روہنگیائی مسلمانوں کی دربدری کے پانچ سال

نور اللہ جاوید، کولکاتا

ہندوستان کی آزادی کی 75 ویں سالگر ہ ’’امرت مہوتسو‘‘ کے موقع پر حکومت ہند نے وزیرا عظم نریندر مودی کی قیادت میں مختلف شعبوں کی ترقی اور کار کردگی کی تشہیر کے لیے بڑے پیمانے پر اخبارات ،نیوز چینلس اور ڈیجیٹل فارم پراشتہارات جاری کیے تھے۔ اسی تشہیری مہم کے تحت ہندوستان میں پناہ گزینوں کی بحالی اور ان کے ہندوستان میں انضمام کودکھانے کے لیے ایک اشتہاری ویڈیو جاری کیا تھا کہ جس میں پناہ گزینوں کے ایک گروپ کوہندوستانی قومی ترانہ گاتے ہوئے دکھایا گیا جن میں زیادہ تر کا تعلق میانمار سے تھا۔ اس ویڈیو کا مقصد یہ دکھانا تھاکہ ’’یہ لوگ پناہ دینے والے ملک ہندوستان سے اپنی محبت کا اظہار کررہے ہیں‘‘ ۔مگر اس ویڈیو پر ایک سوال ابھرتا ہے کہ اسی میانمار سے آنے والے روہنگیابرادری جو دنیا کی سب سے بڑی مظلوم آبادی ہے اور انہیں ظلم و جبر، تشدد اور سفاکیت کے ذریعہ نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ‘ کے تئیں اتنی شدید نفرت کیوں ہے؟ اس نفرت کا اظہار گزشتہ دنوں اس وقت کیا گیا جب ہائوسنگ اور شہری ترقیاتی کے مرکزی وزیر پردیپ سنگھ پوری نے بین الاقوامی قوانین کا احترام اور مذہبی بنیادوں پر امتیاز نہ برتنے کی ہندوستان کی پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے دلی میں مقیم روہنگیائی پناہ گزینوں کو محفوظ مقام پر فلیٹ دینے اور ان کی بازآباد کاری کی اطلاع دی تو ہنگامہ بپا ہوگیا۔ دلی کی عام پارٹی کی قیادت والی حکومت کے وزرا اور لیڈران فوری طورپرسخت بیانات کےذریعہ مرکزی حکومت کی تنقید کی اور روہنگیائی پناہ گزینوں کی بازآبادکاری پر سخت اعتراض کیا۔ بی جے پی کی حامی اور دائیں بازو کی شدت پسندتنظیم وشوہندو پریشد بھی میدان میں آگئی۔ اس کے معاً بعد مرکزی وزارت داخلہ نے اپنے ہی وزیر کے موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ’’ روہنگیائی غیر قانونی طور پر ہندوستان میں مقیم ہیں، ان کی باز آبادکاری کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور انہیں رفیوجی کا درجہ نہیں دیا گیا ہے اورحکومت ہند انہیں ملک بدر کرنے کےلیے کارروائی کررہی ہے‘‘۔ وزارت داخلہ کا یہ بیان دراصل حکومت ہند کا اصل موقف ہے مگر سوال یہ ہے کہ آخر مرکزی وزیر پردیپ سنگھ پوری نے کن بنیادوں اور اطلاعات پر یہ خوش خبری سنائی ؟ کیا حکومت ہند بین الاقوامی سطح پر اپنی شبیہ کو بہتر بنانے اور اقلیت دشمن ٹیگ کو ختم کرنے کے لیے حقیقت میں ایسا کوئی منصوبہ بنایا تھا؟۔ مگر پردیپ سنگھ پوری کی جلد بازی نے حکومت ہند کو قدم پیچھے واپس لینے پر مجبور کردیا۔ تاہم اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ بی جے پی کی روہنگیائی پناہ گزینوں کے تئیں نفرت قابل فہم ہے۔ کیوں کہ وہ روہنگیائی پنا ہ گزینوں کے ذریعہ اپنے ’’نظریات کی باغبانی‘‘ کرتی رہی ہے، روہنگیا کے نام پر مسلم مخالف جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے اور یہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کا بہترین نسخہ ہے۔ مگر عام آدمی پارٹی جو خود کو سیکولر اور گاندھی کے نظریات کا پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتی ہے وہ روہنگیا برادری کے تئیں کیوں اس قدر نفرت کا اظہار کرتی ہے اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ عام آدمی پارٹی نے روہنگیائی پناہ گزینوں کے تئیں اپنی شدید نفرت کا اظہار کیا ہے بلکہ 2020میں دلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور جہاں گیر پوری میں دلی میونسپل کارپوریشن کے ذریعہ غریب مسلم کے دوکانوں پر بلڈوزر چلائے جانے کے موقع پر بھی دلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے روہنگیائی پناہ گزینوں سے پر شدید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں دلی میں فرقہ وارانہ فسادات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا اور سوال کیا کہ آخر مرکزی حکومت اب تک ان غیرقانونی روہنگیائی کو ملک بدر کرنے میں ناکام کیوں ہے؟
رفیوجیوں کو پناہ دینے کی ہندوستان کی پالیسی
ہندوستان 1951 کے اقوام متحدہ کے کنونشن اور 1967 کے پروٹوکول جیسے بین الاقوامی قوانین پر دستخط نہیں کیے ہیں جوپناہ گزینوں کو پناہ حاصل کرنے اور تشدد زدہ مقامات پر واپس بھیجے جانے سے محفوظ کرتے ہیں۔ چناں چہ جب بھی اقوام متحدہ کے ادارے اور حقوقی انسانی کی تنظیمیں ہندوستان سے ’دنیا کی سب سے مظلوم آبادی روہنگیا برادری کو رفیوجیوں کا درجہ دے کر عالمی ذمہ داری کو ادا کرنے کی اپیل کرتی ہے تو ہندوستان واضح طور پر کہتا ہے کہ چوں کہ اس نے بین الاقوامی قوانین پر دستخط نہیں کیے ہیں اس لیے وہ روہنگیا ئی شہریوں کو پناہ دینے کاپابند نہیں ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے 70سال بعد بھی خود ہندوستان میں پناہ گزینوں کو پناہ دینےسے متعلق کوئی قانون نہیں ہے۔ حکومت نے خود پارلیمنٹ میں اعتراف کیا ہے کہ پناہ گزینوں سے متعلق کوئی قومی قانون نہیں ہے اور ہندوستان میں غیر ملکی شہریوں سے نمٹنے کے لیے وزارت داخلہ کی طرف سے صرف معیاری آپریٹنگ طریقہ کار رائج ہے۔یعنی وزارت داخلہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ کسے پناہ گزیں کا درجہ دے گی اور کس کو نہیں دے گی۔جسے چاہے وہ رفیوجی کا درجہ دے گی اور جس چاہے گی نہیں دے گی۔دوسری جانب ہندوستان کا فارنرز ایکٹ 1946، حکومت کو کسی بھی غیر ملکی شہری کو ملک بدر کرنے کے اختیارات فراہم کرتا ہے۔تاہم اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہندوستان نے اگرچہ 1951 کے اقوام متحدہ کے کنونشن اور 1967 کے پروٹوکول جیسے بین الاقوامی قوانین پر دستخط نہیں کیےہیں مگر کچھ ایسے بین الاقوامی قوانین ہیں جن پر ہندوستان نے دستخط کیےہیں وہ قوانین ہندوستان کو بے رحمانہ انداز میں پناہ گزیں کو دربدر کرنے سے روکتی ہے ۔
