انصاف کے سوداگر۔۔۔!

عدلیہ کا اصل چہرہ مہاراشٹر کے آئینے میں

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

5 میں سے 4 نکات ادھو ٹھاکرے کے حق میں لیکن فیصلہ شنڈے کے حق میں
فٹ بال کے کسی میچ میں اگر کُل پانچ گول ہوں اور ان میں سے چار ایک ٹیم مارے تو وہ فاتح قرار دی جاتی ہے لیکن ہندوستانی عدالت میں ایسا ہو، یہ ضروری نہیں ہے خاص طور پر اگر متحارب ٹیمیں سیاسی ہوں ۔ ان میں سے ایک کا تعلق حزب اقتدار اور دوسرے کاحزب اختلاف سے ہوتو کچھ بھی ہوسکتا ہے یعنی انصاف کا ترازو کسی بھی طرف جھک سکتا چاہے اس کے پلڑے میں چار اور دوسرے میں صرف ایک گول کیوں نہ ہو ۔ اس لیے گول کے ساتھ ساتھ اس کو مارنے والا بھی کم اہم نہیں ہوتا ۔ مودی جی کی ایک کِک راہل کے چار کِک کے برابر ہو سکتی ہے۔ اس طرح ایک گول مارنے والی ٹیم کامیاب اور چار والی شکست فاش سے بھی دوچار ہوسکتی ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ مہاراشٹر سرکار کے قضیہ میں سپریم کورٹ کی بنچ پانچ ججوں پر مشتمل تھی اور اس کے سامنے سوالات بھی پانچ تھے جن پر اسے فیصلہ سنانا تھا ۔
عدالتِ عظمیٰ کے سامنے پہلا سوال گورنر کے کردار پر تھا ۔ دوسرا چیف وہپ کے تقرر سے متعلق تھا۔ تیسرا معاملہ ارکان اسمبلی کو برخواست کرنے کی بابت تھا ۔ چوتھا ایک پرانے مقدمہ نابامریبیا کے انطباق کا تھا اور پانچواں ایکناتھ شندے کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے عہدے پر باقی رہنے یا ہٹائے جانے کا تھا۔ اب آئیےدیکھیں کہ ان پانچ سوالوں کے سپریم کورٹ نے کیا جوابات دیے؟ ان میں سے کتنے ادھو ٹھاکرے کی حمایت میں تھے اور کون کون سے ایکناتھ شندے کے حق میں گئے۔اس تنازع کا پس منظر یہ ہے کہ 21 جون 2022 کو شیوسینا کے رہنما ایکناتھ شندے نے15 ارکانِ اسمبلی کے ساتھ بغاوت کردی۔ اس کے ہفتہ بھر بعد 28 جون کو گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کا حکم دے دیا۔ شیوسینا نے گورنر کے حکم کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کیا مگر اس نے روک لگانے سے انکار کردیا ۔ سپریم کورٹ کے اس منفی رویہ سے بددل ہوکر سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے استعفیٰ دے دیا اور ایکناتھ شندے وزیر اعلیٰ بن گئے۔
مہاراشٹر کی اس عظیم سیاسی اتھل پتھل کے گیارہ ماہ کے بعد سپریم کورٹ کا فرمان آیا کہ گورنر کوشیاری کا وہ اقدام غلط تھا کیونکہ حزب اختلاف نے عدم اعتماد کی تجویز پیش نہیں کی تھی۔ گورنر کے پاس حکومت پر شک کرنے کا کوئی جواز یعنی چٹھی یا محضر نامہ موجود نہیں تھا۔اس بات کا اشارہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ارکان اسمبلی حمایت واپس لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تو صرف ایک گروپ بنایا تھا ایسے میں سیاسی جماعت کے اندرونی چپقلش کو سلجھانے کے لیے فلور ٹسٹ نہیں کیا جاسکتا ۔ آئین و قانون گورنر کو سیاسی معاملہ میں مداخلت کرکے کسی سیاسی پارٹی کے داخلی تنازعات میں ملوث ہونے کا اختیار نہیں دیتا۔کسی خاص ہدف کو حاصل کرنے کے لیے گورنر اپنے عہدہ کا استعمال نہیں کرسکتے ۔ اس طرح پہلا گول موجودہ ریاستی اور مرکزی حکومت کے خلاف ہوگیا کیونکہ گورنر نہ صرف ان کے نمائندہ تھے،بلکہ انہیں کے اشاروں پرناچ رہے تھے۔
