خبرونظر

پرواز رحمانی

ایک اور شر انگیزی
بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ مسجد کے قضیے کی گونج میں اتر پردیش ہی سے ایک اور شر انگیز آواز اٹھی ہے۔ کچھ شر پسندوں نے آواز لگائی کہ ’’بدایوں شہر کی قدیم جامع مسجد بھی ایک قدیم مندر منہدم کر کے بنائی گئی ہے‘‘۔ یہ مسجد 1223 میں سلطان شمس الدین التمش کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کی تعمیر سے اب تک کسی نے بھی اس پر کسی پہلو سے اعتراض نہیں کیا لیکن اب چونکہ حکومت اور حکمراں پارٹی پر اپنے ہندتوا کے ایجنڈے کو پورے ملک پر مسلط کرنے کا جنون سوار ہے لہذا کچھ بے علم اور کم ظرف لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ خود حکومت ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ اس لیے ہر ریاست میں نت نئے شر پسند پیدا ہو رہے ہیں۔ بدایوں کی مسجد کا شوشہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ بدایوں کے ایک شخص یا تنظیم نے سول جج سینئر ڈیویژن وجے کمار گپتا کے پاس ایک درخواست دی کہ شہر کی جامع مسجد کو مندر قرار دیا جائے اور جج صاحب نے درخواست کو فی الفور قبول کر لیا ہے اور سماعت کے لیے مسلمانوں سے جواب بھی طلب کر لیا۔ یہ دیکھنے کی تھوڑی بھی زحمت اٹھانا گوارا نہ کہ معاملہ کس قدر نازک اور حساس ہے۔ شاید فاضل منصف بھی اس وقت ہوا کا رخ دیکھ رہے تھے۔

شر انگیزوں کی نظر
جج صاحب کے اس عمل نے بہت سے قانون دانوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے اور وہ اس پر بجا طور پر تنقیدیں کر رہے ہیں۔ یو پی کانگریس اقلیتی سل کے نائب صدر سید منیر اکبر نے اسے غیر آئینی اور سپریم کورٹ کی توہین قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس درخواست کو بادی النظر میں خارج کر دیا جانا چاہیے تھا اس لیے کہ یہ مقدمہ قابل سماعت تھا ہی نہیں۔ یہ پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ جس شخص یا گروپ نے یہ درخواست دائر کی ہے، اسے اس ایکٹ کے سیکشن 6 کے تحت تین سال قید مع جرمانہ کی سزا سنائی جانی چاہیے تھی، اس لیے کہ اس نے ایکٹ 1991 کی خلاف ورزی کی کوشش کی ہے۔ سید منیر اکبر نے یہاں تک کہا کہ سول جج نے اس درخواست کو منظور کرکے متعلقہ قانون کی خلاف ورزی کی ہے لہذا سپریم کورٹ کو ان کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے۔ دیگر قانون داں بھی اس طرف توجہ دیں۔ بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ کو متنازعہ بنانے والے درخواست کے خلاف بھی یہی کیس بنتا ہے۔ لیکن ہندتوا کا زعم رکھنے والے اس ایکٹ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کالعدم قرار دینے کا مطلبہ کررہے ہیں۔ کیوں کہ سبھی جانتے ہیں کہ ان کی نظر تمام اسلامی عبادت گاہوں پر ہے۔

جس فرض میں کوتاہی ہوئی
اہل علم و فکر جانتے ہیں کہ امت مسلمہ اپنی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں کئی مشکل ادوار سے گزری ہے اور موجودہ دور ایسا ہی ایک دور ہے۔ پھر اہل علم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ ادوار بد مسلمانوں کی بے عملی اور اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کی وجہ سے آئے تھے۔ آج کے دور کے بارے میں بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے۔ بلکہ ہمارے درمیان ایک جماعت ہے جو برملا کہتی ہے کہ یہ تمام مصائب اور مسائل مسلمانوں کے اعمال کا نتیجہ ہیں، حتی کہ مسلم کش فسادات کی وجہ بھی یہی ہے۔ کوئی 25 سال قبل ہریانہ کے ایک آریہ سماجی لیڈر نے اسی جماعت کے متعلق کہا تھا جب ایک بڑا مسلم کش فساد ہوا تھا اور یہ بات خود آپ کے لوگ تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت یہاں اس بحث کی گہرائی میں جانا مقصود نہیں صرف یہ حقیقت تسلیم کرنی ہو گی کہ اس سر زمین پر مسلمانوں کی بڑی بڑی حکومتیں قائم ہوئیں۔ متعدد خانقاہیں بنیں جہاں بزرگان دین اور اولیاء اللہ نے یہاں کے انسانوں تک توحید کا پیغام پہنچایا۔ مسلم بادشاہوں نے بھی بہترین منصفانہ نظام حکومت کے ساتھ ساتھ اپنے عمل سے دین کی دعوت پہنچائی۔ مسلم تاجروں اور سیاحوں نے بھی بعض بہت اچھے کام کیے لیکن یہ تمام کام منظم نہیں تھے۔ دعوت کا نقشہ کار کوئی نہیں تھا۔ اس کوتاہی کی تلافی آج بڑے پیمانے پر کی جا سکتی ہے۔ کئی اشاعتی ادارے ہیں جنہوں نے اہم اسلامی تعلیمات پر مختصر مختصر کتابچے اور جیبی سائز کے فولڈر س شائع کیے ہیں۔ انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022