قسط۔(3):علی گڑھتحریک اور سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ

نعمان بدر فلاحی
(ریسرچ اسکالر ، شعبۂ عربی ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )

اسٹریچی ہال میں تاریخ، سیاسیات اور معاشی مسئلہ پر یادگار خطابات۔ اہلِ علی گڑھ کی تصنیفات پر فکرانگیز تبصرے
چودھری عبدالرحمن عبد اپنی تصنیف ’مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ میں رقم طراز ہیں :
’’ مولانا نے ۱۲؍ستمبر ۱۹۴۰ کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں اسٹریچی ہال کے اندر طلبہ سے اپنے پہلے خطاب میں فرمایا تھا : ’’وہ قومی حکومت جس پر ’اسلامی‘ کا نمائشی لیبل لگا ہوا ہوگا‘ اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے میں اس سے بھی زیادہ جری اور بے باک ہوگی جتنی غیر مسلم حکومت ہوتی ہے۔ غیر مسلم حکومت جن کاموں پر قید کی سزا دیتی ہے‘ وہ مسلم قومی حکومت اُن پر سزا پھانسی اور جلا وطنی کی صورت میں دے گی اور پھر بھی اس حکومت کے لیڈر جیتے جی غازی اور مرنے پر رحمت اللہ علیہ ہی رہیں گے‘‘۔ مولانا نے اگلے سال اسی جگہ اسٹریچی ہال میں ’انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل‘ کے عنوان سے خطاب کیا۔ (۱۹)
پروفیسر محمد حبیب کے مکان پرقیام
شعبہ تاریخ وسیاسیات کے صدر پروفیسر محمد حبیب ] ۱۸۹۵ء- ۱۹۷۱ء[ کے فرزند اور شعبۂ تاریخ میں پروفیسر ایمیریٹس عرفان حبیب نے اپنی رہائش گاہ پر گفتگو کرتے ہوئے مجھے بتایا : ’’مجھے یاد آتا ہے کہ جب میں چھوٹا تھا اور اسکول جاتا تھا تو ایک روز مولانا مودودی ہمارے گھر تشریف لائے تھے اور شب میں قیام کیا تھا ۔ مولانا کے قیام کے سلسلے میں میرے والدین کے درمیان اختلاف ہوا تھا، والدہ کو یہ بات سخت ناپسند تھی کہ مولانا ہمارے گھر قیام کریں ،مگر والد صاحب کا کہنا تھا کہ نہیں‘ وہ ہمارے مہمان ہیں ‘‘۔(۲۰)
شعبۂ تاریخ وسیاسیات میں خطاب
۴۰ کی دہائی میں یونیورسٹی کے طالب علم مبارک علی خاں میرٹھی نے ہفت روزہ ’دعوت‘ کے کالم’ کچھ یادیں کچھ باتیں‘ کے تحت اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اسلامی ہفتہ کی تقریبات کے دوران اسٹریچی ہال میں مولانا کے پہلے خطاب کے بعد صدر مجلس پروفیسر محمدحبیب جیسا صاحب علم اور دانشور استاد مولانا مودودی کے علم کی پختگی اور گہرائی سے اس قدر متاثر ہوا کہ دوسرے دن انہوں نے اپنے شعبہ میں مولانا کو مدعو کیا اور’ اسلام کے نظریۂ سیاسی‘ پر ایک لکچر دلوایا۔(۲۱)
اسٹریچی ہال میں دوسرا خطاب
مولانا مودودی ’انجمن تاریخ و تمدن اسلامی‘ کی دعوت پر’ اسلامی ہفتہ‘ کی تقریبات میں شرکت کے لیے اکتوبر۱۹۴۱ء میں دوبارہ علی گڑھ تشریف لائے اور اسٹریچی ہال میں طلبہ سے دوسری بارخطاب کرتے ہوئے اپنا مقالہ بعنوان ’’انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل‘‘ پیش کرتے ہوئے فرمایا :
