مشرقی ہند

طلبا لیڈر انیس الرحمن کی پراسرار موت کے بعد مزید وارداتیں

(دعوت نیوز نیٹ ورک)

ایک ہفتے میں ایک ہی جیل میں چار مسلم نوجوانوں کی مشتبہ موت
کیا یہ محض اتفاق ہے یا پھر کسی سازش کا حصہ کہ ایک ہی جیل میں ایک ہفتے کے دوران چار مسلم نوجوانوں کی موت ہو جاتی ہے جنہیں مختلف معاملات میں گرفتار کیا گیا تھا؟ اگرچہ اس معاملہ کو طول پکڑتا ہوا دیکھ کر ریاستی حکومت نے معاوضہ اور سی آئی ڈی تحقیقات کا اعلان کر دیا ہے مگر ماہ فروری میں عالیہ یونیورسٹی کے سابق طلبا لیڈر انیس الرحمن کی مبینہ طور پر پولیس کے ہاتھوں قتل کی جانچ کا جو حشر ہوا ہے اس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان چاروں افراد کے مبینہ قتل کی جانچ بھی کسی نتیجے پر پہنچے بغیر فائل کا حصہ بن جائے گی۔ کولکاتا سے محض پچاس کلو میٹر کی دوری پر واقع جنوبی 24 پرگنہ کے بروئی پور سنٹرل جیل میں 30 جولائی سے تین اگست کے درمیان چار مسلم نوجوانوں کی مشتبہ موت ہو گئی ہے۔ ان چاروں مسلم نوجوانوں کو جولائی کے آخری ہفتے میں ایک ہی طرح کے مختلف معاملات میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان چاروں کے کیسوں کا جائزہ لینے کے بعد جو حقیقت سامنے آئی وہ یہ ہے کہ انہیں کوئی جرم انجام دینے کے الزام میں نہیں بلکہ ڈکیتی کا منصوبہ بنانے کا الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جرم انجام دینے سے قبل محض سازش کے الزام میں گرفتار نوجوانوں کے ساتھ مارپیٹ اور تشدد کا آخر کیا جواز ہے؟
مہلوک نوجوانوں کی تفصیلات
جن چار افراد کی موت ہوئی ہے ان میں جنوبی 24 پرگنہ کے سباش پلی کے رہنے والے 35 سالہ نوجوان ضیا لشکر آٹورکشا ڈرائیور ہیں، 25 جولائی کو وہ معمول کے مطابق کام پر گئے مگر شام میں گھر نہیں لوٹے۔ گھروالوں نے تلاش شروع کی مگر اگلے دن صبح کو معلوم ہوا کہ ضیا لشکر کو ڈکیتی کی سازش کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ گھر والے ضیا سے ملاقات کرنے کے لیے بروئی پور پولیس اسٹیشن گئے تو معلوم ہوا کہ اس کو پولیس اسٹیشن میں زدو کوب کیا گیا ہے۔ اگلے دن اسے عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے اسے جیل بھیج دیا گیا۔ لشکر کی بڑی بہن صابرہ کہتی ہیں کہ جیل میں اس کے ساتھ مسلسل مار پیٹ کی جا رہی تھی۔ 28 جولائی کو جب جیل میں گھر والوں نے ملاقات کی تو اس نے بتایا تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔ صابرہ نے بتایا کہ یکم اگست کو ہی اس کی موت ہو گئی تھی مگر گھر والوں کو دو اگست کو اطلاع دی گئی۔ ضیا لشکر کے ساتھ دیگر جن دو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سرجیت ہلدار اور ربیع ہلدار شامل ہیں۔ ان دونوں نے بتایا کہ بروئی جیل میں مسلسل مار پیٹ کی جا رہی تھی۔ اسی بنیاد پر ان دونوں نے ضمانت کی درخواست دی جسے منظور کرلیا گیا ہے۔ اب تک ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں آئی ہے۔
