بدعنوانی کے خلاف دوہرا کردار !

رام راجیہ کا راگ الاپنے والےکارپوریٹ گھرانوں اور اپنوں کی بدعنوانیوں پرخاموش!

نور اللہ جاوید، کولکاتا

کرناٹک کے عوام نے وزیراعظم مودی کے دوہرے کردارکو رد کردیا
آئینی اداروں کو کمزور کرنے ، آرٹی آئی اور لوک پال کو غیر موثر کرنے کی پالیسی سوالوں کی زد میں
کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شاندار جیت میں سیاسی جماعتوں کے لیے الگ الگ پیغام ہیں مگر سب سے بڑا پیغام کرناٹک کے عوام نے جودیا ہے وہ یہ ہے کہ آج بھی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ ملک میں الگ قسم کی سیاست اور رام راجیہ لانے کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی نے بدعنوانی کے خلاف پوری لڑائی کو مخالفین کوخاموش کرنے اور پارٹی مفادات کی تکمیل تک محدود کرکے کمزور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔اگرچہ وزیر اعظم مودی ہر موقع پر یہ دعویٰ ضرور کرتے رہے کہ بدعنوانی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا مگر ان کے قول و عمل میں زمین و آسمان کا فرق ملک کا ہر ایک شہری محسوس کرنے لگا تھا۔مرکزی جانچ ایجنسیوں سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس کی جانبداری پر اٹھنے والےسوالات کا جائزہ لینے کے بجائے وزیر اعظم مودی ان اداروں کا یہ کہہ کر دفاع کرتے رہے کہ سی بی آئی اور ای ڈی کو صرف اس لیے بدنام کیا جارہا ہے کہ وہ چند طاقتور لوگوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔یہ طاقتور طبقہ ایجنسیوں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بدنام کررہا ہے‘‘۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج ملک میں طاقتور کون ہے؟اگر جانچ ایجنسیاں طاقتوروں کے خلاف کارروائیاں کررہی ہیں تو وزیر اعظم مودی جن پر اڈانی سے تعلقات ہونے کی وجہ سے الزامات لگ رہے ہیں اڈانی کی جانچ کیوں نہیں کروارہےہیں؟ وزیر اعظم کیئر فنڈ کا حساب کیوں نہیں دیا جارہا ہے؟ وزیر اعظم انل امبانی سے اپنے رشتے کی وضاحت کیوں نہیں کرتے؟ کرناٹک میں جہاں بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہےوہاں وزیر اعلیٰ بومئی پر براہ راست بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے، سینئر لیڈر یدی یورپا الزامات کی زد میں رہے مگر جانچ ایجنسیاں صرف کانگریسی لیڈر ڈی شیو کمار کے خلاف کارروائی کرتی رہیں،یہی وجہ ہے کہ آج عالمی ادارے بھارت کے آئینی اداروں میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے تنقیدیں کررہے ہیں ۔اگرسابق گورنر ستیہ پال ملک کے حالیہ بیانات کے تناظر میں وزیر اعظم کے دعوؤں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت خود بخود سامنے آتی ہے کہ وزیر اعظم مودی نے بدعنوانی کے سوال کو سیاسی نعرے بازی میں تبدیل کردیا ہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج نے واضح کردیا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں ایجنڈے اور بدعنوانی کے سوال پر پوری قوت کے ساتھ انتخاب لڑیں تو عوام آج بھی بدعنوانی کے خلاف ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔کانگریس نے بومئی حکومت کی بدعنوانی کے خلاف زور دار مہم چلائی اور اپنی انتخابی مہم کو بدعنوان، عوامی فلاح وبہبود اور ملک کے سیکولر ازم پر مرکوز رکھا ۔دوسری طرف وزیر اعظم مودی اور بی جے پی نے کرناٹک میں بدعنوانی کے سوال پر خاموشی اختیار کی اور انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ صف بندی (پولرائزیشن) کارنگ دیا اور بجرنگ دل کی غنڈہ گردی کو جے بجرنگ بلی کے نام پر جواز بخشنے کی کوشش کی مگر بدعنوانی ، مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان کرناٹک کےعوام نے بدعنوانی کےسوال کو زیادہ اہمیت دی۔