طنز ومزاح

’گنجے‘ گراں مایہ

نعیم جاوید۔سعودی عرب

 

یہ بڑا صاف روشن ہے کہ اچھا بھلا گنجان سردیکھتے ہی دیکھتے ربع الخالی سا ویران بن جاتاہے۔جیسے یہ سر نہ ہوا کسی خلائی کرہ سے ٹوٹا ہوا ایک روشن ستارہ ہو گیا۔ پہلے تو جھلمل چمکتا تالو بالوں کی اوٹ سے اپنا چمپئی یا گندمی رنگ لیے تھرکتا نظر آتا ہے‘پھر اچانک سونامی بن کر بالوں کی سرحدیں وسیع کردیتی ہیں۔ پھر چند بچے کھچے بال کہیں دور۔۔۔۔بہت۔۔۔۔دور۔۔۔۔صف بستہ عتاب یافتہ مجرموں کی طرح منہ لٹکائے ہوئے شناختی پریڈ کرتے نظر آتے ہیں۔بالوں کے اس سرعتِ انزال کی وجہ جتنے منہ اتنی ہی جذباتی باتیں۔ دکن کے شاعر بمباٹؔ نے کہا۔ سر گزیٹیڈ ہوگیا قسمت چپراسی رہی۔مشتاق احمد یوسفی کو سر کے مسح میں ‘تالو اور فقہ کے سرحدیں باہم گتہم گتھا نظر آئیں ۔ تو ڈاکٹر عابد معز نے ’’فارغ البال ‘‘لکھا اور ایک ایک بال کی کھال نکالی۔لیکن ہمارے تجربات قدرے گھنے تھے اس لیے ہم نےاسے سینت کر کھلے میدان کو تاڑا۔ ہم نے دیکھا کہ بے بال و پر افراد چاہے جتنی قیمتی ٹائی لگائیں یاروں کی نگاہِ غلط انداز ہمیشہ تالو پر رہتی ہے۔ اور ایسی جارحانہ نظربازی سے سر کا جغرافیہ پڑھاجاتا اور تبصرہ اس مرکزی موضوع کے بجائے حاشیہ پر ہوتاہے۔جیسے آپ کے شوز بہت ریشمی ہیں۔ شرٹ کے بٹن بڑے گھنے ہیں۔ پینٹ کی سلوائی کا ایک بال یا تار نہیں ادھڑا ہے۔ یہ بال والے بلوایئوں کی طرح اپنے بالوں کے بل بوتے پربولے چلے جاتے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا کہ مرزا غالبؔ اور انکی محبوبہ کے گھنے بالوں کا اندازہ تو انکے شعری عزم سے ہو جاتا ہے جسمیں وہ کوچہ رقیب میں سر کے بل جانے پر اصرار کرتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ ننگے بے بال سر‘ یہ مہم سر نہیں ہوگی‘ جسکے لیے کم از کم مینڈھے جیسے گھنے بال ضروری ہیں۔ اور انکا وہ شعر’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘جس میں وہ تمام امکانی مشقتوں کا ذکر ہے جیسے پہلے اپنے محبوب پر، پھراسکے بالوں پر،پھر اپنے آپ پر قابو پانا وغیرہ۔۔اس غالبؔ فہمی پر خود غالبؔ ہوتے تو پھڑپھڑا کر جان دے دیتے۔ بھلے ہی وہ وبائے عام میں مرنے کا کوئی ارادہ نہ رکھتے ہوں۔ بلکہ کوئی بھی شاعر اس تہمت سے بری نہیں ہوگا جس نے بے ضرورت شبِ فراق کی تاریکیوں کو کاکل شب ِتارکہہ کر بے جابالوں سے اپنی شاعری کو ’’سیاہ‘‘ نہ کیا ہو۔ بلکہ محبوب کے زلف تو محکمہ موسمیات کی پس وپیش قیاسیوں کو صحیح گردانتے تھے کہ ادھرزلف کھلی اور گھٹاٹوپ مضامینِ شعربرس پڑتے تھے۔ لیکن اب تو جدید شاعری اس رعنائی خیال سے ہی محروم ہے بلکہ گنجے شعر کہنا ہی جدت طرازی ٹہری ہمیں گنجا آدمی یوں لگتا ہے جیسے کسی کوئی استاد نیکر پہن کرگھوم رہا ہواور تمام بچے اسے انتقاماً دیکھ رہے ہوں۔
بلکہ ہم خود یہ سمجھتے ہیں کہBald Headed آدمی کو سر درد نہیں ہوتا۔ کیونکہ سر ہمیشہ صاف ‘شفاف و منورنظر آتا ہے۔شاید ہی کسی نے کبھی کوئی تھکا ہوا تالو دیکھا ہو بلکہ کشادہ پیشانی کو خوش بختی گردانا جاتا ہے۔ یہ گنجے تو’’گنج شہیداں‘‘سے کیا کم ہوں گے۔ ہم تو انہیں گنجہٗ شہیدانِ حسن وجمال سمجھتے ہیں۔بلکہ سچی قسم کھانی ہو تو چمکتے سرکی کھائی جائے ورنہ بکھرے بالوں کی قسموں کا اعتبار نہ ہوگا‘ یقین پراگندہ ہوجائے گا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کبھی خالی سروں کی سطع مرتفع سے ملحق نشیبی چہروں کو قلم بردار رکھا جاتا ہے۔یہ قلموں کی اگائی ہوئی روشیں ہیں جو خالی سروں کا ضمیمہ نظر آتی ہیں۔ جانے کیوں لوگ خالی سروں کو بھرے قلموں سے نمایاں کرکے خطوطِ خمدار کی نمائش کاRisk لیتے ہیں۔ خود علامہ اقبالؔ نے بھی پہلے بال و پر پیدا کرنے کی بات کی۔ ویسے یہ بڑا مشکل کام ہے۔لیکن کیا کریں ، محال گوئی ہی کمال گوئی ہے۔ ہمیں توگردو غبار سے اٹے سروں سے بہتر پر نور تالو لگتا ہے۔جس پر پانی کی ننھی ننھی بوندیں بھی کمالِ فن کے اظہار میں ایسے رقصاں رہتی ہیں کہ برطانیہ کےGlobe theater کی رقاصائیں نظر آتی ہیں۔جبکہ بوندیں بے لباس بھی ہوتی ہیں۔