دو لڑکیوں کے والد 34 سالہ عبد الرازق پولٹری فارم کا کارروبار کرتے ہیں اور کام کے مقصد سے وہ بہار جایا کرتے ہیں۔ عبدالرازق کی اہلیہ سہانا نے بتایا کہ 24 جولائی سول ڈریس میں چند افراد آئے اور عبدالرازق سے متعلق معلومات حاصل کیں، اگلے دن عبدالرازق کو گرفتار کرلیا گیا۔ سہانا کہتی ہیں کہ 27 جولائی کو انہوں نے جب جیل میں عبدالرازق سے ملاقات کی تھی تو وہ بالکل نارمل تھے مگر محض ایک دن بعد 29 جولائی کو دوپہر ایک بجے ایک پولیس اہلکار نے خبر دی کہ عبدالرازق کی حالت نازک ہے اور وہ ہسپتال میں زیر علاج ہے۔عبدالرازق کے چچا سراج کہتے ہیں کہ وہ ہسپتال پہنچے تو اس کی موت ہو چکی تھی۔ سراج نے بتایا کہ ہم لوگ غریب ہیں اور ہمارے پاس کیس لڑنے کے وسائل نہیں ہیں۔ پولیس نے بتایا کہ عبدالرزاق کو ڈکیتی کا منصوبہ بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق پولیس نے خود ایک گروپ کو ڈکیتی کا منصوبہ بناتے ہوئے سنا ہے اور ان کے پاس سے ہتھیار بھی برآمد کیے گئے ہیں۔
اسی طرح ڈکیتی کا منصوبہ بنانے کے الزام میں گرفتار اکبر خان کی دو اگست کو جیل میں دوران حراست مشتبہ حالت میں موت ہوئی ہے۔ اکبر کے جسم پر تشدد اور زخم کے نشانات ہیں، پولیس نے اب تک پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں دی ہے۔
33 سالہ سید المنشی کو 25 جولائی مہیش تلہ پولیس نے گرفتار کیا اور اس کے اگلے دن بروئی پور جیل میں بھیج دیا گیا۔ یکم اگست کو گھر والوں کے علم میں لائے بغیر سید المنشی کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔دو اگست کو گھر پر ایک پولیس اہلکار آیا اس وقت گھر میں کوئی بالغ مرد نہیں تھا۔اس کے باوجود پولیس نے سید المنشی کی چھوٹی بہن سے ایک کاغذ پر دستخط کرائے اور ایک کاغذ بھی حوالہ کیا جس میں سید المنشی کو ہسپتال میں داخل ہونے کی اطلاع دی گئی تھی۔ سید المنشی کی بڑی بہن سلمی نے بتایا کہ تین اگست کو موت کی اطلاع دی گئی۔ اس کے جسم پر مارپیٹ کے گہرے نشانات تھے اور اس کی حالت بہت ہی زیادہ خراب تھی۔
پولیس کا مشتبہ رول۔ پہلے انکار اور بعد میں جانچ کا اعلان
انیس الرحمن قتل معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی پہلے بروئی پور پولیس نے پہلے پورے معاملے کو ہی سرے سے خارج کر دیا کہ اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آیا ہے۔تاہم جب کچھ مقامی لیڈروں اور اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس جیسی تنظیموں نے اس معاملے میں اپنی سرگرمی تیز کی تو ضلع کلکٹر کی جانب سے فوری طور پر معاوضہ کا اعلان کیا گیا اور سی آئی ڈی انکوائری کا اعلان کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اب تک اس معاملے میں تادم تحریر بروئی پور جیل سپرنٹنڈنٹ سے کوئی پوچھ تاچھ نہیں کی گئی ہے۔ اس سے جانچ کی رفتار کا اندازہ معلوم ہوتا ہے۔ انیس الرحمن قتل معاملے میں بھی یہی ہوا تھا۔
فروری 2022 کے تیسرے ہفتے میں نصف رات کو عالیہ یونیورسٹی کے طلبا لیڈر انیس الرحمن کے گھر پر پولیس کے چند اہلکار پہنچے۔ انیس کے والد کے سالم خان سے انیس سے متعلق دریافت کیا۔ اس درمیان تین پولیس اہلکار گھر کے دوسری منزل پر گئے اور اسی درمیان انیس کے گھر سے گرنے کی آواز آئی۔ پولیس والے فرار ہو چکے تھے۔ گھر والوں نے کافی جدو جہد کے بعد انیس کو ہسپتال پہنچایا۔ پہلے تین دن تک پولیس کی جانب سے مسلسل کہا جاتا رہا کہ انیس کے گھر آنے والوں کا تعلق پولیس سے تعلق نہیں تھا مگر معاملہ طول پکڑا اور کولکاتا ہائی کورٹ میں سی بی آئی جانچ کے لیے عرضی دائر کی گئی تو حکومت نے ایس آئی ٹی بنائی جس میں دو سیوک پولیس اور ایک ہوم گارڈ کو گرفتار کیا گیا۔ ایس آئی ٹی نے رپورٹ جمع کر دی ہے مگر یہ رپورٹ بہت ہی مبہم ہے اور اس میں کسی بڑے پولیس اہلکار کی طرف انگلی نہیں اٹھائی گئی ہے نہ موت کی صحیح وجہ بتائی گئی ہے۔