انسانی حقوق کے کارکن اور سینئروکیل پنکھوری اگروال کہتے ہیں اگرچہ ہندوستان مہاجرین کے کنونشن کا حصہ نہیں ہے اور خود کو اقوام متحدہ کے قوانین پر عمل کرنے کا پابند نہیں سمجھتا تاہم روہنگیاوںکے تئیں ہمدردی کا فقدان عالمی طاقت بننے کے خواہشمند اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے پر فخر کرنے والے ملک کے لیے کسی بھی درجے میں مناسب نہیں ہے۔ہندوستان نے گرچہ رفیوجیوں کو پناہ دینے کے عالمی قوانین پر دستخط نہیں کیے ہیں مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندوستان نے رفیوجیوں کے پناہ گزینوں کے مسائل سے یکسر منہ موڑ لیا ہے۔ 1959میں چین مخالف بغاوت کی ناکامی کے بعد سے ہی ہندوستان نے کئی دہائیوں سے بدھسٹ رہنما دلائی لامہ اور تبتی مہاجرین کو نہ صرف پناہ دے رکھی ہے بلکہ انہیں ہرطرح کی سہولیات فراہم بھی کررہاہے۔ چین کی مخالفت کے باوجود ہر موقع پر ہندوستان نے دلائی لامہ کو اسٹیج فراہم کیا ہے اور انہیں کھل کر بولنے کی آزادی دی ہے۔ 1971میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان آزادی تحریک کے دوران ہندوستان نے بنگلہ دیش کی حمایت کی اور ہزاروں پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحد کو کھول دیا۔ سری لنکا میں تمل باشندوں پر حملوں کے بعد ہندوستان نے تمل شہریوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ تمل ناڈو کی حکومت نہ صرف ان تمل سری لنکائی شہریوں کو پناہ دی بلکہ صحافی نروپما سبرامنیم کی رپورٹ کے مطابق تمل پناہ گزینوں کے لیے تمل حکومت الائونس فراہم کرتی ہے اور انہیں روزگار فراہم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔
2009میں سری لنکا میں شورش کے خاتمے کے باوجود ان تمل شہریوں کی واپسی کے لیے کوئی دبائو نہیں بنایا گیا۔ 1988میں میانمار میں جمہوریت نواز تحریک کے دوران فوج کے کریک ڈائون کے خوف سے فرار ہونے والوں کا خیرمقدم کیا گیا۔ میزورم اور منی پور میں پناہ گزیں کیمپ کھولے گئے ہیں۔2021میں میانمار میں فوج نےایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے فوج نے کریک ڈائون شرو ع کیا تو سماجی و سیاسی صورت حال کے بگڑنے کی وجہ سے تقریباً 700افراد میانمار سے میزورم میں داخل ہوئے ہیں۔ میزورم کی ریاستی حکومت نے ان برمی پناہ گزینوں سے نسلی تعلقات کی بنیاد پر تارکین وطن کا خیر مقدم کیا اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کے لیے معیاری آپریٹنگ پروسیجر (SOP) نظام مرتب کیا۔ مرکزی وزارت داخلہ نے شمال مشرق کے چار ریاستوں میزورم، ناگالینڈ، منی پور اور اروناچل پردیش کو برما کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں سرحد پر سخت نگرانی کی ہدایت دیتے ہوئے یاد دلایا کہ ہندوستان 1951 کے پناہ گزین کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ افراد رفیوجی نہیں ہیں اور ریاستوں کو رفیوجی کا درجہ دینے کا حق بھی نہیں ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کی اس ہدایت پر میزورم حکومت نے سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ میزورم کےعوام چن کمیونیٹی کے مہاجرین سے لاتعلق نہیں رہ سکتی ہے۔ انڈوچن پہاڑیوں سے ملنے والے میزو اور چنوں کے درمیان نسلی تعلقات رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ رفیوجیوں کے لیے ہندوستان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے ہیں اور اس کے لیے باضابطہ قانون سازی بھی کی ہے۔ ایک زمانے میں ہندوستان نے عراق، فلسطین اور دیگر ممالک کے رفیوجیوں کو پناہ دی ہے گرچہ ان میں سے بیشتر افراد ہندوستان سے جاچکے ہیں۔
