اللہ تعالیٰ کی انسانوں سے محبت

وہ اہم صفات جن کو اختیار کرنے سے بندہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے

بنت الاسلام

ایک دفعہ ایک غزوہ میں ایک عورت گرفتار ہوکر آئی۔ اس کا بچہ گم ہوگیا تھا۔ مامتا کی محبت کے جوش کا یہ عالم تھا کہ جو کوئی بچہ اسے مل جاتا، اس کو سینے سے لگالیتی۔ حضور رسول مقبولﷺ نے دیکھا تو حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا:
’’کیا یہ ہوسکتا ہے کہ یہ عورت خو د اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟‘‘
لوگوں نے عرض کیا کہ ہرگز نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا:
’’تو خدا کو اپنے بندوں سے اس سے زیادہ محبت ہے جتنی اس عورت کو اپنے بچے سے ہے‘‘ (بخاری)
ایسے ہی ایک مرتبہ حضور ﷺ ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے۔ ایک عورت اپنے بچے کو گود میں لے کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:
یا رسول اللہ (ﷺ) ایک ماں کو اپنے بچے سے جتنی محبت ہوتی ہے، کیا خدا کو اپنے بندوں سے اس سے زیادہ نہیں؟‘‘
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ہاں ، بے شک ہے!‘‘
یہ سن کر عورت نے کہا:
’’کوئی ماں تو اپنے بچے کو آگ میں ڈالنا گوارا نہیں کرتی‘‘
یہ سن کر شدت تاثر سے آپؐ روپڑے۔ پھر سر اٹھا کر فرمایا:
خدا صرف اس بندے کو عذاب دے گا جو سرکشی سے ایک کو دو کہتا ہے‘‘ (ابن ماجہ)
ایک بار نبی ﷺ صحابہؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ ایک صاحب ایک چادر میں ایک پرندہ اور اس کے بچوں کو لپیٹے ہوئے لائے اور عرض کیا: ’’ یا رسول اللہؐ ! میں نے ایک جھاڑی میں ان بچوں کو اٹھا کر کپڑے میں لپیٹ لیا۔ ان کی ماں میرے سر پر منڈلانے لگی۔ میں نے ذرا سا کپڑا کھولا تو وہ بچوں پر گرپڑی‘‘ یہ سن کر حضور اکرمﷺ نے فرمایا:
’’اپنے بچوں کے ساتھ ماں کی اس محبت پر تمہیں تعجب ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا، جو محبت اس ماں کو اپنے بچوں کے ساتھ ہے، خدا کواپنے بندوں کے ساتھ اس سے بدرجہا زیادہ محبت ہے ‘‘(مشکوۃ بحوالہ ابی داود)
یہ واقعات اس حقیقت کی وضاحت کردیتے ہیں اگر انسان اپنے خالق و مالک سے محبت رکھے تو وہ خود مہربان اور رحیم خالق بھی انسان سے اسی درجہ محبت رکھتا ہے کہ انسانی رشتہ پیوند میں کوئی انتہائی محبت رکھنے والا بھی محبت کے اس مقام کو نہیں پہنچ سکتا۔ ویسے تو اللہ رب العالمین اپنے بندوں پر بہ حیثیت مجموعی ہی شفقت فرمانے والا ہے۔ تاہم ان مخصوص اوصاف سے واقفیت ضروری ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا مستحق بناتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کن لوگوں سے محبت کرتا ہے؟
کلام پاک میں جا بجا ان اوصاف کا ذکر آیا ہے جن کو اپناکر انسان خدا تعالیٰ کا محبوب بن سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل آیات انہیں خوش بخت انسانوں کا ذکر کررہی ہیں جو اپنے اخلاق عالیہ کے باعث اس اعزاز کے مستحق ہوئے:
وہ کہتے ہیں کہ امیوں (یعنی غیر یہودیوں ) کے مقابلے میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ حالاں کہ انہیں معلوم ہے (کہ اللہ نے ایسی بات نہیں فرمائی ہے) آخر کیوں ان سے باز پرس نہ ہوگی؟ جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا، تو بے شک اللہ برائی سے بچ کر رہنے والوں سے محبت کرتا ہے)۔(آل عمران 75تا76)
