موسموں کی بے اعتدالی جینے نہیں دے گی

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی حدت سے معیشت بھی متاثر

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

درخت اگانے، تالاب بنانے اور محنت کش طبقے کو موسموں کی مار سے بچانے کی ضرورت
ہمارے ملک کے شعبہ موسمیات (IMI) نے امسال درجہ حرات میں شدت سے اضافہ کی پیشن گوئی کی تھی جو اب درست ثابت ہو رہی ہے۔ شمالی بھارت کے ساتھ مغربی بھارت میں بھی درجہ حرات میں تیزی سے اضافہ درج کیا گیا ہے۔ کئی سالوں سے موسم کے بگڑتے مزاج میں کافی شدت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ 2050 تک گرمی کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ کا امکان ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ اور امسال مارچ میں گرمی ناقابل برداشت رہی۔ کولکاتا میں ہفتہ بھر درجہ حرارت معمول کے درجہ حرارت سے 5 ڈگری زیادہ یعنی 42 ڈگری تھا۔ یہ درجہ حرارت راجستھان کے سب سے گرم علاقہ جیسلمیر کے برابر تھا۔ ملک کے دوسرے خطوں میں بڑھتی گرمی سے زراعت متاثر ہوئی۔ زیر زمین آبی ذخائر پر دباو بڑھتا جارہا ہے۔ پانی زیر زمین مزید نیچے کی طرف کھسکتا جارہا ہے۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ 2000 تا 2004 اور 2017 تا 2021 کے درمیان گرمی کی شدت سے ہونے والے اموات میں 55 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اکثر مقامات پر مزدوروں کو ایسے ہی حالات میں کام کرنا ہوتا ہے جہاں گرمی سے بچاو کے کم ہی مواقع ملتے ہیں۔ اس سے کام کرنے والے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور اس سے معیشت پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2021 میں گرمی کی شدت سے 167.2 ارب گھنٹے کام کے اوقات کا نقصان ہوا جس سے جی ڈی پی میں 5.4 فیصد کا خسارہ درج کیا گیا۔ اس کے علاوہ موسمی تبدیلی نے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر دیا ہے۔ پانی کی قلت میں بھی اضافہ ہوا جس کی وجہ سے زراعت کو نقصان پہنچا۔ اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ گرمی کی شدت اور لو کی حدت کو کم کرنے کے مسئلہ پر تحقیق کرکے حل نکالا جائے۔ دنیا بھر میں گرمی کی شدت سے قدرتی آفات کا سلسلہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ ماہرین موسمیات کا ماننا ہے کہ 2050 تک ملک کی 14 ریاستوں میں قدرتی آفات میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ اس لیے اس مسئلہ کے حل کے لیے جنگی پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو قدرتی آفات سے محفوظ رکھا جا سکے کیونکہ صنعتی انقلاب کے بعد سے ہوا کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ جبکہ قدرتی تغیر پذیری بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اصلاً حدت کو جذب کرنے والی گرین ہاوس گیسوں کی پیدائش ہمارے پلانیٹ کو گرم کرنے کی زیادہ ذمہ دار ہے۔ گرین ہاوس گیسوں کے ذریعہ گرمی کی شدت میں اضافہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور شہروں کی بڑھتی درجہ حرارت میں زیادہ ہی حصہ داری ہے۔ قدرت سے چھیڑ چھاڑ نے ہمیں اس حال میں پہنچایا ہے مثلاً ترقی کے نام پر بننے والی اونچی عمارتوں کے جنگل، شہر سے ہزاروں درختوں کی کٹائی اور ہزاروں تالابوں کی بھرائی نے ہمیں اس حال میں پہنچا دیا ہے۔ ’’لوگوں نے اپنی ہاتھ کی کمائی سے خشکی اور تری میں فساد برپا کر دیا ہے‘‘ (القرآن) تالاب اور درخت حرارت کو جذب کرتے ہیں۔ حرارت جو کل بائیو ڈائیورسٹی کو متاثر کرتی ہے، درخت اور تالاب ہی اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔
زمین درجہ حرارت میں اضافہ سے تپ رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے چیلنجز نے انسانوں کے سامنے بڑی مصیبت کھڑی کر دی ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہمارا ملک جس طرح کوشش کر رہا ہے اس سے دیگر ملکوں کو سمت ملے گی اور تحریک بھی۔ تحفظ آب و ہوا، ماحولیاتی آلودگی کا نظم اور زراعت میں اختراعیت (innovation) کے ساتھ کئی شعبوں میں بہت سارے پروگراموں کی شروعات کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں بھارتی شعبہ موسمیات نے ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے سبھی ریاستوں کے لیے گرمی کے موسمی خطرات کے متعلق ایک سالانہ اندازہ پیش کرنے کا پروگرام بنانا ہے۔ یہ اندازہ ہر سال مارچ تا جون کے درمیان پیش کیے جانے کا امکان ہے کیونکہ انہیں مہینوں میں ملک کے کئی حصوں میں درجہ حرارت میں شدید اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے لو اور شدید تپش کا نظم بہت ضروری ہوگیا ہے تاکہ عوام کو اس سے بچانے کے ساتھ ساتھ زراعت اور معاشی سرگرمیوں پر پڑنے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ گرمی کے اس تجزیہ میں کم از کم درجہ حرارت، ہوا کی رفتار، رطوبت (Humidity) لو کی حدت جیسے عوامل پر غور کیا جائے گا۔ یہ تجزیہ سبھی ریاستوں کے لیے ہوگا تاکہ اس کا حل نکالنے میں سہولت ہو اور گرمی کی شدت بھی کتنی ہے۔ چند حقائق کی بنیاد پر اس کا بھی اندازہ لگایا جاسکے گا۔ حالیہ دنوں میں ایک عالمی رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بھارت کے 14 ریاستوں اتر پردیش، بہار، آسام، راجستھان، مہاراشٹر، گجرات، تمل ناڈو، کیرالا، مدھیہ پردیش، پنجاب، ہریانہ، مغربی بنگال، کرناٹک اور آندھراپردیش میں پچیس سالوں میں قدرتی آفات کے مصائب زیادہ ہی رونما ہونے کا اندیشہ ہے جیسا کہ اوپر عرض کیاگیا ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے 2021 تک مرنے والوں کی تعداد میں 55 فیصد کا اضافہ انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ زیادہ تر محنت کش طبقہ کے لوگ کسمپرسی کی حالت میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں وہاں شدید گرمی سے بچنے کے کم ہی وسائل ہوتے ہیں۔ ان حالات میں صحت کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی زبردست نقصان ہوتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ 2050 تک شدید گرم دن اور گرم رات کی شمار میں 2 تا 4 گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ملک میں 1901 سے 2018 کے درمیان اوسطاً 0.7 فیصد درجہ حرارت میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اگرچہ ہمارے ملک میں محکمہ موسمیات کی طرف سے موسمیات کا مطالعہ ایک عرصہ سے جاری ہے مگر ریاستی پیمانے پر تجزیہ سے مسئلے کا حل نکلے گا اور لوگوں کو کسی حد تک راحت ملے گی۔
گزشتہ سال مارچ تا مئی کے درمیان 35 کروڑ شہریوں کو غیر یقینی اور ناقابل برداشت گرمی کی شدت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جس میں 25.4 کروڑ لوگ تو مسلسل 12 دنوں تک اس جھلسا دینے والی لو کے زیر اثر رہے۔ 2021 کے بعد سے ہی 2050 تک توقع ہے کہ ملک کے 100 اضلاع میں دو تا ساڑھے تین ڈگری اور 1460 اضلاع میں ڈیڑھ تا دو ڈگری سلسیس درجہ حرارت بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موسموں میں توازن تیزی سے بگڑ رہا ہے۔ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ امسال اپریل میں کولکاتہ میں 13 اپریل سے لے کر 20 اپریل تک غیر متوقع اور کمترین درجہ حرارت 20.7 درج کیا گیا۔ ایسے حالات میں معیشت کا 40 فیصد اور اس سے منسلک ورک فورس کے 75 فیصد کو شدید گرمی میں مجبوراً کام کرنا ہوگا کیونکہ انڈین میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے مطابق شہری درجہ حرارت میں بے تحاشہ اضافہ باعث تشویش ہے۔ ہمارے شہر
شہری حدت کے جزیرائی اثر (Urban heat Island effect) سے گھرے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے درجہ حرارت دیہی علاقوں کے مقابلے میں 4 تا 10 ڈگری زیادہ رہی ہے۔ گرمی میں رطوبت میں زیادتی سے درجہ حرارت میں مزید شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا اثر شمالی بھارت میں حالیہ دنوں میں زیادہ دیکھنے کو ملا ہے کیونکہ موسم سرما کے معاً بعد فروری و مارچ میں گرمی کی شدت ظاہر ہو رہی ہے۔ اس سے موسم سرما کا وقفہ کم ہو رہا ہے۔ اور شدید درجہ حرارت کی وجہ سے پودوں کے نشو و نما پر بھی اثر پڑنا لازمی ہے۔ مثلاً ہمارے ملک میں زیرہ کی کاشت راجستھان اور گجرات میں ہوتی ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے تباہ ہو گئی۔ اس طرح کا اثر سرسوں، ارنڈی اور اسپغول کی زراعت میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ موسم برسات نے بھی اپنا مزاج بدل لیا ہے۔ دو صدی قبل ملک میں اوسطاً سالانہ 40 انچ بارش ہوئی تھی اور وہ اب 11 انچ پر آگئی ہے۔ اس لیے دیہی اور شہری علاقوں میں ہر شہری کے لیے اس کے قرب و جوار میں کم از کم سات درختوں کو لگانا ضروری ہے۔ نیز حکومت کو مزدوروں کے مفاد کے مد نظر ایسی شدید گرمی میں سایہ اور آرام مہیا کرانا ہوگا اور پانی کا اچھا انتظام بھی تاکہ مزدور اپنے اندرون کو پانی کی مناسب مقدار سے تر رکھ سکیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 مئی تا 27 مئی 2023