ٹائم میگزین نے احتجاج کرنے والی کسان خواتین کو بنایا اپنے نئے شمارے کے سرورق کا حصہ

نئی دہلی، مارچ 5: دہلی کی سرحدوں پر تین ماہ سے زیادہ عرصہ سے مرکز کے تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین کسانوں کو ٹائم میگزین نے اپنے مارچ کے شمارے کے سرورق کا حصہ بنایا ہے۔ میگزین نے کسان احتجاج کے 100 ویں دن میں داخل ہونے سے ایک دن قبل، آج جمعہ کو اپنے نئے شمارے کا سرورق ٹویٹ کیا۔

پنجاب کے تلوندی کی ایک کسان خاتون امن دیپ کور نے میگزین کو بتایا ہے کہ ’’یہ قانون ہمیں مار ڈالے گا، جو بھی تھوڑا بہت ہمارے پاس ہے یہ اسے ختم کردے گا۔‘‘

پنجاب کسان یونین کی ممبر جسبیر کور نٹ نے کہا کہ خواتین اکثر بطور کسان نہیں دکھائی دیتی ہیں لیکن ’’ان کی محنت بے حد زیادہ لیکن پوشیدہ ہے۔ خواتین یہاں خواتین کو تبدیل کررہی ہیں۔ وہ کسانوں کی حیثیت سے اپنی شناخت کا دعوی کررہی ہیں۔‘‘

کچھ دیگر خواتین کاشتکاروں نے میگزین کو بتایا کہ جنوری میں چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے نے وکلا سے بزرگ افراد اور خواتین کو گھر واپس جانے پر راضی کرنے کے لیے کہنے بعد سے احتجاج کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

مغربی اتر پردیش کے رام پور سے تعلق رکھنے والی 74 سالہ جسبیر کور نے ٹائم میگزین کو بتایا ’’جب ہم نے حکومت کو خواتین کو گھر واپس جانے کے لیے کہتے ہوئے سنا تو ہمارے اندر کچھ چبھ سا گیا۔ ہم کیوں واپس جائیں؟ یہ صرف مردوں کا احتجاج نہیں ہے۔ ہم بھی مردوں کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں محنت کرتے ہیں۔ ہم کون ہیں، اگر کسان نہیں؟‘‘

خواتین کے حقوق کی کارکن سدیش گوئت نے بھی کہا کہ ٹکری میں مظاہرے کے پہلے چند دنوں میں وہ ہریانہ کی واحد خاتون تھیں، لیکن عدالت کے تبصروں کے بعد زیادہ سے زیادہ خواتین شامل ہوگئیں۔

معلوم ہو کہ ہزاروں کسان تین مہینے سے زیادہ عرصے سے دہلی کی مختلف سرحدوں پر مرکز کے نئی زرعین قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جن سے انھیں خدشہ ہے کہ یہ قوانین انھیں کارپوریٹ اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے اور ایم ایس پی کو ختم کرنے کی راہ ہموار کریں گے، جو ان کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔

جنوری میں سپریم کورٹ نے اگلے احکامات تک ان قوانین پر عمل درآمد کو روک دیا تھا لیکن کسان ان کی مکمل منسوخی کے مطالبے پر قائم ہیں اور لگاتار احتجاج کر رہے ہیں۔

کسانوں اور مرکز کے مابین مذاکرات 22 جنوری کو ہونے والے گیارہویں دور کی میٹنگ کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں۔ اس اجلاس میں مرکز نے کسانوں سے کہا تھا کہ وہ فارم کے قوانین کے نفاذ کی عارضی معطلی کی حکومت کی تجویز پر غور کریں۔ معلوم ہو کہ حکومت نے تجویز پیش کی تھی کے تنیوں قوانین کو ڈیڑھ سال کے لیے عارضی طور پر معطل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم کسانوں نے اس تجویز کو مسترد کردیا اور ان کی مکمل منسوخی کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