اداریہ

کرناٹکا کے انتخابی نتائج کا سبق

کرناٹکا اسمبلی انتخابات کے نتائج نے بھارت کی آئینی قدروں اور جمہوری روایات پر عوام کے اعتماد و یقین میں اضافہ کیا ہے۔ اگرچہ ان انتخابات میں بحیثیت مجموعی بی جے پی کے ووٹوں کے تناسب میں کوئی کمی تو واقع نہیں ہوئی ہے لیکن بیشتر حلقوں میں عوام نے پوری حکمت اور عقل مندی سے رائے دہی کرکے بی جے پی کی نفرت پر مبنی سیاست کو شکست سے دوچار کر دیا اور یہ ثابت کیا کہ منفی قوتیں کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہوں اور اپنے بے انتہا وسائل کا استعمال کرکے عوام کو کتنا ہی گمراہ کرنے کی کوشش کیوں نہ کریں، ایک نہ ایک دن ان کے فریب کا سحر ٹوٹ ہی جاتا ہے، لیکن اس کے لیے مقابل کی قوتوں کو ردعمل کی نفسیات میں مبتلا ہوئے بغیر حکمت عملی کے ساتھ مثبت انداز سے ان کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کانگریس کی اس کامیابی میں یقیناً بہت سارے عوامل نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ پچھلے چار سال کے دوران حکومت کی تمام شعبوں میں ناکامی اور چیف منسٹر و دیگر وزیروں کی حد سے زیادہ بدعنوانیوں کے سبب ریاست اور وہاں کے شہری بے شمار مسائل کا شکار ہوچکے تھے۔ ملک کی ایک ترقی یافتہ ریاست کے عوام کی ایک بڑی اکثریت کنگال اور اپنے روزمرہ کی ضروریات کی تکمیل کے لیے محتاج ہوچکی تھی۔ ان حالات کے سبب عوام حکومت سے سخت نالاں تھے۔ عوام میں پائی جانے والی اس ناراضی کا کانگریس نے انتخابی مہم میں بہت اچھی طرح استعمال کیا۔ اس نے عوام کے حقیقی مسائل کو اپنی انتخابی مہم کا موضوع بنایا۔غریبوں کے لیے ضروریات زندگی کی فراہمی، بے روزگاروں کے لیے روزگار، شہریوں کے لیے صاف ستھرے اور نفرت سے پاک ماحول، فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی برقراری اور ایک پرامن سماج کے قیام کے متعلق کانگریس نے جو وعدے کیے ان پر نہایت ہی معقول انداز سے عوام کو قائل کروایا جس پر عوام نے اعتماد بھی کیا۔
اس کے برخلاف بی جے پی نے ہندو مسلم منافرت کے اپنے اسی ایجنڈے کو استعمال کیا جسے وہ کامیابی کی شاہ کلید خیال کرتی آئی ہے۔ اس کے مقامی و ریاستی قائدین سے لے کر ملک کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز قائدین تک نے اپنی تقریروں کے ذریعے ہندو مسلم منافرت کو ہوا دینے کی بھر پور کوشش کی تاکہ اس کے ذریعے سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ مسلم ریزرویشن، ٹیپو سلطان، ہندو مسلم فسادات وغیرہ پر ان قائدین کے بیانات انتہائی شرم ناک اور افسوس ناک رہے۔ پانی کی طرح روپیہ بہتا رہا، ریاستی ہی نہیں بلکہ مرکزی قائدین نے بھی مذہبی جذبات اور نعروں کی بنیاد پر مہم چلائی جو کہ ضابطہ اخلاق کی صریح خلاف ورزی تھی اور انتخابی کمیشن آنکھیں موند کر دیکھتا رہا۔
