نوجوان: معاصر مسائل تجزیہ اور حل

مسلم نوجوانوں کودرپیش مسائل میں رہنمائی کرنے والی ایک قابل مطالعہ کتاب

کتاب کا نام :- نوجوان ۔ معاصر مسائل تجزیہ اور حل
مصنف:- مجتبیٰ فاروق
قیمت:- 200 روپے
صفحات:- 175
ناشر :- منشورات پبلشرز
مبصرہ :- کشور سلطانہ

نوجوان کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ وہ کسی بھی قوم کا ایسا کھلا خزانہ ہوتے ہیں جس کو وقت کے رہتے ہوئے اگر بزرگانِ قوم محفوظ نہ کریں تو لازماً وہ لٹ جاتا ہے اور اس کا نتیجہ قوم کو زوال کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ کسی بھی قوم کے نوجوان جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر قوم کے نوجوان بااخلاق، با صلاحیت، نڈر اور بہادر ہوں گے تو قوم ترقی کے زینے چڑھتی ہے اور اگر معاملہ اس کے بر عکس ہو اور نوجوان عیاش و بد اخلاق ہوں تو قوم پر زوال آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اسی لیے صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا کہ اگر کسی قوم کو برباد کرنا ہو تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلا دو وہ قوم خود بخود برباد ہو جائے گی۔
بھارت ایک کثیر آبادی والا ملک ہے۔ اس کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر مذہب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلمان ہی یہاں اکثریت میں ہیں، اس کے باوجود یہاں کا مسلمان خصوصاً نوجوان ڈرا سہما ہوا ہے، بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے، حالات کے سامنے گھٹنے ٹیکتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ وہ خود کو تنہا محسوس کر رہا ہے اور مایوسی کا شکار بھی ہو رہا ہے۔ اگر وقت کے رہتے ہوئے نوجوانوں کے ان مسائل اور پریشانیوں پر قابو پا لیا جائے تو یقیناً اس ملک کو اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں نصیب ہوگی ۔
زیر نظر کتاب ملت کے ایک حساس نوجوان نے ملت کے نوجوانوں کی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑے ہی پرسوز انداز میں لکھی ہے اور پوری کتاب میں مصنف ایک تجربہ کار بزرگ کی طرح رہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مصنف نے جس طرح مسائل کا انتخاب کیا اور حل نکالنے کی سعی کی وہ واقعی قابل مبارکباد ہے۔
کتاب کے آغاز میں محمد فہیم اختر ندوی کا مقدمہ ہے جس میں انہوں نے دل کھول کر مصنف کی ہمت افزائی کی ہے اور ہر نوجوان کو اسے پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
چھوٹے چھوٹے 18 عناوین پر مشتمل 175 صفحات کا ایک چھوٹا سا کتابچہ نوجوانوں کے معاصر مسائل کا سچا تجزیہ اور بہترین حل ہے۔ زبان سہل اور بیان رواں ہے۔ دل سے نکلتی بات اور دل میں اترتا اسلوب ہے۔ کیا تعلیم یافتہ اور کیا غیر تعلیم یافتہ سبھی کا مسئلہ مشترک ہے۔ لہذا اس کتاب کو آج ہر مسلم خاندان میں پڑھنے اور نوجوانوں کو روزانہ کم از کم ایک مضمون پڑھ کر سنانے کی ضرورت ہے۔ یقیناً اس سے انہیں راحت، روشنی اور رہنمائی ملے گی اور وہ خود آگاہ، خدا آشنا اور انسانیت کی آنکھ کا تارا بن سکتے ہیں۔
