معاشرے میں معروف کے بجائے منکر کی حوصلہ افزائی!

مسلمانوں کو سرخروئی کے لیے خیر امت کا رول ادا کرنے کی ضرورت

ڈاکٹر محی الدین علوی، حیدرآباد

مسلمان گروہ در گروہ نہیں بلکہ ایک امت ہیں جن کا کام نیکیوں کو پھیلانا اور برائیوں سے روکنا ہے لیکن انہوں نے اس بات کو فراموش کر دیا ہے اور حب دنیا نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’تم ایک بہترین امت ہو جو لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالی گئی ہے۔ نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا تمہارا کام ہے۔ تم وہ ہو جو اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
(سورۃ آل عمران ۔ آیت ۱۱۰)
آج مسلمان اگرچہ تعداد میں زیادہ ہیں لیکن ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور وہ پستی کا شکار ہیں اور یہ ذلت و نامرادی جو ان کے حصے میں آئی ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے غافل ہو گئے ہیں بلکہ برائیوں کی ترویج و اشاعت ان کا شعار بن گئی ہے۔ ایک حدیث میں مسلمانوں کی پستی اور ان کے زوال کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تمہاری عورتیں سرکش اور بے قابو ہو جائیں گی، نوجوان طبقہ بد چلن ہو جائے گا اور تم جہاد (دین کے قیام میں جدوجہد اور مالی و جانی قربانی) چھوڑ بیٹھو گے؟ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول مسلم معاشرہ میں کیا یہ خرابی پیدا ہونے والی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ آنے والا ہے۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول اس سے زیادہ سخت مرحلہ کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا کہ تم نہ نیکی کا حکم دو گے اور نہ برائی سے روکو گے۔ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا یہ بھی ہونے والا ہے۔ آپ نے فرمایا، ہاں خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ سامنے آنے والا ہے۔ لوگوں نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول اس سے زیادہ سخت مرحلہ اور کیا ہو گا۔ آپ ؐ نے فرمایا۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم برائی کا حکم دو گے اور نیکی سے روکو گے۔ لوگوں نے پوچھا کیا امت پر یہ مرحلہ بھی آنے والا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں، خدا کی قسم جس کی مٹھی میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ آنے والا ہے اللہ تعالیٰ اپنی قسم کھا کر کہتا ہے کہ اس آخری (مرحلہ میں امت کے داخل ہونے کے بعد) ایسے ایسے فتنوں میں انہیں مبتلا کروں گا کہ ان کے عقلا و دانش مند حیران و درماندہ ہو جائیں گے۔ (ان کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا کہ ان فتنوں سے کیسے بچیں، کیا کریں، کہاں بھاگ جائیں (طبرانی)
اس حدیث میں جو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں، افسوس کہ ہم ان سے گزر رہے ہیں۔ یہ فتنوں کا دور آگیا ہے اور امت کا ایک کثیر طبقہ غفلت کا شکار ہو کر اپنے فرض منصبی سے غافل ہو گیا ہے۔ اولاد کو ایسے اسکول میں شریک کرایا جا رہا ہے جہاں ہندو ماحول ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہندو ماحول ہوا تو کیا ہوا، یہاں کا معیار تعلیم بہت اونچا ہے اور رہا دینی تعلیم کا سوال تو اس کا کیا ہے ہم اپنے بچو ں کو گھر پر عربی استاد رکھ کر یہ تعلیم دے لیں گے۔ لڑکا اگر اعلیٰ تعلیم کے شوق میں نکل گیا تو اسے اپنے دین کی پروا نہیں ہوتی اور جہاں ہندو بستی ہوتی ہے تو وہاں رہائش کے لیے اپنے مسلمان ہونے کو چھپا کر ہندو بن کر رہتا ہے اور ماں باپ خوش ہوتے ہیں کہ چلو لڑکے کو اسٹڈی کرنے روم مل گیا ہے اور انہیں اس کی پروا نہیں ہوتی کہ ان کا لڑکا اللہ کے دین کو بھول گیا ہے اور ہندو لڑکوں کے ساتھ رہ کر وہ ہندو تہذیب سیکھ گیا ہے۔ ماں باپ کو صرف یہ فکر رہتی ہے کہ لڑکا پڑھ لکھ کر انجینر ڈاکٹر یا سائٹنسٹ بن کر ان کا نام روشن کرے گا۔ لیکن اس کے برعکس ہو رہا ہے وہ ماں باپ کو دھتکار رہا ہوتا ہے اور اپنے عیش و آرام میں منہمک ہے۔ مسلمان لڑکیوں کی حالت بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ وہ لڑکیاں جو دین سے نابلد ہیں وہ غیر مسلم لڑکوں سے شادی کر کے مرتد ہو رہی ہیں۔ اس میں زیادہ قصور والدین کا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود دین اور دنیا کی تقسیم کرتے ہوئے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت دینی خطوط پر نہیں کر رہے ہیں۔
