سلمان رشدی پر حملہ‘ دنیا کے لیے ایک پیام

آزادی اظہار کا مطلب انسانوں کی آزادانہ دل آزاری نہیں ہے

مسعود ابدالی

انبیا کی توہین روکنے کے لیے موثر قانون سازی کی ضرورت
جو تحریر و تقریر اربوں انسانوں کے سینے چھلنی کرتی ہو اس کی اشاعت آزادی اظہار رائے نہیں، بدترین دہشت گردی ہے
جمعہ12 اگست کو ’شیطانی ہفوات‘ کے عنوان سے انتہائی توہین آمیز کتاب کے مصنف سلمان رشدی قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہو گیا۔ اس کتاب کا عنوان Satanic Verses ہے۔ انگریزی زبان کے علما شاید اس ترجمے سے اتفاق نہ کریں لیکن ہمارے لیے Verses کا ترجمہ آیات کرنا ممکن نہیں اس لیے ہم نے اس کتاب کو شیطانی ہفوات قرار دیا ہے۔ ایک مضمون لکھنے کے لیے 1988 میں ہم نے یہ کتاب پڑھنے کی کوشش کی لیکن چند صفحات دیکھ کر آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک شخص نے اس وقت شاتاقوا انسٹیٹیوٹ (Chautauqaua Institute) میں اسٹیج پر چڑھ کر سلمان رشدی پر چھری سے حملہ کیا جب ’قلم و فن کی آزادی‘ کے موضوع پر تقریر سے قبل اس کا تعارف کرایا جا رہا تھا۔ 1874 میں قائم ہونے والا یہ ادارہ نیویارک کی نہر شاتاقوا کے کنارے واقع ہے۔
ضربات کے نتیجے میں سلمان رشدی فرش پر گر گیا اور ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق رشدی پر 10 سے 15 وار کیے گئے۔ ’وائس آف امریکہ‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سلمان رشدی جیسے ہی تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا چہرے پر سیاہ نقاب چڑھائے ایک شخص دوڑتا ہوا اسٹیج پر آیا اور اس نے سلمان رشدی کی گردن میں چھری گھونپ دی۔ اس کے جسم کے دوسرے حصوں پر بھی چھری کے زخم آئے اور حملہ آور نے 75 سالہ رشدی کو گھونسے اور لاتیں بھی رسید کیں۔ واقعے کے بعد نیویارک کی گورنر محترمہ کیتھی ہوکل نے عجلت میں بلائی گئی پریس کانفرنس میں بتایا کہ سلمان رشدی زخمی لیکن زندہ ہے اور اسے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریاست پنسلوانیہ کے ایری Erie ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں اس کا علاج ہو رہا ہے۔
سلمان رشدی ہندوستان کی آزادی سے دو ماہ پہلے بمبئی میں پیدا ہوا اور 14 سال کی عمر میں اسے تعلیم کے لیے انگلستان کے رگبی اسکول بھیج دیا گیا۔ ہائی اسکول کے بعد اس نے جامعہ کیمبرج سے تاریخ میں بی اے آنرز کیا اور اسی دوران وہ برطانوی شہری بن گیا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ برطانوی شہریت کا حلف اٹھاتے ہی اس نے اپنا مسلم عقیدہ تبدیل کر لیا اور وہ خود کو دہریہ یا Atheist کہنے لگا۔ کچھ عرصہ اس نے اداکاری کی مشق کی لیکن جلد ہی روشنی اور کیمرے سے اس کا دل بھر گیا اور اس نے قلم و قرطاس سنبھال کر ناول نگاری شروع کر دی، ساتھ ہی وہ اشتہارات کے متن بھی لکھنے لگا۔ اس کی دوسری تصنیف مڈ نائٹ چلڈرن کو زبردست پزیرائی ملی۔ 1981 میں شائع ہونے والی یہ کتاب برطانوی راج کے دوران ہندوستان کے ثقافتی تنوع کے نئی نسل پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں ہے۔ کتاب کے بازار میں آتے ہی اس کی پانچ لاکھ کاپیاں فروخت ہو گئیں اور ناول کو موقر بکر Booker انعام سے نوازا گیا۔