ہندوستان میں روہنگیائی پناہ گزینوں کی صورت حال
میانمار میں روہنگیائی شہریوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ایک تاریخ ہے اور یہ گزشتہ پچاس سالوں سے جاری ہے تاہم 2012، 2016، اور 2017 میں میانمار کی 6لاکھ افواج اور بدھسٹ انتہاپسندوں کی مشترکہ نسل پرستانہ ظلم وزیادتی کے نتیجے میں لاکھوں روہنگیائی اپنے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ پانچ سالوں سے 11لاکھ روہنگیائی شہری پناہ گزیں کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، پانچ سال بعد بھی یہ روہنگیائی اپنے وطن جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یوں تو روہنگیائی پناہ گزینوں کا ہندوستان میں 1971سے ہی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا مگر گزشتہ ایک دہائی کے دوران میانمار میں خانہ جنگی کے بعد بنگلہ دیش کے راستے سے بڑی تعداد میں روہنگیائی ہندوستان آئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 40ہزار روہنگیائی ہندوستان میں مقیم ہیں جب کہ روہنگیائی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے کہتے ہیں یہ تعداد کم ہے۔ ان میں سے 20ہزار افراد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں۔ یہ پناہ گزیں دلی ، جموں ، حیدرآباد اور دیگر ریاستوں میں انتہائی خستہ حالت میں کچے مکانات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان روہنگیائی پناہ گزینوں کے تئیں 2014کے بعد نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان روہنگیائی پناہ گزینوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ روہنگیائی رفیوجیوں کے ساتھ بھی بدسلوکی کی جارہی ہے۔ جب کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2021 اور 2022 میں، ہزاروں روہنگیا پناہ گزینوں کو یا تو جیل میں ڈال دیا گیا ہے یا پھر انہیں ملک بدر کردیا گیاہے ۔
مودی حکومت سے قبل بھی روہنگیاوںسے متعلق ہندوستان کا رویہ انسانی بنیادوں پر استوار نہیں تھا تاہم شیو نارائن راج پروہت کی 2013 کی کاؤنٹر کرینٹس رپورٹ بتاتی ہے کہ منموہن سنگھ حکومت کا رویہ اس طرح غیرانسانی نہیں تھا۔ رپورٹ کے مطابق 2014 سے پہلے بھی، مدن پور کھادر بستی بنیادی سہولیات کے بغیر ایک ویران شہر تھا۔ اس کے باوجود نہ صرف دلی بلکہ جموں جیسی دیگر جگہوں پر ان روہنگیائیوںکو آباد ہونے کی اجازت تھی اور انہیں مذہبی بنیادوں کو نفرت انگیز مہم کا سامنا نہیں تھا۔ رپورٹ کے مطابق سنگھ حکومت نے 2012 میں کئی روہنگیا پناہ گزینوں کو طویل مدتی ویزا میں توسیع بھی کی۔ اپنے 2013 کے ہندوستان کے دورے میں، اس وقت کے یواین ایچ سی آر کے سربراہ (اور موجودہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل)، انتونیو گوٹیرس نے ہندوستان کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہندوستان کی حکومت نے دنیا کی سب سے مظلوم روہنگیائی پناہ گزینوں کے ساتھ وہی سلوک کررہی ہے جو دوسرے پناہ گزینوں کے ساتھ کرتی ہے۔