175 صفحات اور اٹھارہ مضامین پر مشتمل اس کتاب میں ان تمام نوجوانوں کے لیے رہنمائی ہے جو ان سخت حالات میں کچھ کرنا چاہتے ہیں اپنے مسائل کو حل کر کے ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں۔ مسائل کو حل کر کے سماج کی تشکیل جدید کا خواب رکھنے والے ہر نوجوان کو لازماً اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ کتاب بے حد قیمتی مشوروں اور مسائل کے حل کے لیے رہنمائی فراہم کر کرتی ہے۔ کتاب بہت سہل انداز میں لکھی گئی ہے تاکہ ہر سطح کے حامل نوجوان بھی بآسانی اس کتاب میں اپنے مسائل کا حل تلاش کر سکیں۔ کتاب کی ایک خوبی یہ بھی کہ مصنف نے ہر مضمون کے اختتام پر حوالے درج کیے ہیں جس سے مزید تحقیق کرنے والوں کو آسانی ہوتی ہے۔
جدید دور میں جتنی تیزی سے سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے وہیں فحاشی اور عریانیت کا سیلاب بھی ابل پڑا ہے، ایسے میں مسلم نوجوانوں کا اپنے دین اور ایمان پر قائم رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ یہ سیلاب جان بوجھ کر لایا جا رہا ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں۔
1) اسلامی دشمنی
2) اسلام کے غلبے سے خوف
یہ لوگ ہر وہ ہتھکنڈا اپنا رہے ہیں جس سے ہر مسلم نوجوان بآسانی اپنا ایمان کمزور کر سکتا ہو۔ ان حالات میں ایک مسلم نوجوان کے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا ایک قدم بھی بغیر رہنمائی کے نہ اٹھائے۔ زیر نظر کتاب قرآن اور حدیث کی روشنی میں مکمل نہ سہی مگر بہترین رہنمائی ہے۔
مصنف نے سب سے پہلے نوجوانوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور قرآن کی آیتوں کی روشنی میں بتایا ہے کہ ماضی میں مسلم نوجوانوں نے کیسا رول ادا کیا تھا جس کی بنا پر ان کا تذکرہ قرآن مجید میں کیا گیا۔ پھر انبیاء اکرام کی سیرت سے یہ پیغام دیا گیا کہ نوجوانوں کو ہر حال میں اپنے کردار کو پاک و صاف رکھنا ہے۔ پھر آخرت کے سوالوں سے یاد دہانی کرائی گئی کہ قیامت میں ان کی جوانی کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا۔ اس کے بعد دوسرے مضامین میں مصنف نے مقصد زندگی کا حقیقی تصور پیش کیا کہ ایک دن انہیں کو مرنا ہے اور روز قیامت اپنے اعمال کے بارے میں خدا کے سامنے جواب دینا ہے۔ چونکہ مغربی نظریات نے نوجوانوں پر بڑی گہری چھاپ چھوڑی ہے جس میں ایک شوشہ یہ بھی ہے کہ Eat, drink and be happy یعنی ’کھاؤ پیو اور خوش رہو‘ ۔ اس خوبصورت حربے سے نوجوانوں کی آخرت تباہ کرنے کی بڑی منظم سعی کی گئی ہے۔ مصنف نے اس کے برعکس مقصد زندگی کے اصل تصور کے حوالے سے مفید گفتگو کی ہے۔
اس کتاب میں حالیہ عرصے میں امت کے لیے ایک چیلنج کے طور پر ابھرنے والے بیشتر مسائل میں رہنمائی کی گئی ہے مثلا ہم جنس پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان، فلموں کے ذریعے بڑھتی ہوئی عریانیت، پاپولر کلچر میں ملوث ہوتے ہوئے مسلم نوجوان، قیمتی وقت کا سوشل میڈیا پر زیاں، کام کی تلاش اور نہ ملنے کی صورت میں غلط راستوں کو اپنانا، نکاح میں تاخیر کے مسائل، سماج سے کٹ کر اپنی ہی دھن میں زندگی گزارنے کے نقصانات، ناقص نظام تعلیم کا مسئلہ، مایوسی، ڈیپریشن اور خود کشی کا رجحان وغیرہ۔
ضرورت ہے کہ ایسی کتابوں کو نوجوانوں کے سامنے پڑھا جائے۔ بزرگ حضرات بھی اس کتاب کا مطالعہ کریں اور اپنے حلقے کے نوجوانوں کی رہنمائی کریں۔ میرا خیال ہے کہ یہ کتاب مسجدوں کے اماموں کو بطور تحفہ دی جائے تاکہ وہ اسے پڑھ کر منبر رسول سے امت کے نوجوانوں کی رہنمائی کریں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 مئی تا 27 مئی 2023