’جبروجمہوریت اور سید مودودیؒ ‘

مولانا انتہاپسندی کے خلاف تھے۔فکرمودودیؒکوسمجھنے میں معاون ایک اہم کتاب

نام کتاب : ’جبروجمہوریت اور سید مودودی‘
مصنف : ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی
صفحات276:
ناشر : القلم پبلیکیشنز بارہمولہ؛ کشمیر
ملنے کاپتہ : ھدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس نئی دہلی
مبصّر : سہیل بشیرکار؛ بارہمولہ کشمیر

زیر تبصرہ کتاب ’’جبر جمہوریت اور سید مودودی‘‘ کے مصنف برصغیر کے مشہور و معروف اسکالر پروفیسر عبیداللہ فہد فلاحی ہے۔ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی (پروفیسر و صدر اسلامک اسٹڈیز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی؛ علی گڑھ) درجنوں کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی اچھے مقرر بھی ہیں ، عالمی تحریکات اسلامی پر ان کی گہری نظر ہے، بیسویں صدی میں عالم اسلام کے سب سے بڑے تحریکی رہنما و عالم دین،مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی کے افکار کا انہوں نے باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے۔ساتھ ہی ان کے زیر سرپرستی کئی لوگوں نے سید مودودی پر تحقیقی کام بھی کیا ہے، بقول ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، عبیداللہ فہد کو فکر مودودی کا شارح قرار دیا جاسکتا ہے۔
سید مودودی(1903 – 1979) ایک عظیم شخصیت تھے۔ان کے افکار و نظریات نے نہ صرف برصغیر بلکہ پورے عالم اسلام کو متاثر کیا، مولانا مودودی نے اس فکر کا احیا ءکیا جس میں بتایا گیا ہے کہ دین چند عبادات اور رسومات تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتا ہے، پوری دنیا میں سید مودودی کی سیاسی فکر کو سمجھنے کے لیے کوشش ہورہی ہے۔زیر تبصرہ کتاب بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہے، لکھتے ہیں ’’زیر نظر کتاب ’جبر و جمہوریت اور سید مودودی ‘دو عشروں پر محیط مطالعہ و مباحث کا نتیجہ ہے۔‘‘(صفحہ 1) کتاب کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ مصنف ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی نے سیاست کے موضوع پر کافی اکیڈمک کام کیا ہے۔اس سلسلے میں ان کو’ شاہ ولی اللہ ایوارڈ‘ سے بھی نوازا گیا۔مصنف نے کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔باب اول میں ’جدید ہندوستان میں اسلام کی سیاسی فکر اور مفکرین‘ عنوان کے تحت مصنف نے جدید ہندوستان کے اہم ترین علماء دین، مثلا شاہ ولی اللہ دہلوی، سرسید احمد خان،، حمید الدین فراہی، حیسن احمد مدنی، ڈاکٹر محمد اقبال، مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم حیدر زماں صدیقی، سید سلیمان ندوی، محمد میاں منصور انصاری، محمد ادریس کاندھلوی، قاری محمد طیب، مولانا حامد انصاری، مولانا محمد اسحاق سندیلوی کے سیاسی افکار سے قارئین کو مختصر مگر جامع انداز سے مطلع کیا ہے، مصنف نے اختصار سے ان اکابر علماء ہند کی سیاسی فکر کا جائزہ لیا ہے اور اس کے بعد لکھتے ہیں: ’’اس مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جدید ہندوستان کی ابتدائی صدیوں میں اسلام کی سیاسی فکر پر وجود میں آنے والی تحریروں میں کس طرح کے مسائل اٹھائے گئے، علمی اور عملی جہتوں سے سیاسیات کے کن پہلوؤں کو موضوع بحث بنایاگیا اور ان میں قرآن وسنت سے کس طرح استدلال کیاگیا۔‘‘(صفحہ 116)،درج بالا اقتباس سے ہمیں اس باب کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔اس باب کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس قدر سیاسی شعور رکھنے کے باوجود ان علماء کے پیروکاروں نے کیسے سید مودودی کی برپا کی ہوئی تحریک کی مخالفت کی؟ اس باب میں مصنف نے 216 حوالے دیئے ہیں اس سے مصنف کے گہرے مطالعہ کا پتہ چلتا ہے۔
