افغانستان! زمین پر سپردگی اور آسمان سے بمباری

ا شرف غنی کی نصرت کے لیے امریکہ کی وحشیانہ بمباری سے امن کی امید کو دھکا

مسعود ابدالی

 

اس ماہ کے آغاز سے افغانستان میں دو بہت مختلف مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ زمینی صورتحال دنیا بھر میں نشر ہونے والی خبروں سے کافی مختلف ہے یعنی ’گھمسان کی جنگ‘، ’لاشوں کے انبار‘۔ ’جلی اور کھنڈر بنی عمارات‘ کے بجائے شمالی افغانستان میں طالبان اور NDS(افغان فوج) کے د رمیان سپردگی اور مفاہمت نمایاں ہے۔ آٹھ اگست کی شام جب طالبان صوبہ قندوز کے دارالحکومت میں داخل ہوئے تو افغان فوج کے جوانوں نے لڑنے کے بجائے ’حملہ آوروں‘ کا اللہ اکبر کے نعروں سے استقبال کیا۔علاقے کی رکن پارلیمان محترمہ نیلوفر جلالی نے میڈیا کو بتایا کہ سرکاری فوج کے سپاہی دفاع کے بجائے طالبان سے ’’گپ شپ‘‘ کرتے نظر آرہے ہیں۔اکثر چوکیاں ایک بھی گولی چلائے بغیر طالبان کے حوالے کردی گئیں۔ ایک ہفتہ پہلے ملاوں کے ترجمان سہیل شاہین نے سیٹیلائیٹ فون پر امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرزکو بتایا تھا کہ اکثرمقامات پر سرکاری فوج اپنے مورچے اور چوکیاں خود ہی’اپنے طالبان بھائیوں‘ کے حوالے کررہی ہے۔ جب صحافی نے اس انکشاف پر تعجب کا اظہار کیا تو سہیل شاہین نے جوابی سوال داغا کہ طالبان کیا دیو یا جن ہیں جو روزانہ کئی ضلعے ’فتح‘ کررہے ہیں؟ افغان فوج جدید ترین امریکی و برطانوی اسلحے سے لیس ہے اگر وہ مزاحمت کرتے تو طالبان کی برق رفتار پیشقدمی ممکن نہ تھی۔افغان بھائی ہمارے لیے خود ہی راستے ہموارکررہے ہیں۔
اسی قسم کی اطلاعات نمروز، جوزجان اور سرائے پل سے بھی مل رہی ہیں۔ جوزجان کا دارالحکومت شبر غن جنگجو رہنما فیلڈ مارشل عبدالرشید دوستم کا آبائی شہر اور انکی بدنامِ زمانہ گلم جم ملیشیا کا ہیڈکواٹرہے۔ شہر کی حفاظت کے لیے ایک کے بعد ایک کنکریٹ کی چار دیواریں تعمیر کی گئی ہیں جنہیں مسمار کیے بغیر شہر میں بزورِ طاقت داخل ہونا ممکن ہی نہیں۔عینی شاہدین کے مطابق یہاں تعینات محافظین نے طالبان کے لیے خود ہی پھاٹک کھول دیے ۔
شمالی علاقوں میں پیشقدمی طالبان کی نفسیاتی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔یہ عام خیال ہے کہ طالبان پشتونوں کی تحریک ہے اور اسے غیر پشتون فارسی بان (ازبک، تاجک، ترکمن اور ہزارہ ) علاقوں میں مقبولیت حاصل نہیں۔ امریکی قبضے کے بعدتشکیل دی جانیوالی NDSمیں اکثریت فارسی بانوں کی ہے۔ اب شمالی علاقوں میں کامیابی اور ہزاروں افغان سپاہیوں کے طالبان میں ضم ہونے سے کابل انتظامیہ نفسیاتی دباو کا شکار ہوتی نظرآرہی ہے۔یعنی جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ افغان سپاہیوں کے اس رویہ سے اشرف غنی سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیدار اپنے ذاتی تحفظ کے بارے میں اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ کابل سکریٹریٹ میں یہ خدشہ جڑپکڑ رہا ہے کہ دارالحکومت پر یلغار کی صورت میں افغان سپاہی حملہ آوروں کے لیے یہاں بھی دیدہ و دل فرشِ راہ کرسکتے ہیں۔
شبرغن، قندوز، تالقان، سرائے پل اور زرنج پر قبضے سے سرکاری فوج کا حوصلہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔یہ افغان حکومت کے محفوظ علاقے سمجھے جاتے تھے اس لیے زیادہ تر طالبان قیدی ان شہروں کی جیلوں میں رکھے گئے تھےجنہیں ملاوں نے جیل توڑ کر آزاد کرالیا ہے اور اب یہ تازہ دم جنگجو مورچوں پر آگئے ہیں۔ سرحدی علاقوں پر طالبان کے قبضے سے درآمدی محصولات کی شکل میں ہونے والی حکومتی آمدنی بھی ختم ہوگئی ہے۔تاجکستان، ازبکستان، ایران اور ترکمانستان کی سرحدوں پر قائم کسٹم چوکیوں اور چنگیوں پر طالبان وصولی کررہے ہیں۔