دوڑ کر چلو اُ س راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمان جیسی ہے، اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ خوش حال ہوں یا بدحال اور جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں اور خدا ایسے نیکو کاروں سے محبت رکھتا ہے)۔(آل عمران 133تا134)
اِس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں اُن پر پڑیں، ان سے وہ دل شکستہ نہ ہوئے، نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ وہ (باطل کے آگے) سرنگوں ہوئے اور خدا ایسے صابروں سے محبت رکھتا ہے۔(آل عمران 146)
آخرکار اللہ نے ان کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور اس سے بہتر ثواب آخرت میں بھی عطا کیا ۔اللہ ایسے نیکو کاروں سے محبت رکھتا ہے (آل عمران 148)
اے پیغمبرؐ ! یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بڑے نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو۔ اور (دین کے کام میں) انہیں شریک مشورہ رکھو۔ پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر پکا ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ بے شک ان لوگوں سے محبت رکھتا ہے جو اُسی پربھروسہ رکھتے ہیں۔ (آل عمران: 159)
اور (اے نبی ﷺ) اگر تم (ان یہودیوں کے مقدمات کا) فیصلہ کرو تو پھر ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔(المائدہ42)
جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے، انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی بشرطیکہ وہ آئندہ اُن چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں، پھر جس جس چیز سے روکا جائے اس سے رکیں اور جو فرمان الٰہی ہو اُسے مانیں، خدا ترسی کے ساتھ نیک رویہ رکھیں۔ خدا نیک رویہ رکھنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(المائدہ93)
اور (اے نبیﷺ) انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دو۔بجز اُن مشرکین کے ،جن سے تم نے معاہد ے کیے پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی۔ تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدے کی مدت تک وفا کرو ،کہ اللہ متقیوں سے محبت رکھتا ہے۔(التوبہ:3تا4)
جب تک وہ (مشرکین جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا)تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیوں کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ رکھنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ (التوبہ7)
اے نبی ﷺ! جو مسجد روز اول سے تقویٰ پر قائم کی گئی، وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہو اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ (التوبہ108)
اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرادو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔(الحجرات9)
بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔۔(الصف۔4)
اے نبیؐ ! (لوگوں سے) کہہ دو کہ، گر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا ۔ (آل عمران۔ 31)
کلام پاک کی ان آیات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والے خوش بخت انسانوں میں حسب ذیل صفات پائی جاتی ہیں:
تقویٰ، عفو، جہاد فی سبیل اللہ، صبر، خیرات کرنا، نیکو کاری، عدل و انصاف،
توکل، پاکیزگی، معاہدات کو پورا کرنا اور اطاعت رسول ﷺ وغیرہ۔
تقویٰ : اللہ تعالیٰ کے خوف کے باعث گناہوں سے پرہیز کرنے کو تقویٰ کہا جاتا ہے، جس انسان کے دل میں یہ خواہش اچھی طرح جڑ پکڑ چکی ہو کہ میں گناہوں سے بچا رہوں اور وہ اس خواہش کے مطابق گناہوں سے بچنے کی پوری کوشش بھی کرتا رہے تو اسے ’’متقی‘‘ کہا جاتا ہے۔
