مولانا حسرت موہانی: مجاہد آزادی اور اردو کے مقبول شاعر

سودیشی تحریک کی رہبری کرنے والے اولین مسلم لیڈر جنہوں نے مسلمانوں کو دلیرانہ سیاست کا سبق پڑھایا

13 مئی 1951ء کو عظیم مجاہد آزادی اور رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانیؒ نے داعی اجل کو لبیک کہا، اسی مناسبت سے
علامہ سید سلیمان ندویؒ کا معارف اعظم گڑھ کے لیے تحریر کردہ ایک طویل مضمون کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
واحسرتا!
سید فضل الحسن حسرت موہانی انائو کے مردم خیز قصبہ موہان میں نیشاپوری سادات کے خاندان میں 1297ھ میں پیدا ہوئے، قرآن پاک اور فارسی کی ابتدائی تعلیم موہان ہی میں حاصل کی، اس کے بعد اردو مڈل اسکول میں داخل ہوئے اور اس امتحان میں تمام صوبہ میں ممتاز رہ کر سرکاری وظیفہ حاصل کیا، اور مزید تعلیم کے لیے فتح پور ہنسوہ جاکر گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخل ہوئے اور انٹرنس کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کرکے وظیفہ حاصل کیا۔
فتح پور ہنسوہ کی آب و ہوا حسرت کی ادبی و ذہنی و دینی تعلیم کے لیے بہت راس آئی، یہاں مولانا سید ظہور الاسلام صاحب ایک نہایت متقی و پرہیزگار اور باصفات بزرگ تھے، حضرت قطب الوقت مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی کے مرید و خلیفہ تھے۔ ندوۃ العلماء کے ارکان خاص میں تھے، اس لیے خاکسار کو بار بار ان کی زیارت کا موقع ملتا رہا، بلکہ میرے بچپن میں وہ مولانا محمد علی صاحب مونگیری کے ساتھ خاکسار کے وطن دسنہ ضلع پٹنہ تشریف لائے تھے تو پہلے پہل وہیں ان کی زیارت ہوئی تھی۔ حسرت مرحوم کو انہی پاک مشرب و پاک نہاد اور پاکباز بزرگ کی صحبت حاصل ہوئی، ان کے علاوہ مولانا نور محمد اور مولانا حبیب الدین صاحب جیسے بزرگوں کا فیض بھی نصیب ہوا۔ بچپن ہی میں وہ قادری سلسلہ میں مولانا شاہ عبدالوہاب صاحب فرنگی محلی پدر بزرگوار مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی یعنی جد بزرگوار مولانا جمال میاں صاحب فرنگی محلی کے مرید ہوچکے تھے اور اسی سلسلہ سے سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے ان کو عقیدت خاص تھی، اور بزرگان فرنگی محل سے بھی ان کو نسبت حاصل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہزاروں انقلابات کے باوجود حسرت اپنی مذہبی زندگی اور صوفیانہ مشرب میں ہمیشہ غیر متزلزل رہے۔
مرحوم نے 1903ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور مذاق زمانہ کے خلاف کسی اعلیٰ ملازمت کے بجائے علم و فن اور شعر و سخن کی خدمت کا تہیہ کیا اور اردوئے معلی کے نام سے ایک بلند پایہ ادبی رسالہ علی گڑھ سے جاری کیا۔ اس سے دو تین سال پہلے مخزن لاہور سے نکل چکا تھا، اردوئے معلی نوجوان جدید تعلیم یافتہ گروہ کی ادبی خدمات کا دوسرا قدم تھا، مگر مرحوم کی طبیعت میں جو تضاد تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اردوئے معلی کے صحن میں شعر و سخن کے چمنستان کے ساتھ سیاست کا خارستان بھی نظر آیا، چنانچہ اس زمانہ میں جب مسلمان سیاسیات سے جھجکتے تھے، علی گڑھ کا یہ نوجوان بے باک گریجویٹ کانگریس میں شامل ہوگیا اور 1904ء میں بمبئی کے اجلاس کانگریس میں ڈیلیگٹ کی حیثیت سے شریک ہوا اور سورت کانگریس تک یہ برابر شریک رہے۔ سورت کانگریس کے اختلاف کے بعد یہ تلک کی رہبری میں کانگریس سے الگ ہوگئے۔
اردوئے معلی میں شعر و سخن کے پھول اور سیاسیات کے کانٹے ایک ساتھ ناظرین کے سامنے پیش ہوتے رہے اور لوگ حسب مذاق اس دو رنگی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس زمانہ کے اردوئے معلی میں ان کے اور دوسرے اصحاب ذوق کے خوب خوب ادبی مضامین نکلے۔ اس وقت کی ایک دلچسپ ادبی بحث یاد ہے۔ اقبال کی شہرت کا آغاز تھا، انہوں نے کسی نظم میں ’’ان سے کہا‘‘، ’’اور ان کو کہا‘‘ کے موقع استعمال میں غلطی کی تھی، حسرت نے اس پر ان کو ٹوکا اور ان دونوں محاوروں کے فرق استعمال کو سمجھایا۔
پانچ برس تک اردوئے معلی نکلتا رہا، 1908ء میں اس میں ایک بے نام صاحب قلم کا ایک مضمون مصر کے نامور لیڈر مصطفیٰ کامل کی موت پر شائع ہوا، جس میں مصر میں انگریزوں کی پالیسی پر بے لاگ تنقید تھی، یہ مضمون سرکار کی نظر میں قابل اعتراض ٹھہرا اور یہ علی گڑھ کی سلطنت میں بغاوت کا پہلا جرم تھا، نتیجہ یہ ہوا علی گڑھ کالج کی حرمت کو بچانے کے لیے کالج کے بڑے بڑے ذمہ داروں نے حسرت کے خلاف گواہی دی، یہاں تک کہ نواب وقار الملک نے بھی ایک دو فقروں میں مضمون مذکور کی مذمت ہی کی، پاداش میں حسرت مرحوم کو دو برس کی قید سخت کی سزا ہوئی، ان کا کتب خانہ اور پریس پولیس کے ظلم و ستم کے نذر ہوگیا، اس کتب خانہ میں شعراء کے تذکرے اور دواوین کے بڑے نادر نسخے تھے۔
یہاں حسرت کے ایک کیرکٹر کا ذکر کرنا ہے۔ مضمون حسرت کا نہ تھا مگر مقدمہ قائم ہونے پر حسرت نے اس کو خود اوڑھ لیا اور باوجود اصرار کے اس کے لکھنے والے کا نام نہیں بتایا، جہاں تک کان میں پڑی ہوئی بات اس وقت یاد آتی ہے، خیال آتا ہے کہ یہ مضمون اعظم گڑھ کے مشہور شاعر وکیل اقبال سہیل کا تھا، جو انہی کی طرح شعر و سخن اور سیاسی مذاق کا اتحاد رکھتے تھے۔
حسرت مرحوم سے میری ملاقات قید سے چھوٹنے کے بعد 1910ء میں ہوئی، اور وہ اس طرح کہ میں دارالعلوم ندوہ سے فارغ ہوکر ’’الندوہ‘‘ کا سب اڈیٹر اور مدرسہ میں مدرس تھا۔ مدرسہ کے قریب ہی گولہ گنج میں نواب مرشدآباد کے مکان کے ایک کمرہ میں رہتا تھا۔ یہ وہی مکان ہے جس میں اب اخبار حق کا دفتر ہے۔ میں اپنی کوٹھری میں تھا کہ ایک صاحب نے آکر اطلاع دی کہ باہر ایک صاحب کھڑے ہوئے تم کو بلاتے ہیں۔ باہر نکلا تو حسرت تھے۔ میں نے کہا کہ آپ نے تکلیف کیوں کی، اندر کیوں نہیں چلے آئے۔ اس زمانہ کی سیاسی حالت کی پستی کا اندازہ کیجیے، حسرت نے جواب دیا کہ چونکہ لوگ مجھ سے ملتے ہوئے گھبراتے ہیں، اس لیے میں نے احتیاط کی راہ سے مطلع کردیا۔ میں حسرت صاحب کو اپنے کلبہ احزاں میں لایا، اوپر چھت پر جو کمرہ تھا اس میں بستی اور گورکھپور کے کچھ احباب تھے جو کرسچین کالج میں پڑھتے تھے، آرام کے خیال سے رات کو سونے کے لئے وہاں ان کے لیے انتظام ہوا۔ ہاں یہ بتا دینا چاہیے کہ اس وقت سیاست میں سودیشی تحریک کا آغاز ہوچکا تھا۔ یہ سردی کا زمانہ تھا، میزبانوں نے ان کے پائتانہ کمبل رکھ دیا تھا، وہ کمبل ولایتی تھا، حسرت نے رات سردی میں اسی طرح کاٹ دی مگر وہ کمبل نہیں اوڑھا۔
مسلمان 1906ء تک ہندوستان کی سیاست سے بالکل الگ تھلگ تھے۔ ایک مدراس کے سید محمد کا نام کانگریس میں کبھی کبھی سنائی دیتا تھا یا بمبئی کے جسٹس حبیب جی کا خیال کبھی کبھی ظاہر ہوتا تھا۔ مولانا شبلی مرحوم خیال کی حد تک کانگریس کے ساتھ تھے، مگر بہادر نوجوان حسرت پہلا شخص ہے جس نے علی گڑھ کی پالیسی کے برخلاف جہاد کا علم بلند کیا اور اردوئے معلی ادب کے ساتھ ساتھ سیاست کا صحیفہ بھی بنتا گیا۔ اسی زمانہ میں دو عالموں کے مضامین کانگریس کی حمایت میں اردوئے معلی میں چھپے تھے، جن میں مسلمانوں کو سیاست کی دلیرانہ تعلیم دی گئی ہے، ان میں ایک مضمون تو حیدرآباد دکن کے ملا عبدالقیوم صاحب کا تھا، جو دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن کے بانیوں میں سے ایک تھے اور دوسرا ایک بھوپالی عالم مولوی برکت ﷲ صاحب مرحوم کا تھا، جو پہلی جنگ عظیم سے بہت پہلے ہندوستان چھوڑ کر یورپ چلے گئے تھے اور اخیر وقت تک اسلام کی بین الاقوامی سیاست پر مضامین لکھا کرتے تھے اور ہندوستان کے دوسرے آزادی خواہ ہندوستانی نوجوانوں کی یورپ میں رہبری کرتے تھے، 1926ء تک وہ زندہ تھے اور سوئزرلینڈ میں قیام تھا اور خلافت کے احیاء کے لیے کوشاں تھے، وہیں انتقال بھی کیا، مسئلہ خلافت پر انگریزی میں ایک کتاب لکھی تھی، جو کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔قید سے چھوٹنے کے بعد حسرت کے دوستوں نے بہت کوشش کی کہ وہ اس سیاست سے باز آجائیں لیکن انہوں نے اس مخلصانہ نصیحت پر کان نہیں رکھا، دوستوں نے ساتھ چھوڑ دیا، اردوئے معلی کے قدر دانوں نے خریداری ترک کردی، لوگوں نے ملنے جلنے تک سے احتراز شروع کردیا، مگر
؎ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
حسرت اپنے عقیدہ میں اور پختہ ہوتے چلے گئے اور شروع سے جو اصول قائم کیا تھا اس میں سرمو فرق آنے نہ دیا۔
بوڑھوں میں صرف ایک مولانا شبلی مرحوم تھے، جنہوں نے ابتدا میں ہی حسرت کی تائید کی اور 1904ء میں اردوے معلی کا پہلا سیاسی مضمون پڑھ کر داد دی تھی، اور لکھا تھا:
اینکہ گفتی حکایت سحر است روز روشن ہنوز درقدر است