چنانچہ اب کانگریس کے سامنے بھی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں کہ وہ کرناٹک میں جن شعبوں میں بدعنوانی کی نشان دہی کررہی تھی اس کے صفائے کے لیے و ہ کیا اقدام کرے گی؟ کمیشن خوری اور رشوت ستانی کے خاتمے کے لیے اس کے پاس کیا فارمولے ہیں؟ اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہےکہ کیا وزیراعظم مودی اور ان کی پارٹی شکست کی اصل حقیقت کا ادارک کرے گی؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ گزشتہ 9 سالوں میں بدعنوانی کے خلاف لڑائی کو محض اپوزیشن جماعتوں اور اس کے لیڈروں تک محدود رکھا گیا ہے ۔جانچ ایجنسیوں کی زد میں آنے والے اپوزیشن لیڈران اگر بی جے پی میں شامل ہوجاتے ہیں تو وہ جانچ ایجنسیوں کی زد میں آنے سے بچ جاتے ہیں۔ایسے لیڈروں کی ایک طویل فہرست ہے ۔اس کا ثبوت حال ہی میں اختتام پذیر میگھالیہ اسمبلی انتخابات ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران امیت شاہ سمیت بی جے پی کے سینئر لیڈر پوری شد و مد کے ساتھ میگھالیہ کے وزیراعلیٰ کے خلاف بدعنوانی کا مسئلہ اٹھارہے تھے۔انہیں جیل بھیجنے کی یقین دہانیاں کرارہے تھے مگر انتخابات کے نتائج آنے کے بعد اسی ’’بدعنوان وزیرا علیٰ‘‘ کی حمایت کرنے میں بی جے پی نے لمحہ بھر کی بھی تاخیر نہیں کی ۔ظاہر ہے کہ اس کو بے شرمی اور اخلاقی دیوالیہ پن کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے۔ سوال صرف میگھالیہ کا نہیں ہے ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ جہاں بدعنوانی کے سوال کو سیاسی فائدےکےلیے نظر انداز کر دیا گیا۔ان حالات میں وزیر اعظم مودی یہ دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں کہ جانچ ایجنسیاں طاقتور طبقے کی بدعنوانی کے خلاف جانچ کررہی ہے۔اس وقت ملک میں سب سے طاقتورخود وزیراعظم ہیں۔ رافیل اور اب اڈانی معاملے میں خود ان پر بھی بدعنوانی کی آنچ آرہی ہے۔اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ وہ خود جانچ ایجنسیوں سے کہتے کہ ان کے خلاف جانچ کریں ۔اگر ایجنسیاں ان کی بے گناہی پر مہر لگادیتی تو ان کا قد خود بخود بلندہوجاتا۔مگر آج سیاست میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کے لیے جگہ کہاں ہے؟ رام راجیہ کی باتیں کرنے والوں کے لیے تمام قدریں دوسروں کے لیے ہیں۔سوال صرف وزیرا عظم مودی تک محدود نہیں ہے بلکہ کئی مرکزی وزرا، بی جے پی کے سینئر وزرا، بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر وزرا کے خلاف بدعنوانیوں کے الزامات کے باوجود جانچ ایجنسیاں خاموش ہیں ۔ چاہے ویاپم گھوٹالہ ہو یا سوجن گھوٹالہ یا بینک گھوٹالہ کسی بھی معاملے کی غیر جانبدار جانچ نہیں ہوسکی ہے۔جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے، جنہیں خود وزیر اعظم نریندر مودی نے گورنر مقرر کیا تھا، جموں و کشمیر میں ریلائنس کے پروجیکٹ کے لیے تین سو کروڑ روپےکی رشوت اور گوا میں وزیرا علیٰ کے ذریعہ کمیشن وصولی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ ستیہ پال کوئی معمولی شخص نہیں ہیں وہ آئینی عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں لیکن سی بی آئی کے نزدیک یہ کوئی جانچ کے قابل معاملہ نہیں ہے۔
