تیونس :جاسمین انقلاب سے صدارتی آمریت تک

اندیشوں اور چیلنجوں کا نیا مرحلہ۔ بشار الاسد اورسیسی کی طرح قیس سعید، ’سیاسی اسلام‘ کے خلاف محاذ آرا

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی، لکھنو

 

صدر تیونس قیس سعید نے ۲۵ جولائی ۲۰۲۱ کو تیونسی حکومت اور پارلیمنٹ کو معزول کرکےجس طرح کووڈ کے نام پر ہنگامی حالات کا اعلان کیا اور ملک پر ایمرجنسی کو مسلط کیا ہے اس نے اس عرب افریقی ملک کو ایک بار پھر نئے سیاسی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ اس صورت حال کا سب سے مثبت اور قابل ستائش پہلو یہ ہے کہ تیونس کی سیاسی جماعتوں خصوصا وہاں کی سب سے بڑی اسلامی جماعت جو پارلیمنٹ کی بھی سب سے بڑی جماعت ہے، نے داخلی امن کو درہم برہم ہونے سے بچانے کے لیے کسی بڑے یا جارحانہ مظاہرے سے اب تک خود کو باز رکھا ہے اور اس کے سربراہ تصادم کی بجائے سیاسی ڈائلاگ کو ترجیح دے رہے ہیں، لیکن قیس سعید شاید داخلی و خارجی سطح پر پہلے سے بنے منصوبے کے تحت انہیں کوئی مثبت جواب دینے سے گریز کر رہے ہیں ۔ اس بحرانی صورت حال میں ملک کی سب بڑی سیاسی جماعت النهضة کے قائدین کے صبر و تحمل کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
موجودہ صدر قیس سعید ۲۵ امیدواروں کے مقابلے میں ۲۰۱۹ کا انتخاب جیت کر ایک ایسے ملک کے صدر بنے تھے جو برسوں کی جد وجہد کے بعد آمریت و استبداد سے نجات پانے میں کامیاب ہوا تھا ۔ ۲۰۱۱ میں عربوں کے معروف عوامی مظاہرے جس نے پورے مشرق وسطی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور جسے تاریخ نے ’’عرب اسپرنگ‘‘ ( عرب بہاریہ ) کا نام دیا ہے، کے نتیجے میں تیونس وہ واحد ملک تھا جہاں ان مظاہروں کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوئے اور دیکھتے دیکھتے ٹھنڈی ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی طرح پر ’’جاسمین انقلاب‘‘ ایک جمہوری انقلاب بن گیا اور اس کے بعد دنیا نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ کس طرح یہ ملک بڑی کامیابی سے آمریت سے جمہوریت کی طرف منتقل ہوا تھا ۔ یہاں تک کہ ۲۰۱۴ میں عوام کی مرضی اور تمام سیاسی پارٹیوں کی شراکت سے وہاں ایک دستوری حکومت کا قیام عمل میں آیا اور ملک سیاسی و معاشرتی طور سے نسبتاًزیادہ مستحکم ہونے لگا تھا۔
لیکن اس دوران بعض حکمرانوں کی نا اہلی اور ان کے غیر جمہوری اور غیر دانش مندانہ فیصلوں نیز بیرونی سازشوں نے اسے دو محاذوں پر ناکام بنا دیا۔ پہلامحاذ معاشی استحکام کا ہے، حقیقت یہ ہے کہ دستوری و جمہوریت پر مبنی سیاسی نظام کے قیام کے باوجود یہ ملک گزشتہ دس سالوں میں کبھی بھی اقتصادی بد حالی اور معاشی عدم استحکام سے ایک دن کے لیے بھی باہر نہیں آ سکا اور اس کی اقتصادی صورت حال ہمیشہ نا گفتہ بہ رہی، اس کی دو بڑی وجوہات رہی ہیں، ایک کا تعلق پہلے سے چلی آرہی اقتصادی بد حالی اور دیوالیہ پن اور بے گرانی ہے اور دوسری وجہ ہے قیس سعید سمیت وہاں کے زیادہ تر حکمرانوں کی معاشی استحکام کے پہلو سے بے توجہی جو اپنے ملک کو کوئی سیاسی استحکام اور معاشی خوش حالی کا پیکج دینے کی بجائے ہمیشہ اپنی مسند اقتدار کو مضبوط کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک منتخب صدر کو اپنی ہی منتخب حکومت، پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کو غیر قانونی و غیر جمہوری طریقے سے برخاست کرنے کی ضرورت نہ پیش آتی؟ دوسرا محاذ کرونا وبا سے نمٹنے میں صدر اور ان کی انتظامیہ کی مکمل ناکامی ہے شاید یہ تیونس پر کووڈ کا قہر ہی تھا جس نے وہاں کی سیاسی و معاشی صورت حال کو کنٹرول سے باہر کردیا تھا۔ کووڈ ہر ملک میں ایک آفت ناگہانی کی طرح ظاہر ہوئی اور اس نے ان ملکوں کو مزید بدحال کردیا جو پہلے سے ہی معاشی بد حالی کا شکار تھے۔ نظام کی مجموعی ناکامی اپنی جگہ لیکن اس میں کسی ایک وزیر یا فرد کو مورد الزام نہیں ٹھیرایاجا سکتا۔ یہاں بھی کچھ تو کووڈ کی اپنی وجہ سے اور کچھ صدر اور حکومت کی لاپرواہیوں اور غلط پالیسیوں کے سبب گذشتہ جولائی میں اہل اقتدار کے خلاف عوامی غصہ اتنا بڑھ گیا کہ وہ پر تشدد مظاہروں کے ساتھ سڑکوں پر اتر آئے اور حالات بگڑتے چلے گئے اور بالآخر صدر نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور ساتھ ہی اپنے مطلق العنان اقتدار کو بچانے کے لیے فوج کی حمایت سے وزیر اعظم ہشام مشیشی کی حکومت کو برخاست اور ایوان کو معطل کر تے ہوئے ہنگامی حالات کا بہانہ بنا کر ایک بار پھر ملک پر آمریت مسلط کردی ۔
