ضمانت پر رہائی کا جدید قانون نامکمل ہی رہے گا

عدالتی نظام کے روایتی طرز عمل میں تبدیلی ناگزیر

مضمون نگار: سنجے ہیگڈے
ترجمہ: سلیم الہندیؔ

کسی شخص کو حراست میں لینے سے پہلے ارتکاب جرم کی تفصیلات کے ساتھ پولیس کو اس جرم اور مجرم کی جانچ کرلینی چاہیے۔ دیگر احتیاطی نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، ٹھوس ثبوت کے ساتھ کسی شخص کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ شبہ کی بنیاد پر پولیس کسی بھی شخص کو گرفتار کرلیتی ہے اور بعد میں اس کے خلاف ثبوت اکٹھا کرنے لگتی ہے۔
اس دوران زیر دریافت قیدی جیل میں بلا وجہ سڑتا رہتا ہے۔ احتیاط کے بغیر کسی شخص کو صرف شبہ کی بنیاد پر فرد جرم عائد کیے بغیر گرفتار کر کے قید میں رکھے گئے قیدیوں کو ضمانت پر رہا کر دیا جانا چاہیے۔ اگر پولیس ان ہدایات کے پیش نظر کسی شخص کو گرفتار کرتی ہے تو عدالتوں میں مجسٹریٹس اور ججوں کو ان کے مقدمات کے فیصلے کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے کہ درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کر دیا جانا چاہیے یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی رہنے دیا جائے۔
ہماری عدالتوں میں زیر دریافت قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے لیے موجود قوانین میں دی گئی دستوری سہولتوں سے بے جا استفادہ کرتے ہوئے قیدیوں کو ضمانت پر رہا کروالینا ایک عام بات ہوگئی ہے اور عدالتوں میں یہ روزانہ کا معمول ہے۔ قانون میں موجود ان کمزوریوں سے کامیاب وکلاء پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور کسی بھی طرح میں اپنے موکل کو جلد سے جلد جیل سے ضمانت پر رہا کروانے میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ ماہرین قانون کی رائے میں اس طرح کسی بھی زیر دریافت قیدی کو ضمانت پر رہا کروالینا دوسرے امن پسند شہریوں کی شخصی آزادی میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔ برطانیہ میں 1976ء سے رائج زیر دریافت قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے قانون میں شہریوں کی شخصی آزادی کے حق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے 11؍جولائی 2022ء کو اپنے ایک حکم نامے کے ذریعے عدالتوں اور سرکاری تفتیشی اداروں کو جوہدایات جاری کی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ آئندہ سے کسی بھی شہری کو بلا ضرورت یا بلا سبب، صرف شبہ کی بنیاد پر ہرگز گرفتار نہ کیا جائے۔عدالت عالیہ نے حکومت سے بھی خواہش کی تھی کہ وہ زیر دریافت قیدیوں کی ضمانت پر رہائی سے مربوط قوانین پر جلد سے جلد نظر ثانی کرتے ہوئے اس قانون میں پائی جانے والی تمام خامیوں اور کمزوریوں کو درست کرنے کا انتظام کرے۔ ضمانت کے لیے ترمیم شدہ قانون پر ججوں کی ایک خصوصی بنچ کے جج جسٹس کول اور جسٹس ایم ایم سندریش کی رائے ہے کہ دستور میں چونکہ ضمانت کے لیے کوئی واضح شق موجود نہیں تھی اس لیے ضمانت کا نیا قانون بنانا ضروری تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کی مختلف جیلوں میں سزا یافتہ قیدیوں کی تعداد زیر دریافت قیدیوں کی تعداد سے نسبتاً بہت کم ہے۔ عدالتوں کی کارکردگی میں مزید بہتری پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس کی جانب سے عام شہریوں کی بلاوجہ اور بلا ثبوت گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ ہدایات جاری کی ہیں۔