غیر جانب دار مبصرین کا کہنا ہے کہ شمالی ریاستوں میں NDSکسی بھی جگہ نہ صرف لڑنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہی بلکہ اکثر مقامات پر پسپاہوتے ہوئے ان سپاہیوں نے اپنا اسلحہ بھی چھاونی اور ناکوں پر چھوڑ دیا۔ طالبان نے کہا ہے کہ نہتے افغان سپاہی اپنی مرضی سے جہاں چاہیں جاسکتے ہیں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور اگر وہ سپاہِ اماراتِ اسلامی میں شامل ہونا چاہیں تو انہیں خوش آمدید کہا جائے گا۔
ازبکستان سے جڑے بلخ پر بھی طالبان کا دباو بڑھتا جارہا ہے۔ افغان عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاوں کے دستے صوبائی دارالحکومت مزارِ شریف کی طرف پیش قدمی کرتے نظر آرہے ہیں۔ صدر اشرف غنی کا خیال ہے کہ بلخ کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہیں لیکن ماہرین کے خیال میں یہ دعوٰی خوش خیالی ہے۔ بلخ جوزجان، سرائے پل اور قندوز سے گھرا ہوا ہے جسکی وجہ سے بلخ کو کمک کے راستے بند ہوچکے ہیں۔ جنوب مشرق میں سمنگان کا بڑا علاقہ بھی ملاوں کے کنٹرول میں ہے۔
تخار کے بعد طالبان کی نظریں بدخشاں پر ہیں۔ یہ صوبہ ایک طرف تاجکستان سے ملا ہوا ہے تو دوسری جانب گِلگِت کے شمال میں واخان راہداری چینی صوبے سنکیانگ تک جاتی ہے جہاں کے ایغور مسلمان چینی حکومت کی بدسلوکی کے شاکی ہیں۔بدخشاں کی جانب طالبان کی پیشقدمی چین کے لیے انتہائی حساس ہےاوراس حوالے سے چین وپاکستان کے درمیان قریبی تعاون کی اطلاعات ہیں۔ افغان ذرائع کے مطابق 31 جولائی کو جنوب مغربی چین کے صنعتی شہر چنڈو (Chengdu)میں وزیرخارجہ وانگ ژی اور انکے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے درمیان اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ بیجنگ کو خدشہ ہے کہ امریکہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاکر سنکیانگ میں مداخلت کے نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کرےگا۔
قبضہ شدہ علاقوں میں طالبان نے اپنی انتظامیہ تشکیل دینی شروع کردی ہے۔ مساجد سے اعلان ہورہا ہے کہ شہری آزادیوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ خواتین کے گھر سے نکلنے پر کوئی پابندی نہیں نہ ہی مردوں کو زبردستی داڑھی رکھنے پر مجبورکیا جائے گا۔چوراہوں پر اسی مضمون کے بڑے بڑے اشتہاری تختے یا billboardبھی لگائے گئے ہیں۔ مقامی ذرائع کا کہناہے سستے اور بروقت انصاف کے لیے کئی علاقوں میں ’مسجد عدالتوں‘ نے کام شروع کردیاہے۔اسی کیساتھ ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی سے نمٹنے کے لیے خصوصی کمیشن قائم کردیا گیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ نمروز اور جوزجان میں دوکانیں کھلی ہوئی ہیں اور جنگ کے باوجود اشیا کی قلت یا مہنگائی کی کوئی شکایت نہیں سنی گئی۔طالبان کے ان دعووں کی تردیدکرتے ہوئے کابل حکومت نے ملاوں پر اپنے زیرقبضہ علاقوں میں قتل عام کا الزام لگایا ہے۔
شمالی صوبوں میں جہاں صورتحال وقتی طور پر ہی سہی لیکن پرامن ہے وہیں ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں قتل وغارت گری عروج پر ہے۔آٹھ جولائی کو لشکر گاہ کا شہید انور خان ہائی اسکول بمباری سے تباہ ہوگیا۔ قریب ہی ایک سرکاری دواخانہ بھی بمباری کی زد میں آگیا۔اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ بمباری افغان طیاروں نے کی تھی یا انہیں امریکی B52بمباروں نے نشانہ بنایا۔ افغان وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اسکول اور دواخانے میں موجود طالبان امریکی طیاروں کا ہدف تھے۔ بمباری سے عورتوں اور بچوں سمیت 20شہری مارے گے۔اسکول کے محافظ کا کہنا ہے کہ رات دس بجے بمباری کی گئی۔ اس وقت اسکول خالی رہتاہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لڑائی سے متاثر ہونے والے کچھ افراد نے اسکول میں پناہ لے رکھی تھی جنہیں طالبان ہونے کے شبہ میں نشانہ بنایاگیا۔
