسک سنبھلنے کی حالت میں رہے گا اس میں کمپنیوں کے بینکوں سے اچھے تعلقات اور کیپٹل مارکیٹ تک رسائی کا آسان ٹریک ریکارڈ مددگار ثابت ہوگا۔

بھارتی معیشت بد ترین دور سے گزر رہی ہے اور ہمارے وزیر اعظم اس حقیقت کو تسلیم کر کے مناسب اقدامات کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے مور نچا رہے ہیں۔ چیف معاشی مشیر کے کہنے کے مطابق انہیں امید ہے کہ آئندہ سال تک معیشت کرشماتی طور پر ‘V’ شکل میں بحال ہو جائے گی۔ دوسری طرف ہمارا ملک کورونا وائرس سے ہونے والی شرح اموات اور شرح متاثرین کے اعداد و شمار کے حساب سے دنیا بھر میں دوسرا ملک بن گیا ہے اور بعید نہیں کہ کسی بھی وقت اول درجے کا ملک بن جائے۔ 80 ہزار افراد ابھی تک ہلاک ہو چکے اور یومیہ 94 تا 97 ہزار نئے کیسس سامنے آ رہے ہیں۔ جب سے ہماری جی ڈی پی میں سب سے بڑی تنزلی ہوئی تو ملکی اور غیر ملکی ریٹنگ ایجنسیوں نے آئندہ سال کے لیے جی ڈی پی بڑی تنزلی کی پیش گوئی کرنا شروع کر دی ہے جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔

گھریلو ریٹنگ ایجنسی انڈیا ریٹنگ اینڈ ریسرچ کا اندازہ ہے کہ جاریہ مالی سال میں بھارتی معیشت میں 17.8 فیصد کی بھاری گراوٹ آئے گی۔ انڈیا ریٹنگس نے مالی سال 21-2020 کے لیے بھارت کی مجموعی گھریلو پیداوار میں اپنے اندازہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے 11.8 فیصد کر دیا ہے۔ پہلے اس نے ملکی معیشت میں 5.3 فیصد کی تنزلی کا اندازہ لگایا تھا۔ ریٹنگ ایجنسی کا اندازہ ہے کہ آئندہ مالی سال22-2021 میں بھارتی معیشت منفی 10.5 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ اس سے قبل فچ نے بھارتی معیشت کی تنزلی کا اندازہ لگایا تھا۔ عالمی تناظر پر اپنے ستمبر کے اپڈیٹ میں فچ نے کہا کہ سب سے زیادہ سست روی بھارت، برطانیہ اور اسپین جیسے ممالک میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سال 21-2020 میں اس نے بھی 10.5فیصد کا ہی اندازہ رکھا ہے۔ امریکہ کے گولڈ مین سچ نے بھارت کی معاشی ترقی کے بارے میں اپنے پہلے اندازے میں بڑی کٹوتی کرتے ہوئے 21-2020 میں جی ڈی پی میں 14.8فیصد کی بڑی گراوٹ کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ گولڈ مین سچ نے اس کے قبل 11.8فیصد کی تنزلی کا اندازہ لگایا تھا۔

ملکی معیشت کی بڑی تباہی کےدرمیان ملک کی تجارتی تنظیم، کنفڈریشن آف آل انڈیا (CAIT) نے پریشان کن رپورٹ پیش کی ہے۔ کیٹ کا کہنا ہے کہ کووڈ-19قہر کی وجہ سے چھوٹے دوکان دار اور کاروباری بہت بری حالت میں ہیں۔ اس میں سے تقریباً 25فیصد یعنی 1.75کروڑ چھوٹے کاروبار بند ہونے کی حالت کو پہنچ گئے ہیں۔ کیٹ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کورونا قہر کی وجہ سے ملک کا گھریلو کاروبار اس دہائی میں سب سے خراب دنوں کا سامنا کر رہا ہے اور مستقبل قریب میں ان آفتوں سے راحت ملنے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ کیٹ نے کہا کہ 7 کروڑ سے زائد چھوٹے کاروباری 40 کروڑ سے زائد لوگوں کو روزگار مہیا کراتے ہیں۔ دوسری طرف بینکنگ سیکٹر چھوٹے کاروباریوں کو فنڈ فراہم نہیں کر رہا ہے۔ اب تک محض 7 فیصد چھوٹے کاروباریوں کو ہی بینکوں اور دیگر مالی شعبوں سے فنڈ حاصل کرنے میں کامیابی ملی ہے باقی 93 فیصد کاروباری غیر منظم اور نجی شعبوں پر ہی منحصر ہیں۔ کیٹ کے مطابق چھوٹے کاروباریوں پر کئی طرح کی ادائیگی کی ذمہ داری ہے۔ اس میں مرکز اور ریاستوں کے ٹیکس اسٹاف کے تنخواہوں کی ادائیگی و دیگر ادائیگیاں شامل ہیں۔ مور سے جی بہلانے اور عوام کو مور کی طرح نچانے والے مودی جی جنہوں نے دو کروڑ نوکریاں دلانے کی جملہ بازی کی تھی، انہیں عوام خصوصاً نوجوان ہر روز  کاروبار میں بہتری کے لیے مدد کرنے کی عرضیاں دے رہے ہیں، ٹویٹ کر رہے ہیں اور سڑکوں پر اتر رہے ہیں۔ کیٹ نے اس معاملے میں وزیر اعظم سے فوری مدد کے لیے آگے آنے کی درخواست کی ہے۔ کاروبار کو پہلے جیسی حالت میں لانے میں مدد کرنے اور فوری راحت پیکیج دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ کیٹ مئی۔جون سے ہی چھوٹے کاروباریوں کے مسائل کو اٹھاتا رہا ہے۔ پہلے لاک ڈاؤن اور اب کورونا قہر میں تیزی کی وجہ سے خریدار بازار سے دور ہیں۔ اس کی وجہ سے ضروری اشیا کی بھی فروخت نہیں ہو پا رہی ہے۔ سامان فروخت نہ ہونے سے دکانوں کے اخراجات بھی نہیں نکل رہے ہیں۔ دیہی علاقوں کے مقابلے شہری علاقوں کے بازار سنسان پڑے ہوئے ہیں۔ بہت سارے دوکان دار کورونا وائرس کے خوف سے دوکان بھی کھولنے سے قاصر ہیں۔ بعض ذرائع سے معلوم ہو رہا ہے کہ حکومت کمپنیوں کے لیے بڑے راحتی پیکیج لانے کی تیاری کر رہی ہے تاکہ پیداوار کو تیز گام کیا جا سکے۔ اس سے توقع ہے کہ نجی سرمایہ کاری کا چکر گھومنے سے معیشت تیزی سے دوڑنے لگے گی۔ سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کھپت، اخراجات اور آمدنی کے ذرائع کو بڑھایا جائے۔