دوسرا معاملہ چیف وہپ کے تقرر کا تھا۔ موجودہ سیاسی نظام میں آزادی کے تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود ہر پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی اس سیاسی جماعت کے بندۂ بے دام ہوتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں انہیں کس وقت کیا کرنا چاہیے اس کا فیصلہ وہ ازخود یا ان لوگوں سے پوچھ کر نہیں کرسکتے جن لوگوں کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔ اس آزادی سے اگر عوام کے نمائندے محروم ہیں تو بھلا عام لوگوں کی کیا بساط ؟ اس طرح جمہوریت میں عوام کے خود مختار ہونے کا غبارہ از خود پھوٹ جاتا ہے۔ انہیں نمائندے کا انتخاب کرنے کی آزادی تو ہے لیکن اس نمائندے کو ان کی یا اپنی مرضی کی تابعداری کا حق نہیں ہے۔ پارٹی وہپ(ہنٹر) کے ذریعہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ آقا یعنی پارٹی کے رہنما کا حکم کیا ہے۔ کوئی عوامی نمائندہ اگر اپنے ضمیر کی آواز پر یا عوامی فلاح و بہبود کے لیے اپنے رہنما کے حکم سے روگردانی کرے تو وہپ یعنی ہنٹر سے اس کی کھال ادھیڑ دی جاتی ہے اور ایسا کرنا جمہوری اقدار کے عین مطابق ہے اسی مقصد کے حصول کی خاطر پارٹی لیڈر اپنے وفادار ترین رکن اسمبلی کو ہنٹر تھما کر چیف وہپ بناتا ہے۔
عام حالات میں گورنر، اسپیکر (صدر ایوان) اور وہپ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی مگر جب پارٹی خلفشار کا شکار ہوجائے تو یہ ہنٹر والاحرکت میں آجاتا ہے۔ شیوسینا میں بغاوت کے بعد پارٹی کے چیف وہپ نے جب سارے ارکان اسمبلی کو ایک نشست میں حاضر ہونے کا حکم دیا تو باغی رکن اسمبلی ایکناتھ شندے نے پارٹی وہپ کو ناجائز قرار دے کر سنجے گوگولے کو چیف وہپ مقرر کردیا۔ ایسا کرنا چونکہ ان کے اختیار میں نہیں تھا اس لیے یہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہوگئی ۔ اب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ اسپیکر کے ذریعہ گوگولے کو چیف وہپ نامزد کرنے کا فیصلہ غلط تھا کیونکہ ارکان اسمبلی کو یہ طے کرنے کا
اختیار ہی نہیں ہے یہ تو پارٹی سربراہ کا بلا شرکت غیرے حق ہے اور اس وقت تک شیوسینا کی کمان ادھو ٹھاکرے کے ہاتھوں میں تھی۔ سپریم کورٹ کے مطابق اسپیکر نے بھی یہ جاننے کی زحمت نہیں کی کہ پربھو یا گوگولے میں سے کسے پارٹی کے ذریعہ متعین کیا گیا ہے۔ عدالت کی نظر میں اسپیکر کو پارٹی کے ذریعہ مقرر کردہ چیف وہپ کو ہی تسلیم کرنا چاہیے تھا ۔ اس طرح دوسرا گول بھی ادھو ٹھاکرے نے کردیا۔
اس قضیہ کا تیسرا مدعا ارکان اسمبلی کی برخواستگی کا تھا۔ سپریم کورٹ کو گیارہ ماہ کے بعد احساس ہوا کہ وہ باغی ارکان اسمبلی کو برخواست کرنے کی مجاز ہی نہیں ہے۔ یہ اختیار تو اسپیکر کے پاس ہے پھر بھی سپریم کورٹ نے اس کا فیصلہ ایک بڑی بینچ کو سونپ دیا ۔ یہ عجیب کیفیت ہے کہ جس میں اسپیکر کے فیصلے کو عدالت الٹ سکتی ہے۔ اسپیکر کی کرسی پر فی الحال ناجائز طریقہ پر بی جے پی کے راہل نارویکر قابض ہیں۔ ان سے وزیر اعلیٰ اور ان کے ساتھیوں کی رکنیت ختم کرنے کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ نارویکر اگر عدالت کا بہانہ بنا کر معاملے کو لٹکائے رکھیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ شندے اور ان کے ساتھی ویسے بھی عیش کر ہی رہے ہیں اس کے باوجود آخری فیصلہ آنے تک وزیر اعلیٰ کے سرپر ایک تلوار لٹکتی رہےگی ۔ یعنی تیسرا گول بھی شندے کے خلاف ہوگیا ۔ اسی سے بچنے کی خاطر انہوں نے اپنی کالی کمائی کے ذریعہ کالا جادو کیا تھا جو جزوی طور پر کامیاب رہا۔