دوسرے باب ’’فکر مودودی کی عصری معنویت‘‘ میں مصنف کچھ دیگر اہم مباحث کا احاطہ کیا، جہاں عالم اسلام میں بیداری پیدا ہوئی وہیں انتہا پسندی بھی پیدا ہوچکی ہے، مولانا مودودی انتہا پسندی کے سخت خلاف تھے؛ لکھتے ہیں: ’’بدقسمتی سے پچھلے چند سالوں میں دہشت گردی اور تشدد کوبعض نام نہاد اسلامی جماعتوں اور تنظیموں نے سند جواز فراہم کردیا ہے ۔ مغرب اور امریکہ کی چیرہ دستیوں اور استعماری عزائم کی منصوبہ بندیوں کے خلاف شدید ردّعمل رونما ہوا۔ مسلم ممالک کی مغرب نواز حکومتوں کے روح فرسا مظالم نے جلتے تیل پر گھی کا کام کیا۔ ’جماعۃ التکفیر والھجرۃ‘ مصر سے لے کر ’داعش‘ (الدّولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام)کا مخفّف القاعدہ اور بوکوحرام تک سب مسلح جدوجہداور تشدد کی کاروائیوں میں مصروف ہیں اور اپنے حق میں قرآن کریم کی آیات سے استدلال کررہے ہیں۔ سیّد مودودی نے کبھی اس طرح کی حرکتوں اور مہموں کا ساتھ نہ دیا۔‘‘(صفحہ 146)مصنف لکھتے ہیں کہ لندن میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’توڑ پھوڑ اور تشدد کے ذریعہ کوئی مستحکم اور پائدار نظام حکومت قائم نہیں کیا جاسکتا۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ان ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں اس قسم کی کاروائیوں کے بعد انقلاب لائے گئے اور پھر وہاں انقلاب در انقلاب کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ اس لیے نہ ہم خود تشدد کا راستہ اختیار کریں گے اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے۔‘‘( صفحہ 147)
اس قدر واضح ہدایات کے باوجود سید مودودی پر شدت پسندی کا الزام کس قدر افسوسناک ہے۔ اسی باب میں مصنف نے بتایا کہ سید مودودی کے نزدیک معاشرہ میں تبدیلی کے لئے آئینی اور دستوری و جمہوری طریق کار اختیار کیا جائے گا، مولانا کے نزدیک جمہوریت اسلام کے تصور شوریٰ کے قریب ہے، لیکن ساتھ ہی وہ مغربی جمہوریت کو مسترد کرتے ہیں۔مصنف مولانا مودودی کی تحریر نقل کرتے ہیں :’’یہ چیز اسلامی خلافت کو قیصریت اور پاپائیت اور مغربی تصور والی مذہبی ریاست (Theocracy)کے برعکس ایک جمہوریت بنادیتی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ اہل مغرب جس چیز کو لفظ جمہوریت سے تعبیر کرتے ہیں اس میں جمہور کو حاکمیت کا حامل قرار دیاجاتا ہے اور ہم مسلمان جسے جمہوریت کہتے ہیں اس میں جمہورصرف خلافت کے حامل ٹھہرائے جاتے ہیں۔ ریاست کے نظام کو چلانے کے لیے ان کی جمہوریت میں بھی عام رائے دہندوں کی رائے سے حکومت بنتی اور بدلتی ہے اور ہماری جمہوریت بھی اسی کی متقاضی ہے ۔ مگر فرق یہ ہے کہ ان کے تصور کے مطابق جمہوری ریاست مطلق العنان اور مختار مطلق ہے اور ہمارے تصور کے مطابق ’جمہوری خلافت‘ اللہ کے قانون کی پابند۔‘‘(صفحہ 150)اس باب میں مصنف نے مولانا مودودی کے حوالے سے مغرب پر تنقید، حدیث و سنت کا دفاع، شورائی اجتہاد کالزوم، میں مولانا مودودی کے افکار کا جائزہ لیا گیا ہے۔یہاں بھی مصنف نے 35 صفحات کے دوسرے باب میں 62 حوالہ جات دیے ہیں۔