عدالت عالیہ کا یہ تاثر ہے کہ ہمارے ملک کی عدالتوں میں ضمانت کے قانون کا وجود غیر ملکی کالونی کے طرز حکمرانی کا نقشہ پیش کر رہا ہے جہاں عوام ہمیشہ پولیس راج خوف کے سائے میں زندگی گزارتے ہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک کے شہریوں کے ذہنوں میں اس بات کا گمان بھی پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پولیس راج کے زیر سایہ زندہ ہیں۔ یاد رکھیے گا! ’پولیس راج اور جمہوریت‘ ایک دوسرے کی ضد ہیں اور کوئی بھی حکومت پولیس راج کے بل بوتے پر زیادہ دن نہیں چل سکتی۔ ضمانت کے لیے موجودہ قانون اور عام تجربات کی روشنی میں عدالت عالیہ نے جو ہدایات جاری کی ہیں وہ اس طرح ہیں۔ 1۔ جن افراد پر ایک ہی فرد جرم عائد کیا گیا ہو، ان کے ساتھ کسی بھی عدالت میں یا عدالتوں میں ایک ہی طرح کا برتاو کیا جانا چاہیے۔ 2۔ جرم کی نوعیت چاہے کچھ بھی رہی ہو محروس ملزم کے خلاف زیر دوران مقدمے، اپیل یا درخواست کو کسی واجبی سبب کے بغیر پولیس انتظامیہ کی جانب سے بلا وجہ طول دینے کی کوشش کرنا، دفعہ نمبر 21 کی خلاف ورزی شمار ہو گی۔
ایک موقع پر چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے کہا تھا کہ ہمارے نظام عدلیہ میں کسی ملزم کے لیے مقدمے کی طویل عدالتی کارروائی خود ایک سزا ہے اور قانون کی روح کے سراسر خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے جلد بازی میں کسی شخص کو گرفتار کر لینا اور ضمانت کے حصول کے لیے درکار طویل عدالتی کارروائی کی تکمیل تک انتظار کرنا کسی ملزم کے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات زیر دریافت قیدیوں کی قید کی مدت اس جرم کے لیے دی جانے والی سزا کی مدت سے بڑھ جاتی ہے۔ اس سنگین اور نازک مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔
ایک سینئر آئی پی ایس آفیسر ڈاکٹر حنیف قریشی، سابق سکریٹری حکومت ہریانہ جنہیں عام جرائم ٹریفک خفیہ پولیس پولیس ٹریننگ اور لا اینڈ آرڈر کے واقعات کی تفتیش اور تحقیق کا وسیع تجربہ ہے، کہتے ہیں کہ بھارت کی جیلوں میں قید افراد میں سے 70% افراد زیر دریافت قیدی ہیں۔ ان زیر دریافت قیدیوں کی اکثریت انتہائی غریب، غیر تعلیم یافتہ اور پسماندہ ہوتی ہے۔ ایسے زیر دریافت غریب قیدیوں کے لواحقین پولیس اور عدالتی کارروائیوں سے بالکل نا بلد ہوتے ہیں اور اپنے ان محروس بھائیوں کی کوئی مدد کرنے کے موقف میں نہیں ہوتے۔ بھارت کی جیلوں میں زیر دریافت قیدیوں کی تعداد سزا یافتہ قیدیوں سے زیادہ ہونے کا نوٹس، سپریم کورٹ نے بھی لیا ہے۔ CrPC کی نوآبادیاتی طرز کی متعصبانہ طرز کارکردگی پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تعزیری قوانین میں جلد سے جلد مناسب ترمیم کرنے کی سفارش کی ہے۔
ضمانت کی عدالتی کارروائی اور فیصلے کا سارا انحصار CrPC میں زیر حراست وتفتیش کے ضوابط پر وارنٹس اورمنس پر، حلف ناموں پر اور پولیس و عدالت کے اختیارات پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی قسم کے جرائم کی صورت میں دیگر ریاستوں کی عدالتوں سے جاری ہونے والے مقدمات کے فیصلوں کا راست یا بالراست اثر پڑتا ہے۔
عدالتوں میں یہی طویل طرز کارکردگی، مقدمات کے، فیصلوں تک پہنچنے کے سفر کو طویل کر دیتی ہے۔ عدالتی کارروائیوں کے مختلف معیارات کو سمجھنے کی صلاحیت اور دیگر کئی وجوہات، ضمانت کے مقدمات میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔ ان مقدمات کی عدالتی پیچیدگیوں اور مقدمے کی وقفے وقفے سے سماعت اور ضمانت کی درخواست نامنظور ہونے کے بعدنئی درخواست کی پیشکشی اور پھر وہی عدالتی کارروائیوں کا طویل سفر سب کے لیے تکلیف دہ ہے۔ ان قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ دستور میں موجود ضمانت کے قانون میں جلد سے جلد ضروری ترمیمات کرے تاکہ ضمانت کے لیے منتظر زیر تفتیش قیدیوں کے مقدمات کی کارروائی کم سے کم مدت میں مکمل ہو اور جیل سے باہر آکر عدالت سے رجوع ہو کر یہ افراد اپنی بے گناہی ثابت کر کے الزامات سے باعزت بری ہوں اور اپنی باقی زندگی سکون کے ساتھ بسر کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ضمانت کے ایک مقدمے میں تاخیر پر سپریم کورٹ نے عدالت کے ذمہ دار عہدہ داروں کو ان کے اپنے مخصوص دفتری طرز عمل کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور کہا کہ ضمانت کے مقدمات میں فیصلے صادر کرنے میں تاخیر اسی دفتر شاہی کا نتیجہ ہے۔ ججس کی اکثریت ضمانت کی درخواستیں منظور کرنے لیے سخت شرائط کا اطلاق ضروری سمجھتی ہے۔ ان کا یہ خیال بھی ہے کہ ضمانت سے ہٹ کر اصل مقدمے کے فیصلے میں ملزمین کو سزا دینے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ بعض عدالتوں میں ضمانت کے لیے زیر غور درخواستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
چنانچہ پٹنہ ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواستوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کا نوٹ لیتے ہوئے کہا کہ انفورسمنٹ و پروہبیشن ڈیپارٹمنٹ کی بے جا دخل اندازی بھی اس اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
سپریم کورٹ نے ایک وکیل شعیب عالم کی پیش کردہ ان کی تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ’ غیر معمولی دفعہ 21 اور ہائی کورٹس پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے دفعہ نمبر 436A CrPC کا اطلاق ضروری ہے۔ ایڈوکیٹ شعیب عالم نے کہا کہ ایک شخص کو کسی جرم کی سزا کے طور پر زیادہ سے زیادہ جتنی مدت جیل میں گذارنی ہوتی ہے اگر اس کی نصف مدت کسی قیدی نے بحیثیت زیر دریافت قیدی جیل میں گزار دی ہو تو وہ قیدی ضمانت پر رہائی کا قانوناً حقداربن جا تا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وحشیانہ، غیر انسانی، گھناونے جرائم کے مرتکب زیر تفتیش قیدیوں کو ضمانت پر کسی بھی صورت میں رہا نہیں کیا جانا چاہیے۔ افسوس کہ ہمارے عدالتی نظام عمل کی بے شمار خامیوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے خطرناک زیر تففیش قیدی بھی ضمانت پر رہا کر دیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر قریشی کہتے ہیں کہ ضمانت پر رہائی کے لیے کوئی ایسا سیدھا سادہ، آسان اور قابل فہم قانون ضرور بننا چاہیے جس میں کوئی ناقابل گرفت مداخلت کی گنجائش باقی نہ
رہے اور خطرناک عادی مجرم، قانونی گرفت سے کسی صورت میں بچنے نہ پائیں اور معمولی جرائم کے مرتکب افراد یا جھوٹے الزامات کے تحت زیر حراست بے گناہ قیدی ضمانت پر رہا ہو سکیں۔ اس صورت حال کی تبدیلی کے بعد عدلیہ، پولیس اور انتظامیہ خود بخود مضبوط ہوں گے۔
زیر دریافت قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیے جانے کا قانون بھارت کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی رائج ہے ۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں 1976 کے ضمانت ایکٹ میں جرم کی نوعیت کے لحاظ سے مجرمین کی درجہ بندی کی گئی ہے مثلاً دہشت گردی، جنسی جرائم، ماردھاڑ، قتل و ڈاکہ، لوٹ مار اور اسی طرح کے دیگر جرائم۔ انہیں خطوط پر اگر ضمانت دیے جانے کا واضح قانون بھارت میں بھی نافذ ہوجائے تو عدالتوں، پولیس اور زیر دریافت قیدیوں کو بھی راحت ملے گی۔
