کتاب؛ قرآن کی بصیرت افروز تعلیمات اور مسلمانوں کا طرز عمل

114 سورتوں کی بنیادی تعلیمات کا عطر کشید کرنے کی بہترین کوشش

ابو سعد اعظمی ، علی گڑھ

پروفیسر الطاف احمد اعظمی (۱۹۴۲ء-۲۰۲۳ء) مدرسۃ الاصلاح کے فیض یافتہ تھے، علی گڑھ نے ان کے اندر دانش وری پیدا کی۔ ان دونوں کے امتزاج نے ان میں جرأت و بے باکی اور بے خوفی کی ایسی کیفیت پیدا کر دی جو تا زندگی ان کے ہم رکاب رہی۔ انہوں نے جن موضوعات پر بھی قلم اٹھایا اس کا حق ادا کر دیا۔ پروفیسر اعظمی کا اختصاص قرآنیات تھا۔ قرآنیات پر ان کی ایک درجن کتابیں شائع ہوئیں۔ توحید کا قرآنی تصور، ایمان وعمل کا قرآنی تصور، تجلیات حق، قرآنی مقالات چند اہم مباحث، انوارِ قرآن (مجموعہ مقالات) قرآنی مجید کے امتیازی تصورات، قرآن کے کلام الٰہی ہونے کے شواہد، مولانا فراہی کے بنیادی افکار اور فی ملکوت اللہ (اردو ترجمہ) وغیرہ قرآنیات پر ان کی اہم نگارشات ہیں۔ قرآنیات پر ان کا سب سے اہم اور مہتم بالشان کام ’’میزان القرآن‘‘ کے نام سے تین جلدو ں پر مشتمل تفسیر ہے۔ بہت پہلے سورۂ فاتحہ ایک تحقیقی مطالعہ کے عنوان سے انہوں نے تفسیر کا آغاز کیا تھا جس کی علمی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی، پھر پچیس سال کی طویل مدت کے بعد انہوں نے میزان القرآن کے نام سے تفسیر کا آغاز کیا جو 2010ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔
زیر تعارف کتاب کے دیباچہ میں انہوں نے متعدد قرآنی آیات نقل کرکے قرآن کی علمی عظمت اور روحانی فضیلت پر روشنی ڈالی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ قرآن ایک عظیم وجلیل اور دلوں کی کایا پلٹ دینے والی کتاب ہے۔ لیکن یہ باطنی انقلاب اسی وقت رو نما ہوگا جب اس کو سمجھ کر پڑھا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اس کے نزول کی کیا غرض وغایت ہے۔ مصنف نے وضاحت کی ہے کہ اس مقصد کے لیے تراجم و تفاسیر کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے لیکن اکثر کا تعلق کسی مسلک کی نمائندگی سے ہے۔ نیز مسلمانوں میں کتب بینی کا شوق بہت کم ہے اور اس معاملے میں ان کے تعلیم یافتہ طبقے کا حال بھی مایوس کن ہے اس لیے انہوں نے یہ کتاب ترتیب دی ہے اور اس میں جملہ سورتوں کی منتخب تعلیمات کو اس انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ حق بات دلوں میں گھر کر جائے۔ (ص۱۴-۱۵)
دس صفحات پر مشتمل مقدمہ میں حفاظت قرآن کے خدائی نظام اور رسول اللہ ﷺ کی اُمیت (ناخواندگی) کے حوالہ سے مفصل گفتگو کی گئی ہے نیز حواشی میں متعدد مستشرقین کا ذکر کیا گیا ہے جو آپ کی اُمیت کے قائل نہیں ہیں۔ اس ضمن میں آپ کی اُمیت کو ایک تسلیم شدہ تاریخی حقیقت قرار دیتے ہوئے بعض ایسے علما پر نقد بھی کیا ہے جو آپ کے مقام ومرتبہ سے فروتر سمجھ کر اس کی تاویل کرتے ہیں۔ (ص۱۷-۲۷)
صراط مستقیم سے مسلمانوں کی عدم واقفیت اور ان کی موجودہ صورت حال پر کرب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صراط مستقیم سے بے خبری کا نتیجہ ہے کہ ان کا ایک بڑا طبقہ یہود کی طرح کھلم کھلا اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے حتیٰ کہ بہت سے مسلمان نماز تک نہیں پڑھتے۔۔۔ایک اور طبقہ ہے جو عیسائیوں کی طرح شرک میں مبتلا ہے یعنی بزرگان دین کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر حاجتوں اور مصیبتوں میں ان کی طرف رجوع ہوتا ہے۔۔۔یہ فعل عہد استعانت کی صریح خلاف ورزی ہے۔(ص۲۹)