’’اسٹارٹ اپ‘‘ یعنی ملک کے نوجوانوں کی جانب سے نئے آئیڈیاز کے ساتھ کاروبار شروع کرنے کو مودی حکومت اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتی ہے۔یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مودی حکومت کی صنعتی پالیسی کی وجہ سے ہی نوجوانوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور وہ بیرون ممالک سے یہاں آکر اسٹارٹ اپس کررہے ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ اسٹارٹ اپ ملک کی معیشت اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں کیا کردار ادا کررہا ہے؟ 2015کے بعد سے ہی مودی حکومت اسٹارٹ اپ کے نام پر ٹیکس سے لے کر قرض دینے تک بڑی رعایتیں دے رہی ہے مگر اس کے باوجود ملک میں بے روزگاری کی شرح اس وقت سب زیادہ کیوں ہے؟ دراصل بیشتر اسٹارٹ اپ کمپنیاں ملک میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں، دوسرے یہ کہ چھوٹے اور درمیانی درجے کی صنعتیں جو 75فیصد روزگار فراہم کرتی ہیں، انہیں مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔سرمایہ کاری کے نام پر جس طریقے سے دھوکہ دہی کی رپورٹیں سامنے آرہی ہیں وہ حیران کن ہیں۔بیشتر اسٹارٹ اپ اس وقت نقصان میں چل رہے ہیں ۔آئی پی او کے نام پر عوام کو لوٹا جارہا ہے۔گزشتہ مہینے 24 مارچ کو نوئیڈا میں اسٹارٹ اپ کمپنیوں کے لیے سرمایہ کاری کے نام پر جو دھوکہ دہی کی گئی اگرچہ میڈیا میں وہ بڑی خبرنہیں بنی مگر اسٹاراپ اور سرمایہ کاری کے نام پر کیا جانے والا ایک گھناونا کھیل سامنے آیا ہے۔
ملک میں بدعنوانی سے متعلق عالمی اداروں کی رپورٹ
2022میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں بھارت سے متعلق جو مشاہدات پیش کیے گئے ہیں وہ نہ صرف تشویش ناک ہیں بلکہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی شفافیت کے تعلق سے خطرے کی گھنٹی ہیں۔سالانہ رپورٹ2022 کے مطابق 180ممالک کی درجہ بندی میں بھارت 85ویں مقام پر ہے جبکہ گزشتہ سال وہ 86ویں مقام پر تھا یعنی درجہ بندی میں ایک درجہ معمولی بہتری آئی ہے۔یہ درجہ بندی 0سے 100نمبر تک کی جاتی ہے ۔یعنی جن ممالک میں بدعنوانی کی شرح سب سے کم ہے انہیں 100نمبر دیے جاتے ہیں اور جہاں سب سے زیادہ بدعنوانی ہے ان ممالک کو صفر یا پھر اس کے آس پاس اسکور دیا جاتا ہے ۔کم اسکور رکھنے والوں میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک جیسے چین (45) اور بھارت (40) اور دیگر بڑی معیشتیں جیسے انڈونیشیا (38) پاکستان (28) اور بنگلہ دیش (26) شامل ہیں۔پڑوسی ممالک کے مقابلے میں بھارت کا اسکور بہتر ہے ۔تاہم رپورٹ میں جمہوری اور آئینی اداروں کی آزادی اور شفافیت سے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ کچھ ایسے میکانزم جو بدعنوانی پر قابو پانے میں مدد کرنے والے تھے کمزور ہورہے ہیں یا پھر انہیں کمزور کیا جارہا ہے۔اس کے ساتھ ہی ملک کی جمہوری حیثیت پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔بنیادی آزادیاں اور ادارہ جاتی شفافیت زوال پذیر ہے ۔صحافی و جہد کار خاص طور پر خطرے میں ہیں اور وہ پولیس، عسکریت پسندوں، جرائم پیشہ گروہوں اور بدعنوان مقامی اہلکاروں کے حملوں کا شکار ہورہے ہیں۔ حکومت کے خلاف بولنے والی سول سوسائٹی کی تنظیموں کو سیکیورٹی، ہتک عزت، بغاوت، نفرت انگیز تقریر اور توہین عدالت کے الزامات اور غیر ملکی فنڈنگ کے ضوابط کے تحت نشانہ بنایا جارہاہے۔آکسفیم انڈیا اور بی بی سی کے خلاف حالیہ کارروائیاں اس کا ثبوت ہیں۔آکسفیم انڈیا نے بھارت میں دولت کی غیر مساویانہ تقسیم سے متعلق رپورٹ شائع کی تھی جب کہ بی بی سی نے وزیراعظم مودی کے گجرات فسادات کے دوران رول پر ایک ڈاکومینٹری شائع کی تھی۔اس کے فوری بعد ہی دونوں اداروں کے خلاف جانچ ایجنسیاں سرگرم ہوگئیں۔
نظام میں شفافیت کا فقدان
