روہنگیا مسلمانوں کا مستقبل، پناہ گزیں کیمپ یا میانمار واپسی!!

ہاشمی سید شعیب

ہاشمی سید شعیب
25؍ اگست2017ء کا دن روہنگیا مسلمانوں پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑا تھا۔ پانچ سال قبل اسی دن تقریباً 10لاکھ روہنگیا مسلمان بے گھر کردیےگئے تھےاور300 سے زائد گاؤں اور دیہاتوں کوجلا کر راکھ کردیا گیا تھا۔ گزشتہ 5سال سے پناہ گزیں کیمپوں میں انتہائی کسمپرسی میں زندگی بسر کرنے والے روہنگیا مسلمان اب پر امن اور پرسکون زندگی بسر کرنے کے لیے اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں اور اسی مطالبہ کو لے کرگزشتہ کچھ روز قبل ریلیاں نکالی گئی تھیں۔ اس احتجاج کے بعد اجتماعی دعا کا اہتمام کیا گیا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کرکے بارگاہ الٰہی میں رقت انگیز دعائیں مانگیں۔ وطن واپسی کے لیے روہنگیا مسلمانووں کے پاس دعاؤں کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے جس کی بناپر وہ اپنے مطالبات منواسکیں۔
روہنگیا مسلمانوں کا نام سامنے آتے ہی ذہن میں ظلم و ستم کےایسے خوفناک مناظر گردش کرنے لگتے ہیں جنہیں لفظوں میں بیان کیا ہی نہیں جاسکتا۔ میانمار فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مہینوں تک جاری رہنے والی خوں ریز کارروائی میں ہزاروں افراد کا بے دردی سے قتل کیا گیا، بے شمار خواتین کی سر عام عصمت ریزی کی گئی اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کوانتہائی اذیت ناک تکلیفیں دی گئیں۔ فوج کے سفاکانہ مظالم اور شہری حقوق سے محروم کیے گئے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو2017ء میں اپنی جان اور ایمان کی حفاظت کے لیے پڑوسی ممالک کا رخ کرنا پڑاتھا۔ ہجرت کے وقت ان مہاجرین کے پاس نہ تو کوئی سواری موجود تھی اور نہ ہی کھانے پینے کا سامان۔ انتہائی بے بسی اور مفلسی کی حالت میں لاکھوں افراد جنگلوں، بیابانوں اور انتہائی خطرناک راستوں سے ہوتے ہوئے پیدل ہی ہزاروں کلو میٹر کے لمبے سفر پر نکل پڑے تھے۔ دوران سفر کئی بچے، حاملہ خواتین اور ضعیف افراد بھوک، پیاس اور سفر کی صعوبتوں کی تاب نہ لاکر بنگلہ دیش اور دیگر ممالک پہنچنے سے پہلے ہی دارفانی سے کوچ کرگئے۔ اس کے علاوہ پانی کی کشتیوں کے ذریعے سفر پر نکلے ہوئے بیشتر افراد سمندری طوفان، بھوک اور پیاس کی وجہ سے پڑوسی ممالک کی سرحدوں تک پہنچنے سے قبل ہی مختلف حادثات کی نذر ہوگئے۔ انتہائی خوفناک سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد لاکھوں افراد جب بنگلہ دیش پہنچے تو وہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ ان کی رہائش کا انتظام کرنے کے لیے کاکس بازار میں پناہ گزیں کیمپ بنوایا گیا جسے اب دنیا کا سب سے بڑا پناہ گزیں کیمپ قرار دیا جاتا ہے۔کاکس بازار پناہ گزیں کیمپ میں بیشتر روہنگیا مسلمانوں کو سر چھپانے کے لیے چھت تو مل گئی لیکن بنیادی ضروریات کے لیے انہیں ترسنا پڑا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
گزشتہ5سال سےپناہ گزیں کیمپ میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کو ہر روز کوئی نہ کوئی نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان 5؍ سالوں میں کئی مرتبہ کیمپوں میں آگ لگنے کے واقعات رونما ہوئے جس کی وجہ سے جانی نقصان بھی ہوا۔ گزشتہ سال جنوری میں آگ لگنے کی وجہ سے ہزاروں مہاجرین کے گھر جل کر خاکستر ہوگئے اور ہزاروں پناہ گزین بے گھر ہوگئے ۔اس کے علاوہ یہ کیمپ ایسے علاقہ میں واقع ہے جہاں موسم باراں میں زور داربارش ، طوفان اور سیلاب کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ آر سی(یونایئٹیڈ نیشنس ہائی کمشنر فار ریفیوجیز) کے مطابق بنگلہ دیش کے ٹیکناف علاقے کے پناہ گزین کیمپ میں ساڑھے پانچ سو سے زائد مہاجرین کے خیمے جل کر خاک ہوگئے۔ ان عارضی گھروں میں تقریباً ساڑھے تین ہزار پناہ گزین رہتے تھے۔ ان بے گھر افراد کی رہائش کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ موسم باراں میں کھلے آسمان کے نیچے راتیں گزارنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ رہائشی کیمپ کے قریب جنگل ہونے کی وجہ سے موسم باراں میں رات کے وقت درندوں، جنگلی ہاتھیوں اور سانپوں کا خطرہ ہر وقت لگا رہتا ہے۔