مسلمانوں کے آپسی افتراق وانتشار اور فوز وفلاح کے دعوی کی حقیقی عکاسی کی گئی ہے اور قوم یہود سے ان کی مشابہت پر نوحہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کسی قوم کی مذہبی اور اخلاقی زندگی کی تباہی کے ذمہ دار اس کے دنیا پرست اور ناخدا ترس مذہبی پیشوا ہوتے ہیں، اور اس حقیقت پر قوموں کی مذہبی تاریخ کے اوراق شاہد ہیں۔یہودی قوم کے ساتھ یہی حادثہ پیش آیا۔(ص۳۱)
یہود کی قرار داد جرم پیش کرنے کے بعد مسلمانوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچتے ہوئے ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔ ’’دنیا پرستی، ریا کاری، ظاہر وباطن کا تضاد اورخارجی مذہبی اعمال و رسوم کی ادائیگی کو غایت دین سمجھنا جیسی خرابیاں ہر قوم کے مذہبی طبقے میں ملیں گیں ۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں کا مذہبی طبقہ بھی (مستثنیات سے قطع نظر) ان خرابیوں سے محفوظ نہیں ہے‘‘۔ (ص۳۴)
یہود کے عقیدہ شفاعت نے ان کے اندر کبر اور خود فریبی کا جو مزاج پیدا کردیا تھا اس پر انہوں نے جابجا تنقید کی ہے۔ ساتھ ہی مسلمانوں میں رائج عقیدۂ شفاعت کے تصور کا بھی متعدد قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ابطال کیا ہے۔ پروفیسر اعظمی اس حوالہ سے لکھتے ہیں کہ جب نبی ﷺ نے اپنے چچا، اپنی پھوپھی اور اپنی بیٹی سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ خود کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کریں، میں انہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکوں گا، تو یہ کیسے گمان کرلیا گیا کہ آپ خاطی مسلمانوں کو اللہ کی پکڑ سے بچالیں گے۔یہ بات کوئی فاتر العقل ہی کہہ سکتا ہے۔(ص۳۴-۳۶)
ملت ابراہیمی کے اتباع کے مفہوم پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد خدائے واحد کی مکمل فرماں برداری ہے۔اسی خالص اور کامل اطاعت کو اصطلاحاً توحید کہا جاتا ہے۔۔۔دوسری قوموں کے درمیان جو چیز مسلمانوں کے نشان امتیاز کی حیثیت رکھتی ہے وہ ملت ابراہیم کی اتباع یعنی اعتصام بالتوحید ہے۔ افسوس کہ مسلمان اس امتیازی وصف سے محروم ہوگئے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد دنیا کی دوسری گم راہ قوموں کی طرح شرک جلی یا شرکِ خفی میں مبتلا ہے۔(ص۴۴-۴۶)
سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۲-۱۰۳ میں تقویٰ اور اعتصام بحبل اللہ (قرآن کو مضبوطی سے پکڑنے کی)تلقین کی گئی ہے۔اس حوالہ سے مسلم قوم کی موجودہ الم ناک صورت حال پر فاضل مصنف نے گہرے کرب کا اظہا رکیا ہے۔اس وقت پوری مسلم قوم مختلف جماعتوں اور فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ہر جماعت اور فرقہ نے قرآن کی شرح وتفسیر اپنے مخصوص نظریہ ومسلک کے مطابق کی ہے، چنانچہ اس کی وجہ سے کثرت سے اختلافات واقع ہوئے۔ یہ سب کچھ اس صورت میں جب کہ قرآن کریم کسی ادنی تغیر وتبدل کے بغیر موجود ہے اور حدیث کی کتابوں میں نبی کریم ﷺ کا اسوۂ حسنہ بھی محفوظ ہے لیکن اس کے باجود بریلویوں کا تصور دین دیوبندی مکتب فکر سے بالکل مختلف ہے۔ اسی طرح تبلیغی جماعت کا تصور دین جماعت اسلامی کے تصور دین سے یکسر جداگانہ ہے۔ صوفیہ کا دین سب سے الگ ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے ایک نیا دین ایجاد کیا ہے۔ (ص۶۴-۶۶)