چوتھا معاملہ خود اسپیکر سے متعلق ہے۔ اس کاپس منظر یہ ہے کہ تنازع کے وقت این سی پی کے نرہری جیروال ڈپٹی اسپیکر کی حیثیت سے ایوان کی صدارت کررہے تھے۔ ان کو کسی ناپسندیدہ اقدام سے روکنے کے لیے شندے گروپ نے سپریم کورٹ میں نابام ریبیا کیس کا حوالہ دے کر قدغن لگانے کی کوشش کی کیونکہ اس کی رو سےاگر کسی اسپیکر کو ہٹانے کی تجویز ایوان میں زیر بحث ہو تو وہ ارکان اسمبلی کو برخواست نہیں کرسکتا۔ اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ نے شندے سے اتفاق نہیں کیا بلکہ اسے سپریم کورٹ کی بڑی بنچ کے حوالے کردیا۔ سابق ڈپٹی اسپیکر کی مانند موجودہ صدر ایوان کے خلاف بھی حزب اختلاف کی تجویز معلق ہے۔ ایسے میں بڑی بنچ کے فیصلے تک ان کا کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں ہے۔ وہ اگر ایسا کریں تو نہ صرف عدالت کی توہین ہوگی بلکہ اس کو الٹا بھی جاسکتا ہے۔ موجودہ اسپیکر کے اختیار پر پابندی ادھو ٹھاکرے کا چوتھا گول ہے۔
اس قضیہ کا آخری معاملہ ایکناتھ شندے کے وزیر اعلیٰ برقرار رہنے کا تھا ۔ اس پر سپریم کورٹ نے دو ٹوک کہہ دیا کہ چونکہ ادھو ٹھاکرے نے استعفیٰ دے دیا تھا اس لیے گورنر کا بی جے پی کی حمایت والےایکناتھ شندے کو حلف دلانا درست تھا، گویا اقتدار انہیں کے پاس رہے گا۔ کورٹ کے مطابق ادھو ٹھاکرے اگر استعفیٰ نہیں دیتے تو ان کی حکومت بحال ہوسکتی تھی۔ اس طرح پانچواں اور آخری گول شندے نے لگا دیااور چار گول کرنے کے بعد پانچویں میں چوک جانے کے سبب ادھو اقتدار سے محروم رہیں گے۔ قانون کے آنکھ پر پٹی اس لیے بندھی ہوتی ہے تاکہ وہ تفریق و امتیاز نہ کرسکے لیکن اس فیصلے کو دیکھ کر یہ کہاوت یاد آتی ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں پھیر پھیر اپنے ہی کو دے ۔ اس میں اب یہ ترمیم ہونی چاہیے کہ پھیر پھیر اپنوں ہی کودے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت اور عدالت کے درمیان اس ناجائز رشتے کو کیا نام دیا جائے؟
ایسی صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے جج حضرات اس طرح کی کمزوری کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟ اس کے لیے بابری مسجد کی بابت نہایت نامعقول فیصلہ کرنے والوں کو سبکدوشی کے بعد حاصل ہونے والی مراعات پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے۔جسٹس رنجن گوگوئی اس وقت چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ ان تین ججوں میں سے ایک تھے کہ جنہوں اپنے وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف بغاوت کرکے پریس کانفرنس کردی تھی۔ان کے ساتھ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جسٹس چاملیشور کے علاوہ جسٹس مدن بی لوکور اور جسٹس کورین جوزف بھی شامل تھے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے طریقہ کار میں انتظامی ضابطوں پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور چیف جسٹس کے ذریعہ عدالتی بنچوں کو سماعت کے لیے مقدمات من مانے ڈھنگ سے الاٹ کرنے کی وجہ سے عدلیہ کے اعتبار پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ اسی سبب سے ان حضرات کو میڈیا سے بات کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ۔اس وقت بھی مہاراشٹر میں چلنے والے سہراب الدین فرضی تصادم معاملے کی تفتیش کرنے والے سی بی آئی کے جج بی ایچ لویا کی پراسرار موت کا معاملہ ایک جونیئر بنچ کے سپرد کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا ۔