حسرت مسلمانوں میں سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے سودیشی تحریک کی رہبری کی، حسرت ہمیشہ کے غریب تھے، اور یہ غربت ان معنوں میں ان کی اختیاری تھی کہ کالج کے دوسرے تعلیم یافتوں کی طرح انہوں نے سرکاری نوکری کی راہ اختیار نہیں کی اور اس امارت اور تعیش کی زندگی پر افلاس اور عسرت کی زندگی کو ترجیح دی۔ انہوں نے چند آنے گز سے زیادہ کپڑا نہیں پہنا اور ولایتی کپڑے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اب انہوں نے سودیشی تحریک میں عملاً حصہ اس طرح لیا کہ سودیشی اسٹور کے نام سے سودیشی کپڑوں کی دکان قائم کی، اور چاہا کہ ملک میں اس کی شاخیں جابجا قائم کی جائیں، ان کے اس کام میں نواب وقارالملک جو خود بھی اس سادگی پر عامل تھے اور مولانا شبلی مرحوم نے ان کی مدد کی، ان دونوں کی سفارش پر سر فاضل بھائی کریم بھائی سے ملے اور مولانا کی سفارش سے سر فاضل بھائی سے قرض کپڑا خریدا اور اسٹور قائم کردیا۔ ان کی تجارتی سرگرمی کو دیکھ کر مولانا شبلی مرحوم نے ان سے کہا تھا کہ تم آدمی ہو یا جن پہلے شاعر تھے، پھر پالیٹیشن بنے، اور اب بنیے ہوگئے۔ ان کی یہ دکان چل نکلی تھی کہ پے درپے سیاسیات کے انقلابات نے ان کو کبھی بنیا بن کر اطمینان سے بیٹھنے نہیں دیا، اس لیے وہ نفع سے زیادہ خسارہ ہی اٹھاتے رہے۔
اسی زمانہ میں مسلمانوں میں کسی سیاسی تنظیم قائم کرنے کا خیال ایک بوڑھے اور ایک پختہ کار جوان کے ذہن میں آیا، یہ بوڑھے نواب وقارالملک اور پختہ کار جوان مظہرالحق صاحب بیرسٹر پٹنہ تھے۔ مظہرالحق صاحب نے مجھ سے فرمایا تھا کہ انہیں کی کوٹھی تھی، جس میں سب سے پہلے انہوں نے اور نواب وقارالملک مرحوم نے مل کر مسلم
لیگ کا قالب کھڑا کیا اور شہر ڈھاکہ اس لحاظ سے مبارکباد کے قابل ہے، جہاں خواجہ سر سلیم ﷲ صاحب مرحوم کی دعوت پر 1906ء میں مسلم لیگ کا پہلا اجتماع ہوا، اس کے بعد تاریخ کے ورق جلد جلد اٹھنے لگے۔ اس وقت ہندوستان کی سیاست میں بنگال اور پونہ سب سے آگے تھے ان کے مقابلہ کے لیے انگریز ہی تھے جو پس پردہ مسلمان کو سیاست کے اسٹیج پر لائے، مگر لحاظ کے قابل یہ ہے کہ جس راہ کو برادران وطن نے پچیس برس میں طے کیا تھا، مسلمانوں نے اس کو صرف چھ برس میں طے کرلیا، اس کے لیے سازگار حالات بھی پیش آئے جن میں سیاسی جراثیم کو اپنے نشوونما کے لیے مناسب آب و ہوا اور فضا ہاتھ آئی۔
۱۔ سب سے پہلی چیز جس نے مسلمانوں میں سیاسی انقلاب کی لہر دوڑائی، وہ 1910ء میں تقسیم بنگال کی منسوخی تھی، بنگالیوں کی سیاست کا زور توڑنے کے لیے لارڈ کرزن نے یہ مناسب سمجھا کہ بنگال کو مشرقی و مغربی بنگال میں تقسیم کردیا جائے، اس تقسیم سے مشرقی بنگال میں مسلمانوں کو ایسی اکثریت حاصل ہوگئی کہ وہ دفعہ ہندو بنگالیوں کے سیاسی غلبہ کی دستبرد سے باہر نکل آئے اور اس لیے مسلمانوں نے اس کا بہت خوشی سے خیر مقدم کیا، لیکن ہندو بنگالیوں نے اس کے برخلاف نہایت شدت اور زور و قوت سے تمام ملک میں تحریک اٹھائی، اور علانیہ باغیانہ مضامین لکھے اور باغیانہ تقریریں کی جانے لگیں، بلکہ آربندو گھوش کی پارٹی نے بم کے گولے بھی اڑائے، مدت تک انگریز اس کو طے شدہ مسئلہ کہہ کر اپنی ہمت کا اظہار کرتے رہے بالآخر ان کی طاقت صبر نے جواب دے دیا اور 1910ء میں بنگال کی تقسیم کو منسوخ کرکے دونوں بنگالوں کو پھر ایک کردیا۔