کسان احتجاج: کسانوں نے پیر کو پارلیمنٹ تک مارچ کے اپنے منصوبے کو موخر کیا

نئی دہلی، نومبر 27: کسان ایکتا مورچہ کے انفارمیشن ٹیکنالوجی سیل کے سربراہ بلجیت سنگھ نے آج کہا کہ تینوں زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں نے 29 نومبر کو طے شدہ پارلیمنٹ کی طرف اپنا مارچ موخر کر دیا ہے۔

انھوں نے اس مارچ کی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔

کسانوں نے سرمائی اجلاس کے پہلے دن پارلیمنٹ تک ایک ریلی کا منصوبہ بنایا تھا۔

معلوم ہو کہ حکومت نے زرعی قوانین کو واپس لینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے لیکن کسانوں نے کہا ہے کہ جب تک انھیں باضابطہ طور پر منسوخ نہیں کیا جاتا وہ اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے۔ کسانوں کو خدشہ تھا کہ یہ قوانین زراعت میں کارپوریٹ غلبہ کو جنم دیں گے۔

ان کے پاس کم از کم امدادی قیمت اور مظاہرین کے خلاف درج مقدمات واپس لینے سے متعلق مطالبات بھی ہیں۔

این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق مرکز کی جانب سے پیر کو پارلیمنٹ میں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے ایک بل پیش کیے جانے کی توقع ہے۔

دریں اثنا آج کسانوں کی یونینوں کی مشتریہ تنظیم سمیکت کسان مورچہ نے اپنے مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک میٹنگ کی۔

کسانوں کے گروپوں نے میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ ان کا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت ان کے ساتھ کم از کم امدادی قیمت کے بارے میں بات نہیں کرتی اور دہلی کے سرحدی داخلی مقامات اور اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری ضلع میں تشدد کے دوران کسانوں کی اموات کے خلاف بات نہیں کرتی۔

کسان یونینیں 4 دسمبر کو دوبارہ میٹنگ کریں گی۔

اس دوران مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے احتجاج کرنے والے کسانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔ تومر نے کہا ’’میں کسانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے اعلان [قوانین کو منسوخ کرنے] کا احترام کریں۔ اس اعلان کے بعد احتجاج جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔‘‘

اے این آئی کی خبر کے مطابق مظاہرین کے احتجاج کے دوران ان کے خلاف درج مقدمات کو واپس لینے کے مطالبے پر تومر نے کہا کہ ریاستی حکومتیں مقدمات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اس پر فیصلہ کریں گی۔

وزیر نے مزید کہا کہ معاوضے کا معاملہ بھی ریاستی حکومتوں کے تحت آتا ہے۔