سیاسی جماعتوں کی حیرت انگیز خاموشی
اس پورے معاملے میں جو سب سے زیادہ حیرت انگیز بات ہے وہ یہ ہے کہ ایک ہی علاقے کے چار مسلمانوں کی ایک ہی جیل میں ایک ہی ہفتے کے دوران موت کا معاملہ سامنے آنے کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کے نمائندے نے نہ ان کے گھروالوں سے ملاقات کی اور نہ اس کو سیاسی موضوع بنایا آخر کیوں؟ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس (اے پی ڈی آر) کے جنرل سکریٹری رنجیت سور کہتے ہیں کہ ہم نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی ہے اور اس پورے معاملے کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے کہ آخر اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں۔ رنجیت سور اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جنوبی 24 پرگنہ اور شمالی 24 پرگنہ میں حالیہ دنوں میں پولیس کی اس طرح کی کئی کارروائیاں سامنے آئی ہیں جن میں اقلیتی طبقے کے افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ خیال رہے کہ بنگال اسمبلی انتخابات کے دوران ان دونوں اضلاع میں کئی سیٹوں پر نو تشکیل شدہ جماعت آئی ایس ایف (عباس صدیقی) نے ترنمول کانگریس کو سخت ٹکر دی تھی۔بلکہ شمالی 24 پرگنہ بھانگر سیٹ پر آئی ایس ایف نے ترنمول کانگریس کو شکست دی تھی۔ آئی ایس ایف سے وابستہ ایک لیڈر نے بتایا کہ ان دونوں اضلاع میں بڑے پیمانے پر ہمارے حامیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہمیں آسانی سے پروگرام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
رنجیت سور نے ان کیسوں کی آزادانہ عدالتی تحقیقات کا کیا اور کہا کہ پولیس تحویل میں جب غیر اقلیتی طبقے کی موت ہو جاتی ہے تو تمام سیاسی جماعتیں اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں مگر معاملہ جب مسلمان کا آتا ہے تو تمام سیاسی جماعتیں خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ اس معاملے میں بھی یہی صورت حال دیکھنے کو ملی ہے۔ جنوبی 24 پرگنہ کی پولیس اس معاملے میں خاص طور پر بدنام ہے۔ اس لیے اس کے پیچھے کسی سازش سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تین دن قبل مہلوکین کے لواحقین سے ملاقات کر کے قانونی مدد کی پیشکش کرنے والے کلکتہ ہائی کورٹ کے وکیل اشفاق احمد کہتے ہیں کہ اب پولیس اور حکومت دونوں اس پورے معاملے کی لیپا پوتی کرنے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ ان چاروں مہلوکین کے لواحقین کو پانچ لاکھ روپے کا معاوضہ اور گھر کے ایک فرد کو نوکری اور سی آئی ڈی جانچ کی ہدایت دی گئی ہے۔ ایڈووکیٹ اشفاق احمد نے کہا کہ سی آئی ڈی سے امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے ہی پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے گی کیوں کہ ان چاروں کی موت میں پولیس اہلکاروں کا کردار مشکوک ہے۔ اس لیے آزادانہ عدالتی جانچ کی ضرورت ہے تاکہ اصل مجرموں کو بے نقاب کیا جا سکے۔

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022