دوسری جانب حکمت عملی کے ساتھ کرناٹکا کا مسلمان سنگھ اور بی جے پی کے اکسانے والے ان کے تمام زہریلے تیروں کو برداشت کرتے ہوئے خاموش رہا، نہ کوئی ردعمل، نہ سڑک پر کوئی جلوس اور نہ کوئی احتجاج، سوائے اُڈپی کی حجاب والی لڑکیوں کے۔ کرناٹکا میں مسلمانوں نے اپنی سیاسی سمجھ بوجھ کا، جمہوری ہتھیار کے طور پر نہایت خاموشی کے ساتھ کامیاب استعمال کیا۔
ان انتخابات کی ایک اور خاص بات یہ رہی کہ کانگریس نے نرم ہندوتوا کی اپنی قدیم روش کے برعکس ہندوتوا اور ہندو فرقہ پرستی کے خلاف کھل کر موقف اختیار کیا۔
کرناٹک کے ان انتخابات میں نفرت کی سیاست کو شکست دینے کے لیے ریاست کی سیول سوسائٹی، ہندووں و مسلمانوں کی مختلف تنظیموں اور اداروں نے مل جل کر اور پورے اتحاد کے ساتھ جس طرح کام کیا وہ دیگر ریاستوں کے لیے بھی مثال ہے۔ ہندووں اور مسلمانوں کو ردعمل اور ہندو مسلم تقسیم سے محفوظ رکھنے کے لیے  مختلف سرگرمیاں انجام دی گئیں۔ خود مسلمانوں نے بھی صرف اپنے مسائل پر توجہ مرکوز نہیں رکھی بلکہ کہا کہ ریاست میں بلا لحاظ مذہب و ملت کسان و مزدور اور دلت طبقات سبھی پریشان حال ہیں اور ہمیں ان کی بھی آواز بننا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں اور ہندووں دونوں نے ہی ان سرگرمیوں کو فرقہ ورانہ بنیادوں پر نہیں بلکہ انسانی مسائل کی بنیاد پر انجام دیا۔ ان کوششوں کے ذریعے انہوں نے بی جے پی کے اس نفرتی بیانیے کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی جس میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔
یقیناً ان انتخابات میں نفرت پھیلانے والوں اور اس بنیاد پر اپنی سیاست کی دکان چمکانے والوں کو شکست تو ضرور ہوئی ہے لیکن یہ کامیابی محض شروعات ہے۔ اصل کام کا آغاز تو اب ہوگا اور یہ کام عوام، سیول سوسائٹی اور کانگریسی حکومت سب کو مل کر کرنا ہوگا۔ کانگریس کے لیے یہ ایک چیلنج ہوگا کہ وہ انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔ نفرت کے پجاریوں نے سماج میں جس طرح نفرت کا زہر بھر دیا اور سماج کو بانٹ دیا ہے اس کو دوبارہ اپنی اصل کی طرف لانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے ابتدا میں کہا کہ ان انتخابات میں بی جے پی ووٹوں کے تناسب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی جو کہ باعث تشویش ہے اور غور وفکر کی متقاضی بھی ۔ایک جانب حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ ہندووں و مسلمانوں کے درمیان موجود خلیج کم سے کم ہوسکے اور دوسری جانب ہندووں اور مسلمانوں کے باشعور و سنجیدہ شہریوں کو بھی اس امر کی مسلسل کوشش کرنی چاہیے کہ جو خرابیاں گزشتہ دنوں کے دوران ہوچکی ہے ان کی اصلاح ہو اور ریاست دوبارہ ایک پر امن اور ہندو مسلم بھائی چارے کی مثال بنے۔
امت مسلمہ کے افراد کو بھی  اب ایک بڑا کام کرنا ہے، "عوامی دباؤ اور مشاورتی گروپس” بنا کر ہمیں اگلے سالوں میں ملک و قوم کے وقار کے لیے کام کرنے کا عزم کرنا ہوگا۔ تاکہ کوئی بھی حکومت جانے انجانے ہمارے جائز مطالبات اور ضروریات کو نظر انداز نہ کرے۔