پناہ گزیں کیمپوں میں مقیم افراد ایک طرف جہاں قدرتی آفات و مصیبتوں سے پریشان ہیں وہیں پولیس اور انتظامیہ کی جانب سےان پرنت نئے قوانین کا نفاذ کیا جارہا ہے۔ پناہ گزینوں کے مطابق ان پر دن بہ دن سختیاں عائد کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے یہ کیمپ ان کے لیے جیل ثابت ہورہے ہیں۔ حال ہی میں عید الفطر کے موقع پربنگلہ دیشی پولیس نے کم از کم ساڑھے چار سو مہاجرین کو محض اس لیے گرفتار کیا کہ وہ ساحل پر عیدالفطر کی خوشیاں منا رہے تھے۔ واضح رہے کہ روہنگیا مہاجرین کو اپنے کیمپوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ بنگلہ دیش حکومت نے کیمپوں کے ارد گرد خار دار تاریں لگادی ہیں اور ان سے باہر نکلنے کی ان کو اجازت نہیں ہے۔ آج بھی ہزاروں لوگ بے گھر ہیں اورکاکس بازار کیمپ حد سے زیادہ بھر چکا ہے جہاں مزید افراد کی رہائش کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ کیمپوں پر سے دباو کم کرنے کے لیے مزید تقریباً ایک لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کو بھاشن چار جزیرے پر بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ جزیرہ غیر آباد تھا اور وہاں اکثر سیلاب آنے کا خطرہ لاحق رہتا ہے گوکہ پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد کی مدد کے لیے بنگلہ دیش کی تعریف کی جاتی رہی ہے تاہم روہنگیاوں کے لیے کوئی مستقل جگہ تلاش نہیں کی جاسکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ روہنگیائی لیڈروں کو پناہ گزینوں کو بھاشن چار جزیرے پر بھیجنے کے لیے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور جن سکیڑوں لوگوں کو اس جزیرے پر بھیجا گیا ہے وہاں کی خراب حالت کے سبب سمندر کے راستے سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والوں کو بنگلہ دیش پولیس گرفتار کرلیتی ہے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارےیو این ایچ سی آر کے نمائندوں نے پناہ گزینوں سے ملاقات کی اور ان کے مسائل جاننے کے بعد کہا کہ روہنگیاوں کے لیے مستقل اور دیر پاحل صرف میانمار واپسی ہے۔ پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ اگر حالات اجازت دیں تو وہ اپنے وطن واپس لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ دنیا کے ممالک کو ان کی بے وطنی کے بنیادی مسئلے کو حل کرنا چاہئے تاکہ ان لوگوں کا خواب حقیقت بن سکے۔ روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے یو این ایچ سی آر ایک طرف دنیا بھر کے ممالک سے مدد کرنے کی اپیل کررہا ہے وہیں دوسری جانب روہنگیامسلمانوں کے لیےیو این ایچ سی آر کی جانب سے روہنگیاؤں کے لیے مختص سالانہ881؍ ملین ڈالرامداد منظور کی گئی تھی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس امداد کا صرف 13؍ فیصد حصہ ہی انہیں مل پایا ہے۔ حالیہ دنوں میں جاری یوکرین اور افغانستان بحران کی وجہ سے یہ فنڈ منقسم کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے روہنگیا مسلمانوں کی پریشانیاں اور مسائل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