روہنگیاوں کی مایوس کن صورتحال پر ایک نظر:
روہنگیا کون ہیں؟
1۔۱ میانمار نے 1982 کے شہریت ایکٹ کے تحت روہنگیاوںکو اپنے 135 نسلی گروہوں میں سے تسلیم نہیں کیا ہے۔
2۔میانمار کی حکومت انہیں بنگالی کہتی ہے تاکہ ریاست رخائن میں مسلم اقلیت کو بنگلہ دیش سے حالیہ مہاجرین کے طور پر رنگ دیا جائے۔
3۔ میانمار میں روہنگیا کا لفظ ممنوع ہے۔
تعداد میں روہنگیا
1۔میانمار میں تقریباً 10 لاکھ روہنگیا ہیں۔
2۔ 25 اگست سے تقریباً 1.23 لاکھ بنگلہ دیش فرار ہو چکے ہیں۔
3۔ جموں، حیدرآباد، دلی-این سی آر، ہریانہ، یوپی اور راجستھان میں تقریباً 40,000 روہنگیا ہیں۔
ہندوستان میں پناہ گزینوں کا کوئی قانون نہیں ہے
1۔ ہندوستان 1951 کے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن، یا اس کے 1967 کے پروٹوکول کا دستخط کنندہ نہیں ہے۔
2۔ حکومت پناہ کی درخواستوں کا فیصلہ ایڈہاک اور کیس ٹو کیس کی بنیاد پر کرتی ہے۔
3۔ پناہ کے متلاشی جن کی درخواست منظور ہو گئی ہے انہیں سالانہ تجدید کے لیے طویل مدتی ویزا (LTV) دیا جاتا ہے۔
4۔ طویل مدتی ویزا انہیں نجی شعبے میں کام کرنے اور تعلیم اور بینکنگ تک رسائی کا حق دیتا ہے۔
بھارت نے پناہ گزینوں کے لیے دروازے کھول دیے ہیں
1۔ تبتی، بنگلہ دیش کے چکما، افغانی اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے تمل ہندوستان میں پناہ لینے والوں میں شامل ہیں۔
2۔ تبتی (تقریباً ایک لاکھ) کو پناہ ملی۔ وہ لیز پر زمین لے سکتے ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمتیں تلاش کر سکتے ہیں۔
3۔ تمل پناہ گزینوں جو زیادہ تر تمل ناڈو میں ہیں،ریاستی حکومت کی امداد ملتی ہے۔
4۔ 2016 میں، مودی حکومت نے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں، جینوں، پارسیوں اور عیسائیوں کو خود رہنے کے لیے جائیداد خریدنے، ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے، PAN اور Aadhaar ID حاصل کرنے وغیرہ کی اجازت دی۔
مودی حکومت کا منصوبہ
مملکتی وزیر داخلہ کرن رجیجو نے کہا ہے کہ ہندوستان تمام غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے خواہ ان کے پاس UNHCR کے کاغذات کیوں نہ ہوں کیونکہ تارکین وطن کی ’’دہشت گرد‘‘ گروہوں کی طرف سے بھرتی کا امکان ہے۔
روہنگیاوں کو ملک بدر کرنے میں درپیش مسئلہ
1۔ ہندوستان نے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش اور میانمار سے ملک بدری کے بارے میں بات کر رہا ہے۔
2۔ میانمار کے قوانین نے روہنگیاوں کو بے وطن کر دیا ہے، اس لیے ان کے پاس واپس جانے کے لیے کوئی ’گھر‘ نہیں بچا ہے۔
اقوام متحدہ نے ہندوستان سے ’رسمی قانون‘ پر عمل کرنے کی اپیل کی
1۔ ’نان ریفولمنٹ کا اصول‘ تمام ریاستوں پر عائدہے چاہے انہوں نے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط کیے ہوں یا نہ کیے ہوں۔
2۔ روایتی قانون کہتا ہے کہ پناہ گزینوں کو زبردستی ایسی جگہ واپس نہیں کیا جاسکتا جہاں انہیں ظلم و ستم کا سامنا ہو یا ان کی زندگی یا آزادی کو خطرات لاحق ہوں۔
(نوراللہ جاویدصحافت سے گزشتہ 20سالوں سے وابستہ ہیں)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022