ان کی اس پالیسی سے جو بنگالی ہندووں کو رام کرنے کی خاطر کی گئی تھی، مسلمانوں میں بڑی برہمی پیدا ہوگئی اور بقول مولانا شبلی مرحوم سب سے پہلا بہادرانہ مضمون جس نے مسلمانوں کی سیاسی کروٹ بدل دی، وہ نواب وقارالملک مرحوم کا باوقار اور سنجیدہ مضمون تھا اور اس کے بعد 1912ء میں مولانا شبلی مرحوم کا وہ انقلاب انگیز سلسلہ مضمون تھا، جو ’’مسلمانوں کی پولٹیکل کروٹ‘‘ کے نام سے ’’مسلم گزٹ‘‘ لکھنو میں چھپا، ان مضامین نے مسلمانوں کی سیاسی ہوا کا رخ بدل دیا۔
۲۔ ابھی یہ بادل تھمنے بھی نہ پایا تھا کہ یورپ سے ایک نیا سیلاب اٹھا، یعنی 1908ء میں نوجوان ترکوں نے دور ترقی کے نام سے جو انقلاب برپا کیا، اسی وقت اٹلی نے موقع پاکر 1910ء میں ترکی کے برخلاف طرابلس الغرب پر دفعہ حملہ کردیا۔ اس واقعہ نے مسلمانان ہند کو اس درجہ مشتعل کردیا کہ ہندوستان کے اِس سرے سے اُس سرے تک آگ سی لگ گئی اور یہ آگ سالہا سال تک قائم رہی۔
۳۔ ابھی سیلاب میں کمی بھی نہیں آنے پائی تھی کہ 1912ء میں بلقانی ریاستوں نے مل کر ترکی کے یورپین علاقوں پر حملہ کردیا، جو جنگ بلقان کے نام سے مشہور ہے، اس نے اور بھی مسلمانوں میں اشتعال پر اشتعال پیدا کیا۔
۴۔ ابھی یہ آگ لگی ہی ہوئی تھی کہ 1913ء میں کانپور میں ایک مسجد کے انہدام کا واقعہ پیش آیا، جس نے لگی ہوئی آگ میں تیل کا کام کیا، اور پورے ملک میں اس سے آگ سی لگ گئی۔
۵۔ یہی زمانہ تھا، جس میں آغا خان کی سرپرستی میں مسلم یونیورسٹی کی تحریک ہندوستان میں کھڑی ہوئی اور مسلمان اس کی طرف متوجہ ہوئے لیکن چند ہی روز کے بعد یہ سامان سکینت ایک نئے اضطراب کا پیش خیمہ بن گیا یعنی یہ یونیورسٹی کن اختیارات اور شرائط کے ساتھ لی جائے، اس بحث نے مسلمانوں میں نرم و گرم دو فریق پیدا کردیے، اور یہی وہ وقت ہے کہ جب مسلمانوں میں احرار نے جنم لیا، جن کے رہبروں اور رہنماوں میں محمد علی مرحوم، شوکت علی مرحوم، مولانا ابوالکلام، ظفر علی خان اور حسرت موہانی تھے، اور یہیں سے حسرت موہانی کو سید الاحرار کہا جانے لگا اور وہ مسلم لیگ جو ابھی چھ برس پہلے بنی تھی، پرجوش نوجوانوں اور مصلحت اندیش بوڑھوں دو حصوں میں منقسم ہوگئی اور یہ تفریق روز بروز بڑھتی گئی۔
مسلم لیگ میں بھی یہ تفریق روز بروز نمایاں ہورہی تھی، آغا خان کے بعد راجہ محمد علی محمد خان محمود آباد کا زور بڑھ رہا تھا، مسجد کانپور کے ہنگامہ میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی شخصیت سب سے پہلی دفعہ نمایاں ہوئی اور سید علی امام وغیرہ کی کوشش سے اس کا اختتام مصالحت پر ہوا، حسرت آغا خان کی لیگ میں شریک نہیں تھے، مگر جیسے جیسے لیگ میں آزادی بڑھتی گئی وہ اس کے قریب آتے گئے اور اب مسلم لیگ میں داخل تھے۔
مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ آگرہ 1914ء میں جو مسجد کانپور کے ہنگامہ کی مصالحت کے بعد ہی ہوا تھا، حسرت شریک تھے (اور میں بھی اس اجلاس میں شریک تھا) سردیوں کا زمانہ تھا، شب کے جلسہ میں مصلحت پسندوں نے لارڈ ہارڈنگ کے شکریے کا ریزولیوشن پیش کیا، یہ وہ موقع تھا جب ان مصلحت پسندوں کے ساتھ بہت سے احراری بھی اس کی تائید میں تھے، ایسے نازک موقع پر صرف دو نوجوان اس کی مخالفت میں تھے، ایک حسرت موہانی اور دوسرے مولوی عبدالودود بریلوی مرحوم۔
تحریک خلافت کے آغاز میں امرتسر کے اجلاس کانگریس دسمبر 1919ء سے واپسی کے بعد گاندھی جی کے مشورے سے یہ ضروری سمجھا گیا کہ کام شروع کرنے سے پہلے مسلمان رہنماوں کا ایک دفد وائسرائے سے دہلی میں ملاقات کرکے اپنے مطالبات پیش کرے، وائسرائے نے ڈیپورٹیشن سے ملنا منظور کیا، اس ڈیپوٹیشن میں نرم و گرم ہر قسم کے لیڈر موجود تھے، حکیم صاحب ڈاکٹر انصاری، محمد علی، شوکت علی وغیرہ سب ہی تھے، خاکسار بھی شریک تھا، اخیر اخیر وقت تک بعض جاہ پسند لوگ اس میں شرکت کے لیے کوشاں تھے اور محرومی سے مایوس نہیں ہوئے تھے لیکن دو مسلمان رہنماوں کی شان اس میں نرالی رہی، ایک مولانا ابوالکلام آزاد جو مشوروں میں شریک تھے، جلسوں میں شریک تھے، مگر اس ڈیپوٹیشن میں شرکت منظور نہیں کی، حکیم صاحب وغیرہ نے ہرچندا اصرار کیا مگر ان کا انکار ہر اصرار پر غالب رہا، مگر اس سے زیادہ نرالی شان حسرت موہانی کی رہی، مولانا ابوالکلام والے طریق سے اپنی ذات کی بڑائی کا اظہار نمایاں ہوتا تھا، مگر حسرت نے یہ کیا کہ ایک طرف تو خاموشی کے ساتھ ڈیپوٹیشن میں شرکت کی اور وائسرے ایگل لاج میں ڈیپوٹیشن کے ممبروں کے ساتھ موجود تھے لیکن عرض و معروض و جواب کے بعد جب وائسرائے سے ہاتھ ملانے کا اعزازی لمحہ آیا تو میں نے دیکھا کہ حسرت چپکے سے اٹھ کر بے ہاتھ ملائے کتراکر اس طرح نکل گئے کہ کسی نے دیکھا بھی نہیں۔ اس کے بعد ترک موالات کی تحریک اٹھی، 1920ء کے دسمبر میں ناگپور میں کانگریس کا اجلاس تھا، یہی وہ اجلاس ہے جس میں کانگریس نے ترک موالات کی تحریک منظور کی، اس میں حسرت مرحوم اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ موجود تھے۔
اب 1921ء کا سال آیا جب گاندھی جی کانگریس پر چھائے تھے اور ادھر خلافت کے لیڈر محمد علی، شوکت علی، ڈاکٹر انصاری، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر کچلو، ظفر علی خان، تصدق شروانی، ڈاکٹر محمود، مولانا ابوالکلام، حسرت موہانی وغیرہ تھے، ترک مولات کا زور تھا، اخیر دسمبر 1920ء گاندھی جی نے ہندوستان کے سوراج ملنے کی آخری تاریخ مقرر کی تھی، احمدآباد میں کانگریس کا یہ تاریخی جلسہ تھا، محمد علی، شوکت علی، ابواکلام نظر بند تھے، باقی حضرات شریک تھے،