حضرت عمرؓ بن خطاب نے ایک دفعہ حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تقویٰ کا مطلب دریافت کیا تھا۔ حضرت کعبؓ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کبھی راستے سے گزرے ہیں جس کے دونوں طرف کانٹے دارجھاڑیاں ہوں؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ کئی دفعہ گزرا ہوں۔ حضرت کعبؓ نے پوچھا ’’پھر آپ کیا کرتے ہیں؟ ‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کپڑے سمیٹ لیتا ہوں تاکہ کانٹوں میں نہ الجھیں۔ حضرت کعبؓ نے کہا کہ یہی تقویٰ ہے۔حضرت کعبؓ بڑے دانا اور عقلمند انسان تھے۔ انہوں نے انتہائی خوبصورت طریقے سے تقویٰ کی تعریف فرمادی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ زندگی جو ہم گزار رہے ہیں ، ایک ایسی راہ ہے جس کے دونوں طرف گناہوں کے کانٹے لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے چاروں طرف آزمائشیں بکھری پڑی ہیں اور ہم کسی وقت کسی آزمائش کا شکار ہوسکتے ہیں۔ جو انسان زندگی گزارتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھے کہ کہیں میں کسی غلط راہ پر نہ چل پڑوں، وہ متقی ہے۔عفو:اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک عفو بھی ہے۔ یعنی معاف کرنے والا۔ وہ خود بھی اپنے گناہ گار بندوں کو کثرت سے معاف کرتا ہے اور انسانوں کے بارے میں بھی یہی پسند فرماتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خطاوں اور زیادتیوں کو معاف کردیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیا میں عفو نہ رہے اور ہر انسان دوسرے پورا پورا بدلہ لینے پر تل جائے تو زندگی کی بہت سی خوبصورتی ختم ہوجائے اور یہ آباد دنیا تھوڑے ہی عرصے میں برباد ہوکر رہ جائے۔
غم و غصے کے اظہار کا اصل موقع وہ ہوتا ہے جب انسانوں کی عزت اور آبرو پر حملہ ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ایک رشتہ دار تھے جن کا نام مسطح تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ ان کی کفالت کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حضرت مسطحؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کی صاحبزادی حضرت عائشہؓ کے متعلق بعض نا پسندیدہ باتیں پھیلانے میں حصہ لیا۔ اس سے حضرت ابوبکر ؓ کو قدرتی طور پر رنج ہوا اور انہوں نے حضرت مسطحؓ کی مالی امداد بند کردی۔ اس پر سورہ نور آیت 22میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(تم میں سے جو لوگ صاحب فضلیت اور کشائش والے ہیں وہ قرابت داروں اور محتاجوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو (مدد خرچ) نہ دینے کی قسم نہ کھا بیٹھیں، بلکہ چاہیے کہ (ان کے قصور) بخش دیں اور درگزر کریں (مسلمانو) کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کردے اللہ تعالیٰ بخشنے والا ، مہربان ہے)
جوں ہی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ آیت سنی تو وہ پکار اٹھے کہ ’’خدا کی قسم! میں تو چاہتا ہوں کہ خدا میرے قصور معاف کردے!‘‘ اور پھر آپ نے حضرت مسطح کا وظیفہ دوبارہ جاری کردیا۔ حضرت ابو مسعودؓ صحابی کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی ’’جان لو۔ جان لو‘‘ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضورﷺ کا فرما رہے تھے‘
’’ابو مسعودؓ ! جتنا قابو تم کو اس غلام پر ہے، اس سے زیادہ قابو خدا کو تم پر ہے‘‘
حضرت ابو مسعود کہتے ہیں حضور ﷺ کے فرمانے کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ پھر میں نے کبھی کسی غلام کو نہیں مارا ۔