آگے بڑھنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ ان حالات پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے جو تیونس کے موجودہ بحران کا سبب بنے ہیں اور جنہیں جمہوری حکومت کے خلاف منصوبہ بند مظاہروں کی بنیادبنایا جا رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا فرانس سے آزادی کے بعد کچھ داخلی اور خارجی وجوہات سے آمریت کے تقریبا ًساٹھ سالوں کے دوران یہ شمالی افریقی ملک سیاسی یا اقتصادی لحاظ سے کبھی پٹری پر نہیں آ سکا، اسے 2011 میں جمہوری و آئینی ڈھانچہ ضرور نصیب ہوا لیکن جمہوریت کا استحکام ابھی اپنی اس منزل پر نہیں پہنچا ہے جہاں ملک کی ساری قوتوں کی تگ و دو کا مقصود اپنی قوم کی ترقی و خوش حالی ہوجاتا ہے، تاہم اس پس ماندگی اور بد انتظامی میں کثیر جماعتی حکومت کے بعض مرکزی وزراء اور مقامی گورنروں اور حکام کی لاپروائی و نا اہلی کو نظر انداز کرنا بھی صحیح نہیں ہوگا۔
دوسرے اس ملک کو اس حالت تک پہنچانے میں دہشت گردی کے عالمی کھیل کا بھی بڑا دخل ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں کے اشاروں پر کام کر رہی داعش کی کارستانیوں نے یہاں 2011 کے فوراً بعد گل کھلانے شروع کردیے تھے، 2015 میں تیونس کے مقام سوزے میں ہونے والا دہشت گردانہ دھماکہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ یاد رہے اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی اور یہ اشارہ دیا تھا کہ اسے ۲۰۱۱ کے بعد کی جمہوری تبدیلیاں پسند نہیں ہیں ۔ اس دھماکے میں تقریباً ۸۳ افراد ہلاک ہوئے تھے اور ہلاک ہونے والے 30 سیاحوں کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ اسی سال ( مارچ 2015) تیونس کے معروف قیمتی میوزیم Bardo Museum میں ہونے والا دھماکہ بھی اسی بین الاقوامی سازش کا حصہ تھا،جس میں تقریبا ۲۴ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت بھی صدر محمد الباجی نے ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کیا تھا لیکن ان کا یہ اقدام وزیر اعظم اور پارلیمانی اسپیکر کے مشورے سے ہوا تھا اس لیے نہ تو اس کے خلاف کوئی آواز اٹھی اور نہ ہی صدر کی نیت پر شک کیا گیا، البتہ اس وقت کی صورت حال بالکل مختلف ہے جو اگر تبدیل نہیں ہوئی تو تیونس ایک بار پھر اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے نہیں بچ سکے گا۔
ملک کے نا پختہ اور غیر مستحکم سیاسی نظام کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ 2011 کے بعد یہاں گیارہ بار حکومتیں تبدیل ہو چکی ہیں، اس سیاسی اتھل پتھل کا اثر معیشت پر پڑنا بہت فطری ہے۔ چنانچہ گذشتہ چند سالوں سے اس کی جی ڈی پی نیچے ہی لڑھکتی جا رہی ہے اور پچھلے سال یہ ۸۔۸ تک پہنچ گئی تھی، کووڈ ۱۹ نے اس کی گرتی معیشت کو مزید ابتر بنانے کا کام کیا، ارباب اقتدار نے جس طرح اس عالمی وبا سے لڑنے میں ناکامی دکھائی اس نے انفکشن ہی نہیں اموات کی شرح میں بھی اضافہ کیا؛ چھوٹے سے ملک میں وبا سے ہونے والی ۱۸۰۰۰ اموات نے عوام کو سراسیمہ کر کے رکھ دیا اور موجودہ فسادی عناصر نے اس کا بھر پورا فائدہ اٹھایا۔ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے یہ دنیا میں کورونا کے سبب ہوئی اموات کی اعلی ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ اب تک محض ۷ فیصد آبادی کو ہی ویکسین دی جا سکی ہے۔ یاد رہے صحت و معیشت سے متعلق تمام بڑے فیصلے وزیر اعظم صدر کے مشورے سے ہی لیتا ہے، اور صدر کی اپنی ترجیحات کا ان فیصلوں کے نفاذ میں کافی دخل ہوتا ہے، کووڈ کے سبب پیدا ہونے والے صحت کے بحران پر قابو پانے کے لیے وزیر اعظم ہشام مشیشی نے اپنے تئیں کافی جدو جہد کی، معاملات کو درست کرنے کے لیے اپنے وزیر صحت کو بھی ہٹا دیا لیکن اس کے باوجود صدر اور ان کے حامی مطمئن نہیں ہوئے کیونکہ ان کی خواہش تو کچھ اور تھی۔ موجودہ حکومت نے جولائی میں ۱۸ سال سے اوپر کے افراد کے لیے ویکسین کی مھم چلائی جسے بھگدڑ اور تشدد کی نذر کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ تیونسیا کے یوم جمہوریہ، یعنی ۲۵ جولائی کے دن منصوبہ بند مظاہرے پورے ملک میں پھوٹ پڑے اور راجدھانی تیونس سمیت مختلف مقامات پر صدر کے حامی مظاہرین النھضۃ کے دفاتر پر بھی حملے کرنے لگے، نقاب پوش حملہ آوروں نے صرف اسلامی تحریک النھضہ کے دفاتر کو تشدد کا نشانہ کیوں بنایا اس پر غور کرنے سے پوشیدہ تہیں خود بخود کھلتی چلی جاتی ہیں، سیاست کے بین الاقوامی مہروں سے گھرا یہاں کا سیاسی منظر نامہ اس وقت مزید واضح ہوگیا جب انہیں مظاہروں کو بہانہ بناکر صدر نے منتخب وزیر اعظم کو برطرف کرکے پارلیمانی نظام کو ایک مہینے کے لیے معطل کردیا۔
تیونس کا موجودہ سیاسی بحران، جو ایک منتخب جمہوری حکومت کی بر طرفی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، مصر میں محمد مرسی کی پہلی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف رونما ہونے والی فوجی بغاوت سے کافی مشابہ ہے۔ٗ تیونس کے وہ ۲۸ روزہ عوامی مظاہرے جو 18 دسمبر 2010 کو ایک پھل فروش پر پولیس کی دست درازی اور اس کے بعد اس کی خود سوزی کی وجہ سے اچانک پھوٹ پڑے تھے 15 جنوری 2011 کو وہاں کے آمر حکمراں زین العابدین بن علی کے 23 سالہ تسلط و اقتدار کو بہا لے گئے۔ غربت، گرانی اور اپنے ٹھیلے کے خلاف پولیس و انتظامیہ کی روز مرہ کی کارروائی سے تنگ آکر جس شخص نے اس وقت خود کو نذر آتش کرلیا تھا اس کا نام محمد بو عزیزی تھا اور اس نے حکومت کے جس مقامی مراکز کے سامنے خود کو جلالیا تھا وہ تیونس کے شہر سیدی بوزید میں واقع ہے۔ بعد میں یہی مقام عوامی مظاہروں کا اصل مرکز بنا اور اسی نسبت سے اسے بوزید انقلاب بھی کہتے ہیں، اس مقام نے اہل تیونس میں سیاسی و سماجی بیداری لانے کےلیےوہی کام کیا تھا جو مصری مظاہرین کے مرکز تحریر اسکوائر نے اہل مصر کے لیے کیا تھا، تیونس میں صدر زین العابدین کے فرار کے بعد ان کے دور کے وزیر اعظم محمد الغنوشی نے چند روز عارضی صدر کا عہدہ سنبھالا اور بعد میں جب پارلیمنٹ کے اسپیکر فود مباضہ کو صدر بنایا گیا تو وہ دوبارہ اپنے پرانے عہدہ یعنی وزارت عظمی کے عہدے پر 27 فروری 2011 تک برقرار رہے لیکن مظاہرین نے انہیں اور ان کے تمام وزرا کو پرانے دور استبداد کی باقیات کہہ کر مسترد کردیا۔ یہ
طاقت ور مظاہرے اس وقت تک جاری رہے جب تک عارضی حکومت نے تبدیلی نظام سے متعلق ان کے مطالبات کو تسلیم نہ کر لیا۔ یہ اسی کا اثر تھا کہ سارے پرانے ظالم اور بد قماش امراء و وزراء کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا، بنیادی حقوق بحال کیے گئے ،پریس اور سوشل میڈیا پر سے ہر قسم کی پابندیاں ہٹ گئیں ، تمام سیاسی قیدی رہا ہوئے اور بشمول اسلامی تحریک النھضۃ ان تین سیاسی جماعتوں کو بھی قانونی طور سے تسلیم کیا گیا جنہیں گذشتہ تاناشاہی میں غیر قانونی قرار دیا گیا تھا، بالآخر عوام کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے 23 اکتوبر 2011 کو دستورساز اسمبلی کا انتخاب عمل میں آیا اور اس انتخاب میں گذشتہ اقتدار میں کالعدم کی گئی اسلامی تحریک النھضۃ نے راشد الغنوشی کی قیادت میں کل 41 فیصد ووٹوں کے ساتھ 90 نشستیں حاصل کیں اور ایوان کی کی سب سے بڑی جماعت کے طور سے نہ صرف قومی حکومت کی تشکیل کی بلکہ ملک میں جمہوری آئین اور جمہوری ڈھانچے کو از سر نو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا، انہوںنے ہر سطح پر آئینی طور سے عام انسانی حقوق، سماجی انصاف اور اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 2013 میں ایک قومی حکومت کی نگرانی میں ایوان کی 217 نشستوں کے لیے جمہوری تقاضوں کے مطابق نئے آئین کے تحت ایک صاف و شفاف انتخاب منعقد ہوا، جس میں النھضہ کو کچھ کم نشستیں ملیں اور وہ ایوان میں سب سے بڑی جماعت کے طور سے باقی نہیں رہی، لیکن اقتدار کی پر امن منتقلی نے یہ ثابت کردیا کہ کہ النھضہ کا سیاسی تصور قیام امن و انصاف ، سیاسی افہام و تفہیم اور تحفظ ملک و ملت پر مبنی ہے نہ کہ اقتدار کی ہوس پر ، اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اگر نیتوں میں کھوٹ نہ ہو تو کسی ملک میں محض تین سالوں میں بھی ایک دستوری و آئینی سیاسی نظام کو عملا قائم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح تیونس کا انقلاب جاسمین دیگر عرب ممالک کی طرح نہ تو خونیں واقعات اور خانہ جنگیوں کی نذر ہوا اور نہ سیاسی طور سے بے ثمر رہا۔ 