ڈاکٹر انصاری اور سید محمود کے ساتھ اجلاس میں، میں بھی تھا، اجلاس کے پنڈال سے باہر مسلمانوں کی قیام گاہ کے سامنے ایک شامیانے میں مغرب کے بعد خاص مسلمانوں کا جلسہ تھا، حکیم صاحب وغیرہ موجود تھے، گاندھی جی خاص طور سے مسلمانوں سے کچھ کہنے کے لیے آئے ہوئے تھے، اتنے میں دیکھا کہ کانگریس کی سبجکٹ کمیٹی سے گھبرائے ہوئے بھاگتے ہوئے دو والنٹیر آئے، اور گاندھی جی سے نہایت اضطراب کے ساتھ کہا جلدی چلیے سبجکٹ کمیٹی میں حسرت موہانی صاحب نے ہندوستان کے استقلال (انڈیپنڈنس) کی تجویز پیش کردی ہے اور کسی طرح واپس نہیں لے رہے ہیں، فضا میں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی غیبی گولہ آکر پڑا ہے، چنانچہ گاندھی جی وغیرہ بھی گھبرائے ہوئے جلسہ سے اٹھ کر سبجکٹ کمیٹی میں چلے گئے، مگر حسرت ؎
یہ وہ نشہ نہیں ہے جس ترشی اتار دے
حسرت بدستور بات پر جمے رہے اور نوٹس دیا کہ اس کو کھلے اجلاس میں پیش کریں گے، چنانچہ وہ وقت آیا، جب کھلے اجلاس میں حسرت نے ہندوستان کے استقلال کی تجویز پیش کی، اور آنکھوں نے دیکھا کہ ہزاروں کے مجمع میں ایک آواز بھی اس کی تائید میں نہیں اٹھی، پھر نیرنگ قدرت کا تماشا دیکھیے اس کے آٹھ برس کے بعد لاہور کے اجلاس کانگریس میں 1929ء میں پنڈت جواہر لال نے یہی ریزولیوشن پیش کیا اور کانگریس نے اس کا خیر مقدم کیا، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی خود مختاری کا پہلا اعلان حسرت موہانی کی زبان سے ہوا، اس کے بعد وہ گاندھی جی کی کانگریس سے بھی علیحدہ ہوتے گئے، حسرت مرحوم نے مجھ سے ایک دفعہ کہا تھا کہ گاندھی جی جینی فلسفی کی طرح ہر کلام کے دو متضاد پہلو رکھتے ہیں، اور بیک وقت دونوں کو حق سمجھتے ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد انہوں نے ہندوستان ہی میں قیام پسند کیا، اس کی پارلیمنٹ کے ممبر رہے، اور تنہا وہ تھے جو پوری پارلیمنٹ کی مخالفت کے باوجود اپنی رائے کے اظہار میں بے باک تھے، نہ کسی کی تحقیر پر افسوس نہ کسی کی نفریں کا جواب، ایک دھن تھی جو ان کو اپنی منزل مقصود کی طرف لیے چلی جارہی تھی۔
حسرت خواہ کسی قدر بے ضرر رہے ہوں، انگریزی عہد میں وہ بڑے خطرناک سمجھے جاتے تھے، وہ کہیں جائیں، ایک خفیہ پولیس کا آدمی ان کے ساتھ رہتا تھا، اسٹیشنوں پر ان کی آمد کی اطلاع کردی جاتی تھی، مگر وہ عجیب دلچسپ آدمی تھے، ہمیشہ پولیس اور ریلوے کے آدمیوں کو انہوں نے دھوکہ دیا، وہ کہتے تھے کہ میں ٹکٹ منزل مقصود سے آگے پیچھے کا لے لیتا ہوں اور بیچ میں اتر جاتا ہوں، پولیس حیران ہوتی ہے، کبھی یہ کرتے کہ اپنے بجائے دوسرے کو بھیج کر ٹکٹ منگوالیتے، اور چلے جاتے پتہ بھی نہ چلتا، پھر یہ ہونے لگا کہ درمیان راہ میں ان کے ٹکٹ کا نمبر چیک ہوتا۔
اب تک جو گفتگو کا سلسلہ چلا آیا، وہ سارا سیاسی تھا، حسرت پکے دیندار تھے، وہ کانگریسی بھی رہے، اور اپنے کو سوشلسٹ بھی کہتے تھے، مگر بچپن سے موت تک وہ سچے اور پکے اور دیندار مسلمان رہے، وہ نہ صرف مسلمان، بلکہ صوفی مسلمان تھے، اور صوفیوں میں بھی وہ صوفی تھے، جن سے بزرگوں کا کوئی مزار، اور کوئی عرس اور کوئی قوالی کی مجلس چھوٹتی نہ تھی، خصوصاً فرنگی محل اور ردولی کی مجلسیں۔ حجاز پر 1924ء میں ابن سعود کے قبضہ کے بعد سے چونکہ وہ وہابیت سے ناراض تھے، اس لیے وہ اس قبضہ سے خفا تھے، لیکن بااین ہمہ انہوں نے حرمین کی زیارت کی توفیق عہد میں پائی، اس حج کے بعد وہ وہابیوں سے خفگی کے باوجود کچھ ایسے اس سرزمین اقدس کے دلدادہ ہوئے کہ چند سال ہوئے متواتر ہر سال حج کو جاتے رہے اور حکومت کے مہمان ہوتے رہے۔