اس کی پانچویں کتاب شیطانی ہفوات تھی جس نے سوا ارب مسلمانوں کے دل و جگر چھلنی کر دیے۔ اس کتاب میں نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ اور ان کے پاکباز صحابہ اور امہات المومنین کے ساتھ حضرت ابراہیم (ع) کو فحش گالی دی گئی ہے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ، حضرت بلال ؓ کے علاوہ حضرت عائشہؓ، حضرت سودہؓ، حضرت حفصہ ؓ ، حضرت ام سلمہ ؓ، حضرت زینبؓ، حضرت ریحانہؓ، حضرت میمونہ ؓ، حضرت صفیہ ؓ اور حضرت ماریہ قبطیہ ؓ کے پاکیزہ نام لکھ کر جو جملے درج کیے گئے ہیں اسے یہاں نقل کرنے کی ہمت نہیں۔ کتاب میں حضرت جبرئیل (ع) کا تذکرہ بھی بہت گستاخانہ انداز میں کیا گیا جبکہ طہارت، وضو، سفرِ معراج، وحی اور قانون وراثت کا تمسخر اڑایا گیا ہے۔
کتاب کی اشاعت پر سلمان رشدی نے کہا کہ یہ ایک ناول ہے اور ناول کے کردار فرضی ہیں۔ اگر کچھ لوگوں کو بعض واقعات میں مماثلت نظر آرہی ہے تو یہ اتفاق ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ پیدائشی مسلمان ہے اور ایک مسلمان اسلام کے خلاف کیسے کام کر سکتا ہے؟ شیطانی ہفوات کی اشاعت کے فوراً بعد مخالفانہ مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ’مودودی جماعت کے ملا ان کے ترقی پسندانہ نظریات کو پسند نہیں کرتے اور کتاب کے خلاف ساری تحریک ان ہی انتہا پسندوں کی چلائی ہوئی ہے۔‘
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کتاب میں کہیں بھی حضرت محمدؐ کا نام درج نہیں لیکن ان کے نامِ نامی کو جس طرح لکھا گیا ہے اس نے اورینٹل مصنفین کی یاد تازہ کر دی ہے۔ جیسے یورپ میں جوزف کو جو اور میتھیو کو میٹ کہا جاتا ہے۔ اسی انداز میں یورپ کے متعصب دانشور حضرت محمد (ص) کو مو کہہ کر تمسخر اڑاتے تھے۔ سلمان رشدی نے ہر جگہ محمدؐ کی جگہ مو ہاونڈ لکھا ہے۔ ہاونڈ شکاری کتے کی ایک نسل ہے۔ نعوذ باللہ
حضرت سلمان فارسی ؓ کے لیے ایرانی کنگلا اور حضرت بلال ؓ کو کالا دیو لکھ کر کردار کی وضاحت کردی گئی ہے۔
ایک جگہ درج ہے ’تین حواری زم زم کے کنویں پر نہا دھو رہے تھے۔ وضو، ہر وقت وضو، پاوں گٹھنے سے اوپر، ہاتھ کہنیوں سے نیچے، سر گردن تک، گردن کا مسح، انگلیوں کا خلال۔ گیلا سر، چھینٹے اڑاتے، پانی بہاتے، نہاتے دھوتے اور نماز پڑھتے یہ کیسے مضحکہ خیز لگتے ہیں‘ ’سید الملائک جبرئیل نے بتایا کہ مردے کو دفن کیسے کرتے ہیں اور میراث کیسے تقسیم ہو، ایرانی سلمان فکر میں پڑ گئے کہ اللہ کی جانب سے (تقسیم کا) یہ انداز تو تاجروں جیسا ہے‘
امہات المومنین کے بارے میں جو فحش جملے درج ہیں ان کے تصور سے جی متلانے لگتا ہے۔ ان کے ناموں کے ساتھ جس انداز میں اس کا تعارف بیان ہوا ہے اس سے کہیں نہیں لگتا کہ کردار فرضی ہیں۔
حضرت عائشہ کو سب سے کم عمر بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی درج ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت سودہ سے ایک ہی زمانے میں نکاح ہوا اور ’اس وقت عائشہ ؓ چھوٹی بچی تھیں‘
’حضرت ام سلمہ مخذولی قبیلے سے تھیں‘
حضرت ریحانہ ؓ کو یہودن لکھا ہے۔ حضرت ماریہ قبطیہ کو سب سے حسین بیان کیا گیا ہے۔
رشدی نے موقف اختیار کیا کہ ناول کا پلاٹ عرب معاشرے سے متعلق ہے اور یہ کہ بلال، سلمان ،خالد، عائشہ، سلمیٰ، زینب، جویریہ، حفصہ وغیرہ بہت عام عرب نام ہیں لہٰذا اسے کسی خاص فرد کی طرف اشارہ سمجھنا قاری کی تنگ نظری کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ حالانکہ اوپر دی گئی ان افراد کی امتیازی تفصیلات دیکھ کر کون مصنف کی اس بودی دلیل کو پرِ کاہ سے زیادہ اہمیت دے گا؟
