!مغربی بنگال میں 1947کی تقسیم پھر سے موضوع بحث

تقسیم ہند کے خلاف مسلمانوں کے بنیادی کردار کی وضاحت پر بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد

کولکاتہ: ہاشم عبدالحلیم فاؤنڈیشن کے تحت پچھلے دنوں کولکاتہ میں ایک بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا گیا تاکہ متحدہ بھارت کی وکالت کرنے میں مسلمانوں کے تاریخی کردار کو واضح کیا جا سکے۔ آزاد مسلم کانفرنس کے تعاون سے ’’متحدہ بھارت کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد‘‘ کے عنوان پر یہ سیمینار بھارتیہ بھاشا پریشد آڈیٹوریم میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔
پروفیسر سعیدہ حمید، سابق ممبر پلاننگ کمیشن آف انڈیا نے اس سیمینار کا افتتاح کیا۔ راجیہ سبھا ایم پی ایڈووکیٹ بکاش رنجن بھٹاچاریہ، آواز کے صدر پروفیسر سعید الحق اور پروفیسر معید الاسلام نے اس پروگرام میں خصوصی خطاب کیا۔ دیگر مقررین میں پروفیسر صفورا رجیق، پروفیسر بینا سرور، پروفیسر شمس الاسلام، پروفیسر میعاد الاسلام، پروفیسر اخلاق خان اور دیگر بھی شامل تھے۔
تمام مقررین نے تقسیم ہند کے خلاف ملک کی سیکولر مسلم کمیونٹی کے شاندار کردار کو سراہا۔ اس پروگرام میں صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ اللہ بخش کا کردار زیر بحث آیا جنہیں ملک کی تقسیم کے خلاف کھڑے ہونے پر بعض مسلم لیگی متعصبوں نے قتل کر دیا تھا۔ ساتھ ہی خان عبدالغفار خان کے کردار کو بھی شدت ساتھ یاد کیا گیا۔
اس سیمینار میں محب وطن مسلمانوں کے عظیم کردار کو نوٹ کیا گیا جو متحدہ بھارت پر یقین رکھتے تھے اور 23 مارچ 1940 کو مسلم لیگ کی تقسیم کی قرارداد کی مخالفت میں 27-30 اپریل 1940 کے درمیان منعقد ہونے والی آزاد مسلم کانفرنس کا انعقاد بھی کیا تھا۔ ساتھ ہی غیر منقسم بھارت میں ایک ساتھ رہنے والے تمام لوگوں کے لیے مشترکہ، سیکولر، اور متحد مستقبل پر یقین رکھنے والوں کی کوششیں سامنے آئیں۔ اس پروگرام میں ان مسلمانوں کی نظر انداز شدہ تاریخ پر بھی نظرثانی کی گئی جنہوں نے ایک سیکولر اور متحدہ بھارت کے لیے جدوجہد کی تھی اور مسلم لیگ کے جناح اور دو قومی نظریہ کے دوسرے حامیوں کی سخت مخالفت کی تھی۔
آج جب کہ دائیں بازو کا ماحولیاتی نظام مسلمانوں کی حب الوطنی اور بھارت کے تئیں ان کی وفاداری پر سوال اٹھا رہا ہے، تو اس سیمینار نے بھارت کی سالمیت اور اتحاد کے لیے مسلم کمیونٹی کی قربانیوں اور خدمات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے 1940 کی آزاد مسلم کانفرنس کے خطاب پر نظرثانی کی۔
سیمینار میں یہ بھی کہا گیا کہ آج کے نوجوانوں کو مجاہد آزادی اللہ بخش کی قیادت میں آزاد مسلم کانفرنس کی تجاویز سے آگاہ کروانا ایک قومی فریضہ ہے کیونکہ اس وقت آزاد مسلم کانفرنس نے متحدہ بھارت کی تقسیم کی تمام تجاویز کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا تھا۔ اس نے تقسیم ہند سے قبل مسلم لیگ کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم کے طور پر تاثر بھی زائل کیا۔ آزاد مسلم کانفرنس نے دائیں بازو کے اس بیانیے کو ختم کر دیا کہ بھارت کے زیادہ تر مسلمان تقسیم کے حق میں تھے اور پاکستان کے قیام کے بعد سے بھارت میں رہنے کا کوئی اخلاقی حق نہیں رکھتے تھے۔ جبکہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بھارت کے زیادہ تر مسلمان تقسیم ہند کے سخت مخالف تھے۔ پھر بھی اس وقت کی سیاسی تنگ نظری کی وجہ سے بہت سارے حالات بدل گئے اور وہ سب کچھ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سیمینار میں یہ بھی کہا گیا کہ بدقسمتی سے ہمارے پیچھے تقسیم کے نشانات کے باوجود بھی ملک میں ایسے لوگ سرگرم ہیں جو مذہب کی بنیاد پر ملک کے ساتھ اپنی وفاداری کا فیصلہ کرتے رہتے ہیں اور دو قومی نظریہ کو زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کو ملک دشمن ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔
سیمینار کے اختتامی خطاب میں ایڈووکیٹ بکاش رنجن بھٹاچاریہ نے ایک نہایت ہی اہم سوال کیا کہ آخر تقسیم ہند کے موقع پر مسلمانوں کے کردار جیسے موضوع پر ایسی بحث کیوں ہو رہی ہے۔ پھر انہوں نے ہی جواب دیتے ہوئے زور دے کر کہا کہ اس بحث کا ہونا اب بہت ضروری ہوچکا ہے کیونکہ بھارت میں غلط معلومات کا پرچار کیا جا رہا ہے، لوگوں کے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ملک میں طلباء کے نصاب کو تبدیل کرتے ہوئے خرافات کو درست بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس مذہب جنونی ماحول میں غربت، بے روزگاری، محنت کش طبقے کے لیے آمدنی کی کمی جیسے مسائل کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے سامعین پر زور دیا کہ وہ قوم کو متاثر کرنے والے ان اہم مسائل پر توجہ دیں اور ایک متحد اور سیکولر بھارت کی تعمیر کے لیے کام کریں۔
(بشکریہ نیوز کلک)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 مئی تا 27 مئی 2023