حسرت جیسی متضاد طبیعت کا انسان شاید ہی منصہ شہود پر آیا ہو، سیاسیات اور قید و بند کے ساتھ شعر و سخن کی چمن بندی اور آبیاری بہت کم جمع ہوسکتی تھی، لیکن حسرت کے مزاج میں دونوں چیزیں جمع تھیں، اور خود حسرت کو بھی اس اجتماع ضدین پر تعجب تھا، جیسا کہ خود ہی کی ایک غزل میں انہوں نے کہا ؎
ہے مشقِ سخن جاری ، چکی کی مشقت بھی
کیا طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
حسرت کو نسیم دہلوی اور تسلیم لکھنوی کے سلسلہ سے شعر و سخن کی سجادگی ملی تھی، غزل کو لکھنو کے تصنع اور غالب کی مشکل گوئی کے کوچہ سے سادگی اور آسان گوئی، اور حقیقت رسی کی منزل تک پھیر کر لانا شاعری میں حسرت کا تجدیدی کارنامہ ہے، حسرت کا مکمل دیوان ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے، متفرق دواوین چھوٹے چھوٹے دیوانوں کی صورت میں اکثر چھپتے رہے اور بیچاری بیگم حسرت جب تک جیتی رہیں، شوہر کی قید کی صورت میں اکثر وہ ان کے دوادین مختلف ترتیبوں سے چھپوایا کرتی تھیں، ضرورت ہے کہ حسرت کا ایک مکمل دیوان صحت و اہتمام کے ساتھ یادگار کے طور پر چھپوایا جائے اور ان کی دوسری سیاسی اور ادبی تحریروں کو جمع کیا جائے، حسرت کی ادبی تصنیفات میں ان کی شرح دیوان غالب بہترین چیز ہے، اسی طرح متروکات اور معانی شعر پر ان کے مسائل اور مقالات یادگاری چیزیں ہیں۔
حسرت کا دماغ خدا جانے کتنے روپوں میں جلوہ گر ہوا، مگر اس کا دل بزرگوں کی عقیدت کی خاک سے بنا تھا، مرتے دم پیر کے آستانہ پر جان دی، اور انہی کی ابدی خواب گاہ میں آرام کیا، مولانا انوار صاحب کے باغ میں جہاں فرنگی محل کے خدا جانے کتنے خزانے دفن ہیں، حسرت بھی اپنی تمناوں کے خزانہ کے ساتھ دفن ہوئے۔ حسرت رخصت! تو تنہا آیا تھا، تنہا رہا، تنہا گیا، البتہ تیری نیکی، تیری شرافت، تیرا اخلاص اور حسن عقیدت کے اعمال تیرے ساتھ ہیں، اور وہی تیرے رفیق آخرت ہیں، بار الٰہا! اس کی حق گوئی کی بے کسی کی شرم رکھ لیجیے اور اس کو اپنی رفاقت سے نوازیے، وانت الرفیق الاعلیٰ۔ (’’س‘‘، دسمبر 1951ء)

 

***

 حسرت جیسی متضاد طبیعت کا انسان شاید ہی منصہ شہود پر آیا ہو، سیاسیات اور قید و بند کے ساتھ شعر و سخن کی چمن بندی اور آبیاری بہت کم جمع ہوسکتی تھی، لیکن حسرت کے مزاج میں دونوں چیزیں جمع تھیں، اور خود حسرت کو بھی اس اجتماع ضدین پر تعجب تھا، جیسا کہ خود ہی کی ایک غزل میں انہوں نے کہا ؎
ہے مشقِ سخن جاری ، چکی کی مشقت بھی
کیا طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 مئی تا 27 مئی 2023