ایک دفعہ ایک شخص نے رسول اکرمﷺ سے دریافت کیا کہ : ’’یا رسول اللہ! میں اپنے غلام کا قصور کتنا معاف کیا کروں؟‘‘ آپ پہلے تھوڑی دیر چپ رہے۔ اس شخص نے پھر یہی سوال دہرایا تو آپ نے فرمایا‘ ہر روز ستر دفعہ‘‘ (ترمذی)
بعض لوگ کا خیال ہے کہ بار بار معاف کردینے سے ہمارے رعب و ادب اور وقار میں کمی آجائے گی۔ حالاں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
جو شخص عفور در گزر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے‘‘ (ترمذی)
جہاد فی سبیل اللہ
اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کی فضیلت اسی سے ظاہر ہے کہ سورہ آل عمران آیات 169تا 170میں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:
(جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو، حقیقت میں وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس روزی پاتے ہیں۔ خدا نے انہیں اپنی مہربانی سے جو دیا اس سے خوش ہیں)
جو عمل انسان کے لیے اس درجہ اعزاز کا ذریعہ بننے والا ہو کہ اسے مرنے کے بعد بھی مردہ سمجھنے کی اجازت نہ ہو، اس فضیلت میں کیا کلام ہوسکتا ہے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ انسان میں سب سے بڑی بداخلاقی گھبرادینے والا بخل اور دل دہلا دینے والی بزدلی ہے۔
حضرت عبداللہ بن اوفیٰ نے ایک خط لکھ کر بھیجا جس کا ایک فقرہ یہ تھا کہ ’’رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب دشمن سے مقابلہ آپڑے تو ثابت قدم رہو! اسی خط میں حضور ﷺ کا وہ مشہور فقرہ بھی ہے کہ:
’’جان لو کہ بہشت تلواروں کی چھاوں میں ہے!‘‘ (بخاری)
خود حضور ﷺ کی شجاعت کا یہ حال تھا کہ غزوہ حنین کا ذکر کرتے ہوئے حضرت براؓ نے بیان کیا خدا کی قسم! جب لڑائی پورے زور پر ہوتی تھی ہم لوگ آپؐ ہی کے پہلو میں آکر پناہ لیتے تھے۔ ہم میں سب سے بڑا بہادر وہ شمار ہوتا جو آپؐ کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا ۔(مسلم)
صبر
عربی زبان میں صبر ایک پھل کو کہتے ہیں جس کا مزا کڑوا ہوتا ہے، مختلف اقسام کی جسمانی، ذہنی، روحانی تکلیفوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلینے کو صبر کہا گیا ہے۔
مندرجہ بالا آیات میں صبر کی جس خاص شکل کی طرف اشارہ ہے، یہ وہ صبر ہے جو اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں نے خدا کی راہ میں آنے والے مصائب و آلام کے مقابلے میں کیا تھا۔ دوران جنگ جو تکالیف مجاہدین کو سہنی پڑتی ہیں، وہ کسی بے صبر انسان کے بس کا روگ نہیں ہوتیں۔ انہیں وہی لوگ برداشت کرسکتے ہیں جنہیں خدا، خدا کے رسولؐ اور خدا کے دین کی سر بلندی کے مقابلے میں نہ جان پیاری ہو نہ مال، نہ آل اولاد نہ کوئی اور رشتے۔ جن کی غیرت و حمیت اسلامی کا یہ عالم ہو کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جانا منظور ہو مگر دشمن کے آگے کمزوری دکھانا اور باطل کے آگے سر جھکانا کسی صورت منظور نہ ہو۔ انہیں صابروں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ان سے محبت رکھتا ہے
خیرات
سورہ بقرہ میں آیت 261میں اللہ تعالیٰ نے راہ خدا میں خرچ کرنے والوں کی مثال اس طرح بیان فرمائی ہے:
(جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال صرف کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی)
ایک دفعہ خود حضور ﷺ نے حضرت ابوذرؓ سے فرمایا:
’’ابو ذر! مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے پاس احد کے پہاڑ برابر سونا ہو اور تیسرے دن تک اس میں سے ایک اشرفی بھی میرے پاس رہ جائے۔ کہ کسی قرض کے ادا کرنے کو رکھ چھوڑوں‘‘ (مسلم)