2019 کے عام پارلیمانی انتخابات میں بھی یہ ملک اپنے جمہوری امتحان میں کامیاب رہا، اس انتخاب میں اسلامی مفکر اور تحریک اسلامی کے عالمی رہنما کی جماعت النھضۃ ایک بار پھر 52 نشستوں کے ساتھ، تیونس کی امنگوں کی ترجمان اور سب سے بڑی جماعت کے طور سے خود کو منوانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس بار بھی کسی پارٹی کو اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے ایک بار پھر ملی جلی قومی حکومت قائم ہوئی۔ اس حکومت میں راشد الغنوشی پارلیمنٹ کے اسپیکر منتخب ہوئے جب کہ غیر جماعتی امید وار ہشام المشیشی کو وزیر اعظم بنایا گیا اور، صدارتی امیدواروں میں قیس سعید اور نبیل قروائی کے درمیان قریبی مقابلہ رہا لیکن آخر میں قیس النھضہ کی حمایت سے اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ لیکن اب یہی قیس سعید فوج کی مدد سے تیونس کی منتخب حکومت کو جبرا ختم کرکے ملک کے مضبوط ہوتے جمہوری سیاسی نظام کے لیے کے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں اور وہ فی الحال تیونس میں مصر کی فوجی آمر جنرل السیسی کا کردار ادا کر رہے ہیں، ان دونوں میں بس فرق یہ ہے کہ سابق صدر مصر محمد مرسی شہید کے ہاتھوں چیف جنرل بنائے گئے عبد الفتاح السیسی نے مصر میں عرب بہاریہ کے انقلاب اور حسنی مبارک کی روانگی کے بعد جمہوری انتخاب سے چنے گئے صدر مصر محمد مرسی کو براہ راست ایک خونیں فوجی بغاوت کے بل پر ہٹایا تھا اور قیس سعید کو اس کےلیے الگ سے فوج کی مدد لینی پڑی، اسی سبب سے النھضۃ اور بعض دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہ قیس کے اس قدم کو بھی ’’فوجی بغاوت‘‘ کر رہے ہیں۔ السیسی نے جون 2012 میں تشکیل پانے والی عوام کی منتخب کردہ حکومت کو پہلے جبراً ختم کرنے اور مصر کے پہلے منتخب صدر کو ہٹانے کا جرم کیا اور پھر خود ہی عہدہ صدارت پر قبضہ کرلیا، جب کہ قیس سعید نے تیونس میں یہی جرم اس طرح کیا ہے کہ وہ محض اپنے صدارتی اختیارات کو تاناشاہی میں بدلنے کے لیے خود ان لوگوں کی منتخب حکومت کو برطرف کردیا جن کی حمایت سے انہیں صدر بننا نصیب ہوا تھا اور اس طرح ملک کو ایک بار پھر اسی فوج کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جو پچھلے دو آمرانہ اقتدار کے دور میں مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، استحصال ، حقوق انسانی کی پامالی اور ہر قسم کی آزادی کا گلا گھونٹنے میں ہر مرحلے پر پیش پیش تھی۔ ان دونوں میں سب سے بڑی یکسانیت یہ ہے کہ ان دونوں نے اپنے اقتدار کو قائم کرنے کے لیے ملک کی منتخب جمہوری حکومتوں کو غیر قانونی طریقے سے ہٹا کر سب سے بڑا غیر قانونی کام کیا ہے جس کی کوئی توجیہ قابل قبول نہیں ہے۔ ان میں دوسری یکسانیت یہ نظر آتی ہے کہ ان دونوں نے معمولی عوامی مظاہروں کو بہانہ بنا کر جس طرح منتخب حکومتوں کو ختم کیا ہے اس کا ہر پہلو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ اقدامات پوری طرح منصوبہ بند تھے اور اس کے پیچھے وہی طاقتیں کارفرما ہیں جنہیںمصر یا تیونس جیسے اہم مسلم ممالک میں ان تحریکات کا اقتدار میں آنا قطعا ًقبول نہیں ہے جن کی سیاسی ترجیحات میں
مسلم ملکوں میں جمہوری- سیاسی و اقتصادی استحکام، فلسطین کی آزادی ، ملت اسلامیہ کا تحفظ اور عالم اسلام کا اتحاد جیسے مسائل شامل ہیں۔ لیکن یہ طاقتیں ان سرگرمیوں میں براہ راست شامل نہیں ہوتیں بلکہ یہ کام مشرق وسطی میں ان کے موجودہ مہرے، خصوصا عرب امارات اور سعودی عربیہ کے حکام انجام دے رہے ہیں، مصری بغاوت میں ان کا کتنا ہاتھ تھا اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، سب کچھ سامنے آ چکا ہے، مزید یہ کہ یہ سب اسرائیل کے منظور نظر ہیں جسے پوری دنیا جانتی ہے۔ اب تیونس میں بھی یہ لوگ یہی کہانی دہرانا چاہتے ہیں۔ چناچہ بلیوں کو تھیلے سے باہر آنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ سعودی عربیہ کے وزیر خارجہ نے تیونس میں آئی اس تبدیلی کے بعد وہاں فورا دورہ کیا اور صدر کو ہر طرح کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ مصر کہاں پیچھے رہتا، حسب توقع اس کے وزیر خارجہ سامح شاکری نے بھی یکم جولائی کو تیونیسیا کا دورہ کرکے صدر قیس سے ملاقات کی اور انہیں مصری حکومت کی ’’بھر پور تائید‘‘ کی یقین دہانی کرائی ہے۔ امارات کے وزیر خارجہ انور قرقش نے قیس سعید کے اس غیر قانونی قدم کا یہ کہتے ہوئے استقبال کیا کہ تیونس میں استحکام کی ہر کاوش کا خیر مقدم ہے اور صدر قیس ’’دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے‘‘ کے لیے جو کچھ کریں گے یو اے ای ’’بلا شرط ان کا ساتھ دے گا‘‘۔ الفاظ واضح ہوں تو بین السطور پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب سوچ سکتے ہیں جہاں کووڈ کے پیدا کردہ موجودہ حالات میں خود اس ملک کے مظاہرین کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور بد انتظامی ہے وہاں ’’دہشت گردی‘‘ کا مسئلہ کہاں سے آگیا ہے اور یہ ’’اخوانی‘‘ فکر اور خود ساختہ دہشت گردی کا نام لے کر کون کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ؟ آخر یہاں دہشت گردی کا ذکر کہاں سے آگیا؟ آپ کو اس بے تکے پن سے تعجب ہوا ہوگا لیکن ہمیں بالکل نہیں ہوا، کیونکہ یہ وہی جڑی ہے جو صہیونی عناصر نے اپنے مہروں کو پلا رکھی ہے، اور اسی کے ذریعہ وہ اپنے احمق مہروں کے تعاون سے مسلم ملکوں کو کمزور کرنے اور اسے اس رخ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے میں مدد کرے۔ یاد کیجیے یہ وہی یو اے ای ہے جس کے ایک کارندے نے حماس اسرائیل حالیہ تصادم اور رمضان میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے کچھ ہی دنوں بعد امریکہ میں بڑی بے شرمی سے کہا تھا کہ "حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور مسلم ملکوں کو اسے ایسا سمجھنے اور قرار دینے میں دیر نہیں کرنی چاپیے۔”۔ مختصر یہ کہ اسرائیل نے اخوانی عنصر کا حوالہ دے کر یا ڈرا کر جس طرح بہت سے عرب ملکوں کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے اسی طرح وہ امارات اور سعودی عربیہ کے سفارتی و مالی تعاون سے تیونس کو بھی اسی ڈگر پر ڈالنا چاہتا ہے اور اس کے موجودہ صدر اور فوج کے توسط سے مصر کی طرح ہی یہاں بھی ہو بہو ویسی ہی فوجی بغاوت کی کہانی دہرانا چاہتاہے تاکہ اسے مسلم ملکوں میں اپنی بساط پھیلانے اور اسرائیل کے استعماری قبضہ کو جائز ٹھیرانے کے لیے ایک ایسا مددگار مسلم ملک مل جائے جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بھی بہت قیمتی ہے۔ تیونس میں اخوان کا کہیں کوئی سرگرم وجود نہیں ہے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ صدر قیس اور خارجی عناصر کے طے کردہ منصوبہ بند مظاہرے میں اخوان کے خلاف بھی نعرے بازی سنی گئی اور مظاہرین کو اخوان کا حوالہ دے کر ایوان کی سب سے بڑی جماعت النھضۃ کے خلاف عوام کو بھڑکاتے ہوئے صاف طور سے دیکھا گیا، چنانچہ مظاہرے کے پہلے دن جب صدر کے اقدام کے حمایتی اور مخالفین قصر صدارت کے باہر باہم بر سرپیکار تھے،ایک بین الاقوامی صحافی نے مظاہرے میں شامل ایمن نام کے ایک شخص سے مظاہرے کا سبب پوچھا تو اس نےجواب دیا :’’ہم یہاں تیونس کو بچانے کے لیے آئے ہیں،ہم نے اخوان المسلمون کی حکمرانی میں بہت سے المیے دیکھے ہیں۔‘‘
یہاں اخوان المسلمون کا لفظ اس نے طنزا ًاستعمال کیا ہے، اب آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ تیر کس صہیونی کمان سے نکلا ہوگا اور تیونس کو موجودہ بحران تک قصداً کیوں پہنچایا گیا ہے؟