’’انسان کے معاشی مسئلے کو سمجھنے اور صحیح طور پرحل کرنے میں جو مشکل پیش آرہی ہے اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس مسئلے کو بعض لوگ صرف معاشیات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، بعض اس کی اہمیت میں مبالغہ کرکے اسے کُل مسئلہ زندگی قرار دے رہے ہیں اور بعض اس سے بھی تجاوز کرکے زندگی کا بنیادی فلسفہ اور اخلاق اور تمدن و معاشرت کا سارا نظام معاشی بنیاد ہی پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اگر معاشیات ہی کو اساس ٹھہرایا جائے تو انسان کا مقصدِ زندگی اُس بیل کے مقصدِ زندگی سے کچھ بھی مختلف نہیں ٹھہرتا جس کی تمام سعی وجہد کی غایت یہ ہے کہ ہری ہری گھاس کھاکر خوش و خرم اور تنو مند ہوجائے اور کائنات میں اس کی یہ حیثیت قرار پاتی ہے کہ وہ بس چراگاہِ عالم میں ایک آزاد چرندہ ہے۔
قدیم ترین زمانے میں انسان کے لیے معاش کا مسئلہ قریب قریب اتنا ہی سہل تھا جتنا حیوانات کے لیے ہے۔ خدا کی زمین پر بے شمار سامانِ زندگی پھیلا ہوا ہے ۔ہرمخلوق کے لیے جس قدر رزق کی ضرورت ہے وہ بافراط مہیا ہے۔ ہر ایک اپنا رزق تلاش کرنے کے لیے نکلتاہے اورجاکر خزائن رزق میں سے حاصل کرلیتا ہے۔ کسی کونہ اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اورنہ اس کا رزق کسی دوسری مخلوق کے قبضے میں ہے۔ تقریباً یہی حالت انسان کی بھی تھی کہ گیا اور قدرتی رزق خواہ وہ پھلوں کی شکل میں ہویاشکار کے جانور کی شکل میں‘حاصل کر لیا۔ قدرتی پیداوار سے بدن ڈھانکنے کا انتظام کرلیا، زمین میں جہاں موقع دیکھا ایک سر چھپانے اور پڑے رہنے کی جگہ بنالی۔ لیکن خدانے انسان کواس لیے نہیں پیدا کیاتھاکہ وہ زیادہ مدت تک اسی حال میں رہے۔ اس نے انسان کے اندر ایسے فطری داعیات رکھے تھے کہ وہ انفرادی زندگی چھوڑ کر اجتماعی زندگی اختیار کرے اوراپنی صنعت سے اپنے لیے ان ذرائع زندگی سے بہتر ذرائع پیداکرلے جوقدرت نے مہیّا کیے تھے‘‘۔ (۲۲)
یونیورسٹی میں ابو الاعلیٰ مودودی کے دوروں اورطلبہ سے ملاقاتوں کے سبب صالح فکر کے ذہین طلبہ کی ایک قابل ذکر تعداد اُن کے قریب ہوگئی تھی ۔انہوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ہر پہلو سے ہمہ گیر تربیت کی ۔
۴۰ کی دہائی میں یونیورسٹی میں ’اسلامی حلقہ‘سے متعلق معروف اور سرگرم طلبہ میں افضل حسین (قیم جماعت اسلامی ہند)،عبد العظیم خاں ،راؤ شمشاد علی خاں (دہلی) ،آسی ضیائی (پاکستان ) عبد اللہ صفدر علی ( دہلی)شمس الہدیٰ (بہار) سید حسین (الٰہ آباد ) سعید احمد (الٰہ آباد ) فروغ احمد (ڈھاکہ )، احمد سورتی (علی گڑھ) رحمت اللہ شاہ ( بہاولپور، پاکستان )اعجاز حسن قریشی ( لاہور)اورسیدزین العابدین(سعودی عرب)وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔(۲۳)
اہل علی گڑھ کی تصنیفات پر نقد و تبصرہ
۱۹۴۰ء میں شعبۂ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی تصنیف ’خلافت و سلطنت‘ منظر عام پر آئی تومولانا نے اپنے رسالے’ ترجمان القرآن‘ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :
’’یہ اس مقالے کااردو ترجمہ ہے جو مؤلف نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے لندن یونیورسٹی میں پیش کیا تھا۔موضوع بلاشبہ دلچسپ ہے اور ڈاکٹر صاحب نے بہت اچھا تاریخی مواد فراہم کیاہے، لیکن یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس مواد پر بحث کا جو انداز انہوں نے اختیار کیا ہے وہ اہل یورپ کے تاریخی ذوق سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اسلام اور اسلامی تاریخ کے نقطہ نظر سے ان کی بحث نہ صرف ناقص ہے بلکہ مسائل کو صاف کرنے کے بجائے اور زیادہ الجھا دیتی ہے۔ اگر وہ مغربی مذاق کے بجائے اسلامی مذاق کی رعایت کرتے تو پہلے خلافت کے معنیٰ و مفہوم کو متعین کرتے، پھر واضح طور پر یہ بتاتے کہ عباسیوں نے پاپائی اور قیصریت کے جس مجموعے پر لفظ ’خلافت‘ کا اطلاق کیا تھا وہ حقیقی اسلامی خلافت سے کس قدر مختلف تھا ‘‘۔ ( ۲۴)
۱۹۴۰ء میں پروفیسر محمد حبیب (صدر شعبۂ تاریخ و سیاست) کی آل انڈیا ریڈیو کے لیے کی گئی تقریروں کا مجموعہ’دنیا کی کہانی‘ جب مکتبہ جامعہ، دہلی سے شائع ہوا تو ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :
’’ نوجوان طلبہ کو تاریخ و تمدن سے آگاہ کرنے کے لیے یہ ایک عمدہ مجموعہ ہے۔ اسلام کی تہذیب کو بیان کرتے ہوئے پروفیسر صاحب نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ’’ اسلام نے دولت کو امانت قرار دیا ہے اور جماعت جب چاہے اس دولت کو واپس لے سکتی ہے، یا اسے نئے سرے سے تقسیم کرسکتی ہے‘‘۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’جماعت جب چاہے ایک سے زیادہ شادی کرنے کی ممانعت کرسکتی ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’ہندوستان میں پردے کی جو رسم قائم ہوئی اس کے لیے اسلامی قانون میں کوئی سند نہیں‘‘۔ یہ سب بیانات غیر صحیح ہیں۔
ایک محقق سے ہم بجا طورپر یہ توقع رکھتے ہیں کہ جن امور کے متعلق اس کے پاس ذرائع معلومات نہ ہوں ان پر قطعی رائے ظاہرکرنے سے وہ اجتناب کرے گا‘‘۔ (۲۵)
۱۹۳۷ء میں شعبۂ فلسفہ کے پروفیسرڈاکٹر سید ظفرالحسن کا رسالہ ’’نبوت اور نبی‘‘ منظر عام پر آیا تواس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا :
’’یہ وہ خطبہ ہے جو ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب استاد فلسفہ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے’یوم النبیؐ ‘کی تقریب پر یونیورسٹی کی مجلس اسلامیہ کے سامنے پڑھا تھا۔ یہ دیکھ کر نہایت مسرت ہوئی کہ ہماری یونیورسٹی میں جو شخص فلسفہ کا پروفیسر ہے وہ ایک سچا اور صحیح العقیدہ مسلمان ہے، اور اپنے علم کو دہریت و الحاد کے بجائے ایمان باللہ و ایمان بالرسول کی خدمت میں استعمال کرتا ہے۔ ہم اپنے ناظرین سے اس خطبہ کے مطالعہ کی پرزور سفارش کرتے ہیں۔مجلس اسلامیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے غالباً مفت مل سکے گا‘‘۔ ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب کے ساتھ ۱۹۳۸ء میں مولانا مودودی کی خط و کتابت اور ذاتی مراسم کا سراغ ملتا ہے ۔ (۲۶)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی پی ایچ ڈی کا مقالہ جب ’ مجدد الف ثانی کا تصور توحید‘ کے نام سے کشمیری بازار لاہور سے ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا تو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پر نقد کرتے ہوئے انگریزی زبان میں تصنیف کی گئی اس تحریر کی بعض خامیوں اور غلطیوں پر گرفت کی اور صاحب کتاب کے سرسید احمد خاں اور حافظ محمد عبداللہ چکڑالوی کے متعلق نوٹ پر سخت تبصرہ کیا ۔(۲۷)