حضور ﷺ نے فرمایا:
’’اے آدم کے بیٹے ! تیرا دینا تیرے لیے بہتر ہے، اور تیرا رکھ چھوڑنا تیرے لیے برا ہے!‘‘۔
حضورﷺکی تعلیمات کا صحابہ کرام پر یہ اثر ہوتا تھا کہ کوئی دولت مند ہوتا یا غریب، ہر حال میں راہ خدا میں خرچ کرنے کو تیار رہتا تھا۔ ایک بار قبیلہ معز کے بہت سے فاقہ زدہ لوگ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپﷺ نے ان کی حالت دیکھی تو چہرے کا رنگ بدل گیا۔ نماز کے بعد خطبہ دیا اور لوگوں کو ان کی امداد کی ترغیب دلائی۔ اس پر ایک صحابہ درہم و دینار کی اتنی وزنی تھیلی لائے جسے وہ بمشکل اٹھا سکتے تھے اور اسے حضورﷺ کے سامنے رکھ دیا۔ دوسری طرف ایک دفعہ ایک غریب صحابی نے ڈول کھینچنے کی اجرت میں ایک صاع پایا اور اسے خیرات کردیا۔
عدل و انصاف
کسی بوجھ کو دو حصوں میں برابر اس طرح بانٹ دیا جائے کہ ان دو میں سے کسی میں بھی ذرا کمی بیشی نہ ہوتو اس کو عربی زبان میں ’’عدل‘‘ کہتے ہیں۔
چناں چہ عدل یہ ہے کہ جو بات بھی کہی جائے یا جو کام بھی کیا جائے، اس میں سچائی کی میزان نا حق طور پر کسی طرف جھکنے نہ پائے اور ہر ایک کو اپنا پورا پورا حق مل جائے۔
اللہ تعالیٰ کے 99ناموں میں ایک عدل بھی ہے یعنی عدل والا۔ حضورﷺ نے فرمایا:’’قیامت کے دن جب کہ خدا کے سائے کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا، سات شخصوں کو خدا اپنے سائے میں لے گا جن میں ایک شخص امام عادل ہوگا‘‘ (بخاری)
پاکیزگی
عرب میں عام طور پر پانی کی کمی تھی اور اہل عرب اسلام سے پہلے صفائی اور پاکیزگی کو چنداں اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اسلام آیا تو حضورﷺ نے ان لوگوں کو تاکید سے صاف ستھرا اور پاکیزہ رہنے کی ہدایات فرمائیں۔
نماز کی چار شرائط بتائی گئی ہیں:
1۔ قبلہ رخ ہونا
2۔اوقات کی پابندی کرنا۔
3۔ستر یعنی جسم کے جن اعضا کا ڈھانپنا ضروری ہے، ان کو ڈھانپنا۔
۔4پاکیزگی۔ یعنی باوضو ہونا۔ بدن ، لباس اور نماز کی جگہ کا پاک ہونا
پاکیزگی اسلام کی نمایاں صفات میں سے ہے۔ دنیا کے بہت سے ادیان میں اس طرف چنداں توجہ نہیں دی گئی۔
ایک دن حضورﷺ نے کسی شخص کو میلے کپڑے پہنے دیکھا تو فرمایا کہ اس سے اتنا نہیں ہوا کہ کپڑے دھولیا کرے ۔ (ابو داود)
ایک دفعہ آپﷺ نے دیوار پر تھوک کا دھبہ دیکھا تو اس قدر غصہ آیا کہ چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ ایک انصاری عورت نے دھبے کو مٹایا اور اس کی جگہ خوشبو لاکر ملی تو آپﷺ نہایت خوش ہوئے اور اس کی تحسین فرمائی۔ (نسائی)
کبھی کبھی حضور ﷺ کی مجلس میں خوشبو کی انگیٹھیاں بھی جلائی جاتی تھیں جن میں کبھی اگر اور کبھی کافور ہوتا۔ (انسانی)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پاکیزگی کا اس قدر خیال تھا کہ جب سے اسلام لائے معمولاً ایک بار روزانہ غسل کرتے تھے۔ (مسند ابن حنبل)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے تاہم غسل و پاکیزگی کے لیے حضرت انسؓ کے گھر میں ایک حمام موجود تھا۔ (بخاری)
حضرت ابوذر غفاریؓ نے بال رکھے ہوئے تھے۔ ایک دن انہوں نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ میں ان میں کنگھی کروں؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’ہاں ، کنگھی کرو، اور ان کو گردو غبار سے بچاو‘‘۔
اس کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ وہ بسا اوقات دن میں دو بار ان میں تیل لگاتے (موطا امام مالکؒ)
معاہدات کو پورا کرنا
حضور ﷺ کے نمایاں اوصاف میں سے ایک ایفائے عہد بھی تھا۔ آپ نے غیر مسلموں سے بھی معاہدات فرمائے اور ان کی پوری پابندی کی۔