افغانستان پر امریکی طیاروں کی بمباری کی خبریں کافی دن سے آرہی تھیں۔کچھ عرصہ پہلےامریکی مرکزی کمان (CENTCOM)کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی نے کہا تھا کہ افغان حکومت کی مدد کے لیے طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری خارج از امکان نہیں۔عید الاضحیٰ کے تیسرے روز سے بمباری کی اطلاعات آنا شوع ہوئیں۔ عسکری ماہرین کا کہنا تھا کہ بمباری کے لیے ڈرون کے علاوہ B-52بمبار استعمال ہورہےہیں۔
گزشتہ ہفتےبرطانیہ کے موقر جریدے Daily Mailنے انکشاف کیاکہ طالبا ن کی پیشقدمی روکنے میں افغان فوج کی ناکامی پر صدر بائیڈن نے بی 52بمبار اور تباہ کن AC-130-Spectreگن شپ استعمال کرنے کا حکم دیدیاہے۔ لاک ہیڈ کے بنائے ہوئے AC-130 پر چالیس ملی میٹر دہانے کی بوفور توپیں نصب ہیں۔مال برداری کے لیے بنائے جانیوالے اے سی 130کو توپیں نصب کرکے gunship میں تبدیل کردیا گیاہے۔ اے سی 130پر بڑی مقدار میں گولہ بارود لادا جاسکتا ہے جسکی وجہ سے یہ طیارے دیر تک آگ برسانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس خبر سے پاکستانی حکومت بھی دفاعی پوزیشن میں آگئی ہے۔ بی 52 بمبار اور اے سی 130 گن شپ افغانستان میں موجود نہیں۔ یہ طیارے قطر، عُمان یا کویت کے امریکی اڈوں سے روانہ ہوکر مکران کے ساحل سے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہیں اور بلوچستان پر سے پرواز کرتے ہوئے چمن کے راستے افغانستان پہنچتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے صاٖف صاف کہا تھا کہ پاکستان افغانستان پر حملے کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیگا اور اس حوالے سے انکے Absolutely NOT!!!کو میڈیا پر بھرپور کوریج ملی تھی۔
اب کہا جارہا ہے کہ پرویز مشرف نے افغانستان پر حملوں میں سہولت کاری کیلیے ایئرلائنز آف کمیونیکیشن یا ALOC کا جو معاہدہ کیا تھاوہ اب تک نافذ العمل ہے۔ معاہدے کے تحت امریکہ افغانستان پر حملے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرسکتا ہے۔
بے پناہ بمباری نے افغانستان کی صورتحال کو انتہائی سنگین بنادیا ہے۔ شمالی صوبوں میں افغان فوجیوں کی جانب سے بغیر لڑائی مورچے چھورڈینے اور جواب میں طالبان کی عام معافی سےصورتحال بہتر ہونا شروع ہوگئی تھی۔ قندوز، سرائے پل اور تخار میں زندگی اب بھی کسی حد تک معمول کے مطابق ہے۔ لیکن اشرف غنی کی نصرت کے لیے امریکہ کی وحشیانہ بمباری نے امن کی امیدِ موہوم کو شدید مایوسی میں تبدیل کردیاہے۔ طالبان نے کہا تھا کہ اگر اشرف غنی مستعفی ہوجائیں تو ایک قابل قبول
عبوری حکومت کی تشکیل پر وہ ہتھیار رکھ کر باقی معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر تیار ہیں۔ ملاوں کے اس اعلان پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، سابق صدر حامدکرزئی اور دوسرے رہنماوں نے ڈاکٹر اشرف غنی کے استعفےٰ کا دبےالفاظ میں مطالبہ شروع کردیا تھا۔ اگر ڈاکٹر صاحب مستعفی ہوجاتے تو اخلاقی دباو طالبان کو ہتھیار رکھنے پر مجبور کرسکتا تھا لیکن اب امریکہ کھل کر اشرف غنی کی حمایت میں آگیا ہے جسکی وجہ سے انکے سبکدوش ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