کتاب کی رو نمائی کے وقت سے امریکہ کے مسلمانوں نے اس کی اشاعت رکوانے کے لیے تمام قانونی راستے اختیار کیے۔ کتاب کے طابع اور ناشر وائکنگ Viking کی انتظامیہ سے گفتگوکی گئی۔ اس زمانے میں ای میل، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ اتنا عام نہ تھا اور خط و ٹیلیفون رابطے کا ذریعہ تھا چنانچہ ڈھائی لاکھ سے زیادہ احتجاجی خطوط لکھے گئے۔ اس قدر فون ہوئے کہ وائکنگ کا ایکسچینج سسٹم مفلوج ہو گیا۔
غیر مسلم اکثریتی ممالک میں سنگاپور ، جنوبی افریقہ اور ہندوستان نے کتاب کی اپنے یہاں اشاعت و تقسیم پر پابندی لگا دی۔ جواب میں ترقی پسندوں نے زبردست مہم چلائی۔ ہندوستان کی انجمن ترقی پسند مصنفین نے پابندی لگانے پر وزیر اعظم راجیو گاندھی کی شدید مذمت کی۔ خفیہ ذرائع سے کتابوں کے ہزاروں نسخے منگوا کر تقسیم کیے گئے۔ لندن میں مقیم نام نہاد ترقی پسند رہنما طارق علی نے سلمان رشدی کے خلاف ’کردار کشی‘ مہم پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔
اس گستاخی کے خلاف ساری دنیا میں مذمتی مہم چلی۔ اس نوعیت کے عالمگیر احتجاج کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ تتیجے کے طور پر رشدی روپوش ہونے پر مجبور ہوا۔ ایک سال بعد یعنی 1990 میں آیت اللہ خمینی نے قتل کا فتویٰ جاری کر دیا اور ایرانی حکومت نے اس کا قتل کرنے والے کے لیے 35 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا۔ ایرانی علما کی کونسل نے سرکاری انعام کے ساتھ رشدی کا خاتمہ کرنے والے کے لیے پانچ لاکھ ڈالر مزید دینے کا وعدہ کیا۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس اور بہت سے مغربی ممالک نے سلمان رشدی کو سنائی جانے والی سزائے موت پر شدید رد عمل کا اظہار کیا لیکن آیت اللہ خمینی کی وفات کے بعد بھی یہ فتویٰ واپس نہیں لیا گیا۔
رو پوش ہونے کی بنا پر سلمان رشدی تو محفوظ رہا لیکن اس کتاب کے جاپانی مترجم ڈاکٹر ہیٹوشی ایگاراشی Hitoshi Igarashi کو جولائی 1991 میں چاقو مار کر قتل کر دیا گیا۔ وہ جامعہ سوکوبا (Tsukuba University) میں تقابلی اسلامی ثقافت کے اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ اس واقعے سے نو دن پہلے اٹلی کے شہر میلان میں کتاب کے اطالوی مترجم ایٹور کیپری اولو (Ettore Capriolo) پر ان کے گھر میں چاقو سے حملہ کیا گیا لیکن زخمی ایٹور زندہ بچ گئے۔ اکتوبر 1993 میں اس کتاب کا نارویجین (Norwegian) ترجمہ شایع کرنے والے پبلشر ولیم نائیگارڈ Willian Nygaard) (پر اوسلو میں ان کے گھر پر حملہ ہوا اور انہیں تین گولیاں لگیں۔شدید زخمی ہونے کے باوجود نائیگارڈ بھی زندہ رہے۔ حملہ آور کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔
سلمان رشدی کو ملکہ برطانیہ نے 2007 میں سر یا Knight کے خطاب سے نوازا۔ اس دوران پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز برطانیہ کے دورے پرگئے۔ وزیر مذہبی امور عامر لیاقت مرحوم بھی ان کے ساتھ تھے۔ عامر لیاقت نے لندن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ملکہ کے فیصلے کی شدید مذمت کی۔ برطانوی حکام کو یہ بات پسند نہ آئی اور وزیر اعظم شوکت عزیز سے شکایت کی گئی جنہوں نے عامر لیاقت سے معذرت اور الفاظ واپس لینے کی درخواست کی۔ عامر لیاقت نے معذرت سے صاف انکار کر دیا۔ ان کی جماعت ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی عامر لیاقت سے بات کی لیکن وزیر مذہبی امور معذرت پر راضی نہ ہوئے اور وزارت سے استعفیٰ دے کر پاکستان واپس چلے آئے جہاں انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست اور ایم کیو ایم کی رکنیت سے بھی استفیٰ دے دیا۔