اداروں میں شفافیت کے بغیر بدعنوانی کے خاتمے کی امید نہیں کی جاسکتی ۔آج جو دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مودی حکومت کے 9سالہ دور حکومت میں کوئی بڑا گھوٹالہ سامنے نہیں آیا ہے تو سوال یہ ہے کہ ان برسوں میں اداروں میں جوابدہی اور نظام کی شفافیت کا ’ایکو سسٹم‘ منہدم کیوں ہوگیا ہے؟ اس کا ذکر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے بلکہ اس دوران کئی ایسے اقدامات کیے گئے جو بدعنوانی کو قانونی حیثیت دیتے ہیں جن میں انتخابی بانڈز سرفہرست ہے۔سیاسی جماعتیں گمنام طریقے سے انتخابی بانڈس لے سکتی ہیں۔ انتخابی بانڈز سے متعلق کوئی جواب دہی نہیں ہے،یہ بانڈز کس نے دیے اور اس قدر بڑے پیمانے پر رقم دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس طرح کا کوئی سوال ان جماعتوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ کارپوریٹس اور غیر ملکی طاقتوں کو سیاسی جماعتوں کو خریدنے کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے۔ اگر کوئی کارپوریٹ کہتا ہے کہ اگر آپ اس مخصوص پالیسی کو پاس کرتے ہیں تو میں آپ کو 1,000کروڑ روپے انتخابی بانڈز کی شکل میں دوں گا تو اس پر کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی۔چنانچہ حالیہ برسوں میں حکمراں جماعت بی جے پی کے چندے میں کئی سوگنا اضافہ ہوا ہے۔چندے میں عدم توازن نے انتخابی دھاندلی میں دوگنا اضافہ کردیا ہے۔ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی خرید و فروخت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
پلاننگ کمیشن کی رپورٹیں ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کی جاتی تھیں۔پلاننگ کمیشن کی تحلیل کے ساتھ ساتھ ڈیٹا اور شماریات کے شعبے کو بھی اس قدر کمزور کردیا گیا کہ آج بیشتر محکموں کی کارکردگی کے اعداد و شمار سامنے نہیں آتے۔ جی ڈی پی کے اعداد وشمار تک میں ہیرا پھیری کے الزامت لگے ہیں۔پلاننگ کمیشن کی جگہ قائم ہونے والا نیتی آیوگ قانونی ڈھانچے اور طریقے کار کے اعتبار سے بالکل الگ ادارہ ہے۔بنیادی طور پر یہ ایک تھنک ٹینک اور پی آر ایجنسی کے طور پر کام کرتی ہے۔سرکاری اسکیموں کا آڈٹ، جائزہ اور ڈیٹا جمع کرنا اس کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں ہے۔سی اے جی اور دیگر ادارے اس وقت خود مختاری سے محروم ہیں ۔حکومت کے ذریعہ فراہم کردہ اعداد وشمار پر یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔اس تک عوام کی رسائی کو بھی ناممکن بنادیا گیا ہے۔
گزشتہ 15سالوں میں بدعنوانی کو بے نقاب کرنے میں موثر کردار ادا کرنے والوں میں آرٹی آئی نے اہم کردار اداکیا ہے۔عام شہریوں کے لیے دستیاب واحد سب سے مؤثر ذریعہ اطلاعات کا حق (آر ٹی آئی) قانون ہے۔ اس قانون کو ملک کے تین کروڑ سے زیادہ لوگوں نے استعمال کیا ہے، خاص طور پر غریب ترین اور پسماندہ افراد جنہوں نے اس قانون کی افادیت کو سمجھ کر اپنے بنیادی حقوق، راشن، پنشن اور صحت کی دیکھ بھال جیسے حقوق تک رسائی حاصل کی ہے۔عالمی بدعنوانی بیرومیٹر کی ایک اور اہم دریافت یہ ہے کہ بدعنوانی کی اطلاع دینا اس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔حالیہ برسوں میں آرٹی آئی ایکٹ کو کمزور اور غیر موثر بنانے کی کئی کوششیں کی گئی ہیں۔2019میں مودی حکومت نے مرکزی حکومت کو تمام انفارمیشن کمشنروں کی میعاد اور تنخواہوں کا تعین کرنے کی اجازت دے کر انفارمیشن کمیشنوں کی خود مختاری سے سمجھوتہ کیا۔ حکومتوں کی جانب سے بروقت انفارمیشن کمشنرز کی تقرری نہ کرنے کی وجہ سے کمیشنوں کے کام کاج میں بھی شدید رکاوٹ ہے۔