ملکی معیشت کی بدحالی کا اندازہ جی ڈی پی میں ایک چوتھائی گراوٹ کی وجہ ہر خاص و عام کو ہو گیا ہے کیوں کہ اس کے اثرات سے چھوٹے ہوں یا بڑے، تاجر ہوں یا آجر، مزدور ہوں یا کارخانہ دار، کاروباری ہوں یا دوکان دار، نوکری پیشہ ہوں یا کسان، بوڑھے ہوں یا جوان، استاد ہوں یا طلبہ، خادمہ ہو مالکن، شہری ہو یا دیہاتی سب کے سب معیشت کی بد حالی سے تباہ ہو چکے ہیں۔ بیرون ملک ہماری نا اہلی و بے ڈھنگے پن کے چرچے ہیں۔ ہم ’ایز آف ڈوئنگبزنس‘

(کاروبار میں آسانی پیدا کرنے) کے اعداد و شمار میں ہیر پھیر کر کے اونچا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن گلوبل اکانومک فریڈیم انڈیکس کی سالانہ رپورٹ ہمیں آئینہ دکھا رہی ہے۔ دی اکانومک فریڈیم آف دی ورلڈ 2020 کی سالانہ رپورٹ کو کناڈا کے فریزر انسٹیٹیوٹ کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے۔ ٹاپ 10میں نیوزی لینڈ، سوئزرلینڈ، امریکہ، آسٹریلیا، ماریشز، جارجیا، کناڈا اور آئر لینڈ شامل ہیں۔ گلوبل اکانومک فریڈم انڈیکس 2020 کی تازہ رینکنگ جاری کردی گئی ہے۔ اس میں بھارت 26 مقام پھسل کر 105ویں مقام پر آگیا ہے۔ درجہ بندی میں بھارت کے ساتھ 162 دیگر ملکوں کو شامل کیا گیا ہے۔ دی اکانومک فریڈم آف دی ورلڈ 2020 کے سالانہ رپورٹ کو کناڈا کے فریزر انسٹیٹیوٹ نے تیار کیا ہے۔ بھارت میں اسے نئی دلی میں مقیم تھنک ٹینک سنٹر فار سیول سوسائٹی کے اشتراک سے جاری کیا گیا ہے۔ اس سے قبل 2018 میں جاری درجہ بندی میں بھارت کا مقام 79واں تھا۔ اس درجہ بندی میں پہلا مقام ہانگ کانگ کا ہے جبکہ دوسرے مقام پر سنگا پور ہے۔ رپورٹ میں بھارت کی پوزیشن پچھلے سال کے مقابلے میں بدتر بتائی گئی ہے۔ اس میں حکومت کے حجم، لیگل سسٹم، مالکانہ حق، گلوبل تجارت میں شفافیت، فائنانس، لیبر اور بزنس جیسے اسٹینڈرڈ شامل ہیں۔ اس رپورٹ سے 162 ممالک کے ٹیریٹریز میں اکانومک فریڈم کو ناپا جاتا ہے جس میں بھارت کی حالت پہلے سے زیادہ ہی خراب ہوئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں معاشی آزادی کے بڑھنے کے امکانات آئندہ کے لیے اصلاحات اور عالمی تجارت کی شفافیت پر منحصر کرے گی۔ رپورٹ کے مطابق ملک کے طول و عرض کے معاملے میں بھارت کو گزشتہ سال جہاں 10 میں سے 8.22 عدد نشانات ملے تھے وہیں اس وقت 7.16 حاصل ہوئے ہیں۔ لیگل سسٹم کے معاملے میں 5.17 کی جگہ 5.06 نمبر ملا ہے۔ عالمی تجارت میں آزادی کے معاملے میں 6.08 کی جگہ 5.17 ملا ہے۔ کریڈٹ، لیبر اور کاروبار کے مقابلے میں 6.63 کی جگہ 6.53 نمبر حاصل ہوا ہے۔ اس تنزلی کی حیثیت پر کووڈ-19 کو ذمہ دار نہیں قرار دیا جاسکتا۔ درجہ بندی پر اس کا اثر آئندہ دو سالوں میں نظر آئے گا۔