آل عمران ۱۹۰-۱۹۱ میں ذکر وفکر کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔ فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ بعض دوسرے امور کی طرح ذکر وفکر کے معاملے میں بھی مسلمانوں نے غیر معتدل روش اپنائی ہے۔ ان کے علماء اور عام مذہبی لوگوں نے ذکر کو تو لیا مگر فکر کو چھوڑ دیا۔۔۔البتہ صوفیہ نے ذکر اور فکر دونوں کا اہتمام کیا لیکن ذکر میں غلو کی حد کو پہنچ گئے اور فکر کا مفہوم بھی انہوں نے بدل دیا یعنی ارض وسما کی تخلیق میں تفکر کرنے کے بجائے جیسا کہ مذکوہ بالا آیات میں کہا گیا ہے، خلوت کدوں میں بیٹھ کر مراقبہ اور مشاہدۂ حق میں مشغول ہوگئے۔(ص۷۳-۷۴)
عدل و قسط قرآن کی بہت بنیادی تعلیم ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، عدل وقسط پر مضبوطی سے قائم رہیں حتی کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف سے گریز نہ کریں۔ فاضل مصنف یہاں ٹھہر کر احتساب نفس کی دعوت دیتے ہیں کہ کیا مسلمان اپنے معاملاتِ زندگی میں عدل وقسط کے ربانی حکم پر عمل پیرا ہیں؟ آگے لکھتے ہیں کہ یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ مختلف مسالک کے علماء اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور گم راہ قرار دینے میں حق وانصاف کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو تعلیم یافتہ مسلمان کسی اونچے منصب پر فائز ہوتے ہیں وہ معدودے چند کو مستثنیٰ کر کے، اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ عدل وانصاف کی پاس داری نہیں کرتے، بالخصوص ان افراد کے ساتھ ان کا رویہ غیر عادلانہ ہوتا ہے جن سے وہ ناخوش ہوتے ہیں یا جن کو وہ اپنا مخالف خیال کرتے ہیں۔ (ص۸۵-۸۶)
سورہ نساء آیت ۱۷۴-۱۷۵ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ان آیات میں قرآن کو ’برہان‘ یعنی حق کی ایک مضبوط دلیل اور ’نور مبین‘ کہا گیا ہے اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ پر ایمان لاکر اس ’برہان‘ اور ’نور مبین‘ کو مضبوطی سے پکڑیں ۔۔۔اللہ انہیں اپنا سیدھا راستہ دکھائے گا اور اپنے فضل وکرم سے نوازے گا۔ یہاں بھی مصنف رک کر احتساب نفس کی دعوت دیتے ہیں کہ کیا مسلمان قرآن کو قول فیصل اور فرقان کا درجہ دیتے ہیں؟ پھر واضح کرتے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص قرآن پر سچے دل سے ایمان رکھتا ہو اور وہ اختلاف وتفرقہ کی روش اختیار کرے۔کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی کے ہاتھ میں روشن چراغ ہو اور وہ تاریکی میں ادھر اُدھر بھٹک رہا ہو۔(ص۸۶-۸۷)
کیا انبیاء کرام عالم الغیب اور صاحب اختیار تھے؟ اس عنوان سے متعدد قرآنی آیات کی روشنی میں ان کے عالم الغیب نہ ہونے کا ذکر کرکے خلاصہ کلام میں اپنا درد دل ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’جب نبی ﷺ عالم غیب اور صاحب اختیار نہیں تھے تو بزرگانِ دین بدرجۂ اولی یہ علم واختیار نہیں رکھتے تھے۔ علماء سوء نے جھوٹی روایات وضع کرکے نبی ﷺ کے عالم غیب اور مختار کل ہونے کا عقیدہ اس لیے گھڑا کہ اس کے بغیر بزرگان دین کی غیب دانی اور مشکل کشائی کا اثبات مشکل تھا۔(ص۹۲-۹۶) انسان کی فطرت میں توحید ہے، شرک نہیں۔ اس عنوان سے قرآنی تعلیمات کو بہت سلیقے سے پیش کیا گیا ہے اور متعدد قرآنی آیات کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ توحید، فطرتِ انسانی کی آواز ہے۔ جہالت، غلط ماحول اور دنیا پرست مذہبی پیشواؤں کی گم راہ کن تعلیمات سے توحیدی فطرت دب کر روپوش ہو جاتی ہے لیکن معدوم نہیں ہوتی۔ چنانچہ مصائب وآفات کے ہجوم میں جب نجات کے سارے ظاہری اسباب منقطع ہو جاتے ہیں تو انسان کی اصل فطرت کو ابھرنے کا موقع ملتا ہے اور ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس فطرت میں فی الواقع توحید ہے۔(ص۹۷-۹۹)