کتاب کے تیسرے اور آخری باب کا عنوان’’ سید مودودی کی سیاسی فکر ‘‘میں مصنف نے مولانا مودودی کی سیاسی فکر کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے ۔ان کا ماننا ہے کہ سید کی فکر بنیادی طور پر شاہ ولی اللہ دہلوی کے افکار و ثمرات کا انعکاس ضرور ہے البتہ اس میں ندرت بھی ہے بلکہ نہایت ہی اہم اضافہ بھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیدی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی ریاست کے قیام کے لئے راے عامہ کی ہمواری اور اس کی فکری و فلسفیانہ بنیادوں کی تشریح و توضیح کی ہے؛ لکھتے ہیں:
’’سید مودودی نے دلائل قرآن وسنت سے یہ ثابت کیا ، کہ اسلامی ریاست کا قیام ایک دینی فریضہ ہے ۔ سید مودودی اپنی کتاب ’اسلامی ریاست‘ میں لکھتے ہیں:
’اگر وہ بحیثیت مسلمان زندگی گزارنا چاہتے ہیں، تو اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت میں دیں، اور اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات کا فیصلہ خدا کے قانون اور اس کی شریعت کے مطابق کریں۔۔۔ اسلامی ریاست اور اسلامی دستور کے مطالبے کی پشت پر دراصل یہی احساس کار فرما ہے کہ اگر مسلمان خدا کے قانون کی پیروی نہیں کرتا تو اس کا دعوائے اسلام ہی مشتبہ ہوجاتا ہے ۔ یہ وہ حقیت ہے جس پر پورا قرآن دلیل ہے -‘‘(صفحہ 185) ،مولانا اسلامی ریاست کی ضرورت پر قرآن کریم کی روشنی میں چار دلائل دیتے ہیں۔سورہ آل عمران آیت 26 کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ‘مالک الملک ہے لہذا خلق بھی اسی کی اور امر بھی اسی کا۔سورہ النساء آیت 60 سے ثابت کرتے ہیں کہ قانون سازی کا حق صرف اللہ رب العزت کو ہے، سورہ ص آیت 26 کے تناظر میں وہ کہتے ہیں کہ اللہ رب العزت کے نزدیک صحیح حکومت اور صحیح عدالت صرف وہ ہے جو اللہ کے قانون کے مطابق چلے۔اسی طرح وہ سورہ النساء آیت 115 کے تحت کہتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک وہ حکومت باغی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے لائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں۔سید مودودی کے اسی تصور کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے سید مودودی لوگوں کو سمجھانے میں کامیاب رہے کہ مذہب زندگی کا ضمیمہ نہیں، مذہب کو تہذیب و تمدن اور سماج سے الگ نہیں کیا جاسکتا،
اگرچہ اسلامی حکومت کی اہمیت پر باقی علماء نے بھی زور دیا ہے لیکن اس سلسلے میں وہ طریقہ کار نہ بتا یا کہ ریاست کیسے قائم ہوگی، اس کے برعکس سید مودودی نے ریاست قائم کرنے کا عملی طریقہ بتایا۔ڈاکٹر عبیداللہ فہد لکھتے ہیں: ’’دور جدید میں اسلامی ریاست کی تشکیل کا عمل (Process) اور اس کا مخصوص منہج یا طریق کار (Method)وہ موضوع ہے جس کی فاضلانہ تفہیم اور اس کی عملی تفسیر میں سید مودودی کو دوسرے مفکرین اور علماء پر سبقت اور امتیاز حاصل ہے ۔ علمائے امت مسلمہ کے ہاں تشکیل ریاست کے بعد اس کے فرائض واعمال سے مفصل بحث تو ملتی ہے مگر خود ریاست کی تنظیم کیسے ہو، اس کی تشکیل کا طریقہ کار اور منہج کیسا ہو کہ عصری ضرورتوں کی تکمیل بھی ہوسکے اور قرآن وسنت کی بنیادی تعلیمات اور رہنما اقدار اور خلافت راشدہ کے تاریخی تعامل سے سرموانحراف بھی نہ ہو۔ اس موضوع پر ہمارے علماء نے زیادہ دلچسپی نہیں لی۔