سپریم کورٹ کے ایک تجربہ کار سینئر وکیل سنجے ہیگڈے کہتے ہیں کہ اس بارے میں ان کی رائے سب سے بالکل مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ضمانت کے لیے کوئی نیا قانون وضع کرنے یا اس میں کسی ترمیم کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہر سطح کے ججس مجسٹریٹس اور اس میدان سے وابستہ تمام ذمہ داروں کے مزاج میں تبدیلی لانی ہو گی۔ کسی شخص کو حراست میں لینے سے پہلے ارتکاب جرم کی تفصیلات کے ساتھ پولیس کو اس جرم اور مجرم کی جانچ کرلینی چاہیے اور دیگر احتیاطی نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ٹھوس ثبوت کے ساتھ کسی شخص کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔ ہوتا یہ ہے کہ پولیس صرف شبہ کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو گرفتار کر لیتی ہے اور بعد میں اس کے خلاف ثبوت اکٹھا کرنے لگتی ہے۔ اس دوران زیر دریافت قیدی جیل میں بلا وجہ سڑتا رہتا ہے۔ احتیاط کے بغیر کسی شخص کو صرف شبہ کی بنیاد پر فرد جرم عائد کیے بغیر گرفتار کرنا، اسے قید میں رکھنا ہو تو ایسے قیدیوں کو ضمانت پر رہا کر دیا جانا چاہیے۔ اگر پولیس ان ہدایات کے پیش نظر کسی شخص کو گرفتار کرتی ہے تو عدالتوں میں مجسٹریٹس اور ججوں کو ان کے مقدمات کے فیصلے کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے کہ درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کیا جانا چاہیے یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی رہنے دیا جائے۔
سپریم کورٹ بار بار اس بات پر زور دے رہی ہے کہ عدالتوں میں ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ کرنے سے پہلے اس بات کا پورا خیال رکھیں کہ کسی فرد کی شخصی آزادی پر ہرگز منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس کی طرف سے روزمرہ کیسوں میں گرفتاری سے پہلے عدالتوں کی جانب سے جاری کی جانے والی ہدایات اور ضمانت کے قانون سے متعلق امیش کمار کی رہنمایانہ ہدایات کا کوئی لحاظ نہیں کرتا۔ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد تشویش ناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ زیر دریافت قیدیوں کی کثیر تعداد نے جیل حکام کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس تشویشناک صورت حال کو سدھارنے کے لیے سپریم کورٹ نے حکومت کو ضمانت کے قانون میں مناسب ترمیمات کامشورہ دیا ہے۔ ترمیم شدہ موزوں ترین قانون کی روشنی میں فیصلے کرنے میں عدلیہ کو بھی اطمینان محسوس ہوگا اور مجسٹریٹس کو اپنی شخصی آزادی کا لحاظ کرتے ہوئے اختیار تمیزی کے تحت زیر تفتیش قیدیوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم صادر کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی۔ راجہ بگا، اسسٹنٹ ڈائرکٹر، کریمنل جسٹس کلینک، جندال گلوبل لا اسکول نے کہا کہ ضمانت کے قانون کو اگر جوں کا توں رکھا گیا تو ایسی صورت میں ہماری جیلوں میں زیر دریافت قیدیوں کی تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں ہمیشہ سب سے زیادہ ہی رہے گی۔
***

 

***

 سپریم کورٹ بار بار اس بات پر زور دے رہی ہے کہ عدالتوں میں ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ کرنے سے پہلے اس بات کا پورا خیال رکھیں کہ کسی فرد کی شخصی آزادی پر ہرگز منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس کی طرف سے روزمرہ کیسوں میں گرفتاری سے پہلے عدالتوں کی جانب سے جاری کی جانے والی ہدایات اور ضمانت کے قانون سے متعلق امیش کمار کی رہنمایانہ ہدایات کا کوئی لحاظ نہیں کرتا۔ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد تشویش ناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ زیر دریافت قیدیوں کی کثیر تعداد نے جیل حکام کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس تشویشناک صورت حال کو سدھارنے کے لیے سپریم کورٹ نے حکومت کو ضمانت کے قانون میں مناسب ترمیمات کامشورہ دیا ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022