صفحہ ۱۲۴-۱۲۷ میں اس حوالہ سے بڑی عمدہ گفتگو کی گئی ہے کہ تدبیر توکل کے منافی نہیں ہے پھر مختلف آیات کریمہ سے اس کی تائید کی گئی ہے۔ سورہ یونس ۸۸-۸۹ کی تشریح میں حضرت موسیؑ اور فرعون کے واقعہ کی خوبصورت اور دل چسپ تشریح پیش کی گئی ہے ۔سورہ حج کی آخری آیات میں مسلمانوں کی شناخت، شہادت علی الناس کا فریضہ، مسلمانوں کی بے توجہی اور ان کے اخلاق و عمل کی تنزلی پر ان الفاظ میں اظہار افسوس کیا گیا ہے کہ ’’یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ آج مسلمان کے معنی ہی بدل گئے ہیں، وہ کھلم کھلا اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد قیام نماز اور ادائے زکوۃ سے غافل ہے۔۔۔ مسلمانوں کو تو یہ بھی یاد نہیں کہ انہوں نے خدا سے سمع وطاعت کا عہد باندھا ہے۔ اس عہد شکنی کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے‘‘۔ (ص۲۰۵-۲۰۶)
سورہ قلم آیت ۴ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ اللہ کے دین کی ایک بڑی غایت تزکیۂ نفس ہے یعنی اسے اعلیٰ اخلاق سے آراستہ کرنا۔ پھر انہوں نے متعدد احادیث نقل کی ہیں جن میں اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ قرآن کی متعدد سورتوں میں اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے، لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان تمام تعلیمات کے باجود آج مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد جس میں ان کا مذہبی طبقہ بھی شامل ہے (مستثنیات سے قطع نظر) کئی طرح کے فسادِ اخلاق میں مبتلا ہے بالخصوص کبر و غرور، ایک دوسرے کی بد خواہی اور عیب چینی، خیانت اور دروغ گوئی وغیرہ۔ انتہا یہ ہے کہ بہت سے علماء دینی اُمور میں کتمانِ حق اور دروغ گوئی کے بھی مرتکب ہیں۔
اس کتاب میں پروفیسر اعظمی کے تفردات بھی ہیں ، علماء وفقہاء سے اختلاف بھی کیا گیا ہے، بعض منفرد آراء بھی نقل کی گئی ہیں۔ بطور مثال حکمت سے مراد (ص۴۳) شعائر جزو شریعت ہیں یا ان کی حیثیت مذہبی شناخت وامتیاز کی ہے (ص۴۵) ، مسلمانوں میں رائج قانونِ طلاق اور قرآن کا قانون طلاق پر تفصیلی روشنی اور فقہاء پر اظہار افسوس (۵۵-۶۱) حرمتِ سود سے متعلق ان کی رائے(۶۱-۶۲) غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزا سے متعلق ان کا تفرد، اولوالامر کی تشریح کے باب میں فقہاء سے اختلاف (۸۲) کیا نبی کریم ﷺ کو قرآن کے علاوہ کوئی اور بھی معجزہ عطا ہوا تھا (ص۱۰۸) جہاد کے سلسلہ میں ان کا موقف (۱۱۹-۱۲۰) سود سے متعلق ان کی رائے (۲۳۹-۲۴۰) وغیرہ ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ اس کتاب میں توحیداور شرک کا بہت واضح اور شفاف تصور پیش کیا گیا ہے، قرآن کریم سے اپنا رشتہ استوار کرنے اور اللہ کے رسول ﷺ کی مکمل اتباع کی دعوت دی گئی ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ روش، حالت زار، ان کی زبوں حالی، اسباب وعلاج پر جابجا مؤثر گفتگو کی گئی ہے۔ انسانی نفسیات کی بعض مقامات (ص،۹۷-۹۹،۲۲۵،۴۲۲) پر خوب صورت منظر کشی کی گئی ہے۔ یہود کا انحراف اور مسلم علماء کی ان سے مشابہت پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
مختصر یہ کہ کتاب قابل مطالعہ ہے اور اس کے مطالعہ سے قرآنی تعلیمات کا ایک حسین پر تو نگاہوں کے سامنے آجاتاہے۔ خاص بات یہ ہے کہ فاضل مصنف نے قرآن کریم کی تمام ۱۱۴ سورتوں کی بنیادی تعلیمات کا عطر کشید کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024