آر ٹی آئی ایکٹ کے 17سال مکمل ہونے پر اکتوبر 2022میں ستارک ناگرک سنگٹھن (SNS) نے اس پر ایک رپورٹ کارڈ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت 3لاکھ سے زائد آر ٹی آئی کی درخواستیں زیر التوا ہیں ۔رپورٹ کے مطابق دو انفارمیشن کمیشن جھارکھنڈ اور تریپورہ مکمل طور پر ناکارہ ہو چکے ہیں کیوں کہ نیا کمشنر مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ منی پور، تلنگانہ، مغربی بنگال اور آندھرا پردیش کے اسٹیٹ انفارمیشن کمیشن (SICs) بغیر کسی سربراہ کے کام کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی کمیشنوں میں کیسز کا ایک بڑا بیک لاگ بنا ہوا ہے جس کو نمٹانے کے لیے طویل انتظار درپیش ہے۔ حکومتیں انفارمیشن کمشنرز کی بروقت تقرری کرنے میں ناکام رہی ہیں اس کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ رپورٹ میں کئی کمیشنوں میں سستی ڈسپوزل ریٹ اور ان کے کام میں شفافیت کی کمی کے حوالے سے بھی خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔ شفافیت کے نگران اداروں کو زیادہ موثر اور شفاف طریقے سے کام کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک الگ رپورٹ کے مطابق انفارمیشن کمشنر کی ایک چوتھائی پوسٹیں خالی ہیں اور ملک میں صرف 5فیصد یعنی صرف 8 خواتین انفارمیشن کمشنرز ہیں۔ انفارمیشن کمشنروں کے کل 165 عہدوں میں سے 42 خالی ہیں جن میں دو چیف اسٹیٹ انفارمیشن کمشنر بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک 4.2 کروڑ سے زیادہ آر ٹی آئی دائر کیے گئے ہیں اور کمیشن کے سامنے 26 لاکھ دوسری اپیلیں موجود ہیں۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اتر پردیش، مہاراشٹر اور
تمل ناڈو جیسی ریاستوں کو مرکزی حکومت کے سی آئی سی سے زیادہ درخواستیں مل رہی ہیں۔مرکزی حکومت کے 1.19 کروڑ، مہاراشٹرا 86.06 لاکھ، تمل ناڈو 36.99 لاکھ اور کیرالا 32.85 لاکھ آر ٹی آئی حاصل کرنے والے سرفہرست انفارمیشن کمیشن میں شامل ہیں۔اس وقت چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنرز کی 165 میں سے 41 اسامیاں خالی ہیں جبکہ گزشتہ سال 2021 میں یہ تعداد 36 تھی۔جولائی 2021 سے 30 جون 2022 کے درمیان 25 انفارمیشن کمیشنوں کے ذریعہ 2,12,443درخواستیں دی گئیں۔ مغربی بنگال انفارمیشن کمیشن کو تمام زیر التوا کسی معاملے کو نمٹانے میں اندازاً 24 سال اور 3 ماہ لگیں گے۔انفارمیشن کمیشنوں کی طرف سے عائد کردہ سزاؤں کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشنوں نے 95 فیصد ایسے معاملات میں جرمانے عائد نہیں کیے جہاں جرمانے ممکنہ طور پر ناممکن تھے۔آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 25 ہر کمیشن کو پابند کرتی ہے کہ وہ ہر سال اس ایکٹ کی دفعات کے نفاذ کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کرے جسے پارلیمنٹ یا ریاستی مقننہ کے سامنے رکھا جائے۔ 29 میں سے 20 آئی سی (69 فیصد) نے 2020-21 کے لیے اپنی سالانہ رپورٹ شائع نہیں کی ہے۔ایک طرف آرٹی آئی کو غیر موثر کیا جارہا ہے تو دوسری طرف آرٹی آئی سماجی کارکنان پر حملوں کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔2011سے اب تک 100سے زائد آرٹی آئی کارکنان اپنی جانیں گنواچکے ہیں ۔صرف 2018میں 18آرٹی آئی کارکنوں کی موت ہوئی ۔آرٹی آئی کارکنوں کی حفاظت کے لیے مرکزی حکومت 2014 میں نافذ کیے گئے وِسل بلورز پروٹیکشن قانون کو وضع کرنے اور اس عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی ہے۔ظاہر ہے کہ ان حالات میں جہاں آرٹی آئی کی درخواستیں نمٹانے کے لیے درکار عملے نہیں ہے، تقرری میں تاخیر کی جارہی ہے، حکومت مسلسل اس ادارے کی خودمختاری پر حملہ کر رہی ہے۔ ایسے میں یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ آرٹی آئی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کا ایک موثر آلہ بن سکتا ہے۔