اس معاملے میں چونکہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق قومی صدر امیت شاہ کلیدی ملزم کی حیثیت جیل بھی کاٹ چکے تھے اس لیے معاملہ خاصا سنگین ہوگیا ۔ اقتدار کے نشے میں دھت امیت شاہ عدالت میں حاضری کی زحمت نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اتفاق سے وہ ممبئی کے دورے پر تھے لیکن اس کے باوجود حاضر نہیں ہوئے تو جسٹس لویا نے سخت سرزنش کرتے ہوئے اگلی بار انہیں ہر صورت میں حاضری کا حکم دیا لیکن اگلی تاریخ سے قبل ناگپور کے میں ایک شادی میں شرکت کے دوران پراسرار حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے گھر والوں نے الزام لگایا تھا کہ انہیں اس کیس سے ہٹنے کے لیے کروڑوں روپے کی پیش کش کی گئی تھی۔ ججوں نے ایسی دیگر کئی مثالیں بھی دی تھیں کہ جن کے ملک اور عدلیہ پر دور رس اثرات مرتب ہورہے تھے۔ان ججوں نے الزام عائد کیا تھاکہ چیف جسٹس نے کئی مقدمات کو صرف اپنی ذاتی پسند کی بنیاد پر بنچوں کو الاٹ کیا اور ایسے من مانے ڈھنگ سے کام کرنے سے عدالت کی امیج کسی حد تک خراب ہوئی تھی۔ ان بلند بانگ دعووں کے بعد کچھ ہی عرصہ میں جسٹس رنجن گوگوئی نے ایسا بزدلانہ رویہ اختیار کیا کہ ان پر حیدر علی آتش کایہ شعرچسپاں ہوگیا ؎
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
حیرت کی بات یہ ہے کہ بڑے پروچن دینے والوں میں سے ایک رنجن گوگوئی نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد آگے چل کر عدالتِ عظمیٰ کا وقار خاک میں ملا دیا۔ ان لوگوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کو نہیں بچایا گیا تو ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا تھا ’’ہم ملک کو یہ باتیں اس لیے بتارہے ہیں تاکہ بیس برس بعد کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے اپنی روح گروی رکھ دی تھی۔‘‘ بیس سال تو بہت دور کی بات ہے ۔ اس پریس کانفرنس کے بعد دوسال بھی نہیں گزرے تھے کہ جسٹس رنجن گوگوئی نے اپنے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کے الزامات سے خوفزدہ ہوکر اپنے ضمیر کا سودا کردیا ۔ اس طرح وہ نہ صرف سزا سے بچ گئے بلکہ چار ماہ کے اندر ایوان بالا کی رکنیت سے بھی نواز دیے گئے۔ اس طرح ان کے دونوں ہاتھوں میں لڈو اور سرکڑھائی میں آگیا۔ اس فیصلے کے بعد پانچ ستارہ ہوٹل میں جشن منانے کا جو اعتراف انہوں نے اپنی کتاب میں کیا وہ نام نہاد روشن مستقبل کی خوشی میں تھا جس کو انہوں نے انصاف کا خون بہا کر حاصل کیا تھا۔
بابری مسجد کا فیصلہ سنانے والے دوسرے جج شرد اروند بوبڑے تھے۔ گوگوئی کے بعد انہیں چیف جسٹس بنایا گیا اور اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد انہوں نے اپنی ناگپوری وفاداری کے بے شمار ثبوت دیے۔ ان کو نقل مکانی کرنے والے لاکھوں مزدور نظر ہی نہیں آئے اور ان کے ریل گاڑی کے نیچے کچل کر مرجانے سے بھی کوئی ہمدردی نہیں ہوئی۔ بی جے پی نے اس گھر کی مرغی کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا پھر بھی مہاراشٹر نیشنل لا یونیورسٹی کا چانسلر بنادیا۔ اس یونیورسٹی کے پہلے کانوکیشن میں انہوں موجودہ چیف جسٹس کو مہمانِ خصوصی کے طور بلوایا کیونکہ وہ دونوں متنازع بنچ میں ایک دوسرے کے ہمجولی تھے۔ تیسرےجج ڈی وائی چندرچوڑ کو بھی چیف جسٹس بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ ہندوستان میں سب سے زیادہ وقت تک چیف جسٹس رہنے والے وائی وی چندر چوڑ کے بیٹے ہیں۔ اتفاق سے شاہ بانو کے معاملے میں متنازع فیصلہ دینے کا سہرہ والد کے اور بابری مسجد پر ناانصافی کرنے کا اعزاز بیٹے کے حصے میں آیا یعنی جیسا مالک ویسا گھوڑا کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا والی بات سچ ہوگئی۔ ڈی وائی چندر چوڑ دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں قانون پڑھانے جاتے ہیں مگر قانون کے نفاذ میں کتنے کمزور ہیں اس کا مظاہرہ انہوں نے پہلے بابری مسجد معاملے میں اوراب مہاراشٹر حکومت کے تنازع میں کیا۔