اس طرح بعض کھلی و چھپی طاقتیں اس ملک کو بھی مصر کی راہ پر لگانے اور بڑی ہوشیاری سے وہاں کے عوام کو عظیم انقلاب کے ثمرات سے محروم کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور میری نظر میں تیونس کے موجودہ بحران کا یہی سب سے قابل توجہ اور تشویشناک پہلو ہے جس سے ہوشیار رہنا از بس ضروری ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ تیونس کے صدر کے ذریعہ حکومت کی برطرفی اور پارلیمنٹ کی معطلی کے بعد ملک میں سیاسی بحران شدید ہو گیا ہے۔ ملک کے بڑے شہروں میں صدر کے اس غیر قانونی اقدام کی حمایت میں پہلے سے طے شدہ عوامی مظاہروں کا بھی اہتمام کیا گیا اور قیس کے حامیوں نے شہر کو صحرا میں تبدیل کردیا،۔انہوں نے گاڑیوں کا ہارن بجا کر اور نغمے پڑھ کر صدر کے اس غیر اخلاقی و غیر قانونی اقدام کی حمایت کا بھی اعلان کیا اور حکومت کے حامیوں پر پتھر پھینکے لیکن جنہیںحالات کا شعور ہے وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ النھضۃ کے دفاتر پر بعض عوامی گروہوں کے حملے اور بر طرف کیے گئے وزیر اعظم کے خلاف اور صدر کی حمایت میں فوجیوں سے گھری پارلیمنٹ کے باہر ان کی نعرےبازی بالکل منصوبہ بند تھی۔ حالات و واقعات کا سیاق اور ان کے اندرونی رشتوں کو سمجھنے کے بعد اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اس منصوبہ بندی میں مشرق وسطی کے حکام اور شہزادے کس حد تک شریک ہیں۔ تیونس کے تمام بڑے سیاست داں اور معروف تجزیہ کار اسے ایک ایسی ’’بغاوت‘‘ کا نام دے رہے ہیں جس میں تیونسی فوج بھی پوری طرح شریک ہے۔ یہ اس لیے کہا جا رہا ہے کیونکہ فوج کی حمایت کے بغیر قیس سعید کے لیے سب سے بڑی سیاسی جماعت- النھضۃ، جس کی حمایت سے وہ خود اقتدار میں آئے ہیں، کی منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی ہمت کرنا اور اپنے اقدام میں کامیاب ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔
لیکن ہمیں یقین ہے کہ صدر کی جانب سے وزیرِ اعظم ہشام مشیشی کو ہٹانے اور ملک کے مستحکم ہوتے سیاسی نظام کو دوبارہ کمزور کرنے کے پیچھے جو طاقتیں در پردہ کام کر رہی ہیں وہ جلد ہی بے نقاب ہو جائیں گی ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ مرسی شہید کے معاملے میں بے نقاب ہوئی ہیں۔
صدر قیس سعید نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی "نئے وزیرِ اعظم کے تعاون سے اعلیٰ اختیارات سنبھالیں گے”۔ لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ایک جمہوری نظام میں بغیر سیاسی مشاورت اور گفت و شنید کے وہ وزیر اعظم کیسے نامزد کریں گے؟ کیا ایسا ہوتا کہ ایک کو ہٹا کر اپنی مرضی سے دوسرے کو حکومت کی باگ ڈور سونپ دی جائے؟ اس نظام میں جو بھی آتا ہے وہ منتخب ہوکر آتا ہے اور انتخابی و سیاسی عمل کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ لیکن وہ جان بوجھ کر کچھ گھسے پٹے الفاظ کو بار بار دہرا رہے اور اپنے عوام اور دنیا کوگمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ خارجی عناصر کو تیونس کو اپنے لیے استعمال کرنے اور انہیں اس کا آمر مطلق بننے کی دیرینہ آرزو پوری کرنے کا موقع مل جائے۔ اس پیش رفت کو بعض لوگ "تیونس میں 2011 کے عرب بہاریہ کے انقلاب سے تعبیر کر رہے ہیں جو تاریخی اور منطقی دونوں لحاظ سے غلط ہے۔ بلکہ یہ اقدام تو ۲۰۱۱ کے بعد کے جمہوری نظام کے لیے ایک خطرناک چیلنج ہے، تیونیسیا کی عرب اسپرنگ کی شکل میں ظاہر ہونے والی تبدیلی ایک خوش آئند اور مثبت نتیجے کی حامل تھی جب کہ یہ غیر جمہوری تبدیلی کلی طور سے منفی ہے اور وہ گذشتہ مثبت نتائج اور مساعی جمیلہ پر خط تنسیخ پھیرنے جیسی ہے۔
صدر سعید نے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور بعض دیگر عالمی رہنمائوں کو ملک میں جمہوریت کو باقی رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے، انہوں نے "جمہوریت کے احترام” کے تعلق سے امریکی وزیر خارجہ کی تشویش کے جواب میں یہ بھی یقین دلایا ہے کہ یہ ایک وقتی اقدام ہے اور وہ جمہوری حقوق و آزادی اور دستوری تقاضوں کو ہر حال میں ملحوظ رکھیں گے۔ بہر حال آئندہ ان کے الفاظ نہیں بلکہ ان کے اقدامات ہی یہ طے کریں گے وہ کتنے انصاف پسند اور ایماندار ہیں۔ ایک منتخب حکومت کو ختم کرنے اور پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے خلاف وقت کیا فیصلہ دیتا ہے، آیا قیس سعید اپنے موجودہ غلط اقدام کی تلافی کرتے ہیں یا اسے اپنے سیاسی منصوبے پورے کرنے کا مزید ہتھکنڈا بناتے ہیں، اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ البتہ اپنے مخالفین کو ان کا یہ دھمکی آمیز پیغام کہ ” کسی کو بھی گولی کے جواب میں فوج کی گولی ملے گی” اس آمریت اور تاناشاہی کا عندیہ ضرور دیتا ہے جس کا اس ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو ان کی صدارت میں واپس آ جانے کا بہت دنوں سے اندیشہ ہے۔