مودی دور حکومت میں اگرکوئی ادارہ سب سے زیادہ غیر موثر ہوا ہے وہ لوک پال ہے۔ یو پی اے دور حکومت میں انا ہزارے کی قیادت میں ایک بڑی تحریک برپا کی گئی تھی۔ انا ہزارے کی قیادت میں دھرنوں کو ٹی وی چینلوں پر 24گھنٹے لائیو دیکھایا جاتا تھا۔اسی احتجاج کی کوکھ سے عام آدمی پارٹی معرض وجود میں آئی ۔اس تحریک کے نتیجے میں یوپی اے حکومت نے لوک پال کو قانون کا درجہ دیا ۔اس تحریک کی وجہ سے کانگریس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا اور اس کا فائدہ بی جے پی کو براہ راست پہنچا اور اس کے نتیجے میں 2014میں نریندرمودی وزارت عظمی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔مگر مودی نے اپنے دور اقتدار میں سب سے پہلے 2016میں سرکاری ملازمین اور ان کے بچوں کے اثاثوں اور واجبات کے لازمی عوامی انکشافات میں ترمیم کی۔متعلقہ اہم دفعات کو ترامیم کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ قانون پاس ہونے کے پانچ سال سے زیادہ عرصے تک لوک پال کے چیئرپرسن اور ممبران کی تقرری نہیں کی گئی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد حکومت اور اس کے نمائندوں کی برتری کے ساتھ ایک سلیکشن کمیٹی کے ذریعے جس طرح تقرری کی گئی، اس نے لوک پال کے فعال ہونے سے پہلے ہی اس کی آزادی کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات جنم لے چکے ہیں۔
سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس جیسی اہم ایجنسیاں سیاست کے زیر اثر ہیں لیکن سیاسی دباو کی وجہ سے اس قدر غیر موثر ہوگئی ہیں کہ اگر یہ ایجنسیاں صحیح جانچ بھی کرتی ہیں تو بھی ان کو مودی حکومت کا آلہ کار بتاکر سوالیہ نشان لگادیا جاتا ہے۔دراصل ان ایجنسیوں کو اپوزیشن لیڈروں کے خلاف استعمال بے دریغ طریقے سے استعمال کیا گیا ہے کہ جانچ ایجنسیوں کا اعتبار مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ان ایجنسیوں کے پاس مقدمات کا بوجھ ہے۔ایک معاملے کو حل کرنے میں اس کو دس دس سال لگ جاتے ہیں اس کے باوجود بھی کسی کو سزا نہیں ہوتی ۔یو پی اے دور حکومت میں ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالہ اور کوئلہ گھوٹالہ کے نام پر کس قدر ہنگامہ برپا کیا گیا مگر حاصل کچھ نہیں ہوا۔ان حالات میں یہ سوال اہم ہے کہ ملک میں بد عنوانی کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ ظاہر ہے کہ نظام میں شفافیت، تحقیقات میں غیر جانبداری، جانچ ایجنسیوں کی خودمختاری بحال کرنے کے لیے حکومت کی دخل انداز ی کو کم کرنا ہو گا اور عدالتی نظام کو متحرک کیے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔
***

 

***

 کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج نے واضح کردیا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں ایجنڈے اور بدعنوانی کے سوال پر پوری قوت کے ساتھ انتخاب لڑیں تو عوام آج بھی بدعنوانی کے خلاف ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔کانگریس نے بومئی حکومت کی بدعنوانی کے خلاف زور دار مہم چلائی اور اپنی انتخابی مہم کو بدعنوان، عوامی فلاح وبہبود اور ملک کے سیکولر ازم پر مرکوز رکھا ۔دوسری طرف وزیر اعظم مودی اور بی جے پی نے کرناٹک میں بدعنوانی کے سوال پر خاموشی اختیار کی اور انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ صف بندی (پولرائزیشن) کارنگ دیا اور بجرنگ دل کی غنڈہ گردی کو جے بجرنگ بلی کے نام پر جواز بخشنے کی کوشش کی مگر بدعنوانی ، مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان کرناٹک کےعوام نے بدعنوانی کےسوال کو زیادہ اہمیت دی۔چنانچہ اب کانگریس کے سامنے بھی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں کہ وہ کرناٹک میں جن شعبوں میں بدعنوانی کی نشان دہی کررہی تھی اس کے صفائے کے لیے و ہ کیا اقدام کرے گی؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 مئی تا 27 مئی 2023