خبر و نظر

پرواز رحمانی

لوک سبھا انتخابات میں
لوک سبھا کے انتخابات ہر بار خاص ہوتے ہیں۔ ہر بار عوامی دل چسپی کے لیے کوئی نہ کوئی نکتہ ہوتا ہے۔ مسلم شہریوں کے لیے بھی یہ انتخابات اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ 2024 کے انتخابات بھی ہر طبقہ کے لیے کوئی نہ کوئی اہم مسئلہ رکھتے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری تمام شہریوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ 84 کروڑ لوگوں کو تو خود حکومت نے غریب اور محتاج قرار دے رکھا ہے۔ اس لیے انہیں ماہانہ پانچ کلو اناج دیا جا رہا ہے اور سرکار اس کا پروپگنڈہ بھی بڑے پیمانے پر کرتی ہے۔ پریشان حال مزدور طبقات اپنے طور پر مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔ ذات برادری رکھنے والے کچھ طبقات ہیں جو اپنی ذاتوں کو اونچا اٹھانے کے لیے کام کر رہے ہیں، کچھ نے اپنے اپنے گروپس بھی بنالیے ہیں۔ کچھ برادریاں انڈیا الائنس میں شامل ہوگئی ہیں کچھ حکم راں پارٹی کے ساتھ بھی ہیں۔ جہاں تک مسلم شہریوں کا سوال ہے ان کی دو علیحدہ سیاسی پارٹیاں ہیں لیکن ان کی پہنچ محدود ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ کیرالا میں وزن رکھتی ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین حیدرآباد اور مشرقی ہند میں کچھ مقامات پر اثر رکھتی ہے لیکن مسلمانوں کی بڑی اور منظم سیاسی پارٹی کوئی نہیں ہے۔ دس بارہ سال قبل ویلفیر پارٹی کے نام سے ایک آل انڈیا پارٹی بنانے کی کوشش کی گئی تھی مگر وہ آل انڈیا تو نہیں بن سکی البتہ پنچایتی اور میونسپل انتخابات میں بعض مقامات پر اس نے کچھ کام کیا ہے۔ ویسے بھی وہ خالصتاً مسلم جماعت نہیں ہے۔ سبھی شہریوں کی ایک اوپن پارٹی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت پارٹیوں پر یقین رکھتی ہے۔ بہت سے مسلمان سیکیولر پارٹیوں میں شامل بھی ہیں۔ مسلم شہریوں کے نزدیک سیکولرزم کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کسی مخصوص مذہب پر ایمان نہ رکھے بلکہ تمام شہریوں کے مذاہب کا احترام کرے۔ کسی کے ساتھ دھرم، یا مذہب کی بنیاد پر بھید بھاو نہ کرے۔
موجودہ حکومت
ہندوستان کی موجودہ حکومت ایک غیر سیکیولر حکومت ہے، بلکہ علانیہ ہندو حکومت ہے۔ ہندو ازم پر ہندتو پر یقین رکھتی ہے۔ دوسرے مذاہب بالخصوص اسلام سے بغض رکھتی ہے۔ اس حکومت کی سرپرست آر ایس ایس کے لیڈر گرو گولوالکر نے اب سے بہت پہلے اپنی کتاب بنچ آف تھاٹس میں مسلمانوں کو ہندوستان کا شہری تو تسلیم کیا تھا لیکن انہیں ہندو آبادی سے کم تر قرار دیا تھا۔ جب سے وہی ذہنیت ایک بڑے حلقے میں کام کر رہی ہے۔ آج اسی حلقے کی سرکار مرکز میں ہے۔ اس نے ہر معاملے میں مسلمانوں کی مخالفت کو اپنے انتخابی ایجنڈے میں باضابطہ شامل کرلیا ہے۔ سی اے اے کے تحت صاف اعلان کر دیا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے وہ شہری جو وہاں پریشان ہیں اور ستائے ہوئے ہیں اگر بھارت آنا چاہیں تو آسکتے ہیں۔ انہیں یہاں کی باقاعدہ شہریت دی جائے گی بشرطیکہ کہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ مسلمانوں سے بے زاری کی یہ تو ایک مثال ہے۔ ایسی کئی مثالیں گزشتہ پچھتر برسوں کی تاریخ میں موجود ہیں۔ تاہم اطمینان کی بات یہ ہے کہ ملک کے ہندو اس سرکاری پالیسی کو مسترد کرتے ہیں جیسا کہ سوشل میڈیا پر پیش کیے جانے والے بیشتر ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے۔ بی جے پی کی ریاستی حکومتیں، خاص کر یو پی کی حکومت مسلم شہریوں کو پریشان کرنے میں سب سے آگے ہے لیکن اگر سوشل میڈیا پر یقین کیا جائے تو یو پی حکومت کی تمام چالیں ناکام ہو رہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ یوگی کے روز مرہ کے بیانات بتاتے ہیں کہ وہ اندر سے بہت پریشان ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد فکر مند ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ
مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ اس سر زمین پر تقریباً آٹھ سو سال حکومت کرتے رہے۔ مختلف علاقوں سے آتے رہے۔ ان میں آپس میں لڑائیاں بھی ہوتی رہیں۔ خونیں جنگوں میں ہزاروں مارے جاتے رہے۔ ان باہر سے آنے والوں کا مذہب اسلام رہا لیکن انہیں اسلام کی ترویج و اشاعت سے کوئی دل چسپی نہیں رہی۔ البتہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ انصاف سے پیش آتے تھے۔ مسلم رعایا اور غیر مسلم باشندوں میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔ اس لیے غیر مسلم رعایا کو ان سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ علاوہ ازیں بادشاہوں کے قافلوں میں آنے والوں میں بزرگان دین، علما اور اسلام کا خاطر خواہ علم رکھنے والے لوگ بھی ہوتے تھے۔ ان کی خانقاہیں بھی ہوتی تھیں جہاں مسلمانوں کے علاوہ بڑی تعداد میں غیر مسلم شہری بھی آتے تھے۔ حکم رانوں اور عام مسلمانوں کے طرز عمل کو، خصوصاً نماز کے عمل دیکھ کر بہت سے غیر مسلم ایمان بھی لاتے تھے۔ مسلم دور حکومت مذہبی کشمکش کوئی نہ تھی۔ جب انگریز آئے تو انہوں نے دونوں بڑے فرقوں کے مابین تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی، کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے اس لیے انگریزوں کے خلاف مسلمانوں کی بے زاری عین فطری تھی۔ سرسید احمد خان جیسے لوگوں نے مسلمانوں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ حالات بدل گئے ہیں۔ پرانا دور جا چکا ہے۔ اب انگریزوں اور ہندوؤں کے ساتھ مل جل کر رہنا ہوگا لیکن اکثر مسلمانوں کو انگریز والی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔انہوں نے مسلم لیگ کے ساتھ مل کر اپنے لیے ایک علیحدہ وطن اور بہت سے ہندووں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی بات چھیڑی تاکہ دونوں آزاد ممالک میل ملاپ کے ساتھ رہ سکیں۔ لیکن یہ آرزو پوری نہیں ہوئی۔ بالآخر کانگریس کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی اکثریت نے ہندوستان حاصل کرلیا۔ اب وہ ایک ملٹی نیشنل سیکولر ملک ہیں، لیکن آر ایس ایس یا بی جے پی ملک کی یہ حیثیت ختم کر دینا چاہتی ہے۔