امریکہ نے 20 سال بمباری کرکے دیکھ لیا۔ آسمان سے آتش و آہن کی برسات نے سارے افغانستان کو کھنڈر میں تو تبدیل کردیا لیکن ملاوں کوکوئی خاص نقصان نہیں پہنچا ۔ حالیہ بمباری مہم کے ابتدائی نتائج لشکر گاہ میں سامنے آگئے جہاں اسکول اور دواخانہ پیوند خاک کردیا گیا۔ اگر فضائی وحشت ودہشت کی یہ مہم جاری رہی تو مزید تباہی اور انسانی جانوں کے نقصان کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ افغانستان کے مسئلے پر چچا سام تنہائی کا شکار ہیں۔ خود انکے اپنے ملک میں یکسوئی کا فقدان ہے، امریکہ کے اتحادی بھی واشنگٹن پر تنقید کررہے ہیں۔ حال ہی میں ترکی نےامریکی فوج کیلیے کام کرنےوالے مترجمین اور سہولت کاروں کو اپنے ملک میں پناہ دینے سے صاف انکار کردیا۔افغانستان پر قبضہ کے دوران امریکی فوج کے لیے کام کرنے والے ان افراد کو ڈر ہے کہ ملا انکے خلاف انتقامی کارروائی کرسکتے ہیں چنانچہ یہ لوگ امریکہ جانا چاہتے ہیں۔ امریکہ جانے کے خواہشمند وفاداروں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق لاکھوں افغان امریکہ نقل مکانی کرنا چاہتے ہیں۔ واشنگٹن چاہتا ہے کہ اسکے خرچ پر پچاس ہزار فارسی بان(ازبک، تاجک اور ترکمن) ترکی میں آباد ہوجائیں۔لیکن ترک وزرات خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ لوگ امریکی فوج اور سی آئی اے کے لیے کام کرتے تھے اور انکی حفاظت و پناہ کا واشنگٹن ذمہ دار ہے۔صدر بائیڈن اپنی ذمہ داری کسی اور کے سر نہ ڈالیں۔
افغانستان کی بدامنی سے وسط ایشیا، روس اور چین کو بھی پریشانی ہے۔ گزشتہ دنوں افغان سرحد سے متصل تاجک علاقے خاتلن میں روس ، تاجکستان اور ازبکستان کی مشترکہ فوجی مشقیں منعقد ہوئیں۔ اس عسکری کھیل میں شرکت کے لیے روسی گوریلا یونٹ کے 1800فوجی طلب کیے گئے تھے۔تین سو بکتر بند گاڑیاں، 25ہیلی کاپٹر اور لڑاکا و بمبار طیاروں کے کئی ٹکڑیاں (اسکواڈرن) مشق میں شریک تھیں۔ اسکے اگلے ہفتے روس اورازبکستان کی مشترکہ فوجی مشق ازبک افغان سرحد پر ہوئی۔ ایک ہفتہ قبل امن مذاکراتی ٹیم کی ایک اہم رکن محترمہ فوزیہ کوفی نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ تاجکستان کے سرحد پر بہت سے غیر ملکی دہشت گرد طالبان کی حمایت میں لڑ رہے ہیں۔
روس کے وزیردفاع Sergey Shoyguvنے دھمکی دی ہے کہ اگر افغانستان کی بدامنی سے وسط ایشیا کو خطرہ پیدا ہوا تو روس فوری کارروائی کریگا۔چین نے بھی تحریک اسلامی مشرقی ترکستان (ایغور آزادی تحریک)کے متوقع احیا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ طالبان ان دہشت گردوں کو کچلنے میں اپنا کردار اداکرینگے۔
افغانستان میں جاری بے چینی و بد امنی سے سارے دنیا متاثر ہورہی ہے۔ اس علاقے میں پاک بھارت اور ہند چین کشیدگی پہلے بھی بہت سی قیمتی انسانی جانوں کو چاٹ چکی ہے۔ پڑوسیوں کی افغان سرحد پرفوجی مشقیں اور عسکری کارروائی کا عندیہ محض دھمکی نہیں ہلکہ یہاں معمولی سی غلطی و کوتاہی، برصٖغیر سے وسطِ ایشیا و مشرقی ترکستان اور دوسری طرف بحرعرب سے خلیج فارس تک کے امن کو تہہ و بالا کرسکتی ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

افغانستان میں جاری بے چینی و بد امنی سے سارے دنیا متاثر ہورہی ہے۔ اس علاقے میں پاک بھارت اور ہند چین کشیدگی پہلے بھی بہت سی قیمتی انسانی جانوں کو چاٹ چکی ہے۔ پڑوسیوں کی افغان سرحد پرفوجی مشقیں اور عسکری کاروائی کا عندیہ محض دھمکی نہیں ہلکہ یہاں معمولی سی غلطی و کوتاہی، برصٖغیر سے وسطِ ایشیا و مشرقی ترکستان اور دوسری طرف بحرعرب سے خلیج فارس تک کے امن کو تہہ و بالا کرسکتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21  اگست 2021