روہنگیا مسلمانوں کی پناہ گزین کیمپوں سے وطن واپسی کی متعدد کوششیں ناکام ہو چُکی ہیں۔ ان باشندوں نے مکمل تحفظ اور اپنے شہری حقوق کی ضمانتوں کے بغیر وطن واپسی سے انکار بھی کر دیاہے۔ گزشتہ سال آنگ سان سوچی کی گرفتاری کے بعد روہنگیا مسلمانوں کی امیدیں اس بات کو لے کر بڑھ گئی تھیں کہ انہیں بہت جلد اپنے وطن واپس جانے کی راہیں ہموار ہوجائیں گی لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ فروری2021ء میں آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو برطرف کرنے کے بعد سے فوج اب تک اقتدار کو مستحکم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ فوجی بغاوت کے بعد سے فوج کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے۔2021ء میں فوجی بغاوت سے پہلے بھی میانمار میں انسانی حقوق کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا ہے۔ یورپی یونین کے مطابق میانمار کی موجودہ صورتحال مستقبل قریب میں پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے سازگار نہیں ہے۔ بنگلہ دیش نے پناہ گزینوں کے بوجھ پر اٹھنے والی لاگت پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور ایک ممکنہ علاقائی بحران سے خبردار کیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل نے جون میں ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں روہنگیا کی تیزی سے وطن واپسی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ میانمار واپسی کے خواہشمند روہنگیا مسلمانوں کا مستقبل فی الحال تاریک نظر آرہا ہے ۔ بین الاقوامی قوانین میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کو تحفظ اور انسانی سلوک کی ضمانت کے بغیر واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یورپی یونین کے مطابق روہنگیا پناہ گزینوں کی میانمار میں رضاکارانہ، منظم، محفوظ اور باوقار واپسی ہونی چاہیے۔ حالاں کہ یورپی یونین کا روہنگیا وںکی وطن واپسی کے عمل پر میانمار میں فوج سے اب تک کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ وہیں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش سے میانمار واپسی اب بھی محفوظ نہیں ہے۔ میانمار کی اندرونی سیاسی صورتحال بہت پیچیدہ ہے، بہت زیادہ عدم استحکام ہے، بہت سے تنازعات ہیں۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (یو این ایچ سی آر) کےمطابق روہنگیا مسلمانوںکی میانمار واپسی کے امکانات بہت کم ہیں۔ پناہ گزینوں میں فی الحال تمام افراد کو وقت پر کھانا نہیں مل رہا ہے اس کے علاوہ صاف صفائی کا فقدان بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔روہنگیا پناہ گزینوں کی جان کے تحفظ کیلئے بیشتر ممالک کی جانب سے امداد کا سلسلہ جاری ہے لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے ضرورریات پوری نہیں ہورہی ہیں۔واضح رہے کہ پناہ گزینوں کوکیمپوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں بنیادی ضروریات کی تکمیل کیلئے امدادی اداروں پر انحصار کرناپڑتا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ممالک کھل کر سامنے آئیں اورانتہائی بے بسی اور مفلسی کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی مالی امداد کریں اور ان کے وطن واپسی کو قانونی طور پرمضبوط منصوبہ بنائیں ۔
***

 

***

 بنگلہ دیش نے پناہ گزینوں کے بوجھ پر اٹھنے والی لاگت پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور ایک ممکنہ علاقائی بحران سے خبردار کیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل نے جون میں ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں روہنگیا کی تیزی سے وطن واپسی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ میانمار واپسی کے خواہشمند روہنگیا مسلمانوں کا مستقبل فی الحال تاریک نظر آرہا ہے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022