اکثر بے بال و پر صحرائی حضرات کو زیرِ زمین مخفی خزانوں کا یقین دلانا چاہیے جیسے صحرائے عرب کا پٹرول۔ بلکہ ہم نے اس سریع الاشتعال ایندھن کی اُمید میں آپس میں OPEC بنانے کاعزم بھی کرلیا تھا تاکہ فرضی نرخیں طے کرسکیں۔ یعنی سرَ کسی کا اورسرمایہ کسی اورکے لیے۔ پچھڑے بالوں کی باز آباد کاری کے لیے خاصے مجرب نسخے آزمائے جاتے ہیں اور اکثر نشانے چوک جاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں تیراور اوسان دونوں خطا ہوجاتے ہیں۔ جیسے سر پر جمال گٹہ رگڑ کر سرپر آبلوں کا طوفان اُٹھا لینا۔ سر کے لیے یہ نیوکلیائی تجربہ سے کم نہیں ہوتا۔چاہے وہ بالوں کی پیوند کاری ہو یا بال اُگاومہم ہو۔ وہ آخر میں ’’بال توڑ ‘‘ سا آبلہ بن کر دلِ عاشق کی طرح درد سے چیخ پڑتا ہے بلکہ صاحبِ سر کے ساتھ آبلے بھی تڑپ تڑپ کر پھو ٹ پھوٹ کے روتے ہیں۔
سر کے خزاں رسیدہ ہونے کے کئی فائدے ہیں۔ نہانے کے بعد زلفِ گرہ گیر سلجھانے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ زلف ‘دامن گیر بھی نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ رشتوں کے اساس بھی حسبِ حوصلہ محتاط ہوجاتی ہے۔کوئی ہم زلف کہتے ہوئے ڈرتا ہے۔کہ کہیں طعنہ کا گمان نہ ہو۔ حجام کی نو مشقی پریاروں کے طعنے نہیں سننے پڑتے۔ورنہ کہتے ’’حجام نے بال نوچے ہیں یاکاٹے ہیں۔
پورے پیسے دینے پر ہر شریف حجام بال تراشتا ہے اور کم دینے پر نوچتاہے ‘‘۔ جیسے اس کا کام زلفِ گیتی تراشنا اورہماراکام سر منڈھوانا ٹہرا ۔اب تو حجام اپنی دکان کے اندر سے کہیں دور۔۔۔۔۔چمکتا ہوا تالو دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے گاتا ہے ’’تم نے کسی کی جان کو جاتے ہوئے دیکھا ہے۔۔وہ دیکھومجھ سے چھوٹ کر میری جان جارہی ہے‘کہتے ہیں کہ بال گنوانے کا احساس محبوب کی جدائی سے زیادہ الم ناک ہوتا ہے۔ اور دل کسی گانے سے بھی نہیں بہلتا حتیٰ کہ Remix کے باوجود چند ایک گانے تواور الجھا دیتے ہیں ‘۔
ایک صاحب اپنابے آب و گیاہ سرلے کر نیم حکیموں ‘ کچے مقبروں اور پکے عاملوں کو آزمانے کے بعد امریکہ پہنچ کرNASA پر تھوک آئے اور کہا کہ کم بختو آسمانوں میں پانی تلاش کرتے پھرتے ہواور زمین پر چلتے انسانوں کا ننگا سر دکھائی نہیں دیتا۔ انہیں کیوں دکھائی دے گا انکا پورا معاشرہ ننگا جو ٹہرا‘‘یہ دل ہی دل میں بال ہٹ سی کیفیت اور ننگا سر لیےننگے آسمان کی طرف دیکھ کرہنستے ہوئے سوچتے ہیں۔’’ہائے ! فلک نا ہنجار ! تو بھی میری طرح گنبد نما تالو ڈھوئے ڈھوئے پھرتا ہے۔ بلکہ اجرامِ فلکی میں میرے تالو کی طرح کئی سیارے اور ستارے گردش میں ہیں اور ویران بھی ہیں‘‘۔ یہ احساسِ وابستگی انہیں پوری کائنات سے جوڑ دیتا ہے۔
[email protected]
***

سر کے خزاں رسیدہ ہونے کے کئی فائدے ہیں۔ نہانے کے بعد زلفِ گرہ گیر سلجھانے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ زلف ‘دامن گیر بھی نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ رشتوں کے اساس بھی حسبِ حوصلہ محتاط ہوجاتی ہے۔کوئی ہم زلف کہتے ہوئے ڈرتا ہے۔کہ کہیں طعنہ کا گمان نہ ہو۔ حجام کی نو مشقی پریاروں کے طعنے نہیں سننے پڑتے۔ورنہ کہتے ’’حجام نے بال نوچے ہیں یاکاٹے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21  اگست 2021