صلح حدیبیہ میں حضور ﷺ اور کفار قریش کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا، اس کی ایک شق تھی کہ مکے سے جو شخص مسلمان ہوکر مدینہ آئے گا وہ اہل مکہ کے مطالبہ پر واپس کردیا جائے گا۔ عین اس وقت جب معاہدے کی شرائط لکھی جارہی تھیں مکہ سے حضرت ابو جندلؓ حضورﷺ کے سامنے آگئے۔ حضرت ابو جندلؓ مسلمان ہوچکے تھے اور کافروں نے انہیں قید کر رکھا تھا اور انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بناتے تھے۔ حضورﷺ کے حدیبیہ میں ہونے کا پتہ ملا تو وہ کسی نہ کسی طرح قید سے چھوٹ کر پابہ زنجیر وہاں آپہنچے اور التجا کی کہ مجھے اس ظلم و ستم سے چھڑا کر مدینہ منورہ اپنے ساتھ لے جایا جائے۔
اب جو معاہدہ ہورہا تھا اس کی رو سے حضورﷺ انہیں ساتھ نہیں لے جاسکتے تھے۔ کیوں کہ کفار کسی صورت نہیں مان رہے تھے اور دوسری طرف ابو جندلؓ کی حالت ایسی قابل رحم تھی کہ مسلمان انہیں دیکھ کر تڑپ اٹھے تھے۔ حضورﷺ نے کفار کے نمائندے سے کہا بھی کہ ابھی معاہدہ پورے طور پر نہیں لکھا گیا تم لوگ ابوجندلؓ کو مستثنیٰ کردو۔ مگر وہ شقی کسی صورت نہ مانا۔ آخر آپؐ نے اپنے معاہدے پر قائم رہنا ہی ضروری سمجھا اور حضرت ابو جندلؓ کو مخاطب کرکے فرمایا:’’اے ابوجندل ! صبر کرو، ہم بد عہدی نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے لیے کوئی راستہ نکال دے گا‘‘! (بخاری)
جنگ بدر میں کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ انہیں دنوں دو صحابی مکے سے آرہےتھے۔ راہ میں کفار نے انہیں روک لیا اور انہیں اس وقت تک نہ جانے دیا جب تک ان سے عہد نہ لے لیا کہ تم لوگ جنگ میں رسول خدا کا ساتھ نہیں دو گے۔ ان دونوں نے مجبورً عہد کرلیا اور پھر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر ساری بات بتائی۔ باوجود اس کے کہ اس وقت جہاد کرنے والے مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم دونوں واپس جاو، ہم ہر حال میں وعدہ وفا کریں گے۔ ہم کو صرف خدا کی امداد درکا رہے (مسلم)
اطاعت رسولﷺ:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔ چناں چہ رسول خدا ﷺ کے جو احکام وقتی ہوتے تھے، صحابہ کرام فوراً ان کی تعمیل کرتے اور جو دائمی ہوتے تھے ہمیشہ ان کے پابند رہتے تھے۔
حضورﷺ کے زمانے میں عورتیں بھی جماعت میں شریک ہوتی تھیں۔ ایک دن حضورﷺ نے مسجد کے دروازے کے متعلق فرمایا کہ کاش! ہم یہ دروازہ صرف عورتوں کے لیے چھوڑ دیتے۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن عمر نے اس شدت سے اس کی پابندی کی کہ تادم مرگ اس دروازے سے مسجد میں داخل نہ ہوئے (ابو داود)
حضرت محمد بن اسلم نہایت ضعیف صحابی تھے۔ جب بازار سے پلٹ کر گھر آتے اور چادر اتارنے کے بعد یاد آتا کہ انہوں نے مسجد نبوی میں نماز نہیں پڑھی تو کہتے: خدا کی قسم! میں نے مسجد نبویؐ میں نماز نہیں پڑھی۔ حالاں کہ آپؐ نے فرمایا تھا کہ جوشخص مدینہ میں آئے تو جب تک اس مسجد میں دو رکعت نماز نہ پڑھ لے، گھر کو واپس نہ جائے۔ یہ کہہ کر چادر اٹھاتے اور مسجد نبوی میں نماز پڑھ کر گھر آتے! (اسد الغابہ)
حضور اکرمﷺ نے حکم دیا کہ جو شخص جس قوم کے یہاں آئے وہ ان کی امامت نہ کرے بلکہ خود اسی قوم کا کوئی شخص ان کی امامت کرے۔ چناں چہ ایک بار حضرت مالک بن حویرثؓ ایک قبیلہ کی مسجد میں آئے۔ لوگوں نے امامت کی درخواست کی تو انہوں نے انکار کردیا کہ رسول مقبول ﷺ نے اس سے منع فرمایا ! (ابو داود)
(ماخوذ از۔۔کتاب’’حُبِ الہٰی‘‘)
***

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022