اللہ کی مار اور اس کی طرف سے ذلت و نافرمانی سے بچنے کا طریقہ ہم کو بتایا گیا ہے کہ ہم اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لیں اور اپنے فرض منصبی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اپنا شعار بنائیں۔ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کی اکثریت تارک صلوۃ ہے جو کہ ارکان اسلام میں سے بنیادی رکن ہے۔ نماز کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ جب ان کا یہ حال ہے تو وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کیسے کریں گے۔ ان کی بے اعتنائی اور دین سے غفلت کی وجہ سے برادران وطن دین اسلام کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ خود نمازی ہوتے اور غیر قوم کے لوگوں کو مساجد میں لے جاتے اور اسلامی عبادت کی خوبیوں سے واقف کراتے۔
آج حجاب کے معاملے میں بہت واویلا کیا جا رہا ہے اور مسلمان لڑکیوں کو کالج کی تعلیم اور امتحانات میں شرکت سے روکا جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں ان لڑکیوں کا تعلیمی سال خراب ہو رہا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ کالج کے کرتا دھرتا اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کا شکار ہیں اور جانتے نہیں کہ اسلام دین فطرت ہے اور اپنے ماننے والوں کو امن اور چین و سکون کی تعلیم دیتا ہے اور لڑکیوں کا حجاب میں رہنا ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ مغرب کو دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ وہاں عورتیں بڑی تعداد میں اسلام قبول کر رہی ہیں اور حجاب میں اپنے اپ کو محفوظ پا رہی ہیں۔ ایک شاپنگ مال میں کاونٹر پر موجود ایک پاکستانی عورت جو بے پردہ تھی، اپنے کاونٹر پر آنے والی ایک خاتون جو حجاب میں تھی، پاکستانی عورت سمجھتے ہوئے طنز کرتی ہے کہ تم جیسی عورتوں سے رجعت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تمہیں چاہیے تھا کہ بے پردہ ہو کر اپنی ترقی پسندی کا ثبوت دیتیں۔ مذکورہ خاتون نے جو فرانسیسی تھیں اپنا نقاب نکال کر کہا کہ میں پاکستانی نہیں ہوں بلکہ فرانسیسی ہوں اور اسلام میں پردے کے احکام کو دیکھ کر میں نے اسلام قبول کیا ہے اور اسلام کی روشن تعلیمات میں ایک گونہ کشش محسوس کرتی ہوں۔
آج وراثت کے مسئلے کو لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اب بھی مسلمانوں کی اکثریت اسلام کے قانون وراثت پر عمل پیرا نہیں ہے اور لڑکیوں کو وراثت میں ان کا حق نہیں دیا جا رہا ہے اور غیر اسلامی طریقہ اختیار کرکے لڑکوں کو ہی وراثت میں حقدار بنایا جا رہا ہے۔
اگر مسلمان اس قانون وراثت پر عمل پیرا ہوتے تو یہ ایک معروف کام ہوتا لیکن وہ اس کی خلاف ورزی کر کے منکر کو ہوا دے رہے ہیں۔
نکاح کرنا ایک مسنون عمل ہے اور احکام یہ ہیں کہ نکاح سادگی سے ہو لیکن اس میں بھی غیر اسلامی طریقہ اختیار کرنے سے نکاح مشکل ہو گیا ہے اور زنا کے لیے چاروں طرف سے دروازے کھل گئے ہیں۔ نکاح کے وقت مہر میں لڑکے کو چاہیے کہ وہ مقرر کردہ رقم کو نقدی کی شکل میں ادا کرے یا پھر بعد میں آسانی کے ساتھ ادا کر دے۔ لیکن یہاں بالعموم مسلم سوسائٹی میں غیر اسلامی رسوم کا چلن عام ہے اور لڑکے والے جوڑے کی رقم لے رہے ہیں اور لاکھوں کا جہیز قبول کر رہے ہیں جس سے معروف کے بجائے منکر کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ بہرحال آج کے دور میں رسول اکرم ﷺ کی پیشن گوئی کے مطابق ایسا مرحلہ آگیا ہے کہ مسلمان دین سے دور ہوتے چلے جائیں گے حتى کہ معروف کے بجائے منکر کی تعلیم دیں گے۔

 

***

 اللہ کی مار اور اس کی طرف سے ذلت و نافرمانی سے بچنے کا طریقہ ہم کو بتایا گیا ہے کہ ہم اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لیں اور اپنے فرض منصبی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اپنا شعار بنائیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022