بابری مسجد قضیہ میں جسٹس اشوک بھوشن بھی بنچ میں شامل تھے۔ وہ چیف جسٹس بننے سے قبل پرشانت بھوشن کے ہاتھوں ہتک عزت کے معاملے میں رسوا ہوکر جولائی 2021 میں سبکدوش ہوگئے ۔ ان کے لیے بیس ماہ تک نیشنل کمپنی لا اپیلائیٹ ٹریبونل کے سربراہ کا عہدہ خالی رکھا گیا اور ریٹائرمنٹ کے چار ماہ بعد انہیں اس پر چار سال کے لیے فائز کردیا گیا۔ اس گروہ میں جسٹس ایس عبدالنذیر بھی شامل تھے جنہیں اس فیصلے پر اپنا اعتراض لکھوانے کی جرأت نہیں ہوئی ۔ امسال جنوری میں وہ سبکدوش ہوئے اور ایک ماہ کے اندر ان کو آندھرا پردیش کا گورنر بنا دیا گیا۔ ریٹائزمنٹ سے پہلے حکومت کو خوش کرنے کے لیے جسٹس عبدالنذیر نوٹ بندی معاملے میں سرکار کو کلین چِٹ دینے کا کارنامہ انجام دے کر خود کو حکومت کی نظرِ کرم کا مستحق بنالیا ۔ عبدالنذیر کے اتنی جلدی گورنر بنائے جانے کو حزب اختلاف نے عدلیہ کے لیے خطرہ بتایا تھا۔عبدالنذیر پر نظرِ التفات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بی جے پی اپنی خدمت بجا لانے والے لوگوں میں مذہبی بنیاد پر تفریق و امتیاز نہیں کرتی بلکہ بلا لحاظِ مذہب و ملت انہیں نوازتی ہے۔ ان سرکاری نوازشوں کی خاطر یہ حضرات ملک کو شرمسار کرنے والے فیصلے سناتے ہیں ۔
بابری مسجد کیس پر 9 نومبر 2019 کو عظیم ناانصافی کا ارتکاب کرنے کے بعد دیگر ججوں کے ساتھ ہوٹل تاج مان سنگھ میں دعوت اڑانے والے رنجن گوگوئی کے ستارے گردش میں آنے لگے ہیں۔ ان کی سوانح عمری ’جسٹس فار دی جج‘ کے خلاف آسام کے ایک سماجی کارکن اور این جی او کے عہدیدار ابھیجیت شرما نےہتک عزت کا مقدمہ درج کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے تناظر میں اس کتاب کے اندر کچھ غلط باتیں کہی گئی ہیں۔ گوہاٹی میں کامروپ (میٹرو) ڈسٹرکٹ اور سول جج کی عدالت کے اندر درج گوگوئی کے خلاف ایک کروڑ روپے کا ہتک عزت کا مقدمہ میں سابق سی جے آئی کی سوانح حیات پر پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کیا گیاہے۔ شرما نے اپنی درخواست میں الزام لگایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سابق سی جے آئی نے این آر سی کوآرڈینیٹر پرتیک ہجیلا کو مدھیہ پردیش منتقلی کے بارے میں ہتک آمیز نوعیت کی غلط باتیں لکھی ہیں۔ اس مقدمہ رنجن گوگوئی کو سزا ان کے خلاف قدرت کا نہایت دلچسپ انصاف ہوگا۔ عدل و انصاف کے سوداگروں کوان کی ناانصافی کےعوض جو بھی سزا ملے کم ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 حیرت کی بات یہ ہے کہ بڑے پروچن دینے والوں میں سے ایک رنجن گوگوئی نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد آگے چل کر عدالتِ عظمیٰ کا وقار خاک میں ملا دیا۔ ان لوگوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کو نہیں بچایا گیا تو ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا تھا ’’ہم ملک کو یہ باتیں اس لیے بتارہے ہیں تاکہ بیس برس بعد کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے اپنی روح گروی رکھ دی تھی۔‘‘ بیس سال تو بہت دور کی بات ہے ۔ اس پریس کانفرنس کے بعد دوسال بھی نہیں گزرے تھے کہ جسٹس رنجن گوگوئی نے اپنے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کے الزامات سے خوفزدہ ہوکر اپنے ضمیر کا سودا کردیا ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 مئی تا 27 مئی 2023