کسان احتجاج: پنجاب حکومت نے یوم جمہوریہ پر نکالی گئی ٹریکٹر ریلی میں ہوئے تشدد کے بعد گرفتار ہونے والے مظاہرین کے لیے 2 لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا

نئی دہلی، نومبر 13: وزیر اعلی چرنجیت سنگھ چنی نے جمعہ کو کہا کہ پنجاب حکومت یوم جمہوریہ کے موقع پر دہلی میں کسانوں کی طرف سے منعقدہ ٹریکٹر ریلی میں تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد گرفتار ہونے والے 83 لوگوں کو فی کس 2 لاکھ روپے معاوضہ کے طور پر فراہم کرے گی۔

کسانوں نے یہ مطالبہ کرنے کے لیے ریلی نکالی تھی کہ تینوں متنازعہ زرعی قوانین کو، جن سے انھیں خدشہ ہے کہ کاشتکاری میں کارپوریٹ غلبہ کا آغاز ہو جائے گا، منسوخ کیا جائے۔ ہزاروں کسان دہلی کے سرحدی داخلی مقامات پر تقریباً ایک سال سے ان قوانین کو واپس لینے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔

ٹریکٹر ریلی کے دوران مظاہرین کے ایک حصے نے دہلی میں لگائی گئی رکاوٹیں توڑ دی تھیں اور پولیس افسران سے جھڑپیں ہوئیں، جنھوں نے انھیں آنسو گیس اور لاٹھیوں سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔

دہلی کے آئی ٹی او علاقے میں ایک 25 سالہ مظاہرہ کرنے والے شخص نوریت سنگھ کی موت ہو گئی تھی۔ عینی شاہدین اور اس کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ اسے ریلی کے دوران گولی ماری گئی، لیکن پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس کی موت اس کا ٹریکٹر الٹنے کے بعد ہوئی۔

ریلی کے دوران ایک گروپ نے زبردستی لال قلعہ میں گھسنے کی کوشش کی۔ کچھ مظاہرین سکھوں کے جھنڈے لہرانے کے لیے قلعے کی چوٹی پر چڑھ گئے، جس کے نتیجے میں پولیس کے ساتھ مزید جھڑپیں ہوئیں۔

دہلی پولیس نے کہا کہ ریلی کے دوران اس کے 394 اہلکار زخمی ہوئے۔ اس دن زخمی ہونے والے کسانوں کی صحیح تعداد نہیں معلوم تھی۔

تشدد کے بعد پولیس نے کئی مقدمات درج کر لیے۔ کسان رہنماؤں اور صحافیوں کے خلاف بھی شکایات درج کی گئیں اور سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔

لال قلعہ پر تشدد کے لیے دہلی پولیس نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا اور ملزمان کے خلاف بغاوت کے الزامات لگائے تھے۔

پولیس نے مئی میں اپنی چارج شیٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ لال قلعہ پر تشدد ایک ’’گہری جڑوں والی سازش‘‘ تھی۔

پولیس نے الزام لگایا تھا کہ ’’اس سازش کا اصل مقصد دو حصوں میں رچایا گیا تھا، یعنی پہلے لال قلعہ کو فتح کرنے/اس پر قبضہ کرنے کے لیے جانا اور دوسرا اسے نئے بل/ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کے لیے ایک نئی احتجاجی جگہ بنانا۔‘‘