اب صدر سعید کی اس تصویر کے تعلق سے بھی تھوڑی سے وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے جو انتخاب سے پہلے کی ہے۔ اس تصویر میں قیس سعید نام کا ایک شخص سادہ و تعلیم یافتہ اور غیر جماعتی صدارتی امیدوار ہے، اسلام پسندوں کا دوست اور تحریک اسلامی کے عظیم رہنما راشد الغنوشی کا قدرداں اور ان کی یاد گار اسلامی سیاسی جماعت النھضۃ کی موجودہ قیادت کے بہت قریب ہے، معلوم ہو کہ یہ وہی تحریک ہے جو تیونس کے جمہوری "جاسمین انقلاب” کی سب سے بڑی چمپین اور یہاں کے موجودہ جمہوری انتخابی نظام کی سب سے بڑی موسس ہے۔ وہ ایک سچا مسلمان ہے، مسلمانوں کے حقوق کا محافظ، اسرائیلی استعمار کا دشمن اور کتاب و سنت کی بالاتری کے ایک مضبوط وکیل کی شکل میں ہر اسٹیج پر نظر آتا ہے۔ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی "بحالی” کی بات کرنے کو بھی "غداری” اور اس کی حمایت کرنے والے کو "غدار” قرار دیتا ہے، وہ کتاب اللہ کے احکام کو حتمی مانتا ہے اور ان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کو ناقابل قبول سمجھتا ہے اور اسے اپنے قریب ترین انتخابی حریف ارب پتی نبیل قروی کی کرپٹ شبیہ کے مقابلے میں ایک سادہ و ایماندار شخصیت کے طور سے جانا جاتا ہے۔ لیکن انتخاب کے بعد مشرق وسطی کی عالمی سیاست کے شاطر کھلاڑیوں نے اس پر ایسی کمند ڈالی کہ اس کے سارے خدوخال ہی بدل گئے اور وہ اپنے قول و عمل دونوں سے ایسا لگنے لگا جیسے وہ کوئی اور قیس سعید ہو، ایسا محسوس ہوا کہ وہ تیونیسیا کا قیس سعید نہ ہو بلکہ اقتدار کی کرسی پر پہنچ کر اور مصر کے اسرائیل نواز عبد الفتاح کے نقش قدم پر چل کر قیس "سیسی” ہو گیا ہو۔ شخصیت ایک ہی ہے لیکن ذرا دیکھیے اس کی دوسری تصویر پہلی سے کتنی جدا ہے اور اسے دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ
تیونس کے جمہوری انقلاب کے تعلق سے تیونسی شاعرہ مریم الطرابلسی کی معروف نظم ’’ ثورة الياسمين‘‘کا یہ شعر وقت گذرنے کے ساتھ کہیں غلط نہ ثابت ہوجائے، ’’ ہر شخص آزاد ہے، عورت بھی آزاد ہے، استعمار کھدیڑا گیا اور اعتبار واپس آگیا‘‘ ۔
یہ سچ ہے کہ قیس سعید نے انتخابات سے پہلے اپنے سیاسی بیانات اور منشور سے تیونسی عوام میں کافی امید جگائی تھی اور ان کا دل جیتنے میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن انتخابات کے بعد یہ شخص بالکل ایک نیا چہرہ لیکر سامنے آیا اور اپنے نکمے پن کو لبرل طرز سیاست سے چھپانے کی کوشش کرنے لگا ہے. انتخاب کے بعد نہ تو اس کی اسلام پسندی زیادہ دیر باقی رہی اور نہ ہی وہ اہل تیونس سے کیے ہوئے اپنے وعدے ہی پورےکر سکا ۔ اس کے پاس ملک کی اقتصادی ترقی کا کوئی دیرپا ایجنڈا بھی نہیں ہے۔ ملک کو مستحکم و مضبوط کرنے کی بجائے وہ تیونس کو جمہوری انقلاب سے پہلے کے دور میں لے جانے کے لیے کوشاں ہے تا کہ وہ ایک مطلق العنان صدر بن سکے. تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے انتخابات سے پہلے بتکرار کہا تھا کہ "اسرائیل سے تعلقات کا قیام ملک کے ساتھ خیانت ہے”، اب مقامی و بین الاقوامی میڈیا رپورٹوں کے مطابق وہ السیسی اور دیگر عرب حکمرانوں کی شہ پر اسرائیل سے برابر خفیہ تعلقات بڑھانے میں لگا ہواہے. جب کہ داخلی طور سے موجودہ ہنگامی حالات سے پہلے کی خبریں کبھی اچھی نہیں رہی ہیں۔ اس کے دور میں عبیر موسی جیسی اسلام دشمن سیاست داں و رکن پارلیمنٹ کی خوب حوصلہ افزائی ہورہی ہے، وہ کھلے عام اسلام و اسلامی نظام کے خلاف بیانات دے رہی ہے۔ ملکی ٹی وی چینلوں پر دین بیزار طبقوں، اور اسی قسم کے شعراء و ادباء کی نمائش بھی بڑھ گئی ہے۔ اس کی طرف سے دستور میں جمہوریت مخالف ترمیمات کی کوشش بھی بہت دنوں سے جا ری ہے تاکہ سیسی کی طرح اسے بھی لا محدود قوت و اختیار حاصل ہو جائے اور وہ ملک میں اپنی مرضی سے جو چاہےکر سکے۔جو شخص انتخاب کے وقت اسرائیل کے کسی شہری کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی بات کرنا "غداری” سمجھتا تھا وہ اتنا بدلا کہ السیسی، امارات و سعودی عرب کے شہزادوں اور شاید خود اسرائیل کے غاصب حکام کی خوشنودی میں حماس کے وفد سے ملنے سے بھی گریز کرنے لگا بلکہ ملنے سے انکار کر دیا۔ حماس کی طرف سے ان سے مل کر فلسطین کی اصل صورتحال پر گفتگو کے لیے کافی کوشش کی گئی لیکن موصوف نے حماس کے ذمہ داروں سے ملنے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ آخر یہ انداز کن طاقتوں کو خوش کرنے لیے اپنایا جا رہا ہے؟ یہی نہیں خبر یہ بھی ہے کہ فلسطینی مجاہدین کو انہوں نے تیونس جانے کی بھی منظوری نہیں دی. اس سے ان کے انتخاب کے بعد کے بدلے ہوئے رجحانات یا اصل تیور کا تھوڑا بہت اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
قیس سعید کا بظاہر کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے لیکن فی الحال وہ بشار الاسد اور جنرل السیسی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، یعنی ” سیاسی اسلام” کے خلاف محاذ آرائی اب ان کا پہلا ہدف ہے ۔انھوں نے گذشتہ ۲۷ رمضان کو جامع زیتونہ میں جو بات کھلے عام کہی وہ ان کی بدلی ہوئی تصویر کا ایک تشویشناک زاویہ ہے۔ موصوف نے کہا "قرآن کا نزول مسلمانوں کے لیے ہوا ہے اسلام پسندوں کے لیے نہیں” ان کا یہ اچانک بیان ان کے فیس وولاٹائل (قلب ماہیت) کی کہانی بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ رمضان میں ان کے اس معنی خیز بیان سے تمام اہلِ تیونس چونک اٹھے تھے اور اب اس کے اثرات عملی شکل میں ان کےسامنے ہیں۔ یاد رہے یہ گفتگو اس وجہ سے بھی زیادہ دھماکہ خیز اور منفی معنی میں لی گئی کیونکہ یہ بات اس نے دورہ قاہرہ اور عبد الفتاح سیسی سے ملنے کے بعد کہی تھی۔ اس میں امریکہ و اسرائیل کی برین واشنگ صاف نظر آ رہی ہے۔
یہ سب جانتے ہیں کہ صدارتی انتخابات سے پہلے قیس سعید کی شخصیت سیاسی و سماجی طور سے کوئی معروف اور مقبولِ عام شخصیت نہیں تھی۔ انہیں اصلاً اپنے سیاسی بیانات، النھضۃ سے تعلق اور ایک دولت مند اور کرپٹ حریف کی امیدواری کا پورا فائدہ ملا تھا، لیکن بعد میں وہ عوام کے اعتماد پر پورے نہیں اترے اور صرف سیاسی توڑ جوڑ ہی ان کی ترجیح رہ گئی۔ پہلے کبھی نہ تو معروف و مقبول اہل سیاست میں ان کا شمار تھا اور نہ ہی سماجی سرگرمیوں کے لحاظ سے ہی وہ عوامی حلقوں میں معروف تھے۔اب تازہ صورت حال بالکل واضح ہے، منتخب جمہوری حکومت کو برخاست کرنے سے پہلے کی بھی خبر یہی تھی کہ قیس سعید کی ساری خواہشات اور کوششوں کا مرکز لا محدود اختیارات اور مطلق العنان حکمرانی کے حصول تک مرکوز ہو گیا ہے اور اس کے لیے ضروری تھا کہ خود کو طاقت و اقتدار کا اکیلا مرکز بنا لیا جائے جو وہ کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دستوری تبدیلیاں کرکے ملک میں 1959 کے دستور کا نفاذ دوبارہ ہو جائے، یہ دستور صدر کو مطلق العنان بنانے میں مدد کرے گا اور ساتھ ہی النھضۃ جیسی کسی سیاسی جماعت کے اقتدار میں آنے کے امکانات کو معدوم کر دے گا۔۔ جب کی 14-2013 کا دستور جو کہ جمہوری انقلاب کے بعد عمل میں آیا تھا اور تمام پارلیمانی ارکان نے 2017 میں جس کے حق میں رائے دے کر اسے حتمی شکل دی تھی اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے۔ ان کا یہ رجحان دیکھ کر اب اہل تیونس کو یہ خدشہ بھی لاحق ہو گیا ہے کہ کہیں وہ مصر و سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کی راہ پر چل کر نیز مزید اختیارات حاصل کرکے وہی کچھ نہ کرنے لگیں جو اس وقت ان ملکوں میں ہو رہا ہے اور جس میں اسلام بیزاری و ملت بیزاری اور صہیونیت نوازی کا عنصر غالب ہے اور جہاں عوام کے لیے جبر و استبداد، زبان بندی، گھٹن اور قد غنوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔خدا کرے ایسا نہ ہو اور صدر تیونس کو وقت گذرنے سے پہلے عقل آ جائے۔
***

اہل تیونس کو یہ خدشہ بھی لاحق ہو گیا ہے کہ کہیں وہ مصر، سعودی عرب اور امارات کی راہ پر چل کر، نیز مزید اختیارات حاصل کرکے وہی کچھ نہ کرنے لگیں جو اس وقت ان ملکوں میں ہو رہا ہے اور جس میں اسلام بیزاری و ملت بیزاری اور صہیونیت نوازی کا عنصر غالب ہے۔ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو اور صدر تیونس کو وقت گزرنے سے پہلے عقل آ جائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21  اگست 2021