سلمان رشدی اب امریکہ میں رہتا ہے اور کچھ عرصہ پہلے اس نے اپنی رو پوشی بتدریج ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ شاتاقوا انسٹیٹیوٹ کی تقریب اس سلسلے کا پہلا پروگرام تھا جہاں اس پر حملہ ہوا۔ جمعہ کی شام اس کے ایجنٹ اینڈریو وائلی نے ایک بیان میں کہا کہ سلمان رشدی مصنوعی تنفس یا Ventilator پر ہے اور بول نہیں پا رہا ہے۔ وائلی نے خدشہ ظاہر کیا کہ رشدی ممکنہ طور پر ایک آنکھ سے محروم ہو سکتا ہے، اس کے بازو کے اعصاب کٹے ہوئے ہیں اور اس کے جگر کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ لیکن ہفتے کو ایری ہسپتال کے ترجمان نے کہا کہ سلمان رشدی اب خود سانس لے رہا ہے اور اس نے بات بھی کی ہے۔
سلمان رشدی پر حملے کے الزام میں نیو جرسی کے رہائشی 24 سالہ ہادی مطر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے مزید تفصیلات اور حملے کے محرکات پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ ہفتے کی صبح ہادی کو شاتاقاوا کاونٹی کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ملزم نے فردِ جرم کی صحت سے انکار کرتے ہوئے اپنے ایک سطری بیان میں کہا کہ ’میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے‘ ہادی کو آئندہ سماعت تک کے لیے جیل بھیج دیا گیا ہے۔
اس واقعہ پر مغربی رہنماوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’سر سلمان رشدی کو اس حق کا استعمال کرنے کی پاداش چھرا گھونپ دیا گیا ہے جس کے دفاع سے ہمیں کبھی باز نہیں آنا چاہیے۔‘‘
فرانس کے صدر ایمونل میکراں نے کہا کہ کہ مسٹر رشدی ’آزادی اور جہل پسندی کے خلاف جنگ کی مجسم علامت ہیں اور وہ نفرت اور بربریت کی علمبردار قوتوں کے بزدلانہ حملے کا شکار‘ ہوئے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ‘جِل (خاتونِ اول) اور مجھے نیویارک میں سلمان رشدی پر گھناونے حملے کی خبر سن کر سخت صدمہ پہنچا۔ آج ہم ان تمام لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کر رہے ہیں جو آزادی اظہار رائے کے لیے سرگرم ہیں۔
کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ تمام انبیائ کرام کی توہین کو بین الاقوامی جرم قرار دیا جائے؟ جو تحریر و تقریر اربوں انسانوں کے سینے چھلنی کرتی ہو اس کی اشاعت آزادی اظہار رائے نہیں، بدترین دہشت گردی ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 گستاخی کے خلاف ساری دنیا میں مذمتی مہم چلی۔ اس نوعیت کے عالمگیر احتجاج کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ تتیجے کے طور پر رشدی روپوش ہونے پر مجبور ہوا۔ ایک سال بعد یعنی 1990 میں آیت اللہ خمینی نے قتل کا فتویٰ جاری کر دیا اور ایرانی حکومت نے اس کا قتل کرنے والے کے لیے 35 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا۔ ایرانی علما کی کونسل نے سرکاری انعام کے ساتھ رشدی کا خاتمہ کرنے والے کے لیے پانچ لاکھ ڈالر مزید دینے کا وعدہ کیا۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس اور بہت سے مغربی ممالک نے سلمان رشدی کو سنائی جانے والی سزائے موت پر شدید رد عمل کا اظہار کیا لیکن آیت اللہ خمینی کی وفات کے بعد بھی یہ فتویٰ واپس نہیں لیا گیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022