اداریــــہ

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

 

یوں تو پچھتر سال کا عرصہ قوموں کی زندگی میں بہت بڑا نہیں ہوتا لیکن انگریزوں کے چلے جانے کے بعد اس عرصے میں بھارت اور پاکستان دونوں راکٹ اور میزائیل تکنیک نیز، نیوکلیائی طاقت حاصل کر لینے والے ممالک میں شامل ہو گئے ہیں۔ بنگلہ دیش کی معیشت نہایت تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ہمسایہ ملک میں ’نیا پاکستان’ اور ہمارے وطن میں ’ابھرتا بھارت‘ جیسے نعروں کےساتھ نئے حکمراں اقتدار کی کرسی پر براجمان ہیں جو اپنے اپنے خوابوں کے مطابق ملک و قوم کو بلند مقام پر لے جانے کے لیے کوشاں ہیں۔ حالانکہ بعض پیمانوں کے اعتبار سے دونوں ممالک بھی اپنے اپنے عوام کو خوش حال زندگی فراہم کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں لیکن حکمرانوں کے بے جا عزائم اور ملکی و عالمی سیاسی اغراض کی مرہون منت آپسی چپقلش کا منفی اثر مختلف محاذوں پر صاف دیکھا جا رہا ہے۔ مادی ترقیوں کے باوجود دونوں کو اندرونی و بیرونی چیلینجوں کا سامنا ہے۔ سرِ دست بھارت کی بات کی جائے۔ ہمارے حکمراں چاہتے ہیں کہ پچھتر سالہ جشنِ آزادی کو کسی یادگار تقریب کے بطور منایا جائے۔ جس میں اقوامِ عالم کے سامنے ملک کی ایک خوش نما تصویر پیش کی جائے۔ ظاہر ہے کہ ہر شہری یہی چاہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وطن کی ترقی میں ہی اس کی بہتری مضمر ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہر شہری کو خوابوں کا ملک بنانے کے لیےاپنی رائے رکھنے کا موقع اور آزادی بھی میسر آئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی مارچ میں ہی ’’آزادی کا اَمرت مَہوتسو‘‘ نامی پروگرام کا اعلان کر چکے ہیں۔ انہوں نے ’سناتن انڈیا اور ماڈرن انڈیا‘ کی قابل فخر جھلکیوں کا ذکر بھی کیا تھا جس کے تحت ۲۵۹ ارکان پر مشتمل کمیٹی کے توسط سے جنگ آزادی کی حقیقی اسپرٹ اور ۱۹۴۷ سے بھارت کی حصولیابیوں اور جدید بھارت کی جھلک کو پیش کیا جائے تاکہ سنہ ۲۰۴۷ تک اگلے پچیس برسوں میں کچھ ٹارگیٹ اور لائحہ عمل سامنے رکھ کر کام انجام دیے جا سکیں۔
یہ موقع صرف خواب دیکھنے کا نہیں بلکہ خود احتسابی کا بھی ہے۔ کہیں سابقہ غلطیوں کو دہرانے کا عمل ہمارے عزائم کا روڑا نہ بن جائے۔ انگریزوں کی بیڑیوں سے آزادی ضرور مل گئی ہے لیکن کیا ہم ملک اور اس کے باشندوں کو ان کے درد سے آزادی دلا سکے ہیں یا ان میں مزید اضافہ کا سبب بن رہے ہیں؟ کیا ہم ایک متحدہ بھارت بنانے میں سب کو آئینی حقوق مساوی طور پر دے پا رہے ہیں یا نہیں؟ تقریباً ڈیڑھ سو کیلومیٹر طویل دیوارِ جرمن کو خود جرمن شہریوں نے ڈھا دیا اور آپس میں مل گئے لیکن ہمارے ملک میں ہزاروں برسوں سے جاری انسانی تفریق و تعصب کی دیوار کو آخر ہم کب ڈھا سکیں گے؟ اولمپک میں ریکارڈ گول داغنے والی دلت لڑکی کے گھر پر اونچی ذات کہلانے والے لوگوں کی نعرے بازی سے دلبرداشتہ وندنا کٹاریہ کا یہ سوال کہ ’’ کیا دلت ہونا گناہ ہے؟‘‘ ہمارے کھوکھلے سماج کی عکاسی کر رہا ہے۔ اب جئےشری رام کا نعرہ صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ اَنمول پریتم جیسے دلت صحافیوں سے بھی کہلوایا جا رہا ہے۔ سنگھی ٹولیاں چاہتی ہیں کہ ملک میں مثبت فکر (positivity) کو فروغ ملے اور حکومت کے خلاف منفی جذبات کو ہوا نہ دی جائے۔ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں مثبت ماحول پروان چڑھے، سب کو ترقی کے برابر کے مواقع ملیں۔ لیکن کیا واقعی حکومت اور انتظامیہ اس معاملے سنجیدہ ہیں؟ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس این وی رمنا کا یہ اعترافی بیان ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ نہیں پا رہا ہے کہ ’’حقوق انسانی کی پامالی سب سے زیادہ پولیس تھانوں میں ہورہی ہے، نیز یہ کہ ملک کی پولیس کو ’حساس‘ بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ شہریوں کو ان کے آئینی حقوق اور ان کو مفت قانونی امداد کے بارے میں بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب مسلمان خواتین کو مبینہ ’طلاق کے ظلم‘ سے بچانے اور مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی باضابطہ قانون کے راستے کی جا رہی کوششیں ملک میں بنیادی حقوق کا گلا گھونٹنے کے سوا اور کیا دے سکیں گی؟ مزدور اور کسانوں کے حقوق بھی قانون بنا کر سلب کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں کمزور اور با رسوخ لوگوں کے درمیان خلیج کو پاٹنا کیسے ممکن ہو گا؟ لوگوں کی جاسوسی اور صرف احتجاجیوں کی ہی نہیں بلکہ قانون ساز ایوانوں تک میں آواز دبانے نیز، تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوششوں کے درمیان کیا آزادی کی ’سچی اسپرٹ‘ کو عام کرنے کا خواب پورا کرنا ممکن بھی ہے؟
انٹرنیٹ پر کھلاڑیوں کی ذات کو تلاش کرنے والی ذہنیت کو بتانا ہو گا کہ مذہبی اقدار انسانیت کو اس کی معراج تک پہنچانے کی سیڑھی ہیں نہ کہ تفریق، منافرت اور غارت گری اور نجی جاسوسی کا بہانہ؟ تبھی کپڑوں سے آگ بجھانے والے اور انسانیت کی خدمت کرنے والے پہچانے جائیں گے۔مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگوں سے زیادہ خطرہ شاید حکمرانوں کے مجرمانہ رویے سے ہے جہاں وہ ان کے حقیقی مسائل کو حل کرنے سے روگردانی کرتے ہوئے اپنے خلاف غم و غصے کو کسی اور رخ میں موڑنے کے لیے نِت نئے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔ بعض ہندوتوادی حلقوں کے نزدیک ملک کےمسائل کا ایک حل ’خانہ جنگی‘ بھی ہے جس سے ان کی مراد مسلمانوں کو ملک بدر کرنا ہے۔ کسی وقت ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر نے بھی یہی انتباہ دیا تھا کہ اگر بھارت میں ہزاروں برسوں سے رواں نابرابری کو ختم نہیں کیا گیا تو عوام اس نظام کے خلاف بڑی بغاوت کر سکتے ہیں اور تب خانہ جنگی کی سی کیفیت دیکھی جائے گی۔ تعجب نہیں جو ملک کا دانشور طبقہ اب ’فرقہ وارانہ نفرت کی دوسری قومی تحریک‘ چلانے کے بات کرنے لگا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں مسلمان کیا کریں۔ کیا وہ ان حالات کے محض خاموش تماشائی بنے رہیں، اپنے مظلوم ہونے کے احساس میں کوئی اقدامی عمل سے باز رہ جائیں یا حالات کو بدلنے کی کوشش کریں؟ اسلام کی نمائندہ اس ملت کو آگے بڑھ کر سارے انسانوں کا مسیحا بننے کی ضرورت ہے۔ اس وقت جس طرح انسان کے فطری یا خالق حقیقی کے نظامِ زندگی کو اختیار کرنے کی آزادی سلب کی جارہی ہے اس کےخلاف ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ چھوٹی چھوٹی اسلامی بستیوں کے نمونے قائم کرنا آج کے سنگین حالات کے باوجود ہمارے اختیار میں ہے۔ اس کام میں پوری ملت کو ہماری جماعتوں اور تنظیموں کا ساتھ دینے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ ہماری یہ بستیاں اسلام کی تعلیمات کا نمونہ ہوں جہاں جرائم کی روک تھام، خواتین و کمزور طبقات کے حقوق کا پاس و لحاظ، مادے و روحانیت کا حسین امتزاج، عائلی مسائل کا عدالتوں سے باہر منصفانہ تصفیہ اور ایک باہم اشتراک والی کثیر مذہبی مثالی ’مدنی سوسائٹی‘ کی جھلک ملک اور اس کے باشندوں کے سامنے ایک عملی شکل میں رکھی جا سکے جسے دیکھ کر ہر معاشرہ اس کی نقل کرنے کا خواہش مند ہو جائے۔ اگرچہ ہم آزمائشی حالات سے گزر رہے ہیں لیکن اس سے قبل کی امتوں پر جو مصیبتیں گزری ہیں اس کا عشرِ عشیر بھی ہم نے نہیں دیکھا ہے۔ ان راہوں سے گزرے بغیر ہم جنت کے حق دار بھلا کیوں کر ہو سکتے ہیں؟ وطنِ عزیز میں آج بھی سنتوش شندے جیسے شہری موجود ہیں جو مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کو دیکھ رہے ہیں تو ان کی نیکیوں اور خدمات کا اعتراف یوں کرتے ہیں کہ ’’مجھے مسلمانوں کی اس اچھائی پر بہت غصہ آتا ہے۔‘‘ کیوں کہ وہ اپنے ساتھ کی جارہی بدی کا بدلہ نیکیوں سے دیتے جا رہے ہیں۔ یہاں کے عوام نے اپنی چشمِ بصیرت کو ابھی بند نہیں کیا ہے۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اسی نظامِ رحمت کی جھلک یہاں کی قومیں دیکھیں تاکہ وہ از خود موجودہ جبر واستبداد کے متبادل کے طور پر خدائے واحد کی غلامی کا طوق اپنی گردنوں میں ڈال لیں۔ کتاب ہدایت کا پہلا سبق یاد رکھیں ’کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا‘ تاکہ دلت سے محبت اور برہمن سے ہمدردی کی بنیاد پر تشکیلِ نو کا کام انجام پا سکے۔ فتنہ وفساد کی کیفیت میں رہنے کے باوجود ملک سے نفرت انگیز فکر کو اکھاڑ پھینکنے اور منصفانہ نظام عدل کے قیام کے سب سے زیادہ مکلف اہل اسلام ہی ہیں۔ ہزار سالہ تعمیری تاریخ رکھنے والی یہ ملت اپنے وطن کی کشتی کو یوں ڈوبتے نہیں دیکھ سکتی۔ عالمِ اسلام کے انحطاط سے دنیا کو جو خسارہ ہوا ہے اس کا احساس اقوام کو کروایا جائے تو اسلام کو ایک نظام رحمت کے طور پر سمجھانا آسان ہو گا۔ مایوسی سے باہر نکل کر اعتماد، مستقبل کی منصوبہ بندی، حال کے ادراک اور جوش و ہوش کے ساتھ عوامی بیداری کے کام انجام دیے جائیں تو یہ جمہوری دباؤ کسی بھی آمر و متکبر حکمراں کو گھٹنے پر لاکھڑا کرنے کے لیے کافی ہو گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21  اگست 2021