‘‘(صفحہ 189) ڈاکٹر عبیداللہ فہد چند علماء کی مثال پیش کرتے ہیں جیسے سید سلیمان ندوی کے بارے میں لکھتے ہیں:’’ تشکیل حکومت میں تقوی کا انفرادی و اجتماعی اظہار کیسے ہو اس پر مولانا سید سلیمان ندوی نے گفتگو نہیں کی ہے، اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے اگرچہ اسلامی نظام حکومت کی ماہیت پر گفتگو کی ہے لیکن اس کے قیام کے طریقے پر بحث نہیں کرتے، مولانا ادریس کاندھلوی ملوکیت اور شخصی حکومت کے نقصانات سے عوام کو واقف کراتے ہیں مگر انتظام مملکت کے لیے کسی خاص نظام حکومت کی نشاندہی نہیں کرتے۔یہی حال مولانا حامد الانصاری صاحب کا ہے۔ڈاکٹر عبید اللہ فہد کا ماننا ہے کہ طریقہ کار پر صرف دو افراد نے بحث کی ہے ایک سید قطب دوسرے سید مودودی لیکن مولانا کے ہاں اعتدال، متانت، فکری پختگی و گہرائی ، وضاحت اور صراحت زیادہ پائی جاتی ہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی کے نزدیک حکومت حاصل کرنے لیے طویل جدوجہد کرنی پڑتی ہے؛ لکھتے ہیں :’’اسلامی حکومت کے قیام کی صحیح ترتیب سید مودودی کے نزدیک یہ ہے کہ پہلے ایک تمدنی‘اجتماعی اور اخلاقی انقلاب برپا کیا جائے کیونکہ اسلام کے احکام وقوانین اوپر سے مسلط نہیں کئے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ پیدا کیا جانا ضروری ہے۔‘‘(صفحہ 194 ) مزید لکھتے ہیں’’بلاشبہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے ۔ اور بلاشبہ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام وقوانین صرف اوپر سے ہی مسلط نہیں کئے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیاجاتا ہے۔‘‘(صفحہ 256 ), اگرچہ سید مودودی جمہوریت کے ناقد رہے ہیں لیکن وہ موجودہ دور میں جمہوری طریقے سے ہی حکومت حاصل کرنے کے قائل تھے، زیر زمین سرگرمیوں، احتجاج کی پالسی کے برعکس وہ تعمیری ذرائع استعمال کرنے کے قائل تھے، انہیں یہ معلوم تھا یہ راستہ دشوار اور لمبا ہے لیکن اس کے باوجود وہ کسی بھی تشدد کے سخت ناقد تھے۔ان کا ماننا تھا کہ اگر دشمن کتنا بھی ظلم کرے پھر بھی خفیہ طریقے سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔مولانا مودودی کے نزدیک سیاست کا بنیادی مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، سید مودودی کا ماننا تھا کہ قانون بنانے کے تمام اختیارات صرف اللہ اور اس کے رسول کو ہے البتہ دین اسلام فطری دین ہے لہذا بہت سارے معاملات میں لچک دی گئی ہے۔ سید کے ہاں مرعوبیت بلکل نہیں تھی ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’سید مودودی اسلامی نظام سیاست کے ساتھ دوسرے نظاموں کی پیوند کاری کے سخت خلاف ہیں۔ بظاہر ان کی فکر سیاسی فی زمانہ مغربی اداروں کے پس منظر میں تشکیل پاتی نظر آتی ہے کیونکہ حکومت کی مشینری اور اس کے مختلف اعضا کے درمیان تعلق‘ حدود قیود کا نظام‘ قانون کی تدوین‘ ترکیز اور تنفیذ‘ ریاست کی ماہیت‘ مقصد‘ نظام کار اور اصولِ حکمرانی وغیرہ کے تمام تصورات اور اصطلاحات جدید فکر ہی سے مستعار ہیں۔۴۲؎ مگر یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس سے سیّدمودودی کی ٹھیٹھ اسلامی فکر ذرا بھی متاثر نہیں ہوئی‘ بلکہ تقریب فہم کی خاطر انہوں نے جدید لب ولہجہ اور اسلوب میں قرآن وسنت کی سیاسی تعلیمات پیش کی ہیں۔‘‘(صفحہ)