جب ۱۹۴۴ء میں جناب محمد فضل الرحمن انصاری کی انگریزی تصنیف’ دی علی گڑھ بکس اینڈ نیوز پیپرز ایجنسی۶- شبلی روڈ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے Our future Educational program کے نام سے شائع کی تو مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے ’ترجمان القرآن ‘میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :
’’یہ انگریزی کتاب مسلمانوں کی تعلیم کے پیچیدہ اور اہم ترین مسئلہ سے بحث کرتی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ مصنف نے مسلمانوں کے لیے ’غیر مسلم تعلیم‘ کے بجائے ’مسلمان تعلیم‘ کا پروگرام تجویز کیا ہے۔ اس سلسلہ میں اس بنیادی نقطہ کی اہمیت کو موصوف نے اچھی طرح سمجھا اور سمجھایا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم کو ’مذہبی‘ اور’غیر مذہبی‘ دو حصوں میں تقسیم کرنا اور مروجہ نصاب کے ساتھ دینیات کے مضمون کو بطور ضمیمہ شامل کردینا نہ صرف یہ کہ غیر مفید ہے، بلکہ الٹا مضر ہے۔ اس طریق کار کی جگہ یہ کتاب پورے نظام تعلیم کو’مسلمان‘ بنانے کے حق میں ہے۔ یعنی اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زبان دانی‘ ریاضی‘ تاریخ‘ جغرافیہ‘ سائنس‘ فلسفہ اور تمام مضامین کو ’دینیات‘ بن کر رہنا چاہیے۔ اس اصول کی بنیاد پر نصاب کا جو تفصیلی خا کہ پیش کیا گیا ہے وہ اگرچہ بسا غنیمت ہے مگر اس میں اختلاف کی گنجائش تو بہرحال ہے ہی‘‘۔(۲۸)
انجمن اسلامی تاریخ و تمدن مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے ۱۹۴۱ء میں مولانا عبدالماجد دریابادی کی تصنیف ’ اسلامی تمدن کی کہانی اسی کی ز بانی‘ شائع کی تومولانا ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے ترجمان القرآن میں اس پر تبصرہ کیا :
’’جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس مقالہ میں تمدن اسلام کی کہانی خود اسی کی زبانی سنوائی گئی ہے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک مختلف انبیاء کے دَور میں جس طرح اسلام اور جاہلیت کا مقابلہ ہوا اور اس مقابلہ میں جس طرح اسلام اپنے آپ کو نمایاں کرتا رہا، پہلے اسے قصہ و دا ستان کے پیرائے میں مختصراً بیان کیا گیا ہے، پھر اسی پیرایۂ بیان کو جاری رکھتے ہوئے تمدن اسلام کے مختلف اخلاقی، معاشرتی، سیاسی، معاشی پہلوئوں کو جاہلیت کے مظاہر سے ممیز کرکے دکھایا گیا ہے۔ کسی موضوع پر مفصل تحقیقی بحث تو ظاہر ہے کہ اس طرز بیان میں نہیں کی جاسکتی تھی، لیکن ایک طالب حق کے لیے ضلالتوں کے مقابلہ میں ہدایت کے آثار و علائم کی نشان دہی فاضل مقالہ نگار نے بڑی خوبی کے ساتھ کی ہے۔ ایک دو مقا م نگاہ سے ایسے بھی گذرے جہاں مصنف کا قلم راست روی سے ہٹ گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ خلیفہ اسلام کے لیے’ڈکٹیٹر‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو با لکل ہی نامناسب ہے اور ایک دوسری جگہ بیان کیا گیا ہے کہ اسلام کی قلمرو میں پوری پوری ’شاہنشاہیاں‘ داخل تھیں، حالاں کہ اسلام کی قلمرو میں انسان کی شہنشاہی تو درکنار شاہی تک کے لیے گنجائش نہیں ہے۔ یہ اگرچہ محض تعبیری لغزشیں ہیں، لیکن ناواقف لوگوں کو بڑی غلط فہمیوں میں ڈال سکتی ہیں، اس لیے بہتر ہو کہ آیندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح کردی جائے‘‘۔(۲۹)
(باقی سلسلہ آئندہ شمارے میں ملاحظہ کریں)
حواشی و تعلیقات
۳۲ صفحات پر مشتمل مولانا سید سلیمان ندوی کا رسالہ بعنوان ’ایمان‘ ۱۹۴۱ء میں انجمن اسلامی تاریخ و تمدن مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے شائع ہوا تو مولانامودودیؒ نے اس پر بھی ایک جامع تبصرہ کیا :
(۱۹) چودھری عبدالرحمن عبد، ’مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی‘،اسلامک پبلی کیشنز، لاہور۔
(۲۰) گفتگو بتاریخ ۱۵ ؍اکتوبر ۲۰۱۷ء بمقام بدر باغ ، علی گڑھ
(۲۱) ہفت روزہ ’دعوت ‘ نئی دہلی،۶ جولائی ۱۹۸۰ء ۔
(۲۲) چودھری عبدالرحمن عبد، ’مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی‘اسلامک پبلی کیشنز، لاہور۔
(۲۳) ’عکس راہ‘عبدالعزیز سلفی فلاحی ، شعبۂ اشاعت : اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا، ۱۵۱سی ذاکر نگر نئی دہلی ۲۵۔
(۲۴) ماہ نامہ’ ترجمان القرآن‘لاہور ، اپریل۱۹۴۱ء
(۲۵) ماہنامہ ’ترجمان القرآن ‘لاہور ،جولائی ۱۹۴۰، صفحہ ۴۰۸
(۲۶) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ لاہور ،جمادی الآخر و رجب۱۳۵۶ھ۔
(۲۷) ماہنامہ’ ترجمان القرآن‘ لاہور ، دسمبر۱۹۴۰ء، جنوری ۱۹۴۱ء صفحہ نمبر ۱۴۱
(۲۸) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘لاہور ، بابت مئی-جون ۱۹۴۴ء، جلد ۲۴عدد ۶۰۵۔
(۲۹) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ لاہور، بابت دسمبر ۱۹۴۱ء و جنوری ،فروری ۱۹۴۲ء، جلد۱۹،عدد۴، ۵،۶۔)
***

 

***

 ’’انسان کے معاشی مسئلے کو سمجھنے اور صحیح طور پرحل کرنے میں جو مشکل پیش آرہی ہے اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس مسئلے کو بعض لوگ صرف معاشیات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، بعض اس کی اہمیت میں مبالغہ کرکے اسے کُل مسئلہ زندگی قرار دے رہے ہیں اور بعض اس سے بھی تجاوز کرکے زندگی کا بنیادی فلسفہ اور اخلاق اور تمدن و معاشرت کا سارا نظام معاشی بنیاد ہی پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اگر معاشیات ہی کو اساس ٹھہرایا جائے تو انسان کا مقصدِ زندگی اُس بیل کے مقصدِ زندگی سے کچھ بھی مختلف نہیں ٹھہرتا جس کی تمام سعی وجہد کی غایت یہ ہے کہ ہری ہری گھاس کھاکر خوش و خرم اور تنو مند ہوجائے اور کائنات میں اس کی یہ حیثیت قرار پاتی ہے کہ وہ بس چراگاہِ عالم میں ایک آزاد چرندہ ہے۔‘‘(مولانا مودودیؒ)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022