سید مودودی کی سیاسی فکر میں ارتقاء ہوا، مثلا ایک زمانے میں وہ خلیفہ یا صدر کے ویٹو کے قائل تھے لیکن بعد میں ان کی رائے یہ بنی کہ صدر یا خلیفہ مجلس شوریٰ کے فیصلوں کے آگے ویٹو نہیں کرسکتا۔سید مودودی کی سیاسی فکر بتدریج ترقی کرتی نظر آتی ہے ۔ مثال کے طور پر اسلامی ریاست میں صدر ریاست کے حقِ استرداد کے سلسلے میں اگرچہ وہ اصولی طور پریہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں اس کے متعلق کوئی قطعی حکم موجود نہیں ہے ۔ البتہ خلافت راشدہ کے تعامل سے علمائے اسلام نے بالعموم یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نظم ریاست کا اصل ذمہ دار صدر (چیف ایگزیکٹو) ریاست ہے اور وہ اہل الحل والعقد سے مشورہ کرنے کا پابند ضرور ہے مگر اس بات کا پابند نہیں ہے کہ ان کی اکثریت یا ان کی متفقہ رائے پر ہی عمل کرے ۔ دوسرے الفاظ میں اس کو ’ویٹو‘ کے اختیارات حاصل ہیں۔ تاہم آگے چل کر وہ اس بات کی بھی صراحت کرتے ہیں کہ اس پر عمل کرنا خلافت راشدہ کے اسلامی معاشرے ہی میں ممکن ہے اور یہ کہ :اگر شوریٰ کا طرز اور اس کی روح اور اہل شوریٰ کی ذہنیت اور سیرت وہی ہو، جو خلافت راشدہ کے اس نمونے میں ہم دیکھتے ہیں تو پھر اس سے بہترکوئی طریق کار نہیں ہے جووہاں اختیار کیا گیا۔ اس (خلافت راشدہ) کے طریق کار کواگر ہم اس کے آخری منطقی نتائج تک لے جائیں تو زیادہ سے زیادہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرز کی مجلس شوریٰ میں اگر صدرریاست اور ارکان مجلس اپنی اپنی رائے پر اَڑ جائیں اور ان میں سے کوئی دوسرے کے مقابلے میں اپنی رائے واپس نہ لے تو استصواب عام (Referendum)کرالیا جائے؛ پھر جس کی رائے کو بھی رائے عام رد کردے وہ مستعفیٰ ہوجائے لیکن جب تک ہمارے لیے اپنے ملک میں اس روح اور اس ذہنیت اور اس طرز کی مجلس شوریٰ بنانا ممکن نہیں ہے ، اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم انتظامیہ کو مقننہ کی اکثریت کے فیصلوں کا پابند کردیں۔‘‘(صفحہ صفحہ 226 )
ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی کا ماننا ہے کہ مولانا مودودی کی فکر میں مسلسل ارتقا ہوتا رہا۔سید مودودی کی سیاسی فکر بتدریج ترقی کرتی نظر آتی ہے ۔ صدر ریاست اور شوری کا انتخاب کے طریقہ کار پر سید مودودی حقِ استرداد کے سلسلے میں اگرچہ اصولی طور پریہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں اس کے متعلق کوئی قطعی حکم موجود نہیں ہے ۔ البتہ خلافت راشدہ کے تعامل سے علمائے اسلام نے بالعموم یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نظم ریاست کا اصل ذمہ دار صدر (چیف ایگزیکٹو) ریاست ہے اور وہ اہل الحل والعقد سے مشورہ کرنے کا پابند ضرور ہے مگر اس بات کا پابند نہیں ہے کہ ان کی اکثریت یا ان کی متفقہ رائے پر ہی عمل کرے ۔ دوسرے الفاظ میں اس کو ’ویٹو‘ کے اختیارات حاصل ہیں۔ ۷۵؎ تاہم آگے چل کر وہ اس بات کی بھی صراحت کرتے ہیں کہ اس پر عمل کرنا خلافت راشدہ کے اسلامی معاشرے ہی میں ممکن ہے اور یہ کہ :
اگر شوریٰ کا طرز اور اس کی روح اور اہل شوریٰ کی ذہنیت اور سیرت وہی ہو، جو خلافت راشدہ کے اس نمونے میں ہم دیکھتے ہیں تو پھر اس سے بہترکوئی طریق کار نہیں ہے جووہاں اختیار کیا گیا۔ اس (خلافت راشدہ) کے طریق کار کواگر ہم اس کے آخری منطقی نتائج تک لے جائیں تو زیادہ سے زیادہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرز کی مجلس شوریٰ میں اگر صدرریاست اور ارکان مجلس اپنی اپنی رائے پر اَڑ جائیں اور ان میں سے کوئی دوسرے کے مقابلے میں اپنی رائے واپس نہ لے تو استصواب عام (Referendum)کرالیا جائے پھر جس کی رائے کو بھی رائے عام رد کردے وہ مستعفیٰ ہوجائے‘ لیکن جب تک ہمارے لیے اپنے ملک میں اس روح اور اس ذہنیت اور اس طرز کی مجلس شوریٰ بنانا ممکن نہیں ہے ، اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم انتظامیہ کو مقننہ کی اکثریت کے فیصلوں کا پابند کردیں۔‘‘(صفحہ 196)
ڈاکٹر عبیداللہ فہد نے عنایت اللہ خان مشرقی، مولانا سیوہاری، ڈاکٹر مصطفی السباعی، مولانا حامد الانصاری جوکہ اپنے وقت کے نظاموں سے متاثر ہوئے؛ پر تنقید کی۔اس سلسلے میں مولانا مودودی کسی بھی کترپیوند کے قائل نہیں؛ لکھتے ہیں :’’ سید مودودی اسلامی نظام سیاست کے ساتھ دوسرے نظاموں کی پیوند کاری کے سخت خلاف ہیں۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔16
بظاہر ان کی فکر سیاسی فی زمانہ مغربی اداروں کے پس منظر میں تشکیل پاتی نظر آتی ہے کیونکہ حکومت کی مشینری اور اس کے مختلف اعضا کے درمیان تعلق‘ حدود قیود کا نظام‘ قانون کی تدوین‘ ترکیز اور تنفیذ‘ ریاست کی ماہیت‘ مقصد‘ نظام کار اور اصولِ حکمرانی وغیرہ کے تمام تصورات اور اصطلاحات جدید فکر ہی سے مستعار ہیں مگر یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس سے سیّدمودودی کی ٹھیٹھ اسلامی فکر ذرا بھی متاثر نہیں ہوئی‘ بلکہ تقریب فہم کی خاطر انہوں نے جدید لب ولہجہ اور اسلوب میں قرآن وسنت کی سیاسی تعلیمات پیش کی ہیں۔‘‘ اسلامی سیاسیات کی تدوین جدید میں کچھ مشکل و موانع دیکھنے کو ملتی ہے، مصنف نے اصطلاحات کی اجنبیت، قدیم فقہی لٹریچر کی نامانوس ترتیب، نظام تعلیم کا نقص، اجتہاد بلا علم کا دعویٰ کو بیان کیا ہے؛ اس کے بعد لکھتے ہیں:’’ سید مودودی نے ان تمام مشکلات وموانع کو دور کیا۔ کلاسیکی اصطلاحات اور تصورات کو جدید اصطلاحات کا روپ دے کر عوام کے لیے انھیں قابل فہم بنایا۔ انگریزی مترادفات کے استعمال نے سید مودودی کو مزید سہولت فراہم کردی۔ انھوں نے اردو زبان کو انگریزی الفاظ وتراکیب کے بعض نہایت عمدہ تراجم ومتبادلات عطا کیے ہیں(ایسی اصطلاحات والفاظ کی ایک فہرست بھی زیر تبصرہ کتاب کے صفحہ241 پر دی گئی ہے .) اس باب میں 84 حواشی ہے جس سے مصنف کی عرق ریزی کا عندیہ ملتا ہے، کتاب کے آخر میں انڈکس بھی موجود ہے جو قاری کے لیے مفید ہے۔
الغرض سید مودودی کی سیاسی فکر اور عصری معنویت کو سمجھنے میں یہ کتاب اہم رول ادا کرے گی۔کتاب کی طباعت نہایت ہی عمدہ ہے۔کتاب کا اسلوب اکیڈمک ہونے کے باوجود عام فہم اور آسان ہے۔یہ کتاب فون نمبر 09891051676 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
مبصّرسے رابطہ : 9906653927
***

 

***

 ’’توڑ پھوڑ اور تشدد کے ذریعہ کوئی مستحکم اور پائدار نظام حکومت قائم نہیں اکیا جاسکتا۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ان ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں اس قسم کی کاروائیوں کے بعد انقلاب لائے گئے اور پھر وہاں انقلاب در انقلاب کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ اس لیے نہ ہم خود تشدد کا راستہ اختیار کریں گے اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